حکمتِ عملی ،منصوبہ بندی اور فلسطینیوں کی قربانیاں

بیانیہ سازی میں حماس نے اسرائیل اور مغرب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ اسرائیل کے 850 فوجیوں اور افسران کی ہلاکت۔ 6000 اسرائیلی زخمی

0

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

وزیر دفاع اور دفاعی کونسل کے استعفے، اسرائیل کی ناکامی کی علامات۔غزہ سے بیت المقدس تک حماس کی فلسطین کے تمام حصوں میں مزاحمت
طوفان الاقصیٰ کے خلاف اسرائیلی رد عمل اور تباہ کاریاں اس مہم کی کامیابیوں کو چھپا دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمالیاتِ اسلام کے بعض ماہرین کو یہ ایک غیر دانشمندانہ اقدام نظر آتا ہے، جو مناسب تیاری کے بغیر کیا گیا۔ وہ از خود اس سے غیر حقیقی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں اور پھر ان کے پورا نہ ہونے پر ماتم کرنے لگتے ہیں۔
اس معاملے میں انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ حماس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کا مطالعہ کیا جائے اور ان کے پیش کردہ اہداف کی روشنی میں مہم کی کامیابی یا ناکامی کا جائزہ لیا جائے۔ ذرائع ابلاغ کی آسانی کے اس دور میں یہ کوئی مشکل کام نہیں۔
پچھلے دنوں حماس کے عسکری شعبے القسام بریگیڈز کی جنرل ملٹری کونسل کے رکن اور غزہ بریگیڈ کے کمانڈر عزالدین الحداد نے الجزیرہ ٹی وی کو اپنے ایک نادرِ روزگار انٹرویو میں طوفان الاقصیٰ کے حوالے سے نہایت چشم کشا تفصیلات پیش کیں اور مختلف اسرار و رموز سے پردہ اٹھایا۔
ذرائع ابلاغ میں دستیاب یہ انٹرویو نہ صرف اس مہم کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرتا ہے بلکہ اس کی منصوبہ بندی اور اہداف پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ عزالدین الحداد نے اسرائیلی فوج کی حساس انٹلیجنس معلومات کے حصول سے لے کر صہیونیوں کے خلاف حماس کی کامیاب حکمت عملی کو بڑے دو ٹوک انداز میں پیش کیا۔انہوں نے بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور اسیرانِ فلسطین کے حوالے سے تمام عالمی کوششوں کی ناکامی کو طوفان الاقصیٰ کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ تمام انصاف پسند لوگ اس حقیقت کے معترف ہیں کہ فلسطین پر اسرائیلی مظالم کو محض ایک عام واردات سمجھنے کا رویہ بن چکا تھا اور ان مظالم پر احتجاج تو دور کوئی توجہ دینے کی زحمت تک گوارا نہیں کی جاتی تھی۔
اس مہم کی دوسری اہم وجہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلط کی جانے والی ایک تباہ کن جنگ کے منصوبے کی معلومات تھیں۔ غزوہ بدر سے قبل مشرکین کے تجارتی قافلے اور اس کے عزائم سے متعلق معلومات نے بھی تاریخِ اسلام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔الحداد کے مطابق القسام انٹلیجنس برانچ نے اسرائیلی خفیہ ادارے 8200 کو ہیک کیا تو معلوم ہوا کہ دشمن تمام مزاحمتی دھڑوں کے خاتمے کے لیے پہلے فضائی حملے اور پھر ایک بڑی اور تباہ کن زمینی فوج کشی کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر انتظار کرنا خودکشی کے مترادف تھا، اس لیے بروقت میدان میں آنا ناگزیر ہو گیا۔
صہیونی خود کو بہت ذہین سمجھتے ہیں اور اپنی فریب کاری سے دشمن کو غفلت میں رکھ کر اچانک حملہ کر دیتے ہیں۔ اسرائیل پسِ پردہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سرگرم تھا، مگر بظاہر وہ حماس کو مسجد اقصیٰ اور مغربی کنارے سے علیحدگی کے عوض مالی مراعات کی پیشکش کر رہا تھا۔
حماس نے اس کا جواب ایک فوجی کارروائی سے دیا، مگرا سٹریٹجک فریب کاری کے تحت اسرائیل کو یہ یقین دلا دیا کہ وہ ان مراعات کے حصول کی خواہاں ہے اور لڑائی میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اسے "لوہے کو لوہے سے کاٹنا” کہا جاتا ہے۔
اسرائیل کو خوش فہمی کے فریب میں مبتلا رکھنے کی خاطر اپنے فیصلے کو اسی طرح صیغۂ راز میں رکھا گیا جیسے فتح مکہ سے قبل پیش قدمی کو افشا کرنے سے گریز کیا گیا تھا۔ اس طرح حکمتِ عملی کی جنگ میں حماس کو اسرائیل پر پہلی برتری حاصل ہوگئی۔ الحداد کے مطابق، مزاحمت کے محور ممالک کو آگاہ تو کیا گیا، مگر رازداری کے پیش نظر معلومات کو بہت کم افراد تک محدود رکھا گیا تھا۔ اس حکمتِ عملی کے سبب حماس محض مدافعت پر اکتفا کرنے کے بجائے اقدام میں پہل کر سکا۔غزوہ بدر میں بھی اسلامی فوج کو میدانِ جنگ میں پہلے پہنچنے کا فائدہ ملا تھا۔
طوفان الاقصیٰ کو بلا تیاری ایڈونچر قرار دینے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس مہم کی تیاریوں کے سلسلے میں یکم اکتوبر 2023ء سے منصوبوں کی منظوری، حتمی شکل دینے، اور عمل درآمد کی ترتیب و نظام الاوقات پر مرکوز مستقل اجلاسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ الحداد کے مطابق، فیصلہ کن مرحلے سے 24 گھنٹے قبل کمانڈ اینڈ کنٹرول رومز کے مرکزی آپریشنز روم سے رابطے تیز کر دیے گئے تاکہ عمل درآمد کی نگرانی ممکن ہو سکے۔
اس کے بعد مجاہدین کو متحرک کر کے انہیں اسلحہ سے لیس کیا گیا۔ حملے کے لیے 7؍ اکتوبر کو صبح 6:30 بجے کا تعین کیا گیا اور اس محتاط اور مربوط میزائل حملے میں ڈرونز اور گلائیڈرز کا استعمال کیا گیا۔ غزہ کی گھیرا بندی کرنے والی باڑ کو گرانے کے لیے بحری انجینئرنگ یونٹس سے تعاون لیا گیا۔ اس کے بعد ہزاروں تربیت یافتہ القسام کے جنگجو دیوار توڑ کر داخل ہوگئے۔ اپنی مہارت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والی اسرائیلی خفیہ ایجنسی اس آپریشن کی پیشگی اطلاع حاصل کرنے میں پوری طرح ناکام رہی، بلکہ اس کا دفاعی نظام مکمل طور پر غیر مؤثر ہوگیا۔
یہودی ذہانت کے فریب میں مبتلا مرعوب دانشور ایک سازشی نظریے کے تحت یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نیتن یاہو نے جان بوجھ کر چشم پوشی کر کے اس کی اجازت دی، مگر مندرجہ بالا تیاریوں کی تفصیلات اس نظریے کی نفی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، دو ثبوت تو خود اسرائیل نے پیش کر دیے۔ گزشتہ سال اسرائیلی خفیہ ادارے کی ایلیٹ یونٹ کے سربراہ نے حماس کی جانب سے کیے گئے 7؍ اکتوبر کے حملوں کو روکنے میں ناکامی کی ذمہ داری قبول کر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ 8200 یونٹ انٹیلی جنس سگنلز اور پیغامات کا مشاہدہ اور انہیں ڈی کوڈ کرنے کا کام کرتی ہے۔ اس سے قبل یونٹ کے کمانڈر، میجر جنرل اہارون ہالیوا، کو ان کی کوتاہی کے باعث برطرف کیا گیا تھا، مگر یوسی ساریئل نے تو مستعفی ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے مشن میں ناکام رہنے پر ’معافی‘ بھی مانگی تھی۔ان شواہد کے باوجود، اگر کوئی اسے ناٹک کہہ کر جھٹلا دے تو ایسے لوگوں کا مرض لاعلاج ہے، مگر اس تاریخی حقیقت کا انکار ناممکن ہے کہ صدمے میں مبتلا اسرائیلیوں سے پہلے القسام بریگیڈز کی غزہ ڈویژن نے چند گھنٹوں کے اندر دیوار گرا کر حملہ کرنے میں کامیابی کی تصدیق کی تھی۔
7؍ اکتوبر 2023ء کی مہم کا بنیادی مقصد غزہ ڈویژن پر حملہ کر کے ٹھکانوں اور کیمپوں کو تباہ کرنے کے ساتھ فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے ممکنہ طور پر بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کرنا تھا۔ غزہ کے اطراف اسرائیلی اڈوں اور بیرکوں پر حملے میں سیکڑوں اسرائیلی فوجی اور افسران ہلاک ہوئے اور 240 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا۔ یہ حملہ اسرائیل سمیت یورپ و امریکہ کے لیے ایک چونکا دینے والا جھٹکا تھا۔
اسرائیل نے تنازعے میں ایک نیا محاذ کھول کر بے دریغ تباہی مچائی۔ الحداد نے بلا تکلف یہ تسلیم کیا کہ اپنی ذلت آمیز انٹیلی جنس کی شکست کے بعد اسرائیل نے امریکی انتظامیہ اور بعض مغربی حکومتوں کی حمایت سے فلسطینی عوام سے وحشیانہ انتقام لینا شروع کر دیا۔ مگر مزاحمت کاروں نےاپنی سرزمین کے دفاع کی خاطر، زمینی فوج کشی کے دوران گھات لگا کر حملے کیے گئے، بارودی سرنگیں بچھائی گئیں اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ نوع تیاری کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اسرائیل نے اپنے 850 فوجیوں اور افسروں کی ہلاکت اور 6000 کے قریب زخمیوں کا اعتراف کیا ہے، جب کہ دیگر رپورٹس کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ فی الحال قیدیوں کی رہائی کے وقت حماس کے جانباز اسرائیلی ہتھیاروں کا مظاہرہ کرکے اپنے اس دعوے کی تصدیق کرتے ہیں کہ انہوں نے دوران جنگ اسرائیلی فوجیوں سے ان کا اسلحہ چھین لیا تھا۔ اسرائیل کے ذریعہ اس ناکامی کی سب سے نمایاں علامات دفاعی کونسل سے لے کر وزیر دفاع تک کے استعفے ہیں۔ الحداد کو توقع ہے کہ جب تحقیقات آگے بڑھیں گی تو مزید استعفے آئیں گے۔ انہوں نے غزہ کی جنگ میں حمایت کرنے والے محورِ مزاحمت میں شامل لبنان، یمن، عراقی مزاحمت کے ساتھ ایران بلکہ تمام ممالک اور تحریکوں کے کردار کو سراہا۔ الحداد نے اپنی جامع گفتگو میں پرعزم مجاہدین کے ساتھ جانباز عوام کو بھی خوب سراہا۔ وہ بولے کہ مجاہدینِ القسام نے مہم کے تمام مراحل میں محاذ آرائی اور ذمہ داری سنبھالنے میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔ انہوں نے القسام کے مزاحمت کاروں کی ہمت و شجاعت اور میدان جنگ میں بلند اخلاق کی دل کھول کر تعریف کی۔ اس حقیقت کا کون انکار کرسکتا ہے کہ حماس کا حملہ فوجی ٹھکانے پر تھا، جب کہ اسرائیل نے بے قصور عورتوں اور بچوں پر بمباری کی، ہسپتالوں، اسکولوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا۔ مجاہدین حماس کی حسنِ اخلاق کا سب سے بڑا اعتراف تو ان کی قید سے رہا ہونے والے یرغمال ہیں۔ ابھی ہال میں رہائی پانے والے فوجی کی حماس کے جنگجو کو سلام کرتے ہوئے لی گئی ویڈیو ذرائع ابلاغ میں وائرل ہوگئی ہے۔ "القسام بریگیڈز نے قیدیوں کے ساتھ اسلام کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے حسنِ سلوک کیا اور اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ گرفتاری سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ گرفتاری کے بعد قیدیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی، مگر اس دوران ہیبت زدہ اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ یرغمالیوں کی ہلاکت کا واقعہ بھی سامنے آیا۔ الحداد نے غزہ کے عوام کو "طوفان الاقصیٰ” کی کامیابی کا کریڈٹ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی بہادری کو تاریخ کے اوراق میں ایک ایسی قوم کے طور پر اپنا نام درج کیا ہے جو اپنے دین اور وطن کے لیے عظیم قربانیاں دیتی ہے اور ناانصافی کو قبول نہیں کرتی۔ طوفان الاقصیٰ ایک نئی سیاسی حقیقت کو مسلط کرنے کی اسرائیلی کوششوں کا جواب تھا۔ اس کا ہدف یہ تھا کہ امریکہ اور مغرب کی طرف سے بااختیار قابض قیادت کے پاس سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے اور فلسطینیوں کے جائز مطالبات کی خاطر مذاکراتی مراحل کا آغاز ہو۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ فی الحال فلسطین عالمِ انسانیت کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر ابھرا ہے اور اس کے حل کی خاطر مختلف جہتوں سے ساری دنیا متوجہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امریکی صدر کی جانب سے اوٹ پٹانگ تجاویز سامنے آ رہی ہیں، لیکن امریکہ کے اندر اور باہر اس پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس مصر و ایران متبادل منصوبے پر کام کر رہے ہیں، سعودی عرب بھی ایک متبادل حل پیش کر رہا ہے۔ اس لیے قوی امکان ہے کہ ان میں سے سب معقول متبادل پر اتفاق رائے ہوجائے گا۔ عصرِ حاضر میں جنگی حکمتِ عملی اور منصوبہ بندی کے علاوہ بیانیہ سازی (narrative building) کو بھی بڑی اہمیت ہے کیونکہ اس کھیل میں ناکام ہونے والے ہیرو کو ولن بنا دیا جاتا ہے اور کامیاب ہونے والا ولن بھی ہیرو کہلاتا ہے۔ اس میدان میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی کارکردگی غیر معمولی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال اس کے عسکری شعبے کے ذریعہ ابھی حال میں تین اسرائیلی قیدیوں کو رہائی کے وقت سامنے آئی۔ ان یرغمال میں سے دو امریکی اور ایک روسی شہری تھا اور دونوں کو بزور قوت چھڑانے میں روس و امریکہ سمیت اسرائیل ناکام ہوگئے۔ ان میں سے ساگی ڈیکل ہان، یائر ہوران کوغزہ کی القسام بریگیڈز نے حوالے کیا، جبکہ مغربی کنارے کی القدس بریگیڈز سے ساشا الیگزینڈر تروبنوف کو رہا کیا۔ اس طرح حماس کی پورے فلسطین میں موجودگی کا اشارہ کیا گیا اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا مظاہرہ بھی ہوا۔ ان تین یرغمال کے عوض پہلے مرحلے کی چھٹی کھیپ میں حماس نے 369 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کروائی۔ ان میں سے عمر قید کی سزا کاٹنے والے 36 تھے، لیکن خاص بات یہ ہے کہ 29 کا تعلق بیت المقدس اور اس کے مضافات سے یعنی مغربی کنارے سے ہے، اس طرح یہ پیغام دیا گیا کہ حماس صرف غزہ کی نہیں بلکہ پورے فلسطین اور قدس کی جنگ لڑ رہی ہے۔ باقی ماندہ 333 قیدی ایسے تھے جنہیں 7؍ اکتوبر کے بعد غزہ سے دورانِ جنگ قید کیا گیا تھا۔ یہاں یہ پیغام دیا گیا کہ اگر تم نے پچیس گنا زیادہ لوگوں کو شہید کیا تو ہم نے اس کھیپ نے سو گنا زیادہ لوگوں کو چھڑا لیا اور یہ اعلان کردیا کہ "قابض اسرائیل کے پاس جنگ بندی معاہدے کی تمام شرائط پر عمل درآمد کے علاوہ اپنے باقی قیدیوں کو رہا کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے”۔ اس کے ساتھ یہ الزام بھی لگایا گیا کہ:
’بن یامین نیتن یاہو کی معاہدے کے تقاضوں سے بچنے کی سعی یا تاخیر اس کے ذریعہ اپنی حکومت کو بچانے کی کوشش ہے‘۔ شہید یحییٰ السنوار کے گھر کے قریب خان یونس میں مغربی الستار کے علاقے کو ان قیدیوں کی حوالگی کے لیے منتخب کرکے عملاً اپنے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ یہ پیغام دیا گیا گوکہ شہیدانِ اسلام اس دنیا میں نہیں ہیں مگر اپنے مداحوں کے دل میں بستے ہیں۔ رہائی کے لیے تیار کردہ پلیٹ فارم پر اس جنگ کے دوران شہید ہونے والے کمانڈر انچیف محمد الضیف اور رافع سلامہ کے علاوہ دیگر شہید رہ نماؤں کی تصاویر آویزاں تھیں۔ اسٹیج کے بائیں جانب "طوفان الاقصیٰ” آپریشن کے سربراہ یحییٰ السنوار کی تصویر موجود تھی۔ شہ نشین کے وسط میں ایک بڑا بینر لگا ہوا تھا جس پر عربی، انگریزی اور عبرانی میں لکھا تھا کہ "اے یروشلم! گواہ رہنا ہم تیرے سپاہی ہیں”۔ عربی کے علاوہ انگریزی اور عبرانی زبان کا استعمال اسرائیلی اور امریکی و یورپی عوام تک اپنا اصلی تعارف پہنچانے کی ایک کامیاب کوشش تھی۔ اس فقرے کے حوالے سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ موجودہ کشمکش محض ردعمل کی کوئی عام سی تحریک نہیں ہے بلکہ اس کی غرض و غایت فلسطین کو آزاد کرکے مسجدِ اقصیٰ کا وقار و تقدس بحال کرنا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بیانیہ سازی میں حماس نے اسرائیل اور مغرب کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک طرف صدر ٹرمپ جبری ہجرت کی تجویز کے ذریعے اپنی مٹی پلید کروا رہے ہیں، اسرائیل اس کی حمایت کرکے اپنی کمزوری تسلیم کر رہا ہے اور دوسری جانب حماس اپنی ہمت و شجاعت کا لوہا منوا رہا ہے۔ یہ عزت و توقیر کے واقعات قرآن مجید کی اس آیت کی تائید کرتے ہیں: ’’کہو! خدایا! مُلک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دے اور جسے چاہے، چھین لے، جسے چاہے، عزت بخشے اور جس کو چاہے، ذلیل کر دے۔ بھلائی تیرے اختیار میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)

 

***

 ’طوفان الاقصیٰ‘ کے نام سے شروع ہونے والی مزاحمت نے اسرائیلی قابض قیادت کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا بلکہ انہیں چار و ناچار مذاکرات کی میز پر آنا پڑا۔ حماس نے صرف غزہ تک محدود رہ کر مزاحمت نہیں کی، بلکہ پورے فلسطین میں آزادی کی آواز بلند کی ہے۔ مزاحمتی تنظیم کی تاریخی کامیابیاں اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کے عوض فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کی صورت میں سامنے آئیں، جنہوں نے عالمی سطح پر حماس کی طاقتور موجودگی کو ثابت کیا۔ اس جنگ نے دنیا کے سامنے فلسطینی عوام کی بے شمار قربانیوں کو آشکار کرتے ہوئے ہوئے عالمی ضمیر کو فلسطین کے مقدمے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ یہ غیر معمولی بات ہے کہ حماس نے اسرائیل کے جھوٹے بیانیے کو چیلنج کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حق میں ایک نیا بیانیہ قائم کیا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 فروری تا 01 مارچ 2025