ہندی کی محبت میں انگریزی سے نفرت: آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایجنڈا

مہاراشٹر میں پہلی جماعت سے ہندی کے لزوم کا منصوبہ ناکام

تحریر: راجندر ڈولکے
مراٹھی ترجمہ: ڈاکٹر ضیاء الحسن ناندیڑ

حال ہی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی میں منعقدہ ایک کتاب کی رسمِ اجراء کے موقع پر کہا:
’’آج جو لوگ انگریزی بولنے پر فخر کرتے ہیں، کل انہیں اس پر شرمندگی محسوس ہوگی۔‘‘
ان کے اس بیان پر حسبِ سابق سیاسی ہنگامہ برپا ہوا، لیکن اس پر تعجب نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ انگریزی زبان کو مکمل طور پر ختم کر کے سنسکرت یا ہندی کو ملک کی ’’قومی زبان‘‘ قرار دینا دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کے ’’ہندو راشٹر‘‘ کے منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے، جس پر بتدریج عمل ہو رہا ہے۔
گولوالکر گرو نے اپنی کتاب میں اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق کوئی بھی قوم پانچ اہم اجزاء سے مل کر بنتی ہے:
جغرافیائی حدود (Country)
نسل (Race)
مذہب (Religion)
ثقافت (Culture)
زبان (Language)
("We or Our Nationhood Defined”، صفحہ 60)
آگے چل کر انہوں نے اس کی مزید تشریح اپنی دوسری کتاب Bunch of Thoughts میں کی ہے (صفحات 103 تا 107)۔ انگریزی زبان کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
’’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ثانوی زبان کے طور پر انگریزی کا استعمال جاری رہنا چاہیے۔ چونکہ زبان باہمی تعلقات قائم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہے، اس لیے انگریزی اپنے ساتھ اپنا کلچر اور طرزِ زندگی بھی لے کر آتی ہے۔ غیر ملکی طرزِ معاشرت کو پنپنے دینا گویا اپنی معاشرت اور مذہب کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اس لیے انگریزی زبان کو اپنانا اپنی صلاحیتوں کے اصل منبع سے منہ موڑنا ہوگا۔ انگریزوں نے اپنے اقتدار کے ساتھ اپنی زبان بھی ہم پر زبردستی مسلط کر دی تھی۔ چونکہ ہم انگریز حکم رانوں سے آزادی حاصل کر چکے ہیں، اب ہمیں انگریزی سے بھی چھٹکارا حاصل کر لینا چاہیے۔ غیر ملکی دورِ اقتدار میں اس زبان کو جو مقام حاصل تھا، اسے موجودہ دور میں برقرار رکھنا ذہنی غلامی کی علامت ہے۔ دنیا کی نگاہوں میں یہ ہمارے قومی وقار پر دھبہ ہے۔ ہمارے ملک سے انگریزی ختم ہو جائے گی، اس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں۔‘‘
چونکہ بھارتی عوام انگریزی کا استعمال ثانوی زبان (Co-language) کے طور پر کرتے ہیں، گولوالکر کی ناراضگی اس جملے سے ظاہر ہوتی ہے:
’’ہندوستانی زبانوں کی جو اصل دشمن زبان ہے، وہ صرف انگریزی ہے۔‘‘ (صفحہ 105)
ان کا مطالبہ ہے کہ انگریزی کو مکمل طور پر ختم کر کے سنسکرت کو ملک کی قومی زبان بنایا جائے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’تمام زبانوں کی رانی اور دیوتاؤں کی بانی سنسکرت ہی سے ساری زبانیں تحریک لیتی ہیں۔ یہ زبان کافی متمول ہے۔ اس کے تقدس کی وجہ سے ملک کے سارے کاروبار صرف اسی زبان میں کیے جا سکتے ہیں۔‘‘ (صفحہ 104)
جب ہمارے وزیر داخلہ یہ کہتے ہیں کہ:
’’ہم اپنے ملک کا سارا کاروبار اپنی زبان میں چلائیں گے‘‘
تو ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ سنسکرت کی طرف ہوتا ہے، یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں۔

سنسکرت کو ملک کی قومی زبان بنانا عملی طور پر ممکن نہیں، اس پر تبصرہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ اگرچہ سنسکرت قدیم روایات اور واقعات کا اہم ماخذ ہے اور اس کا مطالعہ ضروری بھی ہے، لیکن اس پر کسی کو اعتراض نہیں۔
البتہ ایک ایسی زبان جو قواعد کے سخت اصولوں میں جکڑی ہوئی ہو اور جو عوام کی روزمرہ بول چال سے تقریباً غائب ہو چکی ہو، وہ ’’دیو بھاشا‘‘ (آسمانی زبان) آخر کس طرح اس ملک کے ان کروڑوں عام شہریوں کی زبان بن سکتی ہے جو زمین پر بستے ہیں؟
آیا یہ ملک سنسکرت کے چند ماہرین کا ہے یا کروڑوں عام بھارتی شہریوں کا؟
جس ملک میں یہ بحث جاری ہو کہ سنسکرت مر چکی ہے یا زندہ ہے، ایسی زبان کو قومی زبان قرار دینے کے بعد کس قسم کی مزاحیہ صورت حال پیدا ہو سکتی ہے، اسے بیان کرنے کے لیے اچاریہ اترے اور پول دیش پانڈے جیسے ذہین طنز و مزاح نگاروں کی ضرورت ہوگی۔
شاید گروجی بھی سنسکرت کی موجودہ صورت حال سے واقف تھے، اسی لیے وہ لکھتے ہیں:
’’بدقسمتی سے آج سنسکرت کا چلن نہیں رہا۔ اس لیے سنسکرت کو اس کا پرانا مقام ملنے تک ہماری سہولت کی خاطر ہندی زبان کو اولیت دی جانی چاہیے۔ البتہ ہندی کی ساخت، دیگر ہندوستانی زبانوں کی طرح، سنسکرت اتپن (سنسکرت اصل) ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک کی ایک بہت بڑی تعداد ہندی بولتی ہے۔ دیگر زبانوں کی بہ نسبت، بولنے اور سیکھنے میں یہ آسان ہے۔ اس لیے قومی اتحاد اور خودداری کے لیے ہمیں صرف ہندی کو اپنانا چاہیے۔ دیگر زبانوں پر ہندی سبقت حاصل کر رہی ہے یا ان زبانوں پر حملہ آور ہے، یہ کہنا دراصل مفاد پرست سیاست دانوں کی بنائی ہوئی کہانیاں ہیں۔‘‘
اب یہ بات بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے کہ مہاراشٹر کے اسکولی نصاب میں پہلی جماعت سے ہندی شامل کرنے پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے۔ دراصل اس کے پسِ پردہ ’ہندی راشٹر‘ بنانے کا آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایک اہم ایجنڈا ہے۔ ’ہندو راشٹر‘ کی قومی زبان ہندی ہوگی۔ ملک سے انگریزی کو نکال باہر کرنے کی کوشش سنگھ اور بی جے پی کے ایجنڈے کا ایک حصہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سیاسی وجوہات بھی ممکن ہیں۔
ہمارے ’وشو گرو‘ جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو مختلف وجوہات کی بنا پر طنز کا نشانہ بنتے ہیں، خاص طور پر ان کے رویّے، طرزِ عمل اور انگریزی دانی پر۔ وزیر داخلہ کے مذکورہ بالا بیان پر جب شدید عوامی رد عمل ظاہر ہونے لگا تو بی جے پی کے تشہیری ونگ کی جانب سے وضاحت کی گئی:
’’چونکہ مخالفین وزیراعظم کی انگریزی دانی کا مذاق اڑا رہے تھے، اس لیے وزیر داخلہ نے یہ بیان دیا۔‘‘
ایک طرف وزیراعظم کی انگریزی کا یہ حال ہے، تو دوسری طرف لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی ہیں، جو بہت روانی سے، صاف اور شستہ انگریزی بولتے ہیں۔ وہ کبھی ہندی میں تو کبھی انگریزی میں تقریر کرتے ہیں، البتہ انگریزی ان کے لیے زیادہ فطری زبان ہے۔ انگریزی تقریر کے دوران لوک سبھا میں شور و غل نسبتاً کم دیکھنے کو ملتا ہے اور ذہین ناظرین فوراً اس فرق کو محسوس کر لیتے ہیں۔ مخالفین کو ان کی انگریزی سمجھنے میں دقت ہوتی ہے۔ راہل گاندھی کی اسی خوبی کی وجہ سے سوشل میڈیا پر لوگ ان کی تعریف کرتے ہیں۔ شاید ان تعریفوں کو پسند نہ کرنا بھی وزیر داخلہ کے بیان کی ایک ممکنہ وجہ ہو، اگرچہ یہ محض ایک قیاس ہے جو ایک فطری امر ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اچھی انگریزی بولنے کا ذہانت یا لیاقت سے کوئی خاص تعلق نہیں۔ ہمارے وزیراعظم اس کی واضح مثال ہیں، کیونکہ انہوں نے زبان کی تمام رکاوٹوں کو عبور کر کے وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک رسائی حاصل کی۔
چاہے ہم مانیں یا نہ مانیں، ہمارے ملک میں انگریزی بولنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے علمی میدانوں کی ترقی میں انگریزوں اور انگریزی زبان کا نمایاں کردار رہا ہے۔ کئی اہم علوم صرف انگریزی زبان کے توسط سے ہم تک پہنچے۔
ہندوستانی عوام اب یہ تسلیم کر چکی ہے کہ اپنے علوم کی ترویج کے لیے انگریزی کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
"I am the Shivaji of Marathi language”
وشنو شاستری چپلونکر نے ایک مشہور جملہ انگریزی میں کہا تھا، نیائے مورتی راناڈے انگریزی میں لیکچر دیا کرتے تھے، لوک مانیہ تلک نے The Orion اور The Arctic Home in the Vedas جیسی معروف کتابیں انگریزی میں لکھیں۔
ایم ایم پی وی کانے نے اپنی کتاب Dharma Shastra
(پانچ جلدیں) بھی انگریزی میں لکھی تھیں۔
ماہر لسانیات سنیتی کمار چٹرجی کو ان کے انگریزی میں لکھے گئے تحقیقی مقالے The Origin and Development of the Bengali Language پر ڈی لِٹ سے نوازا گیا۔
ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں۔
انگریزی زبان ہی نہیں، انگریزی ادب کا بھی ہمارے ادیبوں پر گہرا اثر پڑا ہے۔
جدید مراٹھی نظم کے بانی کیشو سُت کی شاعری پر انگریزی نظموں کا اثر واضح ہے۔ یہی بات مراٹھی کہانی، ناول اور ڈرامے پر بھی صادق آتی ہے۔ مراٹھی مصنفین کے لیے انگریزی زبان کی ایسی کشش ہے کہ جب تک وہ اپنی تحریروں میں انگریزی مفکروں کے چند اقتباسات یا اقوال نہ شامل کریں، انہیں اپنی قابلیت پر مہرِ تصدیق ثبت ہوتی محسوس نہیں ہوتی۔
ہندوستانی زبانوں، خاص طور پر مراٹھی ادب کی ترقی میں انگریزی زبان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مراٹھی ادب کی ممتاز شخصیت مرڈھے کر لکھتے ہیں:
’’ہم انگریزی کے فیض سے پختہ تو ضرور ہوئے ہیں مگر ہمیں اور زیادہ پختہ بننا چاہیے۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ وہ مراٹھی ادیبوں سے مغربی ادب کے گہرے مطالعے کی توقع رکھتے تھے۔
مختصر یہ کہ انگریزی زبان کا ہمیں احسان مند ہونا چاہیے۔ آج یہ زبان ہمارے معاشرے میں اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اس کے بغیر کسی کاروبار کا تصور ممکن نہیں۔ بعض مراٹھی الفاظ کے بجائے انگریزی متبادلات فوراً ذہن میں آ جاتے ہیں، اسی لیے ہم اکثر انگریزی الفاظ کو قوسین میں لکھتے ہیں۔
ہمارے بہت سے افرادِ خانہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونی ممالک جاتے ہیں۔ ان کے پی اے، سکریٹری اور وہ خود بھی مختلف ممالک کا دورہ کرتے ہیں۔ اگر اس وقت انہیں انگریزی بولنے میں جھجک محسوس ہونے لگے تو بین الاقوامی گفت و شنید ممکن نہ ہوگی۔
انگریزی ہی کی بدولت دیگر ممالک سے بہتر تعلقات قائم ہوتے ہیں۔
ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ جو لوگ انگریزی سے واقف ہوتے ہیں انہیں ملازمتوں کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں اور ان کی آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ نئی نسل کوشش کر رہی ہے کہ وہ معیاری انگریزی سیکھ کر رواں طریقے سے گفتگو کر سکے۔
ان تمام باتوں پر غور کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نہ تو انگریزی کو سر پر بٹھایا جائے اور نہ ہی اس سے نفرت کی جائے، بلکہ اعتدال کا رویہ اپناتے ہوئے ہمیں دوسری زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی سیکھنی چاہیے، کیونکہ اس میں ملک کی ترقی اور بھلائی مضمر ہے۔
بشکریہ: روزنامہ لوک ستا، مورخہ ۲۸ جون ۲۰۲۵

 

***

 مہاراشٹر کے اسکولی نصاب میں پہلی جماعت سے ہندی شامل کرنے پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے۔ دراصل اس کے پسِ پردہ ’ہندی راشٹر‘ بنانے کا آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایک اہم ایجنڈا ہے۔ ’ہندو راشٹر‘ کی قومی زبان ہندی ہوگی۔ ملک سے انگریزی کو نکال باہر کرنے کی کوشش سنگھ اور بی جے پی کے ایجنڈے کا ایک حصہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سیاسی وجوہات بھی ممکن ہیں۔ہمارے ’وشو گرو‘ جب غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں تو مختلف وجوہات کی بنا پر طنز کا نشانہ بنتے ہیں، خاص طور پر ان کے رویّے، طرزِ عمل اور انگریزی دانی پر۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 27 جولائی تا 02 اگست 2025