حزب اختلاف کے لیڈروں اور جہدکاروں کا فرقہ واریت کے خلاف اتحاد کا عزم

IMCR کی قومی کانفرنس میں اہم شخصیتوں کی شرکت۔ حالیہ انتخابی نتائج سے ابھرنے والے سیاسی منظرنامے کا تجزیہ

انوارالحق بیگ

برادریوں میں اتحاد کے لیے ایک طویل جدوجہد کے لیے تیار رہیں: امیر جماعت اسلامی ہند
باہمی تعلقات کے فروغ اور فرقہ واریت سے نمٹنے کے لیے مقامی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں: مولانا سجاد نعمانی
’’اگر ہم علی گڑھ یونیورسٹی کو نہیں بچا سکتے تو ہمارے لیے کیا بچے گا؟‘‘:سلمان خورشید
بین برادری تعلقات کا کیرالا ماڈل باقی ملک کے لیے قابل تقلید: ای ٹی محمد بشیر
حکم راں جماعت مزید جارحانہ حکمت عملی اختیار کرسکتی ہے لہٰذا چوکسی برتنے اور اتحاد قائم رکھنے کی ضرورت :دانش علی
نئی دلی: ملک میں فرقہ پرستی، نفرت انگیز سیاست اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر دارالحکومت دلی میں نو منتخب اراکین پارلیمنٹ، سیاست دان، سابق ممبران پارلیمنٹ، مرکزی وزراء اور اہم شخصیات اکھٹا ہوئیں۔ انڈین مسلمز فار سیول رائٹس (آئی ایم سی آر) کے زیر اہتمام اس قومی اجلاس کا انعقاد عمل میں لایا گیا تھا جس میں موجودہ سیاسی منظر نامے پر تبادلہ خیال کرنے اور شہری حقوق اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تحفظ کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ طے کرنے کے لیے رہنماؤں کی ایک کہکشاں موجود تھی۔
اس پروگرام میں سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید، اسلامی اسکالر مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی اور امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی سمیت مختلف شخصیات نے مخاطب کیا۔ نومنتخب ارکان اسمبلی اقراء حسن، ضیاءالرحمن برق، پروفیسر منوج جھا اور نیشنل کانفرنس کے عبید اللہ مہدی نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
ڈاکٹر محمد ادیب، سابق ایم پی اور اجلاس کے صدر منتظم نے مسلم کمیونٹی کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں ایک سنجیدہ اظہار خیال کے ساتھ کارروائی کا آغاز کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کو کم کرنے کی دانستہ کوششوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکولر اپوزیشن جماعتیں بھی مسلم قائدین کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے یا انہیں امیدواروں کے طور پر نامزد کرنے سے ہچکچا رہی ہیں۔ محمد ادیب نے مسلم ارکان پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی پارٹیوں کے محض ’’فیڈر‘‘ ثابت ہونے کے بجائے خود کو لیڈر کے طور پر پیش کریں۔
محمد ادیب نے اعلان کیا کہ ’’ہم صرف ووٹر نہیں ہیں، بلکہ پارٹیوں اور حکومت میں شراکت دار ہیں۔‘‘ انہوں نے ہندوستان کے شمولیتی جذبے کی بحالی کی خواہش ظاہر کی جو انہیں اپنے بچپن سے یاد ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم ایک بار پھر گاندھی کے ویژن کی تلاش میں ہیں۔‘‘
سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید نے اپنے کلیدی خطاب میں حزب اختلاف کے ’’انڈیا‘‘ اتحاد کی تشکیل کے بعد حالیہ انتخابی نتائج پر کچھ راحت کا اظہار کیا۔ اپوزیشن کی طرف سے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو تسلیم کرتے ہوئے سلمان خورشید نے اس بات پر زور دیا کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم صرف انتخابات میں کچھ کامیابیاں حاصل کرنے پر خوش نہیں ہیں۔ ’’ہمیں امید ہے کہ اب سنا جائے گا، لیکن ہم خاموش نہیں بیٹھ سکتے۔ ہمیں اور بھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘
کانگریس کے سینئر لیڈر نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کی اقلیتی حیثیت سے متعلق سپریم کورٹ کے زیر التواء فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے، اسے اپنے مسلم شہریوں کے ساتھ ہندوستان کے سلوک کا ایک اہم امتحان قرار دیا۔ انہوں نے اپنے دادا، سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین کے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ’’اگر ہم اے ایم یو کو نہیں بچا سکتے تو پھر ہمارے لیے کیا بچے گا؟‘‘
امیر جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے حالیہ انتخابی نتائج کی ایک پُرامید تشریح پیش کی اور ان نتائج کو تقسیم کی سیاست کے رد کے طور پر دیکھا ۔ انہوں نے کہا ’’انتخابی نتائج سے امید پیدا ہوئی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا مستقبل تاریک نہیں بلکہ روشن ہے۔‘‘ انہوں نے نشان دہی کی کہ بی جے پی کے امیدواروں کو ان حلقوں میں شکست ہوئی جہاں وزیر اعظم مودی نے نفرت انگیز تقاریر کیں، اس کی تشریح ووٹروں کی طرف سے واضح اشارہ کے طور پر کی جانی چاہیے۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ ملک کے عوام نفرت کے زہر کو خواہ وہ وزیر اعظم کی طرف ہی سے کیوں نہ اُگلا گیا ہو، قبول نہیں کریں گے۔‘‘ انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ برادریوں میں اتحاد قائم کرنے کے لیے ایک طویل جدوجہد کے لیے تیار رہیں۔
معروف اسلامی اسکالر اور بین المذاہب رہنما مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانی ووٹروں کی اکثریت نے فرقہ وارانہ تقسیم کے بجائے بے روزگاری، مہنگائی اور کسانوں کے خدشات جیسے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی ہے۔ انہوں نے مقامی کمیٹیوں کی تشکیل پر زور دیا تاکہ باہمی تعلقات کو فروغ دیا جاسکے اور فرقہ واریت کا مقابلہ کیا جاسکے۔
آر جے ڈی لیڈر اور راجیہ سبھا ایم پی پروفیسر منوج جھا نے مسلمانوں کے تئیں سیکولر پارٹیوں کے بدلتے رویوں کے بارے میں اظہار خیال کیا۔ انہوں مسلمانوں کا نام لینے کے بجائے اقلیت کی اصطلاح استعمال کرنے کے رجحان کو نوٹ کیا۔ منوج جھا نے اقلیتوں کو متاثر کرنے والے اہم مسائل پر حزب اختلاف کے بہت سے رہنماؤں کی طرف سے اختیار کردہ ’’خاموشی کی قواعد‘‘ پر تنقید کی۔
منوج جھا نے کہا ’’حد تو یہ ہے کہ حزب اختلاف کے رہنماوں نے بھی بے قصور مسلم طلباء اور کارکنوں کے بارے میں بہت کم بات کی ہے جن میں عمر خالد، خالد سیفی، میران حیدر وغیرہ شامل ہیں جو کئی سالوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔اس کے باوجود، انہوں نے امید ظاہر کی کہ حالیہ مینڈیٹ نے ہندوستانیوں میں شمولیت کے اصولوں پر ملک کی تعمیر نو کی خواہش کو اجاگر کیا ہے۔
سکھ رہنما سردار دیا سنگھ نے کسانوں کے 13 ماہ کے احتجاج کو یاد کیا جس کے ذریعہ متنازعہ زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے حکومت پر کامیابی سے دباؤ ڈالا گیا ۔ انہوں نے احتجاج کے دوران اور ماضی میں 1984 کے سکھ مخالف فسادات جیسے بحرانوں میں سکھ اور مسلم برادریوں کے درمیان پائی گئی یکجہتی کو اجاگر کیا۔ انہوں نے یاد کیا کہ ’’مسلمانوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر سکھوں کو پناہ گاہیں فراہم کیں تھیں تاکہ ان کی جانوں اور مالوں کو فسادیوں سے بچایا جاسکے۔‘‘ انہوں نے موجودہ سیاسی ماحول کو اقلیتوں کے لیے فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے خلاف متحد ہونے کا ایک موقع قرار دیا۔
نو منتخب ارکان پارلیمنٹ نے بھی اجلاس سے خطاب کیا۔ سماج وادی پارٹی کے ضیاء الرحمن برق نے ناانصافی کے خلاف ایک مضبوط آواز بننے کا عزم ظاہر کیا۔ جبکہ پارلیمانی حلقہ کیرانہ سے نو منتخبہ اقراء حسن چوہدری نے سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ سماجی تبدیلی کی ضرورت پر زور دیا۔
کنور دانش علی، جو کم ووٹوں کے فرق سے دوسری بار رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکے، انہوں نے خبردار کیا کہ حکم راں جماعت کو لگنے والے دھچکے مزید جارحانہ حکمت عملیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ انہوں نے اس تناظر میں مسلسل چوکسی برتنے اور اتحاد قائم رکھنے کا مطالبہ کیا۔
نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی نے ہندوستان میں اقلیتوں کے بارے میں بدلتے ہوئے بیانیے پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ 2014 سے پہلے جو اقلیتیں تھیں، اب وہ پچھلے دس برسوں میں ملک کی مظلوم طبقات بن چکی ہیں۔ روح اللہ مہدی نے کمزوروں کی حمایت کے لیے قرآنی احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے مسلمانوں سے نہ صرف اپنے لیے بلکہ تمام پسماندہ گروہوں کے لیے کھڑے ہونے کی اپیل کی۔
کیرالا کے رکن پارلیمنٹ ای ٹی محمد بشیر نے اپنی ریاست کے بین برادری تعلقات کے ماڈل کو باقی ہندوستان کے لیے ایک مثال کے طور پر پیش کیا۔ این سی پی کی ڈاکٹر فوزیہ خان نے مسلم ووٹروں کی مسلسل اہمیت پر زور دیا، ساتھ ہی انتخابات کے تجارتی کرن اور جرائم زدگی کے خطرات کے بارے میں بھی آگاہ کیا۔
عام آدمی پارٹی سے راجیہ سبھا کے ایم پی سنجے سنگھ نے نفرت انگیز سیاست کی مذمت کی اور قانونی چیلنجوں کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی لڑائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اپنی پرجوش تقریر میں انہوں نے کہا ’’مرکزی حکومت کے مظالم کے خلاف بولنے پر بی جے پی حکومت نے مجھے ای ڈی کے ذریعے چھ ماہ کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا۔ لیکن میں عہد کرتا ہوں کہ میں ہمیشہ انصاف، سچائی، اتحاد اور سیکولرازم کے لیے لڑتا رہوں گا‘‘۔
کانگریس کے رکن پارلیمنٹ عمران پرتاپ گڑھی نے اقلیتی ارکان پارلیمنٹ کے لیے اپنی کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے عملی اقدامات جیسے باقاعدہ غیر رسمی ملاقاتوں کی تجویز پیش کی۔ انہوں نے پارلیمنٹ کے قریب سنہری باغ مسجد کو ممکنہ انہدام سے بچانے کے لیے اپنی کامیاب مداخلت پر بھی روشنی ڈالی۔
سی پی آئی (ایم) کے سابق ایم پی محمد سلیم نے مسلمانوں کو صرف اپنے ہی نہیں بلکہ تمام پسماندہ طبقات کے حقوق کی وکالت کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مختلف پسماندہ گروہوں کے درمیان اسٹریٹجک اتحاد پر زور دیا۔
سماجی جہدکار شبنم ہاشمی نے حالیہ انتخابات میں ای وی ایم میں ممکنہ ہیرا پھیری کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔ حکم راں اتحاد کے لیے کچھ دھچکوں کے باوجود، انہوں نے نوٹ کیا کہ فرقہ وارانہ واقعات اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ شبنم ہاشمی نے فرقہ وارانہ مخالف گروہوں پر زور دیا کہ وہ اپنی چوکسی برقرار رکھیں، خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں اہم ریاستی انتخابات ہونے والے ہیں۔
اس قومی اجلاس کا اہتمام انڈین مسلمز فار سول رائٹس (آئی ایم سی آر) نے کیا تھا۔ یہ تنظیم جون 2022 میں تشکیل دی گئی ایک غیر سیاسی، غیر مذہبی تنظیم ہے جو ہندوستانی آئین اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کے شہری اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے کامکرتی ہے۔ اجلاس میں موجود آوازوں کے تنوع نے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی اور اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کے تعلق سے پائی جانے والی تشویش کو مؤثر انداز سے پیش کیا ہے۔
مقررین نے حالیہ سیاسی پیش رفت کے مختلف جائزے پیش کیے۔ مسلسل چوکسی، بین الاجتماعی یکجہتی اور آئینی اقدار کے لیے دوبارہ پرعزم ہونے کی ضرورت سے اتفاق کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ ملک ایک گہری سماجی اور سیاسی تقسیم سے دوچار ہے، اس اجلاس نے حزب اختلاف کی شخصیات، سیول سوسائٹی کے رہنماؤں اور اقلیتی برادریوں کے نمائندوں کے درمیان تعمیری بات چیت اور حکمت عملی طے کرنے کے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا ہے۔چونکہ اہم ریاستی انتخابات قریب آرہے ہیں اور اگلے عام انتخابات بھی زیادہ دور نہیں ہیں لہٰذا ان متنوع عاملین کے اتحاد کو برقرار رکھنے اور تفرقہ انگیز بیانیے کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہندوستان کے سیاسی مستقبل کی تشکیل میں اہم ہوگی۔
(بشکریہ: انڈیا ٹومارو ڈاٹ نیٹ)

 

***

 آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مسلم ارکان پارلیمنٹ، سابق ارکان پارلیمنٹ اور مرکزی وزراء بھارتی پارلیمنٹ سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع جواہر بھون میں ’’انڈین مسلمز فار سول رائٹس‘‘ کے بینر تلے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہوئے جس میں انہوں نے کمیونٹی کو درپیش بحران اور اس پر قابو پانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024