
ہندوستان میں صحت عامہ کے مسائل: بے قابو دھوکہ دہی اور جعل سازی کی وبا
ڈاکٹروں اور دوا ساز کمپنیوں کی خطرناک سازش کا پردہ فاش، دینک بھاسکر کی اسٹنگ رپورٹ
محمد آصف اقبال، نئی دہلی
ادویات کی قیمتوں میں من مانی اضافہ اور معیارات پر سمجھوتہ، مریضوں کی صحت سے کھلواڑ
ہندوستان میں صحت عامہ کے مسائل اور جعل سازی کے نت نئے طریقے ملاوٹ، دھوکہ دہی اور جعل سازی فی زمانہ ایک عام وبا بن چکی ہے۔ عیب دار اور خراب اشیاء کو چالاکی سے لوگوں کو فروخت کرنا،جعلی اور ملاوٹ شدہ چیزوں کو اصلی اور خالص ظاہر کر کے فروخت کرنا بدترین برائی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی اصول تجارت میں لازم ہے کہ جب کوئی سودا فروخت کیا جائے تو اس کا عیب بتا دیا جائے، خرابی کو چھپا کر اور خریدار کو دھوکہ دے کر بیچنا حرام ہے۔ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ غلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس میں داخل کیا، آپ کی انگلیوں نے نمی محسوس کی تو فرمایا "اے غلے کے مالک! یہ کیا ہے؟”اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس پر بارش پڑ گئی تھی۔ آپ نے فرمایا "تو تم نے اس بھیگے ہوئے غلے کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لو گ اسے دیکھ لیتے؟” پھر فرمایا: "جس نے دھوکا کیا وہ مجھ سے نہیں” (صحیح مسلم)
دنیا میں اور ہمارے ملک میں جعل سازی اور دھوکہ دہی کی بیماری عام ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں ہر سال سیاست دانوں کے اور دیگر بااثر لوگوں کے ذریعہ بے شمار گھوٹالے سامنے آتے ہیں۔کمیشن تشکیل دیے جاتے ہیں،جانچ ہوتی ہے،عدالتوں کے فیصلہ آتےہیں،لیکن چند ہی مجرمین کو سزا دی جاتی ہے ،زیادہ تر بچ جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ کی گئی جعل سازی کچھ عرصہ بعد بھلادی جاتی ہے۔ شہریوں کی مجبوری یہ ہے کہ وہ بے شمار راستوں اور طریقوں سے ٹھگے جاتے ہیں،دھوکہ دہی کا شکار ہوتے ہیں،اس کے باوجود بیماری ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، ختم ہونا تو دور کی بات، کم ہوتی بھی نظر نہیں آتی۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ بھی ایسے لوگوں کو اب قبول کرنے لگا ہے۔یعنی دھوکہ دہی،فریب اورجعل سازی میں اکثریت راست یا بلاواسطہ ملوث ہے،بلکہ بعض اوقات تو یہ ترقی اور کامیابی سے ہمکنارکرنے میں معاون ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کسی بھی شخص کو دوسرے پر اعتماد نہیں رہا۔پھر کیوں کر حکومت اور اس کے نمائندوں پر اعتماد باقی رہ سکتا ہے۔
دینک بھاسکر ہندی اخبار کے ایک اسٹنگ ویڈیو میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں ادویات کے ریٹ ڈاکٹر خود طے کررہے ہیں،اپنا برانڈ بنارہے ہیں اور مریضوں کو وہی دوائیں لکھ بھی رہے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 3روپے80پیسے کی دوا120روپے میں بیچی جارہی ہے۔اس پورے کھیل کو سامنے لانے کے لیے بھاسکررپورٹر پنجاب،ہریانہ اور ہماچل پردیش کے کل 6 دوا ساز کمپنیوں کے آفس پہنچے۔جہاں اپنی مرضی سے دواؤں کےMRP کے ساتھ دوا بنانے کی ڈیل کی ۔پنچکلہ میں رپورٹر کی ملاقات ایلوش کمپنی کے ایگزیکٹیو سے ہوئی، چونکانے والی بات یہ پتہ چلی کہ 38روپےکی دواکی MRP، 1200روپے تک کردی جاتی ہے۔ کمپنی ایگزیکٹیو کا کہنا ہے کہ ہم سے ڈاکٹر ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا ہی پروڈکٹ چاہیے، زیادہ MRPپرجیسا آپ بتارہے ہیں۔ایک پارٹی ہے جو ہم سے 300ڈبے لیتی ہے،لیکن ہم اپنے پاس اسٹاک نہیں رکھتے،ایک اسٹرپ کی قیمت 1200 روپے اور ایک باکس کی قیمت12000روپے۔جب ان سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کیوٹیل کتنے کا پڑتا ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ ہمیں 380روپے کا پڑتا ہے۔جب ان سےیہ پوچھا جاتا ہے کہ کون لیتا ہے؟1200فی اسٹرپ تو بہت بڑی قیمت ہے، تو وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ڈاکٹر لکھتے ہیں اور ان کے پاس بڑی تعداد میں ہسپتال ہیں۔ وہاں سے نکلنے کے بعد رپورٹر پنچکلہ کے Richberg Heathcare Pvt. Ltd. پہنچے،جہاں مارکیٹنگ ایگزیکٹیو ،رِچا بڑےآرڈر دینے پر MRPمیں ہیراپھیری کرنے کے لیے تیار ہوگئیں۔ان کی بس شرط یہ تھی کہ آرڈر کے ساتھ 50فیصد رقم ایڈوانس میں دینی ہوگی۔رپورٹر ‘میروپینم انجیکشن ‘کی بات کرتا ہے ،ایگزیکیٹیو کہتی ہیں کہ اگر ہم DPCOکے ساتھ کریں گے تو وہ نہیں آئے گا،اگر آپ LBکے ساتھ بنائیں گے تو ہوجائے گا۔اس کے بعد چنڈی گڑھ کے Stingray Pharma کمپنی میں رپورٹر کی ملاقات مارکیٹنگ ایگزیکیٹیو،پلک سے ہوئی،جو بھاسکر کے کیمرے پر یہ کہتے قید ہوئیں کہ ڈیزائن اور ریٹ آپ طے کریں ہم آپ کے نام پر دوا بنانے کے لیے تیار ہیں۔کھانسی کا جو سیرپ 70روپے میں کمپنی بیچتی ہے،پلک نے اس کا MRPایک ہزارروپے کرنےکی بات کہی۔رپورٹر نے پوچھا کہ کیا MRPہم اپنے سے خود ڈلواسکتے ہیں؟ پلک کہتی ہیں،اس کے اندر ،جو تھرڈ پارٹی پروڈکٹ ہوتے ہیں،جیسے مارکیٹڈ بائے اسٹنگرے ہے،اس میں آپ کا نام آجائے گا،اگر آپ کروانا چاہتے ہیں تو، اور اگر آپ ہمارے ذریعہ فروخت کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے ذریعہ بھی فروخت ہو جائے گا،تھرڈ پارٹی میں۔ اور اگر آپ کو اپنا نام پرنٹ کروانا ہے تو
کروالو ،MRPآپ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔رپورٹر ایک اورکمپنی ‘بلیزنگ ہیلتھ کیئر ‘میں پہنچا وہاں کمپنی کے سیلز ایگزیکیٹیو نے، میروپینم انجیکشن 130روپے میں دینے کی بات کہی،جس کی MRP،1067روپے ہے۔جب رپورٹر نے ریٹ بڑھانے کے لیے کہا تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہوگئیں۔چنڈی گڑھ کے اوریکسون بایو فارما بھی تھرڈ پارٹی کا کام کرتی ہے۔یہاں مارکیٹنگ ٹیم کی ارچنا نے بتایا جواینٹی بایوٹیکMeropenem Injection کمپنی 180روپے کا بیچتی ہے،اسے 2400سے 4000تک کیا جاسکتا ہے۔ایگزیکیٹو کہتی ہے ہمارے سر کا پٹنہ میں CNFہے،وہ یہی MRPچلارہے ہیں۔رپورٹر ارچنا سے پوچھتا ہے کہ اگر ہم کو MRPزیادہ چاہیےتو؟وہ کہتی ہیں ہم دوسرا بیچ بنوادیں گے۔رپورٹر پھر پوچھتا ہے کہ کہاں تک اس کی MRPہوجائے گی؟وہ کہتی ہے2400تک۔اسٹنگ کے آخرمیں رپورٹر منیش مشرا کہتے ہیں کہ جس ریٹ میں دوا بنانے والوں سے ڈاکٹر100گولیاں لیتے ہیں اس ریٹ میں مریض کو ایک گولی دی جارہی ہے۔اور یہ پورا کھیل MRPکا ہے۔ڈاکٹر اپنے حساب سے MRPطے کرواتے ہیں اور پھر اسے مریضوں کو بیچتے ہیں۔
واقعہ کے پس منظر میں جب آپ ہندوستان میں صحت عامہ کے مسائل پر توجہ دیں گے، اعداد و شمار جمع کریں گے اور چرمراتے صحت کے نظام پر غور کریں گے تو محسوس ہوگا کہ جس قدر مسائل ہندوستان میں ہیں اور جن سے ملک کاہرشہری پریشان ہے، اس قدر مسائل غالباً دیگرملکوں میں نہیں ہیں۔ایسا کیوں ہے ؟اس کا جواب بھی متذکرہ مختصر اسٹنگ رپورٹ سے اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ اگرچہ قوانین موجود ہیں،قوانین کے نفاذ کے ادارے بھی ہیں، ادویات کے معیار کو یقینی بنانے اور اس کے چیک کرنے کا طریقہ کار بھی موجود ہے،ادویات میں فراہم کردہ د مٹیریل کے ضابطے بھی پائے جاتے ہیں،نیز جدید کاری اور ترقی پذیری کی ٹیکنالوجی بھی دستیاب ہے، اس کے باوجود متذکرہ گھوٹالوں جیسے نہ جانے کیا کیا جعل سازی کے طریقہ برقرار ہیں۔خبر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں جس طرح نجکاری،سرمایہ داری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ملک میں قدم رکھا جن کا واحد مقصد عوام کی گاڑھی کمائی کو لوٹنا رہا ہے،اسی کے ساتھ اس کے منفی اثرات سے زندگی کے تمام دائرے متاثر ہوئے ہیں۔تیسرا رخ ،ہیلتھ انشورنس کے ادارے اور ان کا بڑھتا دائرہ عمل ہے۔جس نےدراصل ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرلی ہے۔یہ ہیلتھ انشورنس ادارےعوام کو توجہ دلاتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ہونے والے تمام حادثات کے بعد علاج و معالجہ پر آنے والے خرچ کو وہ برداشت کریں گے، اس کے لیے آپ ہیلتھ انشورنس کروائیے۔عوام چونکہ مہنگائی کی مار سے بری طرح متاثر ہیں اور علاج معالجہ بھی حددرجہ مہنگا ہوتا جارہاہے،ایسی صورت میں یہ ہیلتھ انشورنس ادارے یا انڈسٹری خوب پھل پھول رہی ہے۔فوربس ڈاٹ کام نےایک حالیہ رپورٹ پیش کی ہے جس میں فوربس ایڈوائزر انڈیا نے ہندوستان میں ہیلتھ انشورنس پر تازہ ترین اعدادوشمار اور حقائق کو اکٹھا کیا اور بتایا ہے کہ ہندوستان میں یہ انڈسٹری فی الوقت 12.86 بلین ڈالر کی صنعت میں مصروف ہے۔وہیں دی ہندو اخبار کے بزنس لائن کی رپورٹ کے مطابق انشورنس ریگولیٹری اینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف انڈیا (IRDAI) اور جنرل انشورنس کونسل کے مطابق، اپریل 2024تا جنوری 2025 کی مدت میں ہیلتھ پریمیم 1,00,258 کروڑ روپے تک پہنچ گیا جب کہ پچھلے مالی سال کی اسی مدت میں رجسٹرڈ 90,785 کروڑ روپے تھا۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دینک بھاسکر کی جس اسٹنگ رپورٹ میں ادویات کے من مانی ریٹ طے کرنے کا جو اسکینڈل سامنے آیا ہے اس کے تار کہاں کہاں سے جڑتے ہیں اور کون کون سے ادارے، انڈسڑیز اور گروہ ہیں جو عوام کی گاڑی کمائی کو منفی طریقوں سے ہڑپتے ہیں ،نیز انہیں جسمانی تکلیف کے ساتھ ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں و تکالیف میں بھی متبلا کرتے ہیں۔
صورتحال کے پیش نظر اگر عالمی صحت کی دیکھ بھال کاجائزہ لیا جائے کہ ہندوستان کس درجہ میں ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2021-22 کے دیہی صحت کے اعدادوشمار (RHS) کے مطابق دیہی علاقوں میں ذیلی مراکز (SCs) میں 25فیصد کمی ہے، پرائمری ہیلتھ سنٹرز (PHCs) میں 31فیصد کمی ہے اور کمیونٹی ہیلتھ سنٹرز (CHCs) میں 36فیصد کمی موجود ہے۔ 39.7فیصد قبائلی علاقوں میں، SCs میں 7.6فیصد، PHCs میں 30.7فیصد اور CHCs میں 23.8فیصد خسارہ ہے۔ ان کمیوں کو دور کرنے اور دیہی اور شہری ہندوستان دونوں میں صحت کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے اگرچہ 15ویں مالیاتی کمیشن نے 2000 روپے کی فراہمی کی سفارش کی تھی لیکن2021-22 سے 2025-26 تک کی مدت کے لیے یونین کی طرف سے ریاستوں کو 70,051 کروڑ روپے ہیلتھ گرانٹس فرہم کیے گئے۔ تاہم، پچھلے چار سالوں کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ 25,564.87کروڑ روپے یا کل تجویز کردہ پروویژن کا 36.5 فیصد ہی ہے جو اب تک جاری کیا گیا اور اس میں سے کتنا حصہ ضرورت مندوں کو حاصل ہوا اور کتنا درمیان میں غائب ہوگیا یا کردیا گیا؟اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
غور فرمائیں تو یہ ساری صورتحال معاشرہ میں موجود لوگوں کے ذریعہ ہی تشکیل دی جارہی ہے۔اس کے دوسرے معنی یہ ہوئے کہ معاشرہ اس کے افرادو گروہ، ان کا نظریہ،عقیدہ اور فکر،پستی میں مبتلا ہے۔ یہاں لوگوں سے ہمدردی کرنے کی بجائے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ظلم و زیادتی ان کی فکر و نظر اور عملی رویوں میں رچی بسی ہے جس کا اظہار نہ صرف رویوں میں ظاہر ہوتا ہے بلکہ معاملات میں بھی سامنے آتا ہے۔حد تو یہ ہے کہ جس زمانے میں کووڈ جیسی وبا عام تھی،چہار جانب موت کا بازار گرم تھا،معلوم نہیں تھا کہ کب کس وقت کون کووڈ کی وبا سے متاثر ہوکر اس فانی دنیاسے رخصت ہوجائے گا، اس وقت بھی نہ صرف عوام بلکہ ادارے بھی ظلم و زیادتی کی داستان لکھ رہے تھے ۔ اسی موقع کا تذکرہ کرتے ہوئے پروفیسر مینا کہتی ہیں کہ اس وقت آکسیجن کی کمی سے لوگ مر رہے تھے، وہیں ایسی صورتحال میں بھی کچھ لوگ پریشان حال لوگوں کی بے بسی کا فائدہ اٹھانے میں مصروف تھے اوروہ ضروری طبی سامان من مانی قیمتوں پر فروخت کر رہے تھے۔ اس سے بھی زیادہ کچھ دھوکے باز بستر، آکسیجن اور ادویات وغیرہ کے نام پر پیسہ کما رہے تھے، غورفرمائیے، کہ اگر مریض کی دوائی کے پیسے کوئی چور لے کر بھاگ جائے تو کیسا محسوس ہو گا؟
معاشرہ میں موجود خرابیوں اور کمزوریوں کے پیش نظر انسانوں کے خالق حقیقی نے قرآن حکیم میں راہ نمائی فرمائی ہے اور ہدایت کی ہے کہ:”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھاوٴ، لین دین ہونا چاہیے آپس کی رضا مندی سے”(النساء:29)۔ یہاں باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے ہیں جو خلافِ حق ہوں اور شرعاً و اخلاقاً ناجائز ہوں۔ اور لین دین سے مراد یہ ہے کہ آپس میں مفاد و منافع کا تبادلہ ہونا چاہیے جس طرح تجارت اور صنعت و حرفت میں ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے محنت کرتا ہے اور وہ اس کا معاوضہ دیتا ہے ۔ اور آپس کی رضامندی سے مراد یہ ہے کہ لین دین نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہو اور نہ فریب و دغا سے۔ رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے مگر درحقیقت جوے میں حصہ لینے والا ہر شخص اس غلط امید پر رضا مند ہوتا ہے کہ جیت اس کی ہوگی، ہارنے کے ارادے سے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا ۔ جعل اور فریب کے کاروبار میں بھی بظاہر رضا مندی ہوتی ہے مگر اس غلط فہمی کی بنا پر ہوتی ہے کہ اندر جعل و فریب نہیں ہے۔ اگر فریقِ ثانی کو معلوم ہو کہ تم اس سے جعل یا فریب کر رہے ہو تو وہ ہرگز اس پر راضی نہیں ہوگا۔یہ ہے وہ تعلیم جس پر ایمان لانے کے بعد اہل حق نہ صرف خود اپنی ذات کو مظالم سے بچا سکتے ہیں بلکہ فریق معاملہ میں بھی اپنی اخلاقی برتری ثابت کرسکتے ہیں۔اور یہی وہ کیفیت و عمل ہے جس کے ذریعہ اسلام ایک جانب قول سے تو دوسری جانب عمل سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے، اس کو سمجھنےمیں مددملتی ہے اور مالک حقیقی کی تعلیمات سے آگاہی وقبولیت کی فضا ہموار ہوتی ہے۔لہٰذا یہ بات یاد رکھیے کہ ہر طرح کے مسائل کا حل فی زمانہ اسلام ہی پیش کرتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں کو قول و عمل ہردوطرح سے اسلام کی تبلیغ کی جائے۔
[email protected]
***
رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے مگر درحقیقت جوے میں حصہ لینے والا ہر شخص اس غلط امید پر رضا مند ہوتا ہے کہ جیت اس کی ہوگی، ہارنے کے ارادے سے کوئی بھی راضی نہیں ہوتا ۔ جعل اور فریب کے کاروبار میں بھی بظاہر رضا مندی ہوتی ہے مگر اس غلط فہمی کی بنا پر ہوتی ہے کہ اندر جعل و فریب نہیں ہے۔ اگر فریقِ ثانی کو معلوم ہو کہ تم اس سے جعل یا فریب کر رہے ہو تو وہ ہرگز اس پر راضی نہیں ہوگا۔یہ ہے وہ تعلیم جس پر ایمان لانے کے بعد اہل حق نہ صرف خود اپنی ذات کو مظالم سے بچا سکتے ہیں بلکہ فریق معاملہ میں بھی اپنی اخلاقی برتری ثابت کرسکتے ہیں۔اور یہی وہ کیفیت و عمل ہے جس کے ذریعہ اسلام ایک جانب قول سے تو دوسری جانب عمل سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے، اس کو سمجھنےمیں مددملتی ہے اور مالک حقیقی کی تعلیمات سے آگاہی وقبولیت کی فضا ہموار ہوتی ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 مارچ تا 08 مارچ 2025