ہندی ٹی وی کی صحافت، گراؤنڈ رپورٹنگ کے بجائے بیانیہ تشکیل دینے میں مصروف
،میڈیا تجزیہ نگار ونیت کمار کی تازہ تصنیف میں پبلک براڈکاسٹر دوردرشن کے بدلتے ہوئے چہرے کا تجزیہ
شہاب فضل، لکھنؤ
نیوز چینلوں پر موسیقی کے شور میں حقیقی خبریں غائب ۔برٹش پاتھے دنیا کا سب سے بڑا ملٹی میڈیا ریسورس
قدیم زمانے کے بڑے واقعات، حادثات، شخصیات، سیاحت اور سائنس و ثقافت وغیرہ کے فوٹیج سے استفادہ ممکن
یوٹیوب سے ریونیو کی بڑھتی ہوئی بھوک صحافت کے لیے خطرہ ہے۔ یہ بات دی وائر ہندی کے ایڈیٹر آشوتوش بھاردواج سے گفتگو کرتے ہوئے میڈیا تجزیہ نگار ونیت کمار نے کہی جنہوں نے حال ہی میں ‘‘میڈیا کا لوک تنتر’’ کے عنوان سے ہندی میں ایک کتاب تصنیف کی ہے جو بھارت میں میڈیا کے موجودہ منظر نامے کو سمجھنے میں مدد کرتی ہے۔ ونیت کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا کا مزاج سال 2014 سے نہیں بلکہ جن جن باتوں کے لیے آج ہم میڈیا کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں اس کے نشان ہمیں 2011 میں بھی دیکھائی دیتے ہیں۔ میڈیا کی بدلتی ہوئی شکل پر یہ دلچسپ گفتگو دی وائر کے یوٹیوب چینل پر حال ہی میں ہوئی۔ اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ونیت کمار کہتے ہیں کہ جو پارٹی آج مرکز میں برسر اقتدار ہے وہ تفریحی چینلوں پر 2012 اور 2013 میں بن چکی تھی۔ یعنی جو مواد آج ہم دیکھ رہے ہیں تفریحی چینلوں پر وہ مواد مذکورہ سالوں میں آنے لگا تھا۔ ونیت کمار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم اگر میڈیا کی بات کریں تو صرف نیوز چینلوں کی بات نہ کریں بلکہ اس میں تفریحی چینلوں کو بھی شامل کریں کیونکہ آج نیوز چینلوں کے پرائم ٹائم پر اچھا خاصا مواد تفریحی چینلوں سے ہی آتا ہے۔ ان کے بقول نیوز چینلوں پر اس بات کا خاصا دباؤ ہوتا ہے کہ کہیں ہمارے ناظرین ساس بہو کے سیریل یا ریئلٹی چینل کی طرف نہ چلے جائیں، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ نیوز چینلوں پر بھی موسیقی کی جھنکار سنائی دیتی ہے اور ناظرین کو فلمی انداز میں نیوز شو پیش کیے جا رہے ہیں، جن میں حقیقت یا صحافیانہ تجزیہ کے بجائے مخصوص بیانیہ تشکیل دینے پر زیادہ زور ہوتا ہے۔
دی وائر یو ٹیوب چینل پر اس بات چیت کے دوران ملک کے بڑے میڈیا گھرانوں کے ذریعہ فرضی خبروں کی نشر و اشاعت کا ذکر بھی آیا۔ مذکورہ کتاب میں ایک باب فرضی خبروں یا من پسند بیانیہ تشکیل دینے کی کوششوں کے لیے وقف ہے۔ ونیت کمار نے فرضی خبروں اور فرضی بیانیے کو عوام تک پہنچانے کی چند مثالیں بھی پیش کیں۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ غلط معلومات کو جان بوجھ کر عوام تک پہنچانے کی ایک مثال جون 2013 میں اتراکھنڈ کے کیدار ناتھ میں آنے والے سیلاب سے تعلق رکھتی ہے جب یہ فرضی خبر کچھ نیوز چینلوں اور ایک بڑے انگریزی اخبار میں آئی کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نے گجرات کے پندرہ ہزار شہریوں کو ایک ہی دن میں کیدار ناتھ سے بحفاظت نکال کر دہرادون پہنچا دیا۔ کیدارناتھ سے دہرادون دو سو اکیس کلومیٹر دور ہے اور ان کے بقول ایک دن میں پندرہ ہزار شہریوں کو کیدار ناتھ سے دہرادون پہنچانا ممکن ہی نہیں۔ ونیت کمار نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ حقائق کے بجائے بیانیہ تشکیل دینے کے رویہ سے صحافت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ڈیجیٹل نشانات مٹانے کی کوشش
اس گفتگو میں ونیت کمار نے یہ بھی بتایا کہ کئی ٹی وی چینلوں اور میڈیا اداروں نے اپنے مخصوص ڈیجیٹل فٹ پرنٹس، انٹرنیٹ اور اپنے آرکائیوز سے ہٹا لیے ہیں۔ یعنی پرانا مواد جو حقیقت پر مبنی نہیں ہے یا وہ حقیقت پر مبنی ہے مگر آج کی حکومت کے لیے نا پسندیدہ ہو سکتا ہے انہیں ڈیجیٹل منظر نامہ سے غائب کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ انڈیا ٹو ڈے نے 1992 میں بابری مسجد کے انہدام پر اپنے صفحہ اول پر سرخی لگائی کہ مسجد کا انہدام قومی شرم کا معاملہ ہے۔ انڈیا ٹو ڈے نے اس مواد کو اب اپنے آرکائیوز سے ہٹا لیا ہے۔ اسی طرح زی نیوز کے خصوصی پروگرام ڈی این اے کا بہت سا مواد غائب ملے گا۔ پبلک براڈکاسٹر ڈی ڈی نیوز کے بہت سے لنک غائب ہیں۔ ونیت کمار سوال کرتے ہیں کہ اگر وہ اتنی اچھی صحافت تھی تو پھر اس کا لنک کیوں ہٹایا جا رہا ہے؟
دوردرشن کا چہرہ بھی بدل رہا ہے
عام طور سے یہ مانا جاتا ہے کہ حکومت جس کی ہوتی ہے دوردرشن اسی کا ہوتا ہے۔ اتنا تو ٹھیک ہے مگر اب دوردرشن کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا ہے۔ ونیت کمار کے بقول ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ دوردرشن اب حکومت کی حصولیابیوں کو کم دکھاتا ہے اور اس کا فوکس کئی کئی دنوں تک اپوزیشن کو کمتر دکھانے پر رہتا ہے۔ وہ اپوزیشن کے رہنماؤں کو بدنام کرنے اور جمہوریت میں اپوزیشن کو ایک دشمن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ونیت کمار کہتے ہیں کہ پبلک براڈکاسٹر کے طور پر یہ شرمناک ہے، جہاں اب یوٹیوب کے تھمب نیل اور سوشل میڈیا کے ٹرول کی زبان استعمال ہو رہی ہے۔
ٹی وی چینلوں کی رپورٹنگ پر گفتگو کرتے ہوئے ونیت کمار نے کہا کہ گراؤنڈ زیرو کی رپورٹنگ کرتے وقت اب ٹی وی کے صحافی میم کی تلاش میں رہتے ہیں۔ دور دراز کے قصبوں میں جاکر اس قصبہ اور گاؤں کو تماشا بناتے اور وہاں کے باشندوں کو ایک نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں جن پر آپ ہنس سکیں۔ ان کے بقول ‘‘نوئیڈا فلم سٹی کے چینلز، اس پورے ویژول میڈیا کو ایک سرکس میں تبدیل کر رہے ہیں جہاں سنجیدہ صحافت نام کی کوئی چیز نہیں ہے’’۔
ٹی وی چینلوں کے ویژول کولاج پر بھی ونیت کمار نے تنقید کی۔ انہوں نے آج تک چینل کے ایک پروگرام کی مثال دیتے ہوئے کہا ‘‘ملک کی آزادی کے پچہتر سال پر اس چینل نے ایک پروگرام کیا۔ چینل نے برٹش پاتھے کے اوریجنل ویڈیو سے فوٹیج اٹھایا اور نہرو کے عین بغل میں پرائم ٹائم کے اپنے اینکر کو کھڑا کر دیا اور ان کو بلیک اینڈ وہائٹ کر دیا، یہ بتانے کے لیے کہ پنڈت جواہر لال نہرو سے کہیں زیادہ اہم ہمارے سب سے تیز چینل کا اینکر ہے’’۔ چینل اسے ایکسکلوزیو بتا رہا ہے حالانکہ یہ ویڈیو 2015 سے انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ دس پندرہ چیزوں کو اِدھر اُدھر سے جمع کرکے اور اسے ایکسکلوزیو بتانے سے ناظرین کبھی بھی یہ سمجھ نہیں پائیں گے کہ ان معلومات کا ابتدائی مآخذ کیا ہے۔ چینل نے گیٹی امیجیز کاپی کیں اور برٹش پاتھے کے ویڈیو کو مسخ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جس میڈیم کو عام شہریوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے بھارت میں متعارف کرایا گیا تھا وہ اب ہمیں جاہل بنا رہا ہے۔
یوٹیوب پر صحافیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ونیت کمار ٹیکنالوجی کا ثمرہ قرار دیتے ہیں مگر وہ اس سے آگاہ بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یوٹیوب ویڈیو کا تھمب نیل کچھ ہوتا ہے مگر مواد مختلف ہوتا ہے۔ ویوز، لائکس اور کمنٹس کے لیے بعض دفعہ کانٹینٹ کریئیٹرز کچھ بھی کرتے ہیں۔ وہ الگورتھم میں پھنس جاتے ہیں اور کسی بھی طرح سے ویڈیو کو وائرل کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ریونیو کی بھوک یوٹیوب یا سوشل میڈیا کی صحافت کے لیے خطرہ ہوسکتی ہے۔ ونیت کمار کے بقول یہ صحافت ہندی سماج کو گمراہ اور آلودہ کررہی ہے۔
برٹش پاتھے، قدیم اوریجنل ریلز اور ویڈیوز کا قیمی خزانہ
بھارت میں ویڈیو کیمرے، موبائل یا ٹی وی چینلوں کی آمد اور شہروں و قصبات میں ان کی توسیع کی تاریخ بہت زیادہ قدیم نہیں ہے۔ ویژول میڈیم میں یوروپ و امریکہ ہم سے کافی آگے رہے ہیں۔ اسی کا ایک نمونہ برٹش پاتھے آرکائیو ہے جو بھارت کے ناظرین کے لیے اب انٹرنیٹ پر دستیاب ہے۔ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے ویڈیو فوٹیج کے لیے برٹش پاتھے سے زیادہ درست کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔
برٹش پاتھے ڈاٹ کام، نیوز ریل آرکائیوز کا ایک ورچوئل اڈّہ ہے جہاں پر 1896 سے لے کر 1984 تک کی سوا دو لاکھ فلمیں یا ریلز موجود ہیں۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا ملٹی میڈیا ریسورس ہے۔ پاتھے نیوز برطانیہ کی ایک نیوز کمپنی تھی، جسے چارلس پاتھے نام کے ایک شخص نے شروع کیا تھا۔ خاموش فلموں کے عہد کا یہ ایک انوکھا ادارہ تھا۔ پاتھے نیوز کو اب برٹش پاتھے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی نیوز فلم اور موویز کو پوری طرح ڈیجیٹلائز کردیا گیا ہے جو آن لائن دستیاب ہیں۔ دنیا کے بڑے واقعات، حادثات، شخصیات، سیاحت اور سائنس و ثقافت وغیرہ کے فوٹیج یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔
فلسطین میں مغربی میڈیا کا مجرمانہ کردار
مقبوضہ فلسطین میں اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر سفیر فرانسیسکا البانیز نے اپنے ایک بیان میں جسے ایکس پر پوسٹ کیا گیا ہے، کہا کہ ‘‘غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس صدی کا سب سے بڑا شرمناک پہلو ہے۔ یہ قتل عام میڈیا کے مجرمانہ کوراپ کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ نسل کش ریاست کی حرکات کا دفاع کرنے میں کارپوریٹ مغربی میڈیا کے کردار کی کوئی مثال نہیں ملتی’’۔ کمینٹ سیکشن میں متعدد لوگوں نے البانیز کی جرأت کو سراہا ہے۔
ڈبل ڈاؤن نیوز پر اپنے ساڑھے گیارہ منٹ کے ویڈیو میں محترمہ البانیز نے کہا کہ فلسطینوں کی نسل کشی کے لیے اقوام متحدہ کو اسرائیل کو معطل کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ آزاد میڈیا ادارے ہیں جن کی بدولت ہی ہمیں معلوم ہو رہا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کس طرح کے جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے۔
یوٹیوب کریئر آسان نہیں
ابھی حال ہی میں نلنی اوناگر نام کی ایک خاتون یوٹیوبر نے یوٹیوب کریئر میں ناکامی کے بعد یوٹیوب چھوڑنے کا اعلان کیا۔ ایکس پر ان کی پوسٹ اور اس سے متعلق خبر وائرل ہوگئی، جس میں نلنی نے کہا تھا کہ انہوں نے پکوان پر مبنی اپنے چینل کے لیے تین سال میں دو سو پچاس سے زائد ویڈیوز بنائے مگر انہیں امید کے مطابق مقبولیت نہیں ملی۔ انہوں نے ویڈیوز تیار کرنے کے لیے کیمرے وغیرہ پر آٹھ لاکھ روپے صرف کیے مگر فائدہ صفر ہوا۔ اب انہوں نے اپنے ویڈیوز ڈیلیٹ کرنے اور چینل بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایکس پر انہوں نے اپنے کیمرے اور آلات وغیرہ کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔
بعد کی پوسٹ میں انہوں نے یوٹیوب کی ناکامی سے حاصل ہونے والے سبق کو ان لفظوں میں بیان کیا ہے: اگر آپ یوٹیوب چینل شروع کر رہے ہیں تو ابتداء میں بہت مہنگا اور فینسی سیٹ اپ نہ رکھیں، مہنگے آلات نہ خریدیں، اپنے چینل کا پروموشن نہ کریں، اسے خود بخود بڑھنے دیں، کسی ایڈیٹر کی خدمات لینے کے بجائے ایڈیٹنگ کے مبادیات خود سیکھیں اور آمدنی کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار نہ کریں۔
نلنی کے یہ مشورے درست ہیں۔ سوشل میڈیا، الگورتھم سے آگے بڑھنے والا میڈیم ہے اور ابتدا میں اس میں سرمایہ لگانے سے بھی بچنا چاہیے۔ چونکہ یوٹیوب ایک آڈیو ویژول میڈیم ہے اس لیے ایڈیٹنگ، آواز، اسکرپٹ اور ویژول کے مرکّب سے اگر مجموعی طور پر ایک دلکش پرزنٹیشن سامنے نہ آئے تو اسے کوئی بھی دیکھنا کیوں پسند کرے گا؟ ایک اہم بات یہ بھی کہ ڈرائیونگ اور سوئمنگ کی طرح یوٹیوب کرتے ہوئے اپنے تجربہ سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے اور رفتہ رفتہ ویڈیو بہتر ہوتی جاتی ہے، جس سے کچھ برسوں کے بعد کامیابی کا امکان پیدا ہوتا ہے، بشرطیکہ مجموعی پیشکش، مواد اور ویژول دونوں اعتبار سے پرکشش ہو جائے اور وہ ایک عام ناظر کو باندھ کر رکھ سکے۔
اِن شارٹس کے بانیوں کو ایوارڈ سے نوازا گیا
صرف ساٹھ لفظوں میں خبریں پیش کرنے والے موبائل ایپ اِن شارٹس کے بانی اور چیئرمین اظہر اقبال، شریک بانی دیپت پُرکایستھ اور انونے پانڈے کو ای فور ایم انفلوئنسر آف دی ایئر ایوارڈ 2023 سے نوازا گیا ہے۔ مذکورہ تینوں افراد نے بھارت میں اپریل 2013 میں یہ ایپ لانچ کیا تھا جس کا بنیادی مقصد قارئین کے وقت کی بچت کرتے ہوئے ان کے لیے مختصر خبریں پیش کرنا ہے۔ یہ ایوارڈ ان افراد کو دیا جاتا ہے جو انڈسٹری میں تبدیلیاں لاتے ہیں اور نئی ٹیکنالوجی کے استعمال سے مزید ترقی کی راہ ہموار کرتے ہیں۔
ویب سائٹ سماچار فار میڈیا کے مطابق مذکورہ ایپ کو دس ملین سے زیادہ بار ڈاؤن لوڈ کیا گیا اور کئی سرمایہ کاروں نے اس کے لیے فنڈز بھی دیے۔ اظہر اقبال نے پبلک کے نام سے ایک لوکیشن پر مبنی سوشل نیٹ ورکنگ ایپ بھی لانچ کیا ہے جس کا مقصد مقامی کمیونٹیوں کو جوڑنا ہے۔ انہیں اس سے قبل فوربس انڈیا تھرٹی انڈر تھرٹی اور میڈیا انٹریپرینئر کے اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔
آلٹ نیوز کے بانی کو ہائی کورٹ سے عبوری راحت
آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو الٰہ آباد ہائی کورٹ سے عبوری راحت مل گئی ہے۔ ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ نے محمد زبیر کو چھ جنوری تک گرفتار کرنے سے غازی آباد پولیس کو روک دیا ہے۔ ان کے خلاف گزشتہ ماہ متنازعہ یتی نرسنگھانند کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے پر ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ محمد زبیر کے وکیل نے عدالت میں دلیل دی کہ اس پوسٹ کا مقصد نرسنگھا نند کے خلاف کسی کو تشدد کے لیے اکسانا نہیں بلکہ اس کا مقصد پولیس کو آگاہ کرنا اور قصوروار شخص کے خلاف کارروائی کے لیے زور دینا تھا۔
اتر پردیش میں سوشل میڈیا پر فرضی خبروں اور سائبر کرائم کی روک تھام کی مہم
اتر پردیش پولیس نے وہاٹس ایپ، ٹیلی گرام اور سوشل میڈیا پر فرضی خبروں اور سائبر جرائم کی روک تھام کے لیے ڈیجیٹل واریئر تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) مسٹر پرشانت کمار نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان رضاکاروں یعنی ڈیجیٹل واریئرز کو پولیس تھانے اور چوکیوں سے جوڑا جائے گا تاکہ چھوٹے واقعات کسی بڑی ناگہانی کا سبب نہ بن سکیں۔ اسکولوں اور کالجوں میں سائبر کلب بھی قائم کرنے کا منصوبہ ہے جہاں ورکشاپس منعقد کیے جائیں گے اور پولیس کی مدد کے لیے رضاکاروں کو تربیت دی جائے گی۔
ڈی جی پی کے بقول اس اقدام کے پس پشت یہ بات بھی ہے کہ اتر پردیش کے پریاگ راج میں مہا کنبھ ہونے والا ہے جہاں ڈیڑھ ماہ کے دوران لاکھوں لوگوں کے آنے کی امید ہے۔ ڈیجیٹل واریئرز مدد کریں گے کہ اس دوران لوگوں کو کم سے کم مشکلات پیش آئیں، سوشل میڈیا پر کوئی افواہ نہ پھیلے اور سائبر جرائم کی بھی روک تھام ہو۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 دسمبر تا 04 جنوری 2024