ہند ۔ بنگلہ دیش تعلقات میں سرد مہری

انتہاپسند قوتیں بھارت کے اقتصادی مفادات کو خطرے میں ڈال رہی ہیں

کولکاتا دعوت بیورو

بنگلہ دیش میں اقلیتی تشدد کی سنسنی خیز تصویر کشی پراخبار ڈیلی اسٹارکا اظہار ناراضگی
سنٹرل کولکاتا کے مارکوئس اسٹریٹ میں واقع درجنوں ہوٹل ویران ہیں، اس علاقے میں واقع کپڑے، خردہ دکانیں، میڈیکل اسٹور، طبی جانچ گھروں کے مالکین بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کے طویل اقتدار کے زوال اور اس کے بعد ہندو بنگلہ دیش کے سفارتی تعلقات میں سرد مہری کی وجہ سے مایوس ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں روزانہ سیکڑوں بنگلہ دیشی فروکش ہوتے تھے۔ زیادہ تر بنگلہ دیشی شہری کولکاتا میں علاج و معالجہ کے لیے آتے تھے۔ ان میں کچھ چھوٹے تاجر اور کاروباری اور کچھ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں۔ میڈیکل شعبہ سے وابستہ ماہرین کا تجزیہ ہے کہ رواں مالی سال 2024-25 میں اپریل تا ستمبر کے دوران ان کے بیرون ملک طبی سیاحوں کی تعداد میں بڑی کمی آئی ہے۔ غیر ملکی طبی سیاحوں میں 25 سے 40 فیصد بنگلہ دیشی ہیں۔ جبکہ CareEdge Ratings کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش بھارت کی کل طبی سیاحت میں 50 تا 60 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔ Apollo Hospitals Enterprise (AHEL) نے گزشتہ سال کے مقابلے میں سال کی پہلی ششماہی میں مجموعی بین الاقوامی مریضوں کی آمدنی میں 15 فیصد کمی دیکھی، جس کی بڑی وجہ بنگلہ دیشی مریضوں کی آمدنی میں 27 فیصد کمی ہے۔ منی پال ہسپتالوں کی مجموعی آمدنی کا تقریباً 10 فیصد بین الاقوامی مریضوں سے آتا ہے۔ کولکاتا اور بنگلورو میں اس کے مراکز میں بنگلہ دیش کے مریض کل بین الاقوامی مریضوں کا 40 تا 45 فیصد ہیں۔ بیورو آف امیگریشن ڈیٹا کے مطابق 2023 میں 635,000 طبی سیاحوں نے ہندوستان کا دورہ کیا، جو کہ 2022 میں 475,000 سے زیادہ ہے۔ ان میں سے 300,000 اور 350,000 بنگلہ دیشی تھے۔
یہ اعدادوشمار بڑے بڑے ہسپتالوں کے ہیں مگر طبی سیاحوں کی آمد میں کمی کا نقصان عام تاجروں کو کس طرح برداشت کرنا پڑ رہا ہے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کا اندازہ مرکزی کولکاتا کے مارکوئس اسٹریٹ، نیومارکیٹ، صندل اسٹریٹ، غالب اسٹریٹ اور پارک اسٹریٹ کے قرب و جوار میں واقع دکانداروں سے بات چیت سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ دکاندار کووڈ کے دور کی مار سے اب تک ابھر بھی نہیں پائے ہیں اور اب یہ نئی افتاد آپڑی ہے۔ اس میں رہی سہی کسر ہائپر نیشنل ازم کے علم برداروں نے نکالنی شروع کر دی ہے۔ ہند-بنگلہ دیش تعلقات کی سرد مہری اور میڈیا بالخصوص ہندتوا کے لائن پر چلنے کی مقابلہ آرائی میں سرگرداں بھارتی میڈیا کی مس انفارمیشن مبنی رپورٹوں کی بنیاد پر ہائپر نیشنل ازم کے علم بردار اب یہ تحریک ہی نہیں بلکہ نیشنل ازم کا سوال بنا کر ہسپتالوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ بنگلہ دیشی شہریوں کا علاج کرنا بند کر دیں۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ غیر انسانی ہے اور میڈیکل ایتھکس کے خلاف بھی ہے۔ اگر بنیادی انسانی ضرورت کو بھی خود ساختہ قوم پرستی سے جوڑ دیا جائے تو اس سے بڑھ کر غیر انسانی رویہ کیا ہو سکتا ہے؟
بھارت اور بنگلہ دیش سے تعلقات میں سرد مہری سے اقتصادی تعلقات پر کیا اثر پڑے گا؟ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں ہمیشہ پیچیدگیاں رہی ہیں۔ بھارت بنگلہ دیش کا محسن رہا ہے۔ آج اس کا جو وجود ہے اس میں بھارت کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ بنگلہ دیش کی سیاست، نظام حکومت اور اقتصادیات پر بھارت کا اثر و رسوخ ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش بھارت کی ایک بڑی منڈی ہے۔ انڈیا دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت میں گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ دو طرفہ تجارت میں اضافہ بھی انٹرا انڈسٹری، بالخصوص ٹیکسٹائل اور کپڑے کے شعبے میں ہوا ہے۔ 2009-2023 کے درمیان دو طرفہ تجارتی سامان کی تجارت کا حجم 2.4 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر 13.1 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ بنگلہ دیش کو ہندوستان کی برآمدات بھی باقی دنیا کو ہونے والی اس کی کل برآمدات سے زیادہ تیزی سے بڑھی ہیں۔ نتیجتاً بھارت کے تجارتی سامان کی برآمدات میں بنگلہ دیش کا حصہ 2009 میں 1.2 فیصد سے بڑھ کر 2023 میں 2.9 فیصد ہوگیا ہے۔ بھارت کی تجارتی سامان کی برآمدات میں بنگلہ دیش کا حصہ جاپان (1.2 فیصد) جنوبی کوریا جیسی کئی بڑی معیشتوں سے زیادہ تھا۔ 1.5 فرانس، 1.7 اور جرمنی 2.2 ہے۔ بنگلہ دیش کو ہندوستان کی
برآمدات 2021 میں 14 بلین امریکی ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ بنگلہ دیش کو ہندوستانی برآمدی ٹوکری مختلف قسم کی مصنوعات پر مشتمل ہے اور کافی متنوع ہے اور اس میں کپاس، ایندھن کی مصنوعات، سبزیاں، کافی اور چائے، آٹوموبائل سامان، مشینری اور برقی آلات، دھاتی مصنوعات شامل ہیں۔ بنگلہ دیش متعدد ہندوستانی اشیاء کے لیے ایک اہم منزل کے طور پر ابھرا ہے، جاری سماجی و سیاسی انتشار اس ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو متاثر کرنے کا امکان ہے، اور اس کے نتیجے میں ہندوستان سے ان اشیاء کی مانگ میں کمی آئے گی۔ اگرچہ یہ بحران عالمی کپڑوں کی منڈی میں ہندوستان کے لیے ایک موقع پیش کر سکتا ہے لیکن ہندوستانی برآمد کنندگان کی ناکافی سپلائی کی گنجائش کی وجہ سے ہندوستانی برآمدات بنگلہ دیش کو نمایاں طور پر بدلنے کا امکان نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں طرف شدت پسند قوتیں جو اپنے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ شدت پسندی میں جب بھی اضافہ ہوتا ہے، اس کی قیمت اس ملک کی اقلیت اور کمزور طبقات کو برداشت کرنی پڑتی ہے۔ خود بھارت میں اس وقت اقلیتی طبقات، بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جس طریقے سے مہم چلائی جارہی ہے، اس سے پوری دنیا واقف ہے۔ لیکن 5 اگست کو شیخ حسینہ حکومت کے زوال کے بعد بھارتی میڈیا میں جس طریقے سے بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر حملے کی رپورٹنگ کی گئی ہے، اس نے دونوں طرف کے تعلقات کو مزید کشیدہ کردیا ہے۔ اسکون کے سابق رہنما اور سمیلیتا سناتنی جاگرن جوٹے کے موجودہ ترجمان چندن کمار دھر عرف چنموئے کرشنا داس برہمچاری کی 26 نومبر کو گرفتاری کے خلاف احتجاج کے دوران پیش آنے والے تشدد کے واقعات کے بعد بھارت میں ہیجانی کیفیت ہے۔ کئی ہندتوا تنظیمیں اور جماعتیں بھارت کو مداخلت کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ داس پر بغاوت کے لیے اکسانے اور بنگلہ دیش کے قومی پرچم کی بے حرمتی کا بھی الزام ہے۔ اس واقعے کے بعد کولکاتا میں بنگلہ دیش ہائی کمشنر کے باہر احتجاج کے دوران بنگلہ دیشی پرچم اور بنگلہ دیش کے عبوری وزیر اعظم محمد یونس کے پتلے کو نذر آتش کرنے کے واقعات پر بنگلہ دیش حکومت میں بھارت کے تئیں عدم اعتماد کی فضا کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں مختلف سیاسی، مذہبی اور طلباء گروپ ایک عالمی ہندو تنظیم ISKCON پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسکون سوالوں کی زد میں ہے۔ سوالات کھڑے کیے جا رہے ہیں کہ اسکون ایک مذہبی تنظیم ہے مگر حسینہ واجد کے زوال کے بعد احتجاج و مظاہرہ کا حصہ بن گیا ہے۔ اس پر بھارت کے اشارے پر بنگلہ دیش کو غیر مستحکم کرنے کے سنگین الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں، مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ مقامی دباؤ کے باوجود بنگلہ دیش ہائی کورٹ نے اسکون پر پابندی سے متعلق عرضی کو خارج کر دیا ہے۔ ISKCON دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں "فوڈ فار لائف” جیسے عالمی خیراتی اقدامات کے لیے جانا جاتا ہے۔ لیکن اسے 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں امریکہ میں قائم اس کے گروکولوں میں بچوں کے ساتھ بد سلوکی، تفرقہ بازی اور اندرونی تنازعات کو ہوا دینے کے سنگین الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔ برہم چاری کی گرفتاری کے بعد بھارت کے رد عمل اور اس کے جواب میں بنگلہ دیشی حکومت کے جوابی رد عمل نے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کیسے آئے گی؟ ماہرین بتاتے ہیں کہ 5 اگست کو سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ کے بعد ’’مس انفارمیشن‘‘ کی ایک لہر جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بنگلہ دیش کی مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش میں ہندو برادری کی مبینہ ’’نسل کشی‘‘ کے بارے میں جھوٹے بیانیے، جو اکثر جعلی فوٹیج کے ساتھ ہوتے ہیں، نے مرکزی دھارے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر توجہ حاصل کر لی ہے۔ اس کی وجہ سے اقلیتی برادریوں میں خوف و ہراس میں اضافہ ہوگیا ہے۔ حقائق کی جانچ کرنے والوں نے آن لائن گردش کرنے والی پرانی تصاویر اور غیر تصدیق شدہ دعوؤں کی متعدد مثالوں کی نشان دہی کی ہے، جن میں زیادہ تر جعلی خبروں کا پتہ ہندوستان میں شروع ہونے والے بوٹس اور ٹرولوں سے ملتا ہے۔ ڈس انفارمیشن مہم کی وجہ سے بنگلہ دیش کے اندرونی معاملات اور دونوں قوموں کے درمیان تعلقات متاثر ہوئے ہیں۔ افراتفری اور مذہبی ظلم و ستم کے محرک کے طور پر، علاقائی تناؤ اور بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان نازک امن کو بڑھنے کا خطرہ ہے۔ بنگلہ دیش کی 170 ملین آبادی میں تقریباً 8 فیصد ہندو ہیں۔ حسینہ واجد کی پارٹی، عوامی لیگ جو اپنے سیکولر اور بھارت نواز موقف کے لیے جانی جاتی ہے، روایتی طور پر خود کو بنگلہ دیش میں ہندو مفادات کے محافظ کے طور پر پیش کرتی رہی ہے، حالانکہ زمینی حقیقت اکثر مختلف ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہندوستان کے ہندو دائیں بازو کی جماعتیں اور مرکزی حکومت حسینہ کے زوال کو اپنے مفادات پر حملے کے طور پر لے رہی ہیں۔ باقی رہی سہی کسر بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس کی سنسنی خیز سرخیوں نے پورا کر دیا ہے۔
’’بنگلہ دیش میں ہندوؤں کا قتل عام، ایک کروڑ سے زیادہ مہاجرین مغربی بنگال میں داخل ہوسکتے ہیں” جیسی خبریں شائع کی گئی ہیں۔ ان میں سے بہت سے دعوے سوشل میڈیا پر
#HindusAreNotSafeinBangladesh
#Hindus
#SaveHindusinBangladesh
#AllEyesOnBangladeshiHindus
#HelpBangladeshiHindus، اور
#HindusUnderAttack
جیسے ہیش ٹیگ کے ساتھ شئیر کیے گئے ہیں۔ اگرچہ ہندوؤں پر حملوں کے بہت سے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ امن و امان کی خرابی کے درمیان اقلیتی برادریوں، ان کے گھروں، عبادت گاہوں اور کاروبار کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
حکومت کے اچانک خاتمے کے بعد اور سیاسی خلا پیدا ہونے پر افراتفری اور عدم استحکام کا ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ مظاہروں کو بھاری ہاتھوں سے سنبھالنے کی وجہ سے بہت سے پولیس افسران انتقامی کارروائیوں کے خوف سے روپوش ہو گئے ہیں۔ اس کے مطابق، اقلیتوں پر حملے فرقہ وارانہ عوامل کے بجائے سیاسی سے محرک نظر آتے ہیں۔بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن یونٹی کونسل، اوکیہ پریشد کے مطابق، 52 اضلاع میں "ظلم کے 205 واقعات” ہوئے ہیں۔ تاہم، مہلک تشدد کے صحیح اعداد و شمار اور محرکات کا پتہ لگانا مشکل ہے۔مگر یہ بھی سچائی ہے کہ پی این بی اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش سمیت کئی تنظیمیں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے سرگرم نظر آئیں۔ بنگلہ دیشی اخبارات بالخصوص ڈیلی اسٹار اور بنگلہ ٹربیون کے ادارے اور ادارتی مضامین پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ بنگلہ دیشی میڈیا میں بھارتی میڈیا کے رویے پر ناراضگی پائی جاتی ہے مگر بنگلہ دیش میں آباد اقلیتوں کے تئیں وہ نفرت اور بے زاری نہیں ہے جو بھارتی میڈیا میں مسلمانوں کے تئیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ڈیلی اسٹار کے اداریوں میں مسلسل بنگلہ دش کے اقلیتوں کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔ڈیلی اسٹار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’’بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کی سنسنی خیز تصویر کشی فرقہ وارانہ خوف کو بڑھاتی ہے اور ایک غیر مستحکم ماحول میں حصہ ڈالتی ہے۔ یہ ماحول نہ صرف بے چینی کو بڑھاتا ہے بلکہ حقیقی تشدد کے لیے سازگار حالات بھی پیدا کرتا ہے۔ بالآخر، یہ بیانیے فرقہ وارانہ انتشار کے اصل ذرائع سے توجہ ہٹاتے ہیں اور جڑے ہوئے سیاسی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔وسیع پیمانے پر پروپیگنڈے سے مزید تناؤ اور خوف پیدا ہونے کا خطرہ ہے کیونکہ بنگلہ دیش اس صدمے اور عدم استحکام سے نکلنے کی کوشش کررہا ہے جو طلباء کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران سامنے آیا تھا۔ یہ نہ صرف نئی نگران حکومت کو بدنام کرے گا بلکہ حسینہ واجد کے جانے کے بعد امن و امان کی بحالی کے لیے ملک کی کوششوں کو بھی بدنام کرے گا‘‘۔آگے لکھا گیا ہے کہ جاری ڈس انفارمیشن مہم خاص طور پر بھارت میں کچھ ہندتوا گروپوں کی جانب سے پروپیگنڈے کی کوششیں، علاقائی کشیدگی کو بڑھانے اور بنگلہ دیش کی نگراں حکومت کی ملک کو مستحکم کرنے کی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا خطرہ ہے۔ اس مہمات نہ صرف زمینی صورت حال کو غلط انداز میں پیش کرتی ہیں بلکہ فرقہ وارانہ خوف اور سیاسی عدم استحکام کو بھی ہوا دیتی ہیں، جس سے علاقائی امن اور سلامتی کے لیے اہم خطرات پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
بنگلہ دیش اور بھارت اپنی جغرافیائی قربت کو تبدیل نہیں کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کو ایک فعال اور لچکدار "مشرق اور مغرب کی طرف دیکھو” پالیسی کی ضرورت ہے۔ بھارت اپنے قومی مفاد کی ترجیح کو ترک نہیں کر سکتا، اور نہیں کرنا چاہیے، لیکن اسے بنگلہ دیش کے عوام، سول سوسائٹی، این جی اوز، پریس اور صنعت کے ساتھ تخیلاتی اور فعال طور پر مشغول ہونے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے لیے روایتی سفارت کاری سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ غیر سرکاری اور غیر رسمی رابطوں پر مشتمل ٹریک 2 ڈپلومیسی ہندوستان-بنگلہ دیش تعلقات کو بہتر بنانے میں اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام کے موجودہ تناظر میں دونوں ممالک کے ماہرین تعلیم، کاروباری رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے اداکاروں کے درمیان غیر رسمی مکالمے باہمی افہام و تفہیم کے لیے پلیٹ فارم تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ شیخ مجیب کے بعد بنگلہ دیش میں تیسری نسل سامنے آ رہی ہے، جن کی امنگیں اور خواہشات مکمل طور پر الگ ہیں۔ بنگلہ دیش کو 70 کی دہائی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بنگلہ دیش کو بھی اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانے ہوں گے اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارت کی مدد کے بغیر وہ خودکفیل ہونے کے خواب کی تعبیر نہیں کر سکتا ہے۔
***

 

***

 بنگلہ دیش میں سیاسی عدم استحکام کے موجودہ تناظر میں دونوں ممالک کے ماہرین تعلیم، کاروباری رہنماؤں اور سِول سوسائٹی کے اداکاروں کے درمیان غیر رسمی مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم کے لیے پلیٹ فارم تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ بھارت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ شیخ مجیب الرحمان کے بعد بنگلہ دیش میں تیسری نسل سامنے آ رہی ہے، جن کی امنگیں اور خواہشات مکمل طور پر الگ ہیں۔ بنگلہ دیش کو 70 کی دہائی کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 08 دسمبر تا 14 دسمبر 2024