ہندوستان میں مسلمانوں کا’ نظام تعلیم‘
ڈاکٹرمحمد شمیم اختر قاسمی کی تازہ تصنیف جو مسلم سلاطین اور نوآبادیاتی دور میں تعلیم کے فروغ میں مسلمانوں کےکردار پروروشنی ڈالتی ہے
نور اللہ جاوید
’’بھارت میں مسلمانوں کا نظام تعلیم‘‘ ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی کی تازہ تصنیف ہے۔ یہ ایک مستقل تصنیف نہیں ہے بلکہ پی ایچ ڈی کے لیے مقالہ کی ترتیب کے دوران اس موضوع سے متعلق مطالعے میں آنے والے مواد کو جمع کر کے انہوں نے الگ کتاب کی شکل دی ہے۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جو مستقل تحقیق کا متقاضی ہے کیونکہ ماضی کی بازیافت اور عہدرفتہ کی عظمت کی بدولت ہی مستقبل کی تعمیر کی جاتی ہے۔ 160 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اختصار کے ساتھ ہی سہی اپنے موضوع پر کافی اہم معلومات فراہم کرتی ہے جو براون بک ہاوس نئی دلی سے شائع ہوئی ہے۔
ڈاکٹر قاسمی کا تعلق بہار کے مردم خیز ضلع مدھوبنی کی ایک بستی بھتورا سے ہے۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فاضل وافتاء کی سند حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انہوں نے اسلامیات میں ایم اے کیا اور پھر وہیں سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے تحقیقی مزاج اور ذوق کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے زیر تبصرہ کتاب ترتیب دی ہے جس میں مسلم دور حکومت میں بھارت میں تعلیم کے فروغ اور مسلم حکمرانوں کے ذریعہ تعلیمی اداروں کے قیام کا مختصر جائزہ پیش کیا گیا ہے۔اس کتاب میں پانچ ابواب ہیں جن میں اسلام میں تعلیم کی عظمت، مسلم دور حکومت میں تعلیم کے فروغ اور اس کے بعد برصغیر میں مسلم سلاطین کے دور میں مسلمانوں کے نظام تعلیم پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ بھارت میں مدارس اسلامیہ کے کردار اور اس کے نصاب پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ نصاب تعلیم میں مختلف ادوار میں تبدیلی کا جائزہ لیتے ہوئے دینی درس گاہوں میں عصری علوم کی تعلیم کے موضوع پر اپنے فکر وخیالات کو اختصار کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
انگریز مورخین نے مسلم دور حکومت میں تعلیم سے متعلق تصورات اور نظریہ سے متعلق لکھا ہے کہ مسلم دور حکومت میں نظام تعلیم جمہوری تھا۔ مساجد، مکاتب، مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں کے دروازے ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں کھلے ہوئے تھے۔ مسلم حکمرانوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ تعلیم کا حصول مخصوص طبقات تک محدود نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ مسلم دور حکومت میں دنیا بھر سے تجار کی آمد اور علم کی ترویج وترقی کے لیے آنے والے علما کرام کے وفود کی آمد کی وجہ سے بھارت مختلف تہذیب و ثقافت سے روسناش ہوا اور یہاں کی تہذیبی روایات میں پیش قیمت اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں تعلیم کے کینوس کو وسعت ملی اور وہ مختلف علوم و فنون سے آشنا ہوا۔ اسلام کی خوشبوؤں سے معطر ترکی ایرانی اور عربی تہذیب و تمدن نے بھارت کی فضاؤں کو یکسر تبدیل کردیا۔ بھارت خوش نما سماجی اور تمدنی تبدیلیوں سے گزر کر دنیا کی مہذب ترین اقوام کی صف میں کھڑا ہوا۔ مسلم حکمرانوں کے دور حکومت میں فارسی، سنسکرت، ہندی اور اردو زبانوں کی آبیاری ہوئی اور مسلم حکمرانوں کی مثبت اور تعمیری کوششوں کی وجہ سے ہی بھارت مشترکہ تہذیب و تمدن اور گنگا وجمنی تہذیب کا گہوارا بنا۔اس دور میں جہاں اسلامی علوم کی ترویج کی حکومتوں نے سرپرستی کی وہیں سنسکرت کی ترویج بھی اسی دور میں ہوئی۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کے تراجم مختلف زبانوں میں کرائے گئے۔
سلطان محمود غزنوی جو دائیں بازو کے نشانے پر رہے ہیں اور انہیں نفرت کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے مگر وہ ایک علم دوست حکمراں تھے۔ غزنوی کا دربار ایشیا کے مختلف خطوں کے ادبی ستاروں کی کہکشاؤں سے مزین تھا۔ البیرونی، عتبی، انصاری اور فردوسی کو محمود غزنوی کی سرپرستی حاصل تھی۔ انہوں نے کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ غزنوی نے اپنے دور میں ایک یونیورسٹی کی بنیاد رکھی جس میں مختلف زبانوں کی اعلیٰ ادبی و معیاری کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ تھا۔ وہ اساتذہ اور طلبا کی دیکھ بھال پر دل کھول خرچ کرتے تھے۔
محمد غوری کے دور حکومت کو تعلیم کی ترقی کے دور کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔محمد غوری نے 1191 میں اجمیر میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسے کو کسی مسلم حکمراں کے ذریعہ قائم کیے جانے والے پہلے باضابطہ تعلیمی ادارے کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ یہ مدرسہ بھارت میں نظام تعلیم کو مستحکم کرنے میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔محمد غوری نے اس کے علاوہ اسلامی ثقافت اور تعلیم کے فروغ کے لیے کئی اسکول، کالج اور مدرسے قائم کیے۔انہوں نے ہی اپنے ترک غلاموں کی تعلیمی و ادبی تربیت کی، اس کے نتیجے میں بھارت میں غلاموں کو بھی حکومت کرنے کا موقع ملا ۔قطب الدین ان میں سے ایک تھے۔ قطب الدین ایبک نے تعلیم کے ساتھ انتظامی امور اور حکومت چلانے کے لیے نوجوانوں کی تربیت کی ۔قطب الدین ایبک، غلام خاندان کا بانی، ذاتی طور پر تعلیم یافتہ تھا۔ فارسی اور عربی میں مہارت حاصل کی تھی اور سائنس کا بھی اسے علم تھا۔ وہ اپنے ادبی ذوق اور علمیذوق کی وجہ سے مشہور تھا۔ وہ اہل علم سے محبت کرتا تھا اور ان کا احترام کرتا تھا۔ اپنی پوری سلطنت میں، اس نے سیکولر اور مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے۔ اس کے لیفٹیننٹ بختیار خلجی پر بہار میں مشہور وکرم شیلا خانقاہ (ایک عظیم خانقاہی یونیورسٹی جس میں ایک امیر لائبریری ہے) اور ندیا (بنگال) کے بہت سے تعلیمی اداروں کو تباہ کر نے کے الزامات لگائے جاتے ہیں مگر اس کے دور میں بڑی تعداد میں مدارس اور دیگر تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ شمس الدین التمش (متوفی 1236) نے امیر خسرو، فخر الملک اور امیر کوہانی جیسے علماء کی سرپرستی کی وہیں اس کی بیٹی سلطانہ رضیہ صاحب فضل و کمال تھی۔ اس نے دہلی میں میوزی کالج کے نام سے ایک کالج قائم کیا۔
فیروز شاہ تغلق نے فیروز آباد کے نام سے ایک نئے دارالحکومت کی بنیاد رکھی۔اس کے دور میں ثقافت کا مرکز دہلی سے فیروز آباد منتقل ہوا۔ اس نے دہلی کے ساتھ فیروز آباد میں بھی علم و علما کی سرپرستی کی اور اس کی وجہ سے فیروز آباد تعلیمی مرکز کے طور پر مشہور ہوا ۔فیروز شاہ تغلق عادل، نیک، فراخدل اور آزاد خیال حکمران تھا۔ اس نے اپنی رعایا کی تعلیم کےلیے حکومت کے خزانے کھول دیے تھے ۔اس کی مرتب کردہ ’’فیروز شاہی‘‘ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔فیروز کے دور حکومت میں جونپور علم کا ایک مشہور مرکز بن گیا۔ دہلی نے بھی اپنی پرانی شان دوبارہ حاصل کر لی۔ علماء نے دینیات، اسلامی فقہ، تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ اور دیگر کئی علوم پر لکھا۔ کہا جاتا ہے کہ فیروز شاہ کے دور میں باضابطہ علمی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں۔اس دور میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو تعلیم دینے کی خاطر اپنے سلطنت کے مختلف علاقوں میں رہنے کے لیے نامور اساتذہ بھیجے گئے۔ اس کے دور میں علما اور اساتذہ کےلیے پنشن اور تحائف جاری کیے گئے۔
مغلوں نے تین سو سال تک برصغیر پر حکومت کی۔ مغل حکمران تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ بہت سے نامور علماء اور ادیب و شاعر مغل دربار سے وابستہ تھے۔ مغل بادشاہ فن و ادب کے بڑے حامی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ علماء کرام کا خیر مقدم کیا اور تعلیم کے فروغ کے لیے ہمیشہ بے مثال تعاون کیا۔ مغلیہ دور میں برصغیر میں بڑی تعداد میں مدارس قائم ہوئے۔ تعلیم کے فروغ اورغیر مشروط حمایت اور گہری دلچسپی کی وجہ سے مغل دور میں مدارس کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ مغلیہ سلطنت میں تعلیمی پالیسی کو ہمیشہ ترجیح حاصل تھی ۔مغلیہ دور حکومت میں مسلمانوں کا نظام تعلیم ارتقائی عمل سے گزار، اس دور میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کے لیے ادارے قائم ہوئے۔ظہیر الدین بابر (برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے بانی تھے) کی شاہی دستاویزات کے مطابق رعایا کی تعلیم ریاست کا فرض تھا۔ چنانچہ بابر کے دور میں ریاستی تعاون سے مختلف نوعیت کے تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ شہنشاہ اکبر برصغیر میں تعلیمی اصلاحات کا علمبردار تھا۔ اس نے مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے تعلیمی اداروں کو ریاستی سرپرستی فراہم کرنے کے لیے ایک ریاستی محکمہ قائم کیا ۔اکبر برصغیر کا پہلا مسلمان حکمران تھا جس نے تعلیم کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا۔ اس کی پالیسی ریاست کے مضامین کو ان کے مذہب سے قطع نظر تعلیم دینا تھی۔ اس نے ایسے مدارس بھی متعارف کروائے جن میں مسلمان اور ہندو بچوں کو ایک ہی کلاس میں عصری مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ ایسے مدارس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے مذہبی نصاب کی کلاسیں الگ الگ تھیں۔اکبر کے دور میں علماء کے ساتھ غیر معمولی رویہ کی وجہ سے بہت سے علماء نے شاہی دربار میں شمولیت اختیار کی۔ اکبر نے مدارس کے نصاب پر نظر ثانی کا فریضہ میر فتح اللہ شیرازی کو سونپا جو اپنے وقت کے ایک مشہور عالم تھے۔ اس نے مدرسہ کے نصاب کو اپ ڈیٹ کیا اور اس میں اخلاقیات، سادہ ریاضی، زراعت، فلکیات، منطق، حکومتی امور، سنسکرت، گرامر، فلسفہ اور طب سے متعلق کورسز شامل کیے ۔اکبر کی تعلیمی پالیسی کی سب سے نمایاں خصوصیت بنیادی نصاب میں عقلی علوم (منطق، فلسفہ اور علمی تھیالوجی) کی شمولیت تھی جس نے عقلی علوم کی اہمیت کے بارے میں مسلمانوں کے تصور کو بدل دیا۔
ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی نے اعتراف کیا ہے کہ تعلیم کو مستحکم بنیادوں پر منظم کرنے کا سہرا اکبر (1542-1605) کو جاتا ہے۔اسی نے اپنی تمام رعایا کے ساتھ یکساں سلوک کیا اور اپنی پوری سلطنت میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کے لیے بھی بڑی تعداد میں اسکول اور کالج کھولے۔ اس نے طلباء کی انفرادی ضروریات اور زندگی کی عملی ضروریات پر مبنی چند نصابی تبدیلیاں بھی متعارف کروائیں۔ نصاب کا دائرہ اتنا وسیع کیا گیا کہ ہر طالب علم اپنے مذہب اور زندگی کے نظریات کے مطابق تعلیم حاصل کر سکے۔ فارسی کو عدالتی زبان کے طور پر اپنانے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کو فارسی سیکھنے کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی۔اکبر کی پالیسی کو اس کے جانشینوں جہانگیر اور شاہ جہاں نے جاری رکھا۔ اکبر نے مختلف ہندو کلاسک اورتاریخوں کا فارسی میں ترجمہ کرنے کا حکم دیا۔ اس کے علاوہ متعدد یونانی اور عربی کاموں کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔
شہنشاہ جہانگیر نے ایک قانون متعارف کرایا۔ اگر کوئی امیر آدمی یا امیر مسافر بغیر وارث کے مر گیا تو اس کی جائیداد تاج کو منتقل کر دی جائے گی اور مدارس اور خانقاہوں کی تعمیر و مرمت کے لیے استعمال کی جائے گی ۔جہانگیر نے ہزاروں مدارس کی مالی امداد بھی جاری رکھی۔ تعلیم کے امور میں ان کی دلچسپی کی وجہ سے لوگوں کو ان کے طبقے سے قطع نظر تعلیم دینے کے بہت سے مواقع پیدا ہوئے۔شاہجہاں کے دور میں، امپیریل کالج دہلی میں 1650 میں قائم ہوا۔امپیریل کالج کا نصاب وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدید بنیادوں پر تیار کیا گیا تھا۔ بعد کے حکمرانوں کے مشکل دنوں میں بھی ادبی سرگرمیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہوئیں۔ خطاطوں کی سرپرستی بہادر شاہ اور محمد شاہ جیسے شہنشاہوں اور مختلف علاقائی حکام اور جاگیرداروں نے کی۔شمالی دکن میں بہت سے مدارس کی بنیاد بہمنی خاندان کے حکمرانوں نے رکھی تھی۔ نصاب میں ان کتابوں کو شامل کیا گیا جو معاشرے کی مذہبی اور عصری ضروریات کے مطابق تھیں۔
ڈاکٹر محمد شمیم اختر قاسمی نے عہد عالم گیری میں اسلامی علوم و فنون کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شہنشاہ اورنگزیب عالم گیر نے اسلامی علوم و فنون کی ترویج و ترقی کےلیے خصوصی اقدامات کیے اور اس دور کی سب سے بہترین یادگار لکھنو میں فرنگی محلی کا دارالعلوم نظامیہ ہے ۔عالم گیر نے ہی ملانظام الدین کو شاندار عمارت عطاکی جس میں دارالعلوم نظامیہ کی شروعات ہوئی اور انہوں نے جو نصاب مرتب کیا وہ گزشتہ تین صدیوں سے بھارت میں رائج ہے۔درس نظامیہ کے نصاب اور اس میں معقولات کی کتابوں کی کثرت کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شمیم اختر قاسمی نے لکھا ہے کہ یہ وقت کی ضرورت تھی۔علامہ شبلی نعمانیؒ مولانا ابوالکلام آزاد اور دیگر اہل علم کے حوالے سے درس نظامی کی افادیت و اہمیت کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ دارلعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم سہارن پور، ندوۃ العلما اور دیگر عصری اداروں کے قیام کی وجوہات اور ان اداروں کی افادیت جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دینی اداروں نے سماج کی ہرسطح پر خدمت کی ہے۔
کتاب کے آخری باب ’’مدارس اسلامیہ اور دینی تعلیم کی افادیت‘‘ کے عنوان سے بھارت میں مدارس کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے دینی علوم سے بے اعتنائی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے گزشتہ چار صدیوں میں مدارس کے کردار اور مدارس کے فضلا کے علمی، سماجی اور تحریک آزادی میں کردار پر روشنی ڈالی ہے۔مصنف نے جن تاریخی حقائق کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ حقائق پر مبنی ہیں ۔یہ بات شبہ سے بالاتر ہے کہ اگر یہ مدارس نہیں ہوتے تو آج بھارت کی صورت حال بھی اسپین کی ہی طرح ہوتی۔اسپین میں طویل مدت تک مسلمانوں کی حکومت ہونے کے باوجود آج اسپین میں اسلام اور مسلمانوں کا کوئی نام لینے والا نہیں ہے۔مگر بھارت میں مسلم دور حکومت کے زوال اور نوآبادیات کے باوجود آج بھارت میں اسلام نہ صرف زندہ وپائندہ ہے بلکہ علوم اسلامی کی ترویج اور اس کی اشاعت میں یہاں کے علما، محدثین اور مفسرین نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ خوش نصیبی اسلامی ممالک کے علما کے حصے میں بھی نہیں آئی ۔نوآبادیاتی دور میں مدراس کی ریاستی سرپرستی ختم ہو گئی۔ استعماری قوتوں نے مدارس، مساجد اور اسلامی درس گاہوں کے خاتمے کےلیے ہر ممکن کوشش کی لیکن اس کے باوجود یہ درس گاہیں قائم رہیں ۔ظاہر ہے کہ مسلم روسا، امرا، صاحب ثروت مسلمانوں کی فیاضی اور عطیات کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ان صاحب اہل خیر کے اعتماد کی وجوہات کیا تھیں، انہیں یہ بھروسہ کیوں تھا کی وہ اپنے عطیات جن ہاتھوں میں دے رہے ہیں وہ امین ہیں اور ان کی عطیہ کردہ رقومات کا صحیح جگہ استعمال ہوگا؟
تاہم کتاب کے مطالعے کے دوران چند سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں جیساکہ مسلم سلاطین کی خدمات کا جائزہ لیتے وقت معروضیت کا فقدان نظر آتا ہے کہ اگر ان مسلم سلاطین نے تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردارا دا کیا تھا تو لال قلعہ، ہمایوں کا مقبرہ، تاج محل، فتح پور سیکری کا قلعہ اور قطب مینار جیسی عمارتوں کی طرح تعلیمی اداروں کی عمارتیں کیوں نہیں ہیں۔ یقیناً ان مسلم سلاطین نے علم و علما کی سرپرستی کی، آزاد تعلیمی اداروں کے قیام میں مدد کی لیکن جب مسلم سلاطین اپنی عظمت و شوکت کے اظہار کے لیے عمارتوں کی تعمیر کروارہے تھے تو پھر ان کی توجہ اس جانب کیوں نہیں گئی؟ اس بات سے ان کی ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ تصور کیجیے کہ اگر لال قلعہ کے طرز پر کسی تعلیمی ادارہ کی عمارت ہوتی تو ہمارے لیے یہ کس قدر عظمت و رفعت کے احساس کا موجب ہوتا۔مسلم سلاطین کے برخلاف مسلم نوابوں یا پھر چھوٹی ریاستوں کے حکمرانوں نے اس جانب زیادہ توجہ دی ہے جن میں جامعہ عثمانیہ کے بانی نواب عثمان علی خاں، نوابین بھوپال اور نوابین رام پور کی خدمات قابل ذکر ہیں۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 نومبر تا 19 نومبر 2022