صدرالدین البیانوی
رسول اللہ ﷺ کی ہجرت مبارکہ ایک نہایت عظیم تاریخی واقعہ ہے۔ سنہ ہجری کا آغاز بھی اسی واقعے کی مناسبت سے کیا گیا ہے۔ اس واقعے نے مسلمانوں کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہجرت کے موقع پر نبی کریم ﷺ اور اہل ایمان کو غیر معمولی مسائل کا سامنا تھا۔ آپ نے ان تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے غلبہ دین کی جدوجہد کو جاری رکھا اور بالآخر عالم عرب مسخر ہوکر رہا۔ آج بھی اُمت مسلمہ کو بہت سے مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ واقعہ ہجرت سے اخذ کردہ اسباق کو ایک بار پھر ذہنوں میں تازہ کریں۔ آئیے اس سلسلے کے چند اہم اسباق پر نظر ڈالیں:
راہ خدا میں ابتلا پر صبر:
نبی مہربان ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مکۃ المکرمہ میں فریضہ دعوت و رسالت کی ادائیگی کے دوران بہت سی سختیاں اور ایذائیں جھیلنی پڑیں۔ انہیں ایسی ایسی تکالیف دی گئیں جنہیں برداشت کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہ تھی۔انہی بے پناہ سختیوں کی وجہ سے آپ کو مدد و نصرت کی درخواست لیے طائف جانا پڑا۔ جہاں سے آپ مطعم بن عدی کی ہمراہی میں مکہ واپس لوٹے۔پیش آمدہ تکلیفوں کی بنا پر ہی آپ کے ساتھیوں کو پہلے حبشہ اور پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنا پڑا ‘ بعد میں خود آپ کو بھی مدینہ کی جانب اذنِ ہجرت ملا۔ ہجرت از خود ایک طرح کی آزمائش اور امتحان کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر ہم نے انہیں حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کر دو یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے‘‘۔(النسا:۶۶)
بوقت ہجرت آپ نے مکہ کو مخاطب کر کے فرمایا: واللہ انک لاحب بلاد اللہ الی‘ ولو لا ان اھلک اخرجونی ماخرجت،اللہ کی قسم !اے مکہ! تو اللہ کے شہروں میں سے مجھے محبوب ترین ہے۔ اگر تیرے باسی مجھے نکال نہ دیتے تو میں کبھی یہاں سے نہ جاتا۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ میں جس قسم کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اور پھر جس کسمپرسی کے عالم میں انہیں پہلے حبشہ اور پھر مدینہ کی جانب سفر ہجرت اختیار کرنا پڑا‘ اس سارے عمل میں ہمارے لیے بے حد اہم اسباق پوشیدہ ہیں۔ ہمیں بھی اُمت کو درپیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے ان اسباق کا پوری دقتِ نظر سے مطالعہ کرنا ہوگا تاکہ یہ ہمارے لیے مایوسی اور ناامیدی کے بجاے پیش قدمی اور فتح مندی کا ذریعہ بن جائیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں کو اخلاص و للّٰہیت سے بھر لیں۔ فرمان نبوی ہے: اعمال کا تمام تر دارومدار نیتوں پر ہے۔ ہر شخص وہی پائے گا جس کی نیت کرے گا۔ پس جس کی ہجرت واقعی اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہوگی‘ واقعی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہوگی، اور جس کی ہجرت کسی دنیاوی مفاد یا کسی خاتون سے نکاح کی خاطر ہوگی تو اس کی ہجرت بھی اسی کام کے لیے ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔(متفق علیہ)
بہترین تیاری اور محکم تدبیر:
واقعہ ہجرت کو جو بھی پڑھتا ہے حیران رہ جاتا ہے کہ آپ نے اس سفر کی کتنی ہمہ پہلو تیاری کی۔ پوری منصوبہ بندی کے ساتھ تمام ممکنہ مادی وسائل کو آپ بروے کار لائے‘ حالانکہ آپ کو وحی ربانی کی مکمل تائید بھی حاصل تھی اور اللہ قادر مطلق اس بات کی مکمل طاقت رکھتا تھا کہ آپ اور آپ کے تمام اصحاب بغیر کسی تکلیف اور مشقت کے مدینہ پہنچا دیے جاتے۔ لیکن اللہ عز وجل کو امت کے لیے ابدی قانون اور داعیان حق کے لیے بہترین سنت قائم کروانا تھا۔ آئیے نبی ﷺ کی تیاریوں اور منصوبہ بندی کی کچھ جھلکیاں ملاحظہ کریں:
۱- دو تیز رفتار سواریوں کی یوں تیاری کی کہ چار ماہ تک دونوں اونٹنیوں کی خوب دیکھ بھال کی گئی اور عین سفرِ ہجرت کے موقع پر انہیں ضروری سازو سامان سے پوری طرح لیس کیا گیا۔
۲- راستوں کے ماہر عبداللہ بن اریقط کو راستے کی نشان دہی کے لیے باقاعدہ اجرت پر ساتھ لیا۔ اگرچہ عبداللہ اس وقت مشرک تھے لیکن اپنے کام میں خوب مہارت رکھتے تھے‘ اس لیے آپ نے ان کا انتخاب کیا۔
۳- زاد راہ اور سامان خوردو نوش کا باقاعدہ انتظام کیا گیا۔ حضرت اسما بنت ابوبکر ہر شام کھانا پہنچایا کرتیں اور عامر بن فہیرہ رات کو دودھ پہنچایا کرتے۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی جمع پونجی (تقریباً چھ ہزار درہم) سفر میں اپنے ساتھ رکھی۔
۴- ہجرت کے معاملے کو مکمل راز داری میں رکھا گیا۔صرف انہی چند لوگوں کو اس کی خبر تھی جنہیں براہ راست اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا تھا۔ راستوں کے بارے میں دشمنوں کو مغالطہ دینے کے لیے آپ نے جنوب میں واقع یمن کا راستہ اختیار کیا حالانکہ مدینہ سمتِ شمال میں واقع ہے۔ اسی طرح دشمنوں کی نقل و حرکت سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے کا انتظام بھی تھا۔
۵- غار ثور میں تین روز تک قیام پذیر رہے تاکہ دشمن کی تگ و دو ماند پڑجائے۔ قدموں کے نشان مٹانے کا بھی مکمل انتظام کیا گیا کہ کہیں یہ نشان کفار کو سمتِ سفر اور جگہ کے تعین میں مدد نہ دیں۔
ان تمام اسباب و وسائل کی باحسن فراہمی کے بعد اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسا اور اسی پر مکمل اعتماد تھا۔ آئیے! توکل علی اللہ کے جذبے سے لبریز وہی مکالمہ ایک بار پھر بگوشِ ہوش ملاحظہ کرتے ہیں:
سیدنا ابوبکر الصدیقؓ: اے اللہ کے رسول!اگر ان تعاقب کرنے والوں میں سے کسی نے بھی اپنے قدموں پر نظر ڈالی تو ہم ضرور دیکھ لیے جائیں گے۔
رسول اکرم ﷺ : اے ابو بکر! ان دو کے بارے میں تمہارا کیا گمان ہے جن کا تیسرا اللہ تعالیٰ خود ہو۔
اللہ پر کامل اعتماد، بہترین تیاری، منصوبہ بندی اور فراہمی اسباب و وسائل کے بعد پھر اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسا برحق ہے۔ اس سارے عمل کا براہ راست پھل اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اور سفر ہجرت کی بحفاظت تکمیل کی صورت میں برآمد ہوا تھا۔
صدیق اکبرؓ کی بے مثال فداکاری:
سفرِ ہجرت میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کے لیے فداکاری اور محبت کی بے مثال تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ انہیں اس ذمہ داری کا پوری شدت سے احساس تھا کہ انہیں کتنی عظیم ہستی کو منزلِ مراد تک بحفاظت پہنچانا ہے۔ راہ خدا میں اپنے مشن کی تکمیل کے لیے کس جذبے‘ محبت و فداکاری کی ضرورت ہے‘ احیائے اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے اس میں اہم سبق ہے۔
صدیق اکبرؓ کیا کہتے ہیں: ’’اللہ کی قسم! اس غار میں آپ سے پہلے میں داخل ہوں گا، اس میں اگر کوئی خطرناک چیز ہو تو آپ کے بجائے مجھے نقصان پہنچائے‘‘۔پھرحضرت ابو بکرؓ غار میں موجود تمام سوراخ بند کر چکے تو ایک سوراخ ایسا باقی تھا جو بند نہیں کیا جا سکا تھا ۔ اسے انہوں نے اپنا پاؤں رکھ کر بند کر دیا ۔نبی کریم ﷺ حضرت ابوبکر کے زانو پر سر رکھ کر سوگئے۔ اسی دوران بل میں مو جود کسی زہریلی چیز نے ڈنک مارا لیکن ابو بکرؓ ہلے تک نہیں کہ کہیں آپ کی نیند نہ خراب ہوجائے۔ یہاں تک کہ تکلیف کی شدت سے حضرت ابو بکرؓ کی آنکھوں سے بے اختیار بہہ پڑنے والے آنسو آپ کے چہرۂ انور پر گرے تو صورت واقعہ کا علم ہوا۔
پھر مدینہ کے راستے میں ابو بکر صدیق ؓکبھی آپ کے آگے چلتے تو کبھی پیچھے۔ نبی کریم ﷺ حضرت ابوبکرؓ کے اضطراب کو بھانپ گئے۔ پوچھنے پر جواب دیا : یا رسول اللہ! مجھے جب کفار کی طلب اور جستجو یاد آتی ہے تو آپ کے پیچھے چلنے لگتا ہوں اور جب ان کا اعلان کردہ انعام میرے ذہن میں آتا ہے تو آپ سے آگے چلنے لگتا ہوں۔ فرمایا: ابوبکرؓ کوئی چیز ایسی ہے جو تم پسند کرتے ہو کہ میرے بجاے تمہیں مل جائے؟ ابوبکرؓ کہنے لگے: جی ہاں! اس راہ میں مارا جانا۔ میں اگر قتل ہوتا ہوں تو میں اکیلا ہی مارا جاؤں گا اور اگر آپ شہید ہوگئے تو گویا ساری امت ہلاک ہوگئی۔
مہاجرین و انصار کے درمیان رشتہ اخوت:
اخوت کی یہ مثال، محبت اور ایثار و قربانی کی نادر الوجود مثال ہے۔ ضروری ہے کہ دعوت الی اللہ کے علم بردار اللہ کی خاطر قائم اس جذبہ اخوت کو اپنے درمیان فروغ دیں۔
ہجرت مدینہ دراصل ایک نئے مرحلے کی ابتدا تھی جس میں دعوت الی اللہ کا کارواں صبر و ابتلا کے طویل دور کے بعد کامیابی کی منزلوں سے ہم کنار ہوا۔ ذہن میں رہے کہ کامیابی کی اس منزل کے پیچھے تمام ممکنہ اسباب کی فراہمی، بہترین تیاری اور منصوبہ بندی، اللہ پر کامل بھروسہ اور توکل، اسی کی ذات پر کامل اعتماد، رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی سے بے پناہ محبت، ہر قسم کی صلاحیتوں اور قوتوں سے استفادہ، ایسی حقیقی اخوت کا قیام جس نے رسول اللہ کے اصحاب کے دلوں کو یک جان کرکے خوب صورت ترین مثال بنادیا۔ یہی وہ عناصر تھے جن کی بدولت کامیابی اور فتح مندی مقدر ٹھیری۔
اس ساری مہم میں حضرت اسماءؓ بنت ابوبکر اور حضرت عائشہؓ نے جو کردار انجام دیا اس سے دعوت الی اللہ کے میدان میں مسلمان خواتین کا کردار بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن ابو بکرؓ جس طرح دن بھر قریش کی خبریں اکٹھی کرتے اور شام کے وقت آپ تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے، اس سے نوجوانوں کے کردار کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ مزید یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانوں کی فعال صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا جانا چاہیے۔
آئیے! ہم بھی ہجرت الی اللہ کے اس نئے مرحلے میں ‘ہجرت اولیٰ (ہجرت نبوی ﷺ) کے اسباق کو حرزِ جاں بنائیں۔ اپنی نیتوں کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے، مادی ومعنوی اسباب و وسائل کے ساتھ اپنی انتہائی کوششیں صرف کرکے سید المرسلین ﷺ کی اقتدا میں بھرپور تیاری و منصوبہ بندی اور پوری قوت وطاقت کو صرف کرتے ہوئے، اللہ پر مکمل بھروسا اور پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو بھی مصیبت آئے صبرو ثبات کے ساتھ اجر کی نیت لیے اسے برداشت کرتے ہوئے اللہ کی نصرت کے وعدے پر پختہ یقین کے ساتھ ‘رسول اللہ ﷺ کی محبت دل میں لیے ‘آپ کے نقوشِ پا کی پوری پیروی کرتے ہوئے اپنے بھائیوں و بہنوں کی صلاحیتوں اور قوتوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے اخوت کے تقاضوں پر پورا اتر کر بیک دل اور بیک آواز باری تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق بن جائیں:جنہوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا ان میں جو لوگ نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے۔ جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں ان سے ڈرو‘‘ تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انہوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخرکار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انہیں حاصل ہوگیا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ اب تمہیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرا رہا تھا۔ لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا بلکہ مجھ ہی سے ڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو۔ (اٰل عمرٰن ۱۷۲-۱۷۵)
مترجم: حافظ محمد عبداللہ
***
***
ہجرت مدینہ دراصل ایک نئے مرحلے کی ابتدا تھی جس میں دعوت الی اللہ کا کارواں صبر و ابتلا کے طویل دور کے بعد کامیابی کی منزلوں سے ہم کنار ہوا۔ ذہن میں رہے کہ کامیابی کی اس منزل کے پیچھے تمام ممکنہ اسباب کی فراہمی، بہترین تیاری اور منصوبہ بندی، اللہ پر کامل بھروسہ اور توکل، اسی کی ذات پر کامل اعتماد، رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی سے بے پناہ محبت، ہر قسم کی صلاحیتوں اور قوتوں سے استفادہ، ایسی حقیقی اخوت کا قیام جس نے رسول اللہ کے اصحاب کے دلوں کو یک جان کرکے خوب صورت ترین مثال بنادیا۔ یہی وہ عناصر تھے جن کی بدولت کامیابی اور فتح مندی مقدر ٹھیری۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024