
!ہندومت کو ہندوتوا سے بچاؤ
ارون شوری کی کتاب کا دوٹوک پیغام۔ ساورکر کا نظریاتی محاسبہ۔ سیاسی حلقوں میں کھلبلی
نئی دلی۔ (دعوت نیوز ڈیسک)
ہندوتوا نظریے کے معمار ونایک دامودر ساورکر پر سینئر صحافی اور سابق مرکزی وزیر ارون شوری کی تحریر کردہ ایک نئی کتاب نے بھارت کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ کتاب اس نظریے کو بے نقاب کرتی ہے جس کی وکالت اس شخص نے کی تھی جس کی یادیں بی جے پی کی موجودہ حکومت تازہ کر رہی ہے۔ بی جے پی شرمناک طور پر عرصہ دراز سے فراموش کردہ ساورکر کی شخصیت کو دوبارہ زندہ کرنے میں مصروف ہے تاکہ گاندھی جی کے تاریخی ورثے کو مٹایا جا سکے۔
شوری کی حالیہ کتاب "The New Icon: Savarkar and the Facts” میں ساورکر کے کام اور شخصیت کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ تجزیہ ساورکر کی تحریروں، برطانوی سرکاری ریکارڈوں اور دیگر تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ شوری نے اس کتاب میں ساورکر کی متنازعہ میراث پر نئی روشنی ڈالی ہے اور ہندومت کو ہندوتوا سے بچانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
ارون شوری جو اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں قائم تیسری بی جے پی حکومت میں وزیر رہ چکے ہیں، اپنی تحقیقاتی صلاحیتوں کے لیے مشہور ہیں۔ وہ نتائج تک پہنچنے سے پہلے تمام حقائق کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ اگرچہ وہ ماضی میں بی جے پی کے قریب سمجھے جاتے تھے لیکن ملک میں موجودہ صورتِ حال، جہاں مذہب کے نام پر نفرت پھیلائی جا رہی ہے اور آئینی اقدار کو کھلم کھلا پامال کیا جا رہا ہے، انہیں شدید پریشان کر رہی ہے۔
اہم سوالات اور ساورکر کی حقیقت
کیا ساورکر اور گاندھی لندن میں "دوست” کی حیثیت سے اکٹھے رہے، جیسا کہ ساورکر نے گاندھی کے قتل کے مقدمے میں دعویٰ کیا تھا؟
کیا وہ انڈمان جیل میں مسلمان جیلروں کے مبینہ ظلم و ستم کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف ہو گئے تھے؟
ان کی رحم کی درخواستیں برطانوی حکومت کو کیوں بھیجی گئیں؟
کیا انہوں نے بھارت چھوڑو تحریک کے دوران برطانوی حکومت کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی؟
کیا ساورکر ہی وہ شخص تھے جنہوں نے سبھاش چندر بوس کو وہ راہ دکھائی جس پر وہ بعد میں چلے؟
ارون شوری نے اپنی کتاب میں ساورکر کی تحریروں، تقاریر، بیانات اور برطانوی سرکاری ریکارڈز کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے ان سوالات کے جوابات فراہم کیے ہیں۔ انہوں نے برطانوی حکومت کے خفیہ دستاویزات کو کھنگال کر حیران کن حقائق سامنے لائے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس حقیقت کا بھی انکشاف کیا ہے کہ کس طرح آج ساورکر کو زندہ کر کے گاندھی کے ورثے کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیونکہ گاندھی کی شخصیت ہندوتوا کے علم برداروں کے لیے ایک مستقل رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
بی بی سی نے ارون شوری کا ایک طویل انٹرویو کیا جسے اس کے چینل پر نشر کیا گیا۔ اس انٹرویو میں نامور صحافی جُگل پروہت نے مصنف سے خصوصی گفتگو کی۔ کتاب کے 31 جنوری کو اجرا کے بعد ساورکر کے حامی شدید برہم نظر آ رہے ہیں کیونکہ "The New Icon” نے یہ ناقابلِ تردید حقیقت ثابت کر دی ہے کہ گاندھی کے قتل کا معاملہ ساورکر کے نظریے کے جوہر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔
ساورکر کے پیروکار ان کے آزادی کی جدوجہد میں کردار سے متعلق جھوٹے افسانے گھڑتے رہے ہیں، لیکن ارون شوری کا کہنا ہے کہ ساورکر نے عملی طور پر برطانوی حکومت کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کی، سوائے نوجوانی میں قتل اور تشدد کی وکالت کرنے کے۔ بعد میں انہوں نے برطانوی حکومت سے درخواست کی اور کہا:”میں آپ کے لیے مفید ثابت ہوں گا، میں عہد کرتا ہوں کہ میں آپ کا شکر گزار رہوں گا، آپ کو مجھ سے زیادہ وفادار کوئی نہیں ملے گا۔”
ساورکر کا "ہندو راشٹر” اور اس کی حقیقت
ساورکر کے نظریے کو رد کرتے ہوئے ارون شوری کا کہنا ہے کہ اگر بھارت نے ساورکر کے اسفار میں پیش کیے گئے اصولوں کے مطابق ہندو راشٹر تشکیل دیا تو یہ ایک چالاک اور فریب کار ریاست بن جائے گی، کیونکہ ساورکر کا ماننا تھا کہ ہندوؤں کو انتہائی چالاک، عیار اور موقع پرست بننا چاہیے۔ ارون شوری نے اپنی کتاب کے آخری صفحے میں اپیل کی ہے:
شوری نے کہا کہ ان کی کتاب میں تقریباً 600 حوالہ جات شامل ہیں جو اسے ساورکر کے کردار پر ایک مستند تحقیقی کتاب بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ساورکر ذات پات کے نظام کے خلاف تھے، لیکن وہ اس بات کے قائل تھے کہ مسلمان بھارت میں رہ تو سکتے ہیں مگر دوسرے درجے کے شہری کے طور پر۔
"مجھے یاد نہیں کہ اس موجودہ حکومت سے پہلے کسی اور حکومت نے ساورکر کے خیالات کو فروغ دیا ہو۔ مہاراشٹر کی سیاست میں اندرا گاندھی کے دور میں ان کے اعزاز میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا تھا اور واجپائی کے وقت پارلیمنٹ میں ان کی تصویر نصب کی گئی تھی مگر ان کے نظریات پر کبھی بات نہیں ہوئی تھی۔”
ساورکر کے مطابق بھارت کے شہری ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مذہبی عقائد، مقدس کتابیں، ہیرو اور دشمن سب ایک جیسے ہوں اور ان کے لیے بھارت ہی مقدس زمین ہو۔ لہٰذا ان کے مطابق مسلمانوں کا مقدس مقام عرب میں ہے اور پارسیوں کا ایران میں، اس لیے وہ بھارت کے مکمل شہری نہیں ہو سکتے۔ ارون شوری نے کہا:
"یہ ایک ایسا نظریہ ہے جسے مسلمانوں اور عیسائیوں کو خارج کرنے کے لیے جان بوجھ کر تشکیل دیا گیا تھا اور اس سے برطانوی حکومت کو فائدہ پہنچا جو بھارت کو تقسیم کرنا چاہتی تھی۔”
ساورکر کے تشدد کے فلسفے اور فرقہ وارانہ تقسیم کی وکالت سے گاندھی جی سخت نالاں تھے۔ ساورکر کو اس بات پر غصہ تھا کہ قوم پرستی کے علم بردار کے طور پر سب لوگ گاندھی کے پیچھے کھڑے ہیں، گاندھی کو ہندو اقدار کا حقیقی نمائندہ سمجھا جا رہا ہے جبکہ وہ خود ہندوتوا کی تبلیغ کر رہے تھے۔
1937 کے انتخابات میں 1,540 نشستوں پر انتخابات ہوئے جن میں ساورکر کی پارٹی کو صرف تین نشستیں ملیں، جبکہ کانگریس نے سات صوبوں میں حکومت بنائی۔ ساورکر کو یہ بات ناگوار گزری کہ بال گنگا دھر تلک کا وارث ہونے کے باوجود گاندھی نے قیادت حاصل کر لی۔ یہ مایوسی رفتہ رفتہ نفرت میں بدل گئی اور اس نفرت کا مرکز گاندھی بن گئے۔
گاندھی کے قتل میں ساورکر کا کردار
ارون شوری نے اس بات کا ذکر کیا کہ کپور کمیشن اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کے جواہر لال نہرو کو لکھے گئے خطوط میں کہا گیا کہ گاندھی کے قتل میں پونا کے ساورکری گروہ کا ہاتھ تھا۔ ناتھورام گوڈسے اور نرائن آپٹے ساورکر کے خاص پیروکار تھے۔
مقدمے میں ایک گواہ نے بتایا کہ جب آپٹے اور گوڈسے ساورکر سے مل کر دہلی گئے تو انہوں نے سنا:
"اب جبکہ ساورکر نے ہمیں برکت دے دی ہے، ہم ضرور کامیاب ہوں گے۔”
ساورکر اور آزاد ہند فوج
ساورکر کا یہ دعویٰ بھی جھوٹا ثابت ہوا کہ انہوں نے آزاد ہند فوج (INA) کا خاکہ تیار کیا تھا۔ سبھاش چندر بوس نے اپنی کتاب میں خود لکھا تھا کہ:
"اس آدمی سے کسی چیز کی توقع نہیں کی جا سکتی۔”
ارون شوری کی یہ کتاب "The New Icon” ساورکر کے جھوٹے دعووں اور تاریخی حقیقتوں کو بے نقاب کرتی ہے، اور ان کے نظریے کی حقیقت کو آشکار کرتی ہے جو آج بھی بھارت کی سیاست میں متنازعہ حیثیت رکھتا ہے۔
بی جے پی حکومت کا ردعمل
اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد بی جے پی اور ہندو قوم پرستوں نے ارون شوری پر شدید تنقید کی ہے۔ ساورکر کے حامیوں نے الزام لگایا ہے کہ مصنف نے تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے۔ تاہم، شوری کا مؤقف ہے کہ ان کی کتاب محض قیاسات پر نہیں بلکہ تاریخی حوالوں پر مبنی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے کی حکومتوں نے ساورکر کو یاد ضرور کیا لیکن کبھی ان کے نظریات کو مرکزی دھارے میں شامل نہیں کیا۔ بی جے پی کی حکومت نے ساورکر کے نظریات کو کھل کر اپنانا شروع کر دیا ہے، جو بھارت کے سیاسی منظرنامے میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔
ارون شوری کی "The New Icon: Savarkar and the Facts” صرف ایک تاریخی تجزیہ نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے کہ اگر ساورکر کے نظریات کو بنیاد بنا کر بھارت کی سیاست کو آگے بڑھایا گیا، تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں۔ یہ کتاب دانشور طبقے کے لیے ایک اہم مطالعہ ہے کیونکہ یہ محض ماضی کی کہانی نہیں بلکہ حال اور مستقبل پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔
یہ کتاب ایک طاقتور مکالمے کو جنم دے رہی ہے کہ آیا بھارت کو گاندھی کے جامع اور عدم تشدد پر مبنی نظریے کے تحت چلنا چاہیے یا ساورکر کے جارحانہ اور متنازعہ خیالات کو اپنانا چاہیے۔ شوری کی یہ تصنیف ہر اس قاری کے لیے ایک ضروری مطالعہ ہے جو بھارتی سیاست، تاریخ اور قوم پرستی کے بدلتے ہوئے رجحانات کو سمجھنا چاہتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 مارچ تا 15 مارچ 2025