ہند- ایران تعلقات مزید مستحکم

حالیہ دورہ ایران سے دونوں ممالک کے تجارتی، اقتصادی اور ثقافتی کوششوں میں پیش رفت

اسد مرزا

فارسی ،بھارت کی نو کلاسیکی زبانوں میں سے ایک کے طور پر شامل کرنے کا فیصلہ :وزیر خارجہ ایس جے شنکر
’’وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا پچھلے دنوں ایران کا دورہ ایک اہم سفارتی مصروفیت تھی۔ اس دورے کا مقصد علاقائی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے علاوہ دو طرفہ تعلقات کے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی پہلوؤں کو مزید مضبوط بنانا تھا۔‘‘
اسرائیل-حماس جنگ کی وجہ سے بحیرۂ احمر میں بحران بڑھنے کے بعد، بھارت نے ملک کے تجارتی اور تزویراتی مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے اہم علاقائی ممالک تک سفارتی رابطہ شروع کر دیا ہے۔ یہ رسائی مغربی طاقتوں اور اسلامی دنیا کے درمیان تنازعہ میں غیرجانبداری کی بنیاد پر چلتی ہے جس میں بھارت بحیرہ احمر میں امریکہ کی زیر قیادت کثیر القومی بحری اتحاد میں شامل نہیں ہوا ہے جبکہ وہ حوثیوں کے تشدد پر تنقید کرتا ہے۔اس پس منظر میں، وزیر خارجہ ایس جے شنکر کے تہران کے حالیہ دورے کا مقصد بحیرہ احمر میں مبینہ طور پر ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں کے بڑھتے ہوئے حملوں پر بھارت کی تشویش کا اظہار کرنا تھا، جسے انہوں نے ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ اپنی بات چیت کا محور بنایا۔وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بحیرہ احمر، خلیج عدن کا مسئلہ اور وہاں تشدد اور عدم استحکام ان چیزوں میں شامل تھے جن پر بات ہوئی ہے ، کیونکہ بھارت کو ’پوری صورت حال پر گہری تشویش ہے‘۔
گزشتہ ہفتے امریکہ اور برطانیہ دونوں نے یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے فضائی حملے شروع کیے ہیں۔ اپنی طرف سے بھارت بھی بحیرہ احمر میں ابھرتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ 11 جنوری کو جے شنکر اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے درمیان فون پر بات چیت میں بھی یہ مسئلہ سامنے آیا کیونکہ بھارت اور اس جیسے دیگر ممالک کو شدید تشویش ہے کہ مذکورہ تنازعہ یورپ کے ساتھ ساتھ ایشیائی تجارت پر بھی زیادہ اثر ڈال سکتا ہے۔نتیجتاً یہ چین کی تنظیم نو کا باعث بن سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یمن میں حوثیوں کے ملیشیا کے ساتھ قریبی روابط ہیں جنہوں نے نومبر کے وسط سے بحیرہ احمر کے راستے چلنے والے جہازوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ جے شنکر کے دورے کا ایک اہم محرک بھارت سے منسلک کئی جہازوں پر حالیہ حملے بھی تھے۔
بھارت کے قرب و جوار میں بحری جہازوں پر حملوں کو بین الاقوامی برادری کے لیے ‘شدید تشویش’ کا معاملہ قرار دیتے ہوئے، ایس جے شنکر نے تہران میں کہا کہ اس طرح کی دھمکیوں کا بھارت کی توانائی اور اقتصادی مفاد پر براہ راست اثر پڑتا ہے کیونکہ انہوں نے اس ‘مضبوط صورتحال’ پر زور دیا ہے۔انہوں نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبداللہیان کے ساتھ وسیع سطح پر بات چیت کے بعد ایک مشترکہ پریس بیان میں کہا کہ’’حال ہی میں بحر ہند کے اس اہم حصے میں بحری تجارتی ٹریفک کی حفاظت کو لاحق خطرات میں بھی واضح اضافہ ہوا ہے۔‘‘انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ ضروری ہے کہ بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے والے مسئلے کو’جلد از جلد حل کیا جائے‘کیونکہ وہ مصروف ترین تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔
جے شنکر نے ایران کے سڑکوں اور شہری ترقی کے وزیر مہرداد بازرپاش سے بھی ملاقات کی اور اسٹریٹجک طور پر اہم’ چابہار بندرگاہ ‘پر طویل مدتی تعاون کے فریم ورک کے قیام پر تفصیلی اور نتیجہ خیز بات چیت کی۔ اس دورے کے دوران، 15 جنوری کو، بھارت اور ایران نے چابہار بندرگاہ کی مزید ترقی کے لیے ایک معاہدے پر دستخط بھی کیے تھے۔
ایران کے جنوبی ساحل پر صوبہ سیستان- بلوچستان میں واقع چابہار بندرگاہ کو، بھارت اور ایران مشترکہ طور پر روابط اور تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ بھارت علاقائی تجارت کو فروغ دینے کے لیے بندرگاہ کے منصوبے پر زور دے رہا ہے، خاص طور پر افغانستان سے اس کے رابطے کے لیے تاکہ بہتر نتائج سامنے آسکیں۔
قبل ازیں، جے شنکر نے 2021 میں تاشقند میں ہونے والی ایک کنیکٹیویٹی کانفرنس میں چابہار بندرگاہ کو ایک اہم علاقائی ٹرانزٹ ہب کے طور پر پیش کیا تھا۔ بندرگاہ کو بین الاقوامی شمالی-جنوبی ٹرانسپورٹ کوریڈور (INSTC) منصوبے کے لیے ایک اہم مرکز کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔یاد رہے کہ INSTC پروجیکٹ بھارت، ایران، افغانستان، آرمینیا، آذربائیجان، روس، وسطی ایشیا اور یورپ کے درمیان مال کی نقل و حمل کے لیے 7,200 کلومیٹر طویل کثیر موڈ ٹرانسپورٹ پروجیکٹ ہے۔
اسی طرح ثقافتی تعلقات کو گہرا کرنے کے لیے ایک اہم اقدام میں، ایس جے شنکر نے اعلان کیا کہ حکومت ہند نے نئی تعلیمی پالیسی کے تحت فارسی کو بھارت کی کلاسیکی زبانوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔جے شنکر نے ایران اور بھارت کے درمیان ثقافتی، ادبی اور لسانی روابط کو اجاگر کرتے ہوئے کہاکہ ’حکومت ہند نے فارسی کو بھارت کی نو کلاسیکی زبانوں میں سے ایک کے طور پر ہماری نئی تعلیمی پالیسی میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘جے شنکر نے یہ بات پچھلے دنوں اپنے ایرانی ہم منصب ایچ امیر عبداللہیان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کہی۔
بتادیں کہ بھارتی وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ ایران ان سفارتی کوششوں کا حصہ تھا جو علاقائی طور پر بھارت کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے تیز کی گئی ہیں۔حالانکہ بھارت میں شیعہ آبادی سنی مسلمانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس کے باوجود، بھارتی حکومت ہمیشہ ایران اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے اور توازن قائم کرنے میں کامیاب رہی ہے،عالمی سطح پر ان دونوں ممالک کو شیعہ اور سنی برادریوں کے لیڈروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس سفارتی توازن نے ہمیشہ بھارت کے فائدے کے لیے کام کیا ہے، اس کے علاوہ اس سے اسے علاقائی مراعات اور طاقت بھی حاصل ہوئی ہے۔
علاقائی سطح پر بھارت نے ہمیشہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو اہم ترجیح دی ہے۔ چونکہ یہ ملک اسے وسطی ایشیائی جمہوریہ اور افغانستان کے لیے ایک گیٹ وے پیش کرنے کے علاوہ، بھارت کو تیل فراہم کرنے والا ایک قابل بھروسہ ملک بھی رہا ہے، اور وہ بھی ایک سازگار روپے کی ادائیگی کی بنیاد پر فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔اس لیے وزیر خارجہ کے دورے کے دوران جن امور پر بات کی گئی ان میں بھارت اور ایران کے درمیان پائیدار تعلقات کے تمام پہلوؤں کو بھی شامل کیا گیا، کیونکہ ان میں علاقائی سلامتی، تجارت و ترقی اور ثقافتی تعلقات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ فارسی سے متعلق اعلان بھی وقت کے مطابق تھا اور اس کا مقصد ملک میں مسلم اقلیت کو اثر انداز کرنا تھا اور یہ تاثر دینا تھا کہ موجودہ حکومت مسلمانوں کے جذبات کا خیال بھی رکھتی ہے۔
دیگر ممالک کی مداخلت کے باوجود اور پی ایم مودی اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی قیادت میں موجودہ سفارتی پالیسی کے باوجود گزشتہ برسوں میں ہند-ایران تعلقات آگے بڑھے ہیں، اس سلسلے میں نہ صرف پرانے تعلقات کو آگے بڑھایا گیا ہے، بلکہ جس انداز میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور ثقافتی کوششوں میں پیش رفت ہوئی ہے، وہ دیرپا تعلقات استوار کرنے کے عزم کو ظاہر کرتی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 4 فروری تا 10 فروری 2024