!ہندوستانی عقائد ، کانوڑ یاترا اور حقیقی نجات کی جدوجہد

دلت طبقے کو ہندو مذہب سے قریب کرنے کی شاطرانہ سیاست مسلسل جاری

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

دکانوں پر نام کی تختی لگانے کا شوشہ محض نفرت کا کھیل اور بھکتوں کی خوشامد کا ذریعہ
اسلامی نقطہ نظر سے عقیدہ وہ حد درجہ مضبوط بندھی ہوئی گرہ ہے جسے دین کی بنیادی، اصولی اور ضروری باتوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ان کا جاننا، دل سے ان پر یقین رکھنا اور یقین کو عمل سے ظاہر کرنا ہرمسلمان کے لیے لازم ہے۔درست عقیدہ کے بعد ہی اسلام میں اعمال کی ابتداء ہوتی ہے۔اگر عقیدے کی بنیاد ہی کھوکھلی، کمزور، مشکوک، غلط اور لاشعوری میں مبتلا ہوگی تو اعمال کی عمارت بھی اسی قدر کمزور،کھوکھلی،غلط اور متزلزل ہوگی اور انسان ناکامیوں سے دوچار ہو کر رہے گا۔ ہندوستان جس کے ہم شہری ہیں، بے انتہاخوبصورت ملک ہے۔یہاں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام چیزیں مہیا کر رکھی ہیں جو کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہوسکتی ہیں۔ساتھ ہی یہاں پائی جانے والی بے شمار تہذیبیں اورثقافتیں اس ملک کو مزید خوبصورت بنادیتی ہیں۔ دوسری جانب عقائد و نظریات میں بھی بے انتہا تنوع کا پایا جانا،دنیا کے سامنے ہندوستان کو ایک مثالی ملک کی شکل میں پیش کرتا ہے۔اور یہ اسی وقت ممکن ہوا ہے جبکہ اہل ملک نے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے مختلف تہذیبوں، ثقافتوں،عقائد اور نظریات کو ملک کے تانے بانے میں پروئے رکھنے کی کوشش کی ہے۔اس کے باوجود مسلمانوں نے اپنے مذہب اسلام اور اس کی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں فی زمانہ رائج کمزور،غلط اور متزلزل افکار و نظریات،عقائد اور اعمال پر تنقید کی ہے۔اوراس تنقید کا واحد مقصد ہمیشہ یہی رہا ہے کہ انسان اپنی اصل حیثیت کو پہچانے۔ اس کے رب نے تمام مخلوقات میں انسان کو جوعزت اور وقار بخشا ہے اسے وہ حاصل کرے۔
غالباً آپ بھی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ مذہب اور مذہبی لوگوں کو پہلے مرحلے میں عموماً مذہبی عبادات اور رسوم سے پہچانا جاتا ہے۔یعنی وہ جس طرح کی مذہبی عبادات انجام دیتے ہیں ان کی شناخت اسی سے ظاہر ہوتی ہے۔بعد میں عقائد ،افکارونظریات اور دیگر تعلیمات سامنے آتی ہیں۔2011کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں جو بڑے عقائد پائے جاتے ہیں ان میں ہندوازم79.8 فیصد، اسلم14.2فیصد،عیسائیت2.3فیصد،سکھ ازم1.7فیصد،بدھ ازم0.7فیصد،اینیمزم یا آدیواسی0.5فیصد،جین ازم0.4فیصد،غیر مذہبی 0.25فیصداوردیگر0.15فیصد جن میں بہائی،زرتشت،یہودیت وغیرہ کے ماننے والے پائے جاتے ہیں۔تمام ہی عقائد پر مبنی مذاہب اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں اوران کی عبادات انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں۔البتہ ہندوازم بذات خود بہت سارے نظریات کا مجموعہ ہے جس نے آسمانی کتب پر مبنی مذاہب کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے درمیان اپنے سیاسی غلبہ کی وجہ سے ان کی شناخت کو کافی حد تک ختم کردیا ہے۔اس کے باوجود ہندوازم کی بنیاد چونکہ چار ذاتوں برہمن، چھتری، ویش اور شودر پر مشتمل ہے،جس میں دلت (سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ٹوٹا،بکھرا ہوایا مظلوم)جنہیں ماضی میں اچھوت کہا جاتا تھا،یہ لوگ ہندوؤں کے ذات پات کے نظام میں ویش اور شودر کے بعد آتے ہیں۔ یہ ہندوازم کے مذہبی نظام سے باہر کے لوگ ہیں۔اس لیے’شودر ‘جوہندو ازم میں چوتھی ذات ہے اور جس کا کام دیگر تین اعلیٰ ذات والوں کی خدمت بیان کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود سماجی طور پر شودر ذات والوں کا مقام دلت طبقے سے بہترہے اوریہی وجہ ہے کہ دلت خود کو ہندو کہلانا پسند نہیں کرتے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہندوسماج میں یہ طبقاتی نظام کب سے اور کیوں کر شروع ہوا ؟ اس ضمن میں مشہور مورخ ٹونی جوزف لکھتے ہیں کہ بھارت میں سب سے پہلے چھ ہزار سال قبل افریقی قبائل ہندوستان آئے اور جنگلات میں رہتے ہوئے آدی واسی طرز زندگی گزارنے لگے۔ یہی لوگ بھارت کے مول نواسی یعنی اصل باشندے کہلاتے ہیں۔ اس کے بعد تین ہزار سال قبل آریائی نسل کے لوگ ہندوستان آئے جو بعد میں برہمن کہلائے۔ برہمنوں نے خود کو سماج میں اعلیٰ، مقتدر اور مقدس منوایا۔ انہی لوگوں نے مول نواسیوں کو ورن ویوستھا (ذات پات) میں تقسیم کیا،جیسے چھتریہ، ویشیا، شودر، اتی شودر وغیرہ کئی ذاتوں میں۔ اتی شودر میں اور مزید شیڈول کاسٹ (درج فہرست ذاتیں) اور شیڈول ٹرائب (درج فہرست قبائل) ملازم پیشہ قبائل اور خانہ بدوش قبائل وغیرہ میں تقسیم در تقسیم ہوتے گئے یہاں تک کہ ہندوستانی سماج چھ ہزار سے زائد طبقوں یا ٹکڑوں میں تقسیم کر دیاگیا۔ساتھ ہی خواتین کو بھی شودر کے زمرے میں رکھ کر ان کو بھی سماج میں مساوایانہ حقوق سے محروم کردیا گیا۔آزادی سے پہلے اور اس کے بعد ڈاکٹر بھیم راؤامبیڈکر نے ان کے حقوق کے لیے موثر آواز اٹھائی اورآزاد ہندوستان میں آئین کی تدوین کرتے ہوئے دستور ہند میں ان کے مساویانہ حقوق کا بے حد خیال رکھا۔ اسی مساویانہ حقوق کی لڑائی آج تک جاری ہے اور یہی وجہ ہے کہ دلت خود کو ہندو کہلوانا نہیں چاہتے۔
دلت سماج کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر مختلف اوقات میں ملک کے الگ الگ مقامات پر مظاہرے،ریلیاں اوربیداری کے پروگرام منعقد ہوتے رہے ہیں۔اسی سلسلے کا ایک مظاہرہ دہلی کے جنتر منتر میں منعقد ہواجس میں انیس ریاستوں کے قبائلی نمائندوں نے شرکت کی تھی۔ان کا کہنا ہے کہ ملک کی آبادی میں تقریباً بارہ کروڑ کا حصہ رکھنے والے آدیواسیوں کے سامنے سوال مذہب کاہے۔قبائلی نمائندوں کا ماننا ہے کہ مردم شماری میں یا چاہے کہیں بھی کوئی فارم بھرنے کی بات آتی ہے تو مذہب کے کالم میں انہیں ٹرائبل یا Aboriginal Religion یعنی ‘پیدائشی مذہب’ چننے کا اختیار دیا جانا چاہیے۔وہ کہتے ہیں کہ 1951 میں جب آزاد ہندوستان میں پہلی مرتبہ مردم شماری ہوئی تو آدیواسیوں کے لیے مذہب کے کالم میں نویں نمبر پر’ ٹرائب’ تھا، جس کو بعد میں ختم کر دیا گیا۔ ان کا الزام ہے کہ اس کو ہٹانے کی وجہ سے آدیواسیوں کی گنتی الگ الگ مذہبوں میں بٹتی گئی جس کی وجہ سے ان کے طبقہ کو کافی نقصان ہوا اور ابھی بھی ہو رہا ہے۔بہار کے ایک کارکن ستیہ نارائن سنگھ نے بتایا کہ بہار کی آبادی میں چھ فیصد آدیواسی ہیں۔ملک میں ہم سب آدیواسی گونڈی، کویا پونیم، آدی دھرم، سرنا جیسے الگ الگ مذہبی طریقوں کو مانتے آ رہے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کسی کو مذہب کی پہچان نہیں ملی ہے۔ ان سب کے لیے حکومت ساتویں کالم میں ایک الگ مذہب کوڈ کا آپشن دے۔ اس کا نام ‘ٹرائبل مذہب ‘ہونا چاہیے تاکہ آدیواسیوں کی پہچان بچی رہے۔ان کا الزام ہے کہ اصلی باشندے کا آپشن ہٹاکر حکومت نے 1947 ہی سے ان کو مذہبی غلام بنانا شروع کر دیا تھا۔یہاں تک کہ ان کے مذہب کی الگ شناخت اب تقریباً ختم ہوچکی ہے،عرف عام میں انہیں ہندو ہی سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ اس کے حق میں نہیں ہیں۔
اسی طرح پچھلے دنوں ہندوؤں کی کانوڑ یاترا بہت موضوع بحث رہی جو نہ صرف ہندوستانی میڈیابلکہ بیرونی میڈیا میں بھی نشر کی گئی ،آج ہمیں اس کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ہندوعقائد کی روشنی میں کانوڑ یاترا ایک مقدس سفر ہے جسے شیو کے عقیدت مند گنگا کا مقدس پانی لانے کے لیے ہریدوار، گومکھ اور صوبہ اتراکھنڈ کے گنگوتری اور صوبہ بہار کے سلطان گنج کا رخ کرتے ہیں۔ اس یاتراکا تعلق ‘پران ‘کے سمندر منتھن سے ہے۔ امرت بننے سے قبل جب زہر باہر آنے لگا اور تپش کی وجہ سے دنیا گرم ہونے لگی تو شیو نے سارا زہر خود پینا قبول کر لیا اور جب وہ زہر پی چکے تو ان کے جسم کے اندر زہر کے منفی اثرات ظاہر ہونے لگے۔ تریتا یگ میں شیو کے عقیدت مند شاگرد ‘راون’ نے ان کا علاج کیا۔ انہوں نے کانوڑ کا استعمال کرتے ہوئے گنگا سے مقدس جل (پانی) لاکر پورامہادیو میں شیو کے مندر میں ڈال دیا۔ اس طرح شیو کو زہر کے منفی اثر سے راحت ملی۔اگر آپ ‘راون’ کوہندو عقائد کی روشنی میں دیکھیں گے تو یہ وہ شخص ہے جسے رامائن میں ایک بنیادی اساطیری حریف کردار یا’راکھشس‘کے طور پر پیش کیا گیا ہے، یہ لنکا کا باشاہ تھا۔اور جب آپ لفظ ’راکھشس‘ کی جانچ پڑتال کریں گے تو معلوم ہوگا کہ لغوی معنوں میں ’راکھشس‘ ایسے شخص کو کہاجاتا ہے جو قوی ہیکل، بد صورت اور نیچ ذات سے ہو۔تاریخ بتاتی ہے کہ جب برصغیر پاک و ہند میں آریاؤں کا نفوذ ہوا تو انہوں نے یہ نام یہاں کے قدیم باشندوں ،دراوڑ اور ان کی مخلوط نسل کے لوگوں کو دیا۔ ہندی دیو مالا میں راکھشس نیم دیوتائی قوت کے مالک ہیں۔ دیوتا فیاضی، بخشش، رحم دلی، سچائی کی صفات رکھتے ہیں اور بدی کی بیخ کنی کرتے ہیں۔ اس کے برعکس راکھشس محض شر کا مظاہرہ کرتے اور دیوتاؤں کے کام میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ نیز انسانوں کے دشمن ہیں اور انہیں بدی کی راہ پر لگاتے ہیں۔ آریائی قوم کے راجا اور دیگر قوم کے افراد جو اپنے آپ کو رنگ اور نسل کی بنیاد پر بھارت کی قوموں سے افضل مانتے تھے، دراوڈی قوم کے لوگوں کو جو آریاؤں کے دشمن مانے جاتے تھے، انہیں راکھشس کے نام سے موسوم کیا گیاہے۔ دوسری جانب ہندو مت میں’ تری مورتی ‘بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ تین دیوتاؤں برہما، وشنو اور شیو پر مشتمل ہیں۔ برہما ہندؤوں کے نزدیک خالق ہے۔ وشنو ربوبیت کا فریضہ انجام دیتاہے (یعنی پالنے والا)اور شیو فنا یعنی موت کادیوتا ہے۔ ہندوؤں کے نزدیک یہ حقیقی ہستیاں ہیں۔ یعنی یہ ہندؤوں کا عقیدۂ تثلیث ہے۔
گفتگو کے پس منظر میں جہاں ایک جانب ملک میں فی الوقت منوسمرتی کو نصاب تعلیم میں پڑھانے کی وکالت کی جارہی ہے وہیں دوسری جانب ہندو تصورات،مذہبی نظریات ،عقائد اور ذات پات پر مبنی ہندو طبقات اس بات کو ماننے کے لیے راضی نہیں ہیں کہ تمام مورتی پوجا کرنے والوں کوایک مذہب ‘ہندو’کے نام سے موسوم کیا جائے۔یہی وجہ ہے کہ دو سال پہلے14 ؍اپریل کو امبیڈکر جینتی کے موقع پر منعقد ایک تقریب میں جیتن رام مانجھی ، سابق وزیر اعلی بہارنے کہاتھا کہ میں رام میں یقین نہیں رکھتا۔ رام بھگوان نہیں تھے۔ رام، تلسی داس اور والمیکی کے ذریعہ اپنا پیغام دینے کے لیے تخلیق کیے گئے کردار تھے۔بعد میں اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مانجھی نے کہا، تلسی داس اور والمیکی نے رامائن لکھی تھی اور ان کی اس تخلیق میں کئی اچھے سبق ہیں، ہم ایسا مانتے ہیں۔ ہم تلسی داس اور والمیکی میں یقین رکھتے ہیں، رام میں نہیں۔یہ ہے ہندوستانی معاشرے میں موجود حددرجہ تضاد جس کے ہوتے ہوئے بظاہر ’ہندو‘ ایک قوم، ایک نظریہ اور عقیدے کے ماننے والے محسوس ہوسکتے ہیں لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔وہیں ہندو ستانی قوم میں یک رنگی اور اتحاد پیدا کرنے کے لیے ایک گروہ گزشتہ سو سال سے بہت ہی منظم انداز میں سرگرم عمل ہے اس کے باوجود آج تک وہ اندرون قوم کامیابی سے دوچار نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ جہاں ایک جانب ذاتی مفادات ہیں وہیں دوسری جانب انسانوں کے درمیان نظریہ مساوات اور تکریم انسانیت کا فقدان ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج کل کانوٹریاترا جو 1980تک بہت محدود تھی اور محض چند عقیدت مند اس میں حصہ لیتے تھے ،اس میں لاکھوں عقیدت مند وں کوحصہ لینے کے لیے راضی کیا جاتا ہے، اس کے لیے حکومتوں کی جانب سے آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں ،ان پر ہیلی کاپٹر سے پھول برسائے جاتے ہیں ۔اور جب گزشتہ دنوں اترپردیش حکومت کے فرمان کے بعد کہ کانوٹر یاترا کے تمام راستوں میں آنے والے ہوٹلوں کے مالکین اور سامان فروش اپنے نام کی شناخت کے ساتھ سامان بیچیں،حکم سامنے آیا توناقدین نے اس فیصلہ کو سیاسی مفاد کا معاملہ بتایا۔اس حکم کے تعلق سے اگرچہ وقتی طور پر کانوڑ یاترا کے راستے پر نام کی تختیاں لگانے پرسپریم کورٹ کی عبوری پابندی برقرار رہے گی۔ کیونکہ اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ ہمارا حکم واضح ہے، اگر کوئی اپنی مرضی سے دکان کے باہر اپنا نام لکھوانا چاہے تو ہم نے اسے نہیں روکا۔ ہمارا حکم تھا کہ نام لکھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔وہیں اتراکھنڈ اور مدھیہ پردیش حکومتوں کو ایک ہفتے میں جواب داخل کرنے کا وقت دیا گیا ہے، یوپی حکومت نے حلف نامہ داخل کیا ہے، اب اگلی سماعت 5 اگست کو ہوگی۔ فیصلہ نام کی شناخت کے حق میں آئے یا اس کے خلاف۔واقعہ یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے پس پشت اہل اقتدار کی کوشش ہے کہ یہ دلت سماج کسی طرح ان کی جانب متوجہ ہوجائے۔کیونکہ ابھی حالیہ 2024کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج نے یہ واضح کیا تھا کہ دلت سماج اترپردیش حکومت اور ملک میں برسراقتدار حکومت کے حق میں نہیں ہے۔لہٰذا ہندوستانی سماج اور ان کے طبقات کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا سلسلہ مختلف اقدامات کے ذریعہ بدستور جاری رہے گا۔ان حالات میں اخروی نجات اور ابدی زندگی کے عقائد سے مالامال ملت اسلامیہ کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کی سمجھ اور فہم کے ساتھ انسانوں کے عقائد ،افکار ونظریات اوراعمال کو صحیح رخ دیتے ہوئے عقیدہ توحید،رسالت اور آخرت کے تصور کو مکمل طور پر واضح کردے تاکہ انسانوں کی ایک بڑی آبادی مشکوک اور غیر مستحکم عقیدہ سے نجات حاصل کرتے ہوئے ارتقاء پذیری کی منزلیں طے کرے۔ ساتھ ہی ملک میں عدل و قسط اورامن و امان قائم ہواور انسان ایک مرتبہ ملنے والی زندگی کے نتیجہ میں حقیقی کامیابی و نجات سے ہم کنار ہوجائے۔
***

 

***

 اخروی نجات اور ابدی زندگی کے عقائد سے مالامال ملت اسلامیہ کے ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ حالات کی سمجھ اور فہم کے ساتھ انسانوں کے عقائد ،افکار ونظریات اوراعمال کو صحیح رخ دیتے ہوئے عقیدہ توحید،رسالت اور آخرت کے تصور کو مکمل طور پر واضح کردے تاکہ انسانوں کی ایک بڑی آبادی مشکوک اور غیر مستحکم عقیدہ سے نجات حاصل کرتے ہوئے ارتقاء پذیری کی منزلیں طے کرے۔ ساتھ ہی ملک میں عدل و قسط اورامن و امان قائم ہواور انسان ایک مرتبہ ملنے والی زندگی کے نتیجہ میں حقیقی کامیابی و نجات سے ہم کنار ہوجائے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024