!ہندوستان میں ای وی ایم کا مسئلہ اور بڑھتی ہوئی بے اعتمادی

ایلون مسک کے تبصرہ کے بعد سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر بحث میں شدت

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

انتخابی عمل میں شفافیت کے تعلق سے عوامی اعتماد کی بحالی لازمی۔حکومت، الیکشن کمیشن اور عدالت کا کردار نہایت اہم
ہندوستان میں لوک سبھا الیکشن 2024 کے نتائج آنے کے بعد اگلے پانچ سال یعنی 2029 تک کے لیے نئی حکومت تشکیل پا چکی ہے۔گزشتہ حکومت کے بہت سے اہم سیاسی لیڈروں اور وزراء نے ناکامی کا سامنا کیا۔ جبکہ اپوزیشن اتحاد کے بہت سے نئے اور پرانے چہرے کامیاب ہوئے۔اپوزیشن کے لیڈروں نے بھی 2019 کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔امید یہ کی جارہی تھی کہ انڈیا الائنس کی حکومت بنے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔البتہ انڈیا الائنس کو مختلف ریاستوں میں کامیاب امیدواروں کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد ملی ۔خصوصاً اترپردیش میں اس کی سب سے بہتر کارکردگی سامنے آئی ۔مودی حکومت 2024 میں 30 کابینی وزیر، 5 وزرائے مملکت آزاد چارج کے ساتھ اور 36 وزرائے مملکت نے حلف لیا۔ ساتھ ہی 1952،1957 اور 1962 میں لگاتار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے جواہر لال نہرو کے بعد 2014 ،2019 اورب2024 میں مودی نے ہندوستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی تاریخ رقم کردی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا تیسری مرتبہ وزیر اعظم کی مدت مکمل پانچ سال برقرار رہے گی یا نہیں؟ اسی طرح 2024 کے لوک سبھا الیکشن نے کئی جہتوں پر نمایاں مقام حاصل کیا ہے، جس میں ایک طرف اپوزیشن اتحاد کا مضبوطی کے ساتھ ایک ساتھ متحد ہوکر عوام کے سامنے آنا ہے جس کی مثال 1975 کے بعد دیکھنے میں نہیں آئی، وہیں دوسری جانب عوام کی لاچارگی، بدحالی، بے انتہا بے روزگاری اور حد سے زیادہ بڑھتی مہنگائی کی مار سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش بھی قابل توجہ پہلو ہے۔تیسری جانب ایودھیا میں جہاں بابری مسجد کو شہید کرنے اور ’اکثریت کی آستھا‘ کے نام پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اسے مندر میں تبدیل کردیا گیا اور اس کا بھر پور فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، اسی ایودھیا میں بی جے پی کی بری طرح ناکامی اور اپوزیشن اتحاد کی کامیابی ایک اہم خبر بن کے سامنے آئی ہے۔ ان سب کے باوجود لوک سبھا الیکشن کے نتائج میں دھاندلی، الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور وی وی پیڈ کے ذریعہ ووٹوں کی گنتی کا مسئلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ یعنی یہ معاملہ صرف وقتی یا ہنگامی نہیں بلکہ مستقل ایک مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرچہ اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندوں کو کامیابی ملی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ جس کامیابی کی انہیں امید تھی وہ حاصل نہیں ہوئی اور یہ مسئلہ نتائج آنے کے بعد نہیں اٹھا بلکہ ایک طویل عرصہ سے بار بار اٹھایا جاتا رہا ہے، یہاں تک کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے ساتھ ایک سے زائد ملاقاتوں اور سپریم کورٹ آف انڈیا میں پیٹیشنس کے ذریعہ رکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں ایک بار پھر یہ مسئلہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب کہ ‘ٹیسلا’ اور ‘ایکس’ کے سربراہ ایلون مسک نے لکھا کہ ‘ہمیں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال ختم کر دینا چاہیے کیونکہ اِس کو انسانوں یا مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعہ ہیک کیے جانے کا خطرہ، اگرچہ چھوٹا ہی صحیح، مگر پھر بھی بہت زیادہ ہے۔‘
الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے نتائج و خدشات :
امریکی صدر کے امیدوار سے ہٹائے جانے والے آزاد امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے اپنی پوسٹ میں ای وی ایم کے استعمال پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ انتخابات میں ہیکنگ سے بچنے کے لیے ہمیں پیپر بیلٹ کی طرف واپس جانا چاہیے۔ انہوں نے لکھا کہ ‘میڈیا رپورٹس کے مطابق پورٹوریکو کے پرائمری انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے متعلق ووٹنگ کی سیکڑوں بے ضابطگیاں دیکھنے میں آئیں’۔ انہوں نے مزید لکھا کہ ‘خوش قسمتی سے پیپر ٹریل موجود تھا اس لیے مسئلے کی نشان دہی ہوگئی اور ووٹوں کی گنتی درست کر دی گئی، سوچیے کہ وہاں کیا ہوتا ہوگا جہاں پیپر ٹریل نہیں ہوتا؟ اس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے ایلون مسک نے بھی ای وی ایم کے ہیک ہونے کے امکان پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ای وی ایم کے ہیک ہونے کا خطرہ اب بھی بہت زیادہ ہے۔ ایلون مسک نے لکھا کہ ‘ہمیں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کا استعمال ختم کر دینا چاہیے ۔ایلون مسک کے بیان کے بعد ہندوستان میں بھی کئی سیاسی لیڈروں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔راہل گاندھی نے ایلون مسک کے پوسٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ہندوستان میں ای وی ایم کو ایک ’بلیک باکس‘ قرار دے دیا۔ انہوں نے ایک نیوز آرٹیکل کی تصویر بھی پوسٹ کی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ شیوسینا کے انتخابی امیدوار کے ایک رشتہ دار نے ای وی ایم مشین کو موبائل فون کے ذریعے کنٹرول کیا تھا۔راہل گاندھی نے اپنی پوسٹ میں لکھا ’ای وی ایم ایک بلیک باکس کی طرح ہیں، کسی کو بھی ان کی جانچ پڑتال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔‘ہمارے
ملک کے انتخابی عمل میں شفافیت کے بارے میں سنگین خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، جب اداروں میں جواب دہی کا فقدان ہوتا ہے تو جمہوریت دھوکہ دہی کا شکار ہو جاتی ہے۔ اگرچہ ان الیکٹرانک مشینوں کا بنیادی مقصد ووٹنگ کے عمل کو آسان، تیز اور قابل اعتماد بنانا ہے تاہم ہیکنگ سمیت مختلف خدشات کے باعث کئی ممالک اس کا استعمال ترک کر چکے ہیں۔پاکستان میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صدر عمران خان اور ان کی جماعت انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کی پْرزور حامی رہی ہے، پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں یہ مشینیں متعارف بھی کروادی گئی تھیں تاہم حریف جماعتوں کی بھرپور مخالفت کے باعث انتخابات میں ان مشینوں کا استعمال ممکن نہیں ہوسکا۔اس پس منظر میں دیکھا جائے تو پاکستان جو ہندوستان کی طرح خود کو ‘مدر آف ڈیموکریسی’ نہیں کہتا وہاں اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے زیر اثر ای وی ایم کو استعمال نہیں کیا گیا، تو پھر ‘مڈر آف ڈیموکریسی’ کے دعویداروں کو اپوزیشن جماعتوں، معروف و سرکردہ حضرات، وکلاء، مختلف سماجی گروہوں کے نمائندوں اور خود عوام کی مخالفت کے باوجود کیوں ہٹایا نہیں جاتا یا کم از کم وی وی پیٹ کی پرچیوں کی گنتی کیوں نہیں کروائی جاتی؟ خصوصاً ان حالات میں جبکہ کوئی امیدوار نتائج سے مطمئن نہ ہو اور وہ اس بات کا تقاضا کرے کہ وی وی پیٹ کی پرچیوں کی گنتی کے بعد نتیجہ اور کامیابی و ناکامی کا اعلان کیا جائے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے پس پشت اقتدار حاصل کرنے والی حکومت، شکوک و شبہات کے دائرے میں گِھر جاتی ہے۔
ہندوستانی الیکشن میں ای وی ایم کی تاریخ :
شام لال شکدھر، سابق چیف الیکشن کمشنر 1977 سے 1982 نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کے بیلٹ پیپر اور بکس سے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں منتقلی میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس تبدیلی کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک مسئلہ جو اس تبدیلی کا بڑا سبب بنا وہ بوتھ پر قبضہ کا مسئلہ تھا، جہاں مسلح افراد پولنگ بوتھ پر دھاوا بول دیتے اور بیلٹ باکس کو کسی خاص امیدوار کے حق میں ووٹوں سے بھر دیتے تھے۔ 1977 کے عام انتخابات میں 29 پارلیمانی حلقوں میں زبردستی بیلٹ پیپر بھرنے کا تجربہ ہوا تھا۔ بیلٹ پیپر اور بکس کے استعمال نے لاجسٹک چیلنجز بھی پیش کیے۔ ہر ووٹر کے لیے ایک بیلٹ پیپر درکار تھا اور اسٹیل کے ڈبوں کو ایک بار کی لاگت کے باوجود باقاعدگی سے دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔1977 میں، شام لال شکدھر، چیف الیکشن کمشنر نے حیدرآباد میں الیکٹرانک کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (ECIL) کا دورہ کیا۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ انتخابات میں الیکٹرانک گیجٹس کے استعمال کے امکانات کو تلاش کرے۔ شکدھر کو بوتھ کیپچرنگ کے مسئلے، موجودہ ووٹنگ کے طریقہ کار میں لاجسٹک مسائل اور لوک سبھا میں الیکٹرانک ووٹنگ کے ساتھ اپنے تجربے کی وجہ سے یہ تبدیلی لانے کا اشارہ ملا۔ 1980 میں الیکٹرانکس کارپوریشن آف انڈیا لمیٹڈ (ECIL) نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ایک سادہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کا پروٹو ٹائپ فراہم کیا۔ مشین نے مین پاور سپلائی کا استعمال کیا جس میں چھ بٹن چھ چپس سے جڑے ہوئے تھے، جہاں ہر بٹن الیکشن میں امیدوار کے مطابق تھا۔ مشین نے تمام ووٹوں کو ریکارڈ کیا اور ECIL ڈیزائن نے اسے انتخابی عہدیداروں کے سامنے رکھے گئے کنٹرول میکانزم سے جوڑ دیا۔ مختلف سیاسی جماعتوں کو مشین کی افادیت کا مظاہرہ کرنے کے بعد اس کا مثبت جواب ملا۔ اڈوانی نے مشورہ دیا کہ ECI کو شہری، دیہی اور قبائلی علاقوں میں مشین کا فیلڈ ٹیسٹ کرنا چاہیے، جسے قبول کر لیا گیا۔ ای سی آئی نے سال کے آخر تک اندرا گاندھی اور دیگر وزراء کے سامنے مشین کی نمائش کی۔ بھارت الیکٹرانکس لمیٹڈ (BEL) کی ووٹنگ مشین کی میڈیا کوریج نے بی ای ایل میں ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے مینیجر ایس رنگاراجن کی توجہ حاصل کی۔ رنگاراجن نے الیکشن کمیشن آف انڈیا سے رابطہ کیا اور BEL ووٹنگ مشین کی پیشکش کی۔اس طرح اپریل 1981 میں، ECI نے BEL پروٹو ٹائپ کا ایک مظاہرہ منعقد کیا۔ ای سی آئی کی سفارش کے بعد، حکومت نے ای وی ایم کی خریداری کے لیے فنڈز کی منظوری دی اور ای سی آئی نے کیرالا میں اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں ای وی ایم کو تعینات کیا۔مئی 1982 میں پراوور اسمبلی سیٹ پر پہلی ای وی ایم کا استعمال کیا گیا۔ ٹرائل کامیاب رہا۔ ٹرائل کی کامیابی کے نتیجے میں مزید 10 ضمنی انتخابات میں ای وی ایم کا استعمال ہوا۔ ای وی ایم کے ڈیزائن اور تکنیکی پہلوؤں کو معیاری بنایا گیا اور مشینیں ECIL اور BEL دونوں نے تیار کیں۔ اِن انتخابات سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے 1983کی سالانہ رپورٹ میں ای وی ایم کے ملک گیر استعمال کی سفارش کی۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں (ای وی ایم) پہلی بار 1982 میں ہندوستان میں متعارف کرائی گئیں۔ تاہم 1984 میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ قانون سازی کی حمایت کے بغیر انتخابات میں ای وی ایم کا استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے ای وی ایم پروگرام کو دو سال تک کولڈ اسٹوریج میں ڈال دیا۔ 1986 میں چیف الیکشن کمشنر نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی سربراہی میں سیاسی امور کی کابینہ کمیٹی کے سامنے ای وی ایم کے مظاہرے کا اہتمام کیا۔ راجیو گاندھی نے مشورہ دیا کہ ووٹنگ کی رفتار کو کنٹرول کرنے والا ٹائمنگ ڈیوائس جزوی طور پر بوتھ پر قبضہ کرنے کے مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔ 1988 میں پارلیمنٹ نے ایک آئینی ترمیمی بل منظور کیا جس میں ای وی ایم کے استعمال کی اجازت دی گئی۔مشینوں کو پہلی بار 2004 میں لوک سبھا کے عام انتخابات میں استعمال کیا گیا اور اس کے بعد سے ہندوستانی انتخابات میں اس نے اہم اور موثر کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ لیکن ساتھ ہی بہت سے سوالات بھی عموماً اپوزیشن پارٹیوں کے سامنے وقتاً فوقتاً آتے رہے، چاہے ایک زمانے میں یہ اپوزیشن، بی جے پی اور اس کی حلیف سیاسی پارٹی کے ہو یا موجودہ وقت میں کانگریس اور اس کے سیاسی اتحادی ہوں۔ نتیجہ میں طویل عرصہ سے جاری ای وی ایم پر شکوک و شبہات نے عوام کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچانے شروع کردیے ۔اور یہ بے اعتمادی اس لیے بھی بڑھی ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں ہر مرتبہ جب بھی کسی ای وی ایم مشین کی خرابی کی بات آتی ہے تو اس میں چاہے کوئی بھی بٹن دبائیں مشین بی جے پی کے ووٹ ہی کاسٹ کرتی نظر آئی ہے برخلاف اس کے دیگر نمائندوں کے ووٹ کاسٹ نہیں ہوتے۔
ای وی ایم میں چھیڑ چھاڑ پر تحقیقات:
سال 2010 میں مشی گن یونیورسٹی کے سائنس داں اس تکنیک کو ووٹنگ مشین سے جوڑنے کے بعد موبائل فون سے ایک میسیج بھیج کر اس کے نتائج بدلنے میں کامیاب رہے تھے۔اس موقع پر مشی گن یونیورسٹی کے محققین نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو لگایا تھا جس میں اس نئی تکنیک کو ووٹنگ مشین سے جوڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ریسرچ پروجیکٹ کے سربراہ الیکس ہالڈرمین کا کہنا تھاکہ اس تکنیک کی مدد سے موبائل فون کے ذریعے میسج بھیج کر اس کے نتائج بدلنے میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ہالڈرمین نے بی بی سی کو بتایا ’ہم نے ایک ایسا نقلی ڈسپلے بورڈ بنایا ہے جو اصل ڈسپلے بورڈ جیسا نظر آتا تھا۔ اس کے نیچے ہم نے ایک مائیکرو پروسیسر اور بلیو ٹوتھ نصب کر دیا۔ ہمارا نقلی ڈسپلے بورڈ ووٹوں کی کل تعداد پتہ کر کے اس کی جگہ غلط تعداد ظاہر کرتا ہے۔ یعنی فریب کرنے والے لوگ جو چاہیں وہ نتائج اس سے حاصل کر سکتے ہیں۔‘ہالڈرمین نے اس کے علاوہ ایک اور مائیکرو پروسیسر نصب کر کے دکھایا کہ کس طرح الیکشن اور ووٹوں کی گنتی کے دوران بھی نتائج آسانی سے بدلے جا سکتے ہیں۔
سال 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے وقت بھی ووٹنگ مشین کے بارے میں حزب اختلاف کے شکوک کو اس وقت مزید تقویت ملی تھی جب امریکہ میں مقیم ایک ٹیکنالوجسٹ سید شجاع نے لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انڈیا کی ووٹنگ مشینوں کو ہیک کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 2014 کے انتخابات میں ان مشینوں کے ذریعہ دھاندلی کی گئی تھی۔ نیز، یکم فروری 2019 کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ’سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے ذہن میں ای وی ایم کے صحیح ہونے کے بارے میں شکوک ہیں۔ ہم (مشین کے ذریعے ڈالے گئے) ووٹوں کا ایک متبادل نظام چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کا انتخابی نظام میں اعتبار برقرار رہے‘۔ متبادل نظام وی وی پیٹ تو آگیا لیکن مسئلہ ابھی بھی یہی ہے کہ اس کی گنتی نہیں کی جا رہی ہے اور اب 2024 میں ایلون مسک کی ایکس پر پوسٹ جس میں کہا گیا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو بھی مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہیک کرکے مقاصد کے لیے بروئے کار لائے جا سکتے ہیں، یہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔برخلاف اس کے مودی کے دوسرے عہدِ حکومت میں الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیرِ مملکت راجیو چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ امریکہ میں استعمال کی جانے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ہیک کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں انٹرنیٹ سے جڑی ہوئی ووٹنگ مشینیں بنانے کے لیے اسٹینڈرڈ کمپیوٹنگ پلیٹ فارم استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ بھارت میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں کسٹمائزڈ ہوتی ہیں اور کسی بھی نیٹ ورک یا میڈیا سے جڑی ہوئی نہیں ہوتیں۔
ہندوستان میں حالیہ لوک سبھا الیکشن 2024نکو دیکھا جائے تو اس میں 2600 سے زائد سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا، 10 لاکھ سے زائد پولنگ بوتھ، 50 لاکھ سے زائد الیکٹرانک ووٹنگ مشینیں، 15 ملین پولنگ عملہ کے ارکان اور تقریباً 970 ملین ووٹر جن میں سے 640 ملین افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ہے، ان تمام امور میں ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے انتخابی عمل کو منصفانہ اور شفاف بنانے کی کوشش کی گئی اور دنیا کے اس قدر بڑے الیکشن کے نتائج کا اعلان چند گھنٹوں میں ہوگیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ووٹوں کی گنتی اور نتائج کا اعلان ٹیکنالوجی کی مدد سے ہوا ہے۔لیکن یہی ٹیکنالوجی جب شک کے دائرے میں آجائے تو پھر انسانی وسائل، دولت، وقت اور اعتماد سب ضائع ہوتا نظر آتا ہے۔ اور یہ اعتماد اگر بحال نہیں کیا گیا تو اس کی ذمہ داری بھی حکومت، الیکشن کمیشن آف انڈیا اور سپریم کورٹ آف انڈیا ہی کی ہوگی کیونکہ عوام کا بھروسا جس حد تک بھی برقرار ہے انہیں اداروں پر ہے۔ لیکن اگر جمہوری نظام میں داخل ہونے والی بے اعتمادی برقرار رہتی ہے یا اس میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ ملک اور اہل ملک سب کے لیے نقصان دہ ہوگا۔اس موقع پر بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ اس اعتماد میں داخل ہونے والے شکوک و شبہات اور بے اعتمادی کو کب اور کیسے بحال کیا جائے گا!!
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 جون تا 06 جولائی 2024