ہند۔ بنگلہ دیش پچاس سالہ کامیاب سفارت کاری خطرے میں

میڈیا کے جارحانہ پروپیگنڈہ کے باعث باہمی تعلقات کو شدید دھکا

نوراللہ جاوید

بھگوا تنظیموں کی بڑھتی طاقت۔ ’اسکون‘ پر پابندی کی مخالفت
بنگلہ دیشی عوام جو بھارت کے احسان مند تھے اور بھارت سے قربت کو تہذیبی و ثقافتی ہم آہنگی کا حصہ مانتے تھے، مگر آج دونوں ممالک ایک دوسرے کو آنکھیں کیوں دکھا رہے ہیں؟ اس وقت ملک میں بنگلہ دیش مخالف جذبات اور ناراضگی طوفان پر ہے۔ بنگلہ دیش کی میڈیا میں بھی بھارت کے تئیں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اور حکومتی سطح پر بھی بہت کچھ ہو رہا ہے۔ آخر یہ صورت حال کیوں پیدا ہوئی؟ کیا پاکستان، چین، نیپال کے بعد اب بنگلہ دیش سے بھی بھارت کے تعلقات میں تلخی آ جائے گی؟ تاہم بنیادی سوال یہی ہے کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے؟
گزشتہ ہفتے ’’دعوت‘‘ کے انہی صفحات میں ہم نے ہند-بنگلہ دیش تعلقات میں سرد مہری کے مقامی اثرات پر اجمالی روشنی ڈالی تھی کہ کس طرح چھوٹے کاروباری اس تلخی کی قیمت چکا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش بھارتی ساز و سامان کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ الیکٹرانک، کپاس، چاول، میڈیکل ساز و سامان اور ادویات کے لیے بنگلہ دیش بھارت سے برآمدات پر منحصر ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ بحرانی دور میں بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ ہمیشہ کھڑا رہا ہے۔ کورونا بحران کے دور میں بھارت نے بنگلہ دیش کو بڑے پیمانے پر کووڈ ویکسین اور دوائیاں فراہم کیں۔ علاج کے لیے آنے والوں کے لیے سرحدیں بند نہیں کی گئیں۔ مختلف شعبوں، بالخصوص انفراسٹرکچر میں بھارت کی کمپنیوں نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے مگر پانچ اگست 2024 کو شیخ حسینہ کے طویل دور اقتدار کے خاتمے کے بعد بھارتی میڈیا میں جس طریقے سے ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا اور حسینہ کے زوال کو بھارت اور بنگلہ دیش تعلقات کے زوال اور بھارت کے خلاف سازش سے تعبیر کیا گیا، اور بنگلہ دیشی نوجوانوں اور طلبا کی تحریک کو بیرونی طاقتوں کے زیر اثر قرار دیا گیا۔ اس کے بعد مسلسل یہ بیانیہ مرتب کرنے کی کوشش کی گئی کہ بنگلہ دیش میں ہندو خطرے میں ہیں۔ ہندوؤں کا قتلِ عام ہو رہا ہے، مندروں میں توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے۔ اس خبر کو تسلسل کے ساتھ پیش کیا گیا جس سے بھارت میں یہ تاثر مضبوط ہوا کہ واقعی بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کا قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔ حسینہ بھارت میں پناہ گزیں ہیں، اس کے باوجود وہ بھارت کی سرزمین سے سیاسی بیانات دے رہی ہیں۔ ان حالات نے بنگلہ دیش اور بھارت کے مضبوط تعلقات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بھارت نے پچاس برس تک بنگلہ دیش میں جو شاندار اور کامیاب سفارت کاری کی تھی، وہ اب خطرے میں ہے۔
انسانی تقاضے کے تحت حسینہ کو سیاسی پناہ دینے میں کوئی حرج نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت میں مقیم کسی غیر ملکی کو سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت ہے؟ تو پھر حسینہ کو سیاسی بیانات دینے کی اجازت کیوں دی گئی؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام میں یہ تاثر ہے کہ حسینہ کا طویل دور اقتدار جس میں جمہوریت اور انتخابات کے نام پر ڈھونگ رچا گیا، اپوزیشن جماعتوں کو انتخابی عمل سے کنارہ کش ہونے پر مجبور کیا گیا اور ریفرنڈم کے طرز پر انتخابات میں وہ کامیاب ہوکر چوتھی مرتبہ جنوری 2024میں اقتدار میں آئی تھی۔اس سب میں بھارت کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ حقیقت نہیں ہے ۔بھارت کی جمہوریت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ دیگر ممالک کے امور میں مداخلت نہیں کرے گا۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ شیخ حسینہ اور ان کے والد شیخ مجیب الرحمٰن کا بھارت سے خصوصی تعلق رہا ہے۔اس خاندان کو اگر بھارت کی سرپرستی حاصل نہیں ہوتی تو نہ مجیب الرحمن دیش بندھو بن سکتے تھے اور نہ ہی حسینہ وزارت عظمی تک پہنچ سکتی تھیں مگر شیخ حسینہ نے طویل دور اقتدار میں جس طریقے سے ماورائے عدالت اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگایا ہے، جمہوری اصول اور تقاضوں کی پامالی کی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں پی این بی اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے کارکنان اور لیڈروں کو پابند سلاسل اور تعذیب کا نشانہ بنایا ہے اس کی امید کسی بھی جمہوری رہنما سے نہیں کی جاسکتی تھی۔ حسینہ واجد کی حکومت کی پالیسی کی تنقید اور اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا جرم بنا دیا گیا تھا۔ یہ وہ گھٹن زدہ ماحول تھا جس میں کوٹہ سسٹم کے خلاف بلند ہونے والی آواز نے حسینہ کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یقیناً حسینہ واجد کے اس ظلم و جبر میں بھارت کا کوئی کردار نہیں تھا اور بنگلہ دیش میں جو یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حسینہ کے ہر ایک جرم میں بھارت شریک ہے سراسر غلط اور حقائق کے برخلاف ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا بھارت کے میڈیا میں حسینہ کے اس غیر جمہوری رویے پر رپورٹنگ ہوئی ہے؟ کیا بھارت کی میڈیا میں حسینہ کے ذریعہ انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کچھ بھی لکھا گیا ہے؟ جولائی میں جب کوٹہ سسٹم کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور حسینہ نے طاقت کے ذریعہ اس تحریک کو کچلنے کی کوشش اور ایک دن میں چار سو سے زائد نوجوانوں کا قتل کردیا گیا، سیکڑوں نوجوانوں کے ساتھ پولیس انتظامیہ اور عوامی لیگ کے غنڈوں نے ساتھ بدسلوکی کی۔عالمی میڈیا میں اس پر بھر پور رپورٹنگ کی جارہی تھی ۔مگر چار ہزار کلو میٹر سرحد سے متصل بھارت کا میڈیا اس پر خاموش تھا تو آخر کیوں؟ حسینہ کے زوال کے بعدبھارتی میڈیا اور بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا ناطقہ بند کرنے کے درپے رہنے والی انتہا پسند ہندتوا جماعتیں مسلسل اس بیانیہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ بنگلہ دیش میں ہندوؤں کا قتل عام کیا جارہا ہے ۔یہی وہ حالات ہیں جس نے بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات کو ناز ک موڑ پر پہنچادیا ہے۔
این ڈی ٹی وی سے کئی دہائیوں تک وابستہ رہنے والی سینئر صحافی مونودیپا بنرجی ملک کی ان صحافیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش جا کر گراؤنڈ رپورٹنگ کی ہے اور یہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ آخر بنگلہ دیش کے عوام بھارت کے تئیں کیا سوچتے ہیں۔ انہوں نے کئی ایسے نوجوانوں سے بات کی جو حسینہ کے خلاف طلبہ تحریک کا حصہ تھے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش دونوں جگہ گراؤنڈ رپورٹنگ کا فقدان ہے۔ بھارتی میڈیا کے کوئی رپورٹر ڈھاکہ اور بنگلہ دیش میں موجود نہیں ہیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش کے بڑے اخبارات کا بھی کوئی گراؤنڈ رپورٹر بھارت میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا جو خبریں آ رہی ہیں وہ ایجنسیوں کے ذریعے یا دیگر ذرائع سے آتی ہیں جن میں جعلی خبروں کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ بہت ساری خبریں وائرل ویڈیوز کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ مردوں کا ایک گروہ دیوی کالی کی مورتی توڑ رہا ہے یا ایک شخص سر پر پٹی باندھ کر توڑ پھوڑ کر رہا ہے۔ دونوں مبینہ طور پر دہلی اور ڈھاکہ میں حقائق کی جانچ کرنے والوں نے پایا کہ کلپس اصلی ہیں لیکن ان کے ارد گرد پھیلی کہانیاں شرارتی اور جعلی تھیں۔
میڈیا کے ذریعے پھیلائی گئی دشمنی سے عوام کس قدر متاثر ہو رہے ہیں اس کا نظارہ اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے ڈپٹی ہائی کمیشن پر حملے کی شکل میں ہم نے دیکھا ہے۔ کولکاتا اور اگرتلہ میں ہوٹلوں کے مالکین، ڈاکٹروں، ہسپتال کے مالکین بنگلہ دیشیوں کا علاج کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ 28 دسمبر کو کولکاتا میں میوزک شو کا انعقاد ہو رہا تھا، اس میں ایک بنگلہ دیشی رابندر سنگیت پروگرام بھی رکھا گیا تھا جس کے بائیکاٹ کی اپیل زوروں پر کی جا رہی ہے۔ اگرتلہ میں بنگلہ دیش ہائی کمیشن میں جو کچھ ہوا وہ بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث ہی رہا۔ مونودیپا بنرجی اپنی رپورٹ کے اختتام پر جو کچھ لکھتی ہیں وہ پروپیگنڈا پھیلانے والے میڈیا کے لیے تازیانہ سے کم نہیں ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ 2001 میں امریکہ میں 9/11 کے سانحے کے بعد امریکہ میں یہ بحث زوروں پر تھی کہ صحافی پہلے ہے یا محب وطن؟ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد امریکہ میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں صحافیوں کے نظریات کو لے کر بحث شروع ہو گئی تھی۔ بہت سے ٹی وی اینکرز اور نامہ نگار اپنے ٹائیوں یا جیکٹوں پر امریکی پرچم کا نشان ثبت کیے ہوئے تھے۔ لیکن مسوری یونیورسٹی، کولمبیا میں اسکول آف جرنلزم کے زیر انتظام ایک ٹی وی پروگرام کے دوران ایک نیوز ڈائریکٹر نے ایک نشریات کے دوران آن ایئر ایک صحافی کو امریکی پرچم کا جیکٹ پہننے پر ٹوکتے ہوئے کہا تھا کہ ایک صحافی ہمیشہ پہلے صحافی ہوتا ہے اور اس کے بعد محب وطن ہوتا ہے۔ آج برصغیر کے صحافی اس کہانی سے سبق لے سکتے ہیں اور اس مسئلے کا حصہ بننے کے خلاف مزاحمت کر سکتے ہیں۔ صحافیوں کو جنگجو نہیں بلکہ جمہوریت کے نگران کے طور پر کام کرنا چاہیے۔ بادشاہ سے زیادہ وفادار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
اگست میں نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت والی عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے ہی بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ مگر گزشتہ مہینے اسکون سے وابستہ رہے مذہبی رہنما چنمئے کرشنا داس کی گرفتاری کے بعد بھارت کے ردعمل اور بنگلہ دیش میں اسکون کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ اور مظاہرے کے دوران ہجوم کے ہاتھوں مسلم سرکاری وکیل کے قتل کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔ وکیل کی ہلاکت کے بعد بھارت میں یہ خبر پھیلائی گئی کہ وکیل کا قتل صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ چنمئے کرشنا داس کی وکالت کر رہے تھے۔ تاہم بعد میں یہ خبر غلط ثابت ہوئی بلکہ چنمئے کرشنا داس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں مسلم وکیل کا قتل ہوا تھا۔ چنمئے کرشنا داس بنگلہ دیش کی سیاست میں متنازع رہے ہیں۔ خود اسکون نے بھی چنمئے کرشنا داس سے دوری بنا لی ہے۔ کرشنا داس پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے الزامات ہیں مگر گرفتاری بنگلہ دیش کے جھنڈے کی توہین کی وجہ سے کی گئی۔ کرشنا داس مذہبی رہنما سے زیادہ سیاسی ہیں۔ ان کی وابستگی حسینہ سے رہی ہے، چنانچہ وہ نشانے پر ہیں۔ یہ سوال الگ ہے کہ کرشنا داس کی گرفتاری صحیح ہے یا نہیں؟ کرشنا داس کو اپنے دفاع کا پورا حق ملنا چاہیے مگر اہم سوال یہ ہے کہ اس کی گرفتاری کو مذہبی رنگ کیوں دیا جاتا ہے اور اس پر اس قدر سخت رد عمل کیوں دیا جا رہا ہے؟ تبدیلی مذہب کے معاملے میں بھارت میں کئی مسلم مذہبی رہنما اس وقت جیلوں میں بند ہیں۔ کئی مسلم نوجوان ایسے ہیں جو سالوں سے جیل میں بند ہیں، مگر اب تک ان کے خلاف ٹرائل تک شروع نہیں ہوا ہے۔ بنگلہ دیش نے کبھی بھارت اور بھارت کے مسلمانوں کے معاملے میں زبان نہیں کھولی ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ پر بھی اس کا ردعمل واضح تھا، مگر اب بھارت بنگلہ دیش کے معاملات میں کھل کر بول رہا ہے۔ بلکہ بنگلہ دیش میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں امن فوج بھیجنے کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ بلکہ بھارت میں ایک ایسا حلقہ ہے جو یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ بھارت کو بنگلہ دیش میں مداخلت کرنی چاہیے۔
تاہم چند بنیادی سوالات ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہیں، وہ یہ ہیں کہ بنگلہ دیش میں کئی ہندو جماعتیں جو کام کر رہی ہیں، وہ موضوع بحث کیوں نہیں ہیں؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے اندرونی خلفشار کا بھارت کیوں حصہ بن رہا ہے؟ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ ہند-بنگلہ دیش سرحد پر دراندازی ہوتی رہی ہے، مگر دہشت گردانہ سرگرمیوں پر بنگلہ دیش نے قابو پایا ہے۔ بھارت مخالف قوتوں کو بنگلہ دیش میں پنپنے نہیں دیا گیا ہے۔ آج بھی بنگلہ دیش کے سیاسی لیڈر بھارت کے تئیں ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں، مگر ان کے بیانات میں ہندو مخالف جذبات نہیں ہیں۔ بلکہ عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر حملے کی سخت تنقید کی ہے اور اس کو بہر صورت روکنے کی کوشش کی ہے۔ بنگلہ دیش کے جماعت اسلامی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کو دیکھیں تو اس میں ہندوؤں کی حفاظت کی اپیلیں ہیں۔ جماعت اسلامی اور پی این بی کے کسی بھی لیڈر نے ہندو مخالف بیانات نہیں دیے۔
اسکون کی حالیہ سرگرمی کے بعد اس پر پابندی کے مطالبات تیز ہو گئے ہیں۔ اسکون کی سرگرمیوں کو لے کر بنگلہ دیشی میڈیا میں کئی طرح کی خبریں چل رہی ہیں، مگر یہ بات خوش آئند ہے کہ بنگلہ دیش کی عدالت نے اسکون پر پابندی عائد کرنے والی عرضی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور حکومت بھی اس کے حق میں نہیں ہے۔
اسکون ایک عالمی تنظیم ہے اور سناتن دھرم کے مقابلے میں اس کے نظریات اور فکر میں کئی بنیادی فرق ہیں، مگر کرشنا کے ماننے والے بھی خود کو ہندو کے طور پر متعارف کراتے ہیں۔ تاہم، سوال یہ ہے کہ ایک فلاحی ادارہ جو دنیا بھر میں کھانا تقسیم کرنے کے لیے مشہور ہے، وہ بنگلہ دیش میں ایک متنازع اور انتہا پسند جماعت کے طور پر مرکزی بحث کا حصہ کیوں بن گیا ہے؟
کولکاتا سے تعلق رکھنے والے صحافی سیکھنندو بھٹاچاریہ نے حال ہی میں بنگلہ دیش کا سفر کیا اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ سیکھنندو بھٹاچاریہ نے پی این بی کے ایک لیڈر وحید الزمان کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسکون والے دنیا بھر میں کہیں بھی "جے شری رام” کے نعرے نہیں لگاتے لیکن وہی بنگلہ دیش "جے شری رام” کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ انہوں نے دلیل دی کہ جہاں "جے شری رام” بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی بی جے پی سے وابستہ ایک سیاسی نعرہ ہے، بنگلہ دیش میں اسکون کے راہب اس نعرے کے ذریعے مودی اور بی جے پی کے اس سیاسی نظریے کو یہاں آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تاہم، پی این بی نے جس کی قیادت سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا کرتی ہیں، اسکون پر پابندی کی مخالفت کی ہے۔ پی این بی کے لیڈر وحید الزمان نے اسکون پر پابندی کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا، "اسکون پر تنقید کی جا سکتی ہے اور یہاں تک کہ کچھ ہندو بھی اسکون کے کچھ طریقوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن اس پر پابندی نہیں لگنی چاہیے۔ ہم پابندی کی سیاست کے خلاف ہیں۔”
واضح رہے کہ اسکون بنگلہ دیش میں سرگرم واحد ہندو تنظیم نہیں ہے۔ رام کرشنا مشن، ست سنگ اور بھارت سیواشرم سنگھ جیسی ہندوستان میں ہیڈکوارٹر والی تنظیمیں بھی اپنی موجودگی رکھتی ہیں۔ تاہم، اسکون حالیہ برسوں میں بڑی طاقت بن کر ابھری ہے اور تیزی سے مندروں کو، جنہیں مقامی ہندو چلاتے تھے، اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔
بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن یونیٹی کونسل کے ایک منتظم کا کہنا ہے، "دوسری ہندو تنظیمیں اپنی مذہبی سرگرمیوں کو اپنے مندر کے احاطے میں ہی محدود رکھتی ہیں، لیکن اسکون اسے اپنے سنکرتن کے ساتھ سڑکوں پر ناچتے گاتے ہوئے اور ہرے کرشنا کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس لے جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہی وہ چیز ہے جس نے مسلم بنیاد پرست قوتوں کو ناراض کیا ہے، اس لیے اسکون کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔”
’’ہندوؤں کے قتل عام‘‘ کے بیانیے پر، چاہے بھارت میں جتنا بھی شور و غل مچایا جائے مگر جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ کسی بھی صورت میں قتل عام تو دور، فرقہ وارانہ فسادات بھی نہیں کہے جا سکتے۔ بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن یونیٹی کونسل نے، جو اقلیتی برادریوں کی سب سے منظم تنظیم ہے، انیس ستمبر کو اپنی رپورٹ پیش کی ہے جس میں اگست سے ستمبر کے درمیان ہندوؤں کے مکانات کی تباہی اور مندروں پر حملے کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
یہ وہ دور تھا جب عبوری حکومت ابتدائی دنوں میں کام کر رہی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر دو سو دس فرقہ وارانہ واقعات پیش آئے، جن میں نو افراد کو قتل کیا گیا، چار خواتین کی عصمت دری کی گئی، انہتر عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے، نو سو پندرہ گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی، نو سو ترپن کاروباری اداروں پر حملے کیے گئے، جسمانی حملوں کے اڑتیس واقعات پیش آئے، اور اکیس جائیدادوں پر قبضے کیے گئے۔
بھارت کے لیے بنگلہ دیش صرف ایک پڑوسی ملک نہیں ہے بلکہ یہ ایک اسٹریٹجک پارٹنر ہے اور ہندوستان کی سرحدی سلامتی کے لیے اہم اتحادی ہے، خاص طور پر شمال مشرقی ریاستوں میں دونوں ممالک کے درمیان قریبی ثقافتی اور لسانی تعلقات بھی ہیں۔ بنگلہ دیش دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک اور پینتیسویں بڑی معیشت ہے۔ یہ ریڈی میڈ گارمنٹس کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور دنیا کی سب سے بڑی این جی او BRAC اور گرامین بینک کا گھر ہے، جسے نوبل انعام یافتہ پروفیسر محمد یونس نے قائم کیا تھا، جو مائیکرو کریڈٹ فائنانس کے علم بردار اور عبوری نگراں حکومت کے سربراہ تھے۔
بھارت-بنگلہ دیش دو طرفہ تجارت 2023-24 میں چودہ بلین ڈالر تھی۔ ایسے میں سرحد پر تناؤ نہ بھارت کے لیے مفید ہے اور نہ بنگلہ دیش کے لیے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ بھارت کے داخلہ سکریٹری نے پچھلے دنوں ڈھاکہ کا دورہ کیا اور بنگلہ دیشی حکام سے بات چیت کی۔ امید ہے کہ اس ملاقات کے بعد تعطل کا خاتمہ ہوگا۔ لیکن اس کے لیے دونوں ہی ملکوں کو ایک دوسرے کی آزادی، خود مختاری اور سالمیت کا احترام کرنا ہوگا۔

 

***

 گزشتہ مہینے اسکون سے وابستہ رہے مذہبی رہنما چنمئے کرشنا داس کی گرفتاری کے بعد بھارت کے ردعمل اور بنگلہ دیش میں اسکون کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ اور مظاہرے کے دوران ہجوم کے ہاتھوں مسلم سرکاری وکیل کے قتل کے بعد حالات کشیدہ ہیں۔ وکیل کی ہلاکت کے بعد بھارت میں یہ خبر پھیلائی گئی کہ وکیل کا قتل صرف اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ چنمئے کرشنا داس کی وکالت کر رہے تھے۔ تاہم بعد میں یہ خبر غلط ثابت ہوئی بلکہ چنمئے کرشنا داس کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے ہاتھوں مسلم وکیل کا قتل ہوا تھا۔ چنمئے کرشنا داس بنگلہ دیش کی سیاست میں متنازع رہے ہیں۔ خود اسکون نے بھی چنمئے کرشنا داس سے دوری بنا لی ہے۔ کرشنا داس پر بچوں کے ساتھ زیادتی کے الزامات ہیں مگر گرفتاری بنگلہ دیش کے جھنڈے کی توہین کی وجہ سے کی گئی۔ کرشنا داس مذہبی رہنما سے زیادہ سیاسی ہیں۔ ان کی وابستگی حسینہ سے رہی ہے، چنانچہ وہ نشانے پر ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 دسمبر تا 21 دسمبر 2024