ہند ۔ بنگلہ دیش تعلقات نازک مرحلے میں

شیخ حسینہ کے بعد تعلقات میں جمود، چٹاگانگ معاہدہ بھی خطرے میں

دعوت نیوز ڈیسک

مودی۔یونس ملاقات بے نتیجہ، باہمی اعتماد کی آزمائش
گزشتہ برس اگست میں شیخ حسینہ کے زوال کے بعد ہی بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات نازک مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ دس مہینے بعد بھی اس سمت میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔ حالیہ دنوں میں وزیر اعظم مودی اور بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر شیخ محمد یونس کے درمیان ملاقات کے بعد بھی جمی برف پگھلنے کے آثار نہیں ہیں۔ دونوں سربراہوں کے درمیان ملاقات کے بعد جو بیانات آئے ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ دونوں سربراہوں کے اپنے اپنے ایجنڈے تھے، جو اپنے ملک کے عوام کو دینا چاہتے تھے۔ ایک طرف بھارتی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ملاقات کے دوران بنگلہ دیش میں اقلیتوں، بالخصوص ہندوؤں پر جاری حملے کے مسئلے کو اٹھایا گیا۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ محمد یونس نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملے کی خبروں کو بھارتی میڈیا اور اداروں کا پروپیگنڈہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔ تاہم دونوں رہنماؤں نے نصف صدی سے زائد عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان روایتی تعلقات اور باہمی اعتماد کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
مگر اس ملاقات کے محض چند دن بعد ہی، 8 اپریل کو بھارت کے سنٹرل بورڈ آف بالواسطہ ٹیکسز اور کسٹمز نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا کہ 29 جون 2020 کو بنگلہ دیش کو فراہم کی گئی ٹرانسشپمنٹ کی سہولیات واپس لے لی گئی ہیں۔ بعد میں، ہندوستانی وزارتِ خارجہ نے واضح کیا کہ اس فیصلے سے ڈھاکہ اور نیپال یا بھوٹان کے درمیان ہندوستانی سرزمین کے ذریعے تجارت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ یہ لینڈ لاکڈ ممالک ڈبلیو ٹی او کے رہنما خطوط کے تحت محفوظ ہیں۔ بھارت نے اپنے ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر نمایاں بھیڑ کا حوالہ دیتے ہوئے اس فیصلے کا جواز پیش کیا۔
دراصل، بھارت کی ملبوسات کی برآمدات کو فروغ دینے والی کونسل کا مطالبہ تھا ہے کہ بھارتی ملبوسات کو فروغ دینے کے لیے بنگلہ دیش کو فراہم کی جانے والی سہولیات کو ختم کیا جائے۔ چنانچہ ماہرین بتاتے ہیں کہ اس فیصلے سے مال برداری کی شرح کو معقول بنانے، بھیڑ کو کم کرنے اور ہندوستانی برآمد کنندگان کے لیے نقل و حمل کے اخراجات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کی تجارتی رسد میں خلل پڑے گا، ممکنہ طور پر لاگت میں اضافہ ہوگا اور برآمدات میں تاخیر ہوگی، خاص طور پر ریڈی میڈ گارمنٹس جیسے شعبوں کو نقصان پہنچے گا۔
ایک ایسے وقت میں جب امریکہ کے ذریعے ٹیرف لگائے جانے کی وجہ سے دنیا بھر کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے، یہ فیصلہ بنگلہ دیش کی معیشت کو نقصان پہنچائے گا۔ تاہم بعد میں بھارت نے زمینی راستے سے بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان کے درمیان زمینی راستے کی تجارت کے معاہدے کو باقی رکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک بڑی راحت ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ بھارت کے ذریعے بنگلہ دیش کو ملنے والا ٹرانسشپمنٹ معاہدہ ختم کیے جانے کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کس قدر متاثر ہوں گے؟ دوسرا یہ کہ چٹاگانگ میں پورٹ کی تعمیر کو لے کر بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان معاہدے کا کیا ہوگا؟ چٹاگانگ بندرگاہ کا معاہدہ، جس میں بھارت کو بنگلہ دیشی بندرگاہوں کو ٹرانزٹ کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی، خطرے میں ہے۔ خطرہ ہے کہ بنگلہ دیش جوابی کارروائی کرتے ہوئے معاہدے سے الگ ہوسکتا ہے۔ اس سے بھارت کے آسیان ممالک تک جلد از جلد رسائی کا خواب چکنا چور ہو سکتا ہے۔ شمال مشرقی ریاستوں کو شدید نقصان ہوگا۔
محمد یونس نے چین کے دورے کے دوران شمال مشرقی ریاستوں کو لینڈ لاکڈ قرار دے کر غیر ذمہ دارانہ سفارتی بیان دے کر بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا تھا۔ انہوں نے یہ بیان چین سے قربت حاصل کرنے کے لیے دیا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان باہمی مفادات ہیں۔ بنگلہ دیش خشکی سے گھرے پڑوسیوں کو برآمدات کے لیے ہندوستانی ٹرانزٹ پر انحصار کرتا ہے اور ہندوستان اپنے شمال مشرق کے لیے بنگلہ دیشی بندرگاہوں سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
چنانچہ بنگلہ دیش سے ٹرانسشپمنٹ سہولت ختم کیے جانے کے بعد وزارتِ خارجہ نے وضاحت کی کہ نیپال اور بھوٹان کی تجارت غیر متاثر ہوگی۔ دراصل، ٹرانسشپمنٹ سہولیات ختم کیے جانے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مختلف تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بھارتی حکومت بنگلہ دیش حکومت کو جھٹکا دے کر کچھ اشارے دینا چاہتی ہے اور ساتھ ہی بہتر تعلقات کے لیے دروازے بھی کھلے رکھے ہیں۔ یہ اقدام معاشی تحفظات کے بجائے سیاسی پیغام رسانی سے زیادہ کار فرما ہے۔
کیونکہ ٹرانسشپمنٹ کی سہولت ایک تجارتی انتظام تھا، جس کے لیے بنگلہ دیش ہندوستان کو اس سروس کی ادائیگی کرتا تھا۔ بنگلہ دیش کی جانب سے یہ سوالات بھی کیے جا رہے ہیں کہ جب کوئی بھی فریق اس طرح کے انتظامات کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف اس کو متبادل انتظامات کرنے کی اجازت دینے کے لیے ایک عبوری مدت دی جاتی ہے۔ مگر اس معاملے میں بنگلہ دیش کو عبوری راحت نہیں دی گئی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک روایتی اور دیرینہ تعلقات کو کس طرح آگے لے جا سکتے ہیں۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025