!!حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان رد و قبول اور مطابقت و مفاہمت

بھارت میں مضبوط اپوزیشن کے ساتھ ساتھ پریشرگروپس پالیٹکس بھی ضروری

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

بحیثیت ِ قائدِ حزبِ اختلاف راہل گاندھی کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں جن کی بروقت مناسب ادائیگی لازمی
ہر نظریہ اور فکر و عمل جہاں ایک جانب مخصوص گروہ اور اس سے وابستہ افراد کے لیے قابل قبول ہوتا ہے وہیں دیگر گروہوں اور ان سے وابستہ افراد کے لیے قابل رد بھی ہوسکتا ہے۔اس رد و قبول کے درمیان کچھ افکار و نظریات اور افعال ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مطابقت اور مفاہمت کا پایا جانا فطری ہے۔اور اسی مطابقت اور مفاہمت کے نتیجہ میں مختلف افکار و نظریات اور مذاہب و عقائد پر مبنی انسانی گروہ کسی بھی ملک میں مل جل کر رہنا سیکھتے ہیں اور ایک تکثیری سماج کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ہندوستانی معاشرہ تکثیری معاشرے پر مبنی ہے جہاں عوام کی اکثریت معاشرہ میں موجود مذہبی تنوع کو ایک اثاثہ کے طور پر دیکھتی ہے۔pew research کے 29 جون 2021 کے ایک تحقیقی مضمون میں جو مختلف سروے رپورٹس کی بنیاد پر لکھا گیا ہے واضح کرتا ہے کہ ہندوستان میں موجود مذہبی تنوع کو بطور فائدہ بتانے والے شہریوں کی تعداد تقریباً نصف 53 فیصد ہے۔برخلاف اس کے 24 فیصد تعداد ایسی ہے جو اسے نقصان دہ سمجھتی ہے وہیں 23 فیصد ایسے افراد بھی ہیں جو اس معاملے میں کوئی رائے نہیں رکھتے،یعنی وہ اس سوال پر کوئی فیصلہ کرنے سے ہی قاصر ہیں۔ملک میں رائج مذہبی تنوع کو فائدہ مند ،نقصان دہ اور کوئی فیصلہ نہ کرنے والے افراد کی آراء کی روشنی میں یہ بات بآسانی سمجھتی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی معاشرہ ایک ایسے نظریہ پر مبنی ہے جہاں آج بھی اکثریت تکثیری سماج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسرے الفاظ میں ہندوستانی معاشرہ کے مختلف گروہ جہاں ایک جانب اپنے مخصوص مذہب، عقائد، ثقافت،معاشرتی زندگی، پسند اور ناپسند کو اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں وہیں وہ دیگر اقوام اور گروہوں کے مذہب، عقائد، ثقافت، معاشرتی زندگی، پسند اور ناپسند کو اختیار کرنا معیوب نہیں سمجھتے۔یعنی وہ آج 2024کے ہندوستان میں بھی مل جل کر رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہندوستان دنیا کا ایک واحد ملک ہے جہاں بے شمار نظریات، عقائد، مذاہب اور معاشرتیں موجود ہونے کے باوجود وہ متحد ہے اور یہی اس کی اب تک شناخت بھی رہی ہے۔
ہندوستان میں رائج جمہوری نظام:
ہندوستان کے سفارت خانہ کی سرکاری ویب سائٹ www-eoibudapest-gov-in میں بتایا گیا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے تین سال سے بھی کم عرصے میں ہندوستان نے اپنا آئین بنایا اور 26 جنوری 1950کو بھارت جمہوری ملک قرار دیا گیا ۔ آئین کو ملک کے چند بہترین ذہنوں نے تیار کیا تھا جنہوں نے انصاف، آزادی اور مساوات کی تثلیث کو یقینی بنایا اور ہندوستان کے شہریوں کے لیے آئین کو اتنا لچک دار بنایا کہ وہ ایک جمہوری فریم ورک کے اندر سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کے تقاضوں کو پورا کرسکیں۔ملک کو 15 اگست 1947 کو آزادی ملی۔ جمہوریہ کا آئین 26 جنوری 1950 کو نافذ ہوا۔ساتھ ہی یہ آئین پوری قوم کے لیے واحد اور یکساں شہریت فراہم کرتا ہے اور ہر اس شخص کو ووٹ دینے کا حق دیتا ہے جو ہندوستان کا شہری ہو اور 18 سال یا اس سے زیادہ عمر کا ہو۔ہر ہندوستانی شہری کے بنیادی حقوق میں آزادی اظہار، اظہار خیال، عقیدہ، اسمبلی اور انجمن، ہجرت، اور پیشہ یا تجارت کا انتخاب شامل ہے۔ یہ حقوق ہر ہندوستانی کو نسل، مذہب، عقیدہ یا جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک سے بھی بچاتے ہیں اور قانون کی عدالتوں میں قابل نفاذ ہیں۔ ہندوستان میں حق رائے دہی پر مبنی حکومت پارلیمانی شکل میں موجود ہے۔ ایگزیکٹو اتھاریٹی اپنے تمام فیصلوں اور اقدامات کے لیے پارلیمنٹ میں عوام کے منتخب نمائندوں کو جواب دہ ہے۔ خودمختاری بالآخر عوام کے پاس ہے۔ پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مبنی ہے۔ i) راجیہ سبھا (ریاستوں کی کونسل پر مبنی) 250 سے زیادہ ارکان پر مشتمل نہیں ہوتی ہے، جن میں12ارکان صدر جمہوریہ کے ذریعہ نامزد ہوتے ہیں اور باقی منتخب ہوتے ہیں۔ اس کے ایک تہائی ارکان ہر دوسرے سال کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ کونسل کے انتخابات بالواسطہ ہوتے ہیں۔ ہر ریاست کے نمائندوں کا مختص کردہ کوٹہ اس ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے ذریعہ متناسب نمائندگی کے نظام کے مطابق ووٹ کے ذریعے منتخب کیا جاتا ہے۔ نامزد کردہ اراکین ایسے افراد ہیں جن کے پاس ادب، سائنس، آرٹ اور سماجی خدمات میں خصوصی علم یا عملی تجربہ ہو۔ راجیہ سبھا کی صدارت ہندوستان کے نائب صدر کرتے ہیں۔ii)لوک سبھا (ہاؤس آف دی پیپل)545 ارکان پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے 530 براہ راست 25 ریاستوں سے عوام کے ذریعہ منتخب ہوتے ہیں اور 13، سات مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے منتخب ہوتے ہیں۔نیز دو ممبران اینگلو انڈین کمیونٹی کی نمائندگی کے لیے صدر کی طرف سے نامزد کیے جاتے ہیں۔ایوان کی مدت مقرر کردہ تاریخ سے پانچ سال تک ہوتی ہے۔ لوک سبھا اپنے پریسائیڈنگ آفیسر، اسپیکر کا انتخاب کرتی ہے اور لوک سبھا کا اسپیکر اصولی طور پر تمام ممبران پارلیمنٹ کو ان کی نمائندگی کے پیش نظر اپنی بات رکھنے، حکومت سے سوال کرنے اور مثبت تنقید کرنے میں معاون و مددگار ہوتا ہے۔ ہندوستان کا صدر ریاست کا سربراہ اور مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف ہوتا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں (راجیہ سبھا اور لوک سبھا) اور ملک کی آئینی ریاستوں کے قانون سازممبران پر مشتمل ایک انتخابی عمل کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔ صدر پانچ سال کے لیے عہدہ رکھتا ہے اور دوبارہ منتخب ہو سکتا ہے۔عام طور پر صدر جمہوریہ ہنداپنی پہل پر کوئی آئینی اختیارات استعمال نہیں کرتا۔ ان کا استعمال وزیر اعظم کی سربراہی میں وزراء کی کونسل کرتی ہے، جو منتخب پارلیمنٹ کو ذمہ دار ہوتی ہے۔
حالیہ پارلیمنٹ 2024اوراسپیکر کا انتخاب :
فی الوقت2024کے لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی اور اس کے اتحادی(این ڈی اے) کے 293ممبران پارلیمنٹ کے ساتھ اگلے پانچ سال2029 کے لیے سنگھاسن سنبھالے ہوئے ہیں۔۔ وہیں آزادی کے بعد سب سے منظم اور متحد232ممبران پارلیمنٹ پر مشتمل ‘انڈیا اتحاد ‘کے نام سے حزب اختلاف قائم ہواہے۔انتخابات کے نتائج نے جن دو ریاستوں نے حزب اختلاف کی کامیابی میں اہم کردار اداکیا وہ اترپردیش اور مہاراشٹرا ہیں۔2014اور2019میں مہاراشٹر ا میں بی جے پی کو 71سیٹیوں پر کامیابی ملی تھی برخلاف اس کے 2024میں 24سیٹوں کے نقصان کے ساتھ صرف 17سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ وہیں دوسری جانب اترپردیش میں 2014اور2019میں اسے بالترتیب71اور 62سیٹوں پر کامیابی ملی تھی لیکن 2024میں 29سیٹوں پر ناکامی کا سامنا کرتے ہوئے صرف 33سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل ہوسکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ 2024کی حالیہ پارلیمنٹ میں حکومت بنانے کے لیے درکار 272سیٹوں سے نیچے آتے ہوئے صرف 240سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل کر پائی ہے اور ایک کمزور حکومت اگرچہ وہ اتحاد پر مبنی بیساکھیوں پر قائم ہوگئی اس کے باوجودوہ عمل میں آگئی ۔حکومت کے قیام کے بعد اب دوسرا مرحلہ لوک سبھا اسپیکرکے انتخاب کا تھا، یہ انتخاب عموماً بآسانی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے ذریعہ مکمل ہوجاتا ہے لیکن مضبوط حزب اختلاف نے جب ڈپٹی اسپیکر کا مطالبہ رکھا تو بی جے پی نے انکار کردیا۔نتیجہ میں اس نے اوم برلا کو نامزد کیا تو انڈیا اتحاد سے کانگریس پارٹی کے کوڈی کنیل سریش کی نامزدگی عمل میں آئی اور بالآخر اوم برلا دوسری مرتبہ اٹھارویں لوک سبھا کے لیے اسپیکر منتخب ہوگئے۔
صدرجمہوریہ اور وزیر اعظم کا خطاب:
صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے 18ویں لوک سبھا کے نو منتخب اراکین کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ عوام نے تیسری مرتبہ حکومت پر اعتماد ظاہر کیا اور میری حکومت تسلسل میں یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی ترقی کی رفتار کو تیز کیا جائے گا۔ ترقی کا تسلسل ہماری ضمانت ہے اور آنے والے بجٹ میں تاریخی اقدامات نظر آئیں گے۔ کسانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ 20 ہزار کروڑ روپے کسانوں کو منتقل کیے گئے ہیں اور ہم کسانوں کو زیادہ سے زیادہ خود انحصار بنائیں گے۔ 18ویں لوک سبھا کئی لحاظ سے تاریخی ہے۔ یہ لوک سبھا ‘امرت کال’کے ابتدائی سالوں میں بنی تھی۔ یہ لوک سبھا ملک کے آئین کی منظوری کے 56 ویں سال کا بھی مشاہدہ کرے گی۔ صدر جمہوریہ نے اپنے خطاب میں پیپر لیک کا بھی ذکر کیا۔ اور کہا کہ حکومت پیپر لیک کے واقعات کی غیر جانب دارانہ تحقیقات کروانے اور مجرموں کو سخت سزا دینے کے لیے پرعزم ہے۔دوسری جانب وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں دیگر اور باتوں کے علاوہ 1975میں لگنے والی ایمرجنسی کا تذکرہ کیا جسے گزشتہ پچاس سال پہلے انہی دنوں 25 جون کو نافذ کیا گیا تھا۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایمرجنسی کو بہت سوچ سمجھ کر یاد کیا گیا ہے جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اس کا تذکرہ صدر جمہوریہ کے خطاب میں بھی موجود ہے۔ وہیں لوک سبھا اسپیکر اوم برلا نے دس قدم آگے بڑھ کر باقاعدہ ایک قرار داد پیش کردی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کی وجہ سے حکم راں جماعت کو تھوڑی بہت سرخیاں توضرور مل گئیں مگر یہ معاملہ زیادہ دیر ٹھیرتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔اس طرح حکم راں جماعت اب بھی اپوزیشن کا حوصلہ پست کرنے اور اسے موقع نہ دینے کی اپنی پرانی روش پر قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 28 جون کو پارلیمنٹ میں نیٹ (NEET) کا معاملہ اٹھانے کی اجازت اپوزیشن کو نہیں دی گئی۔ حالاں کہ اپوزیشن کو موقع نہ دینے سے پارلیمنٹ کی شان و شوکت میں کمی آئے گی۔نتیجتاًجب بھی پارلیمنٹ کے اجلاس منعقد ہوں گے حکومت اور اپوزیشن اتحاد میں مفاہمت نہیں ہوسکے گی اورعوام کے ٹیکس پر بے شمار لاگت کے ساتھ چلنے والی پارلیمنٹ سے عوام کو فائدہ نہیں مل سکے گا۔سیاسی مبصرین کے حالیہ تجزیہ کے باوجود ملک کے شہریوں کو امید ہے کہ این ڈی اے اتحاد یا بی جے پی کی گزشتہ دس سالہ حکومت جس میں پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کا کوئی لیڈر ہی نہیں تھا، اب جبکہ دس سال بعد اٹھارویں لوک سبھا میں کانگریس پارٹی اور انڈیا اتحاد کے لیڈر راہل گاندھی کو حزب اختلاف کا باقاعدہ لیڈر منتخب کرلیا گیا ہے،معاملہ وہ نہیں رہے گا جو گزشتہ سولہویں اور سترہویں لوک سبھا میں دیکھنے میں آیا ہے۔
لوک سبھا میں مضبوط اپوزیشن اور لیڈر آف اپوزیشن کا کردار:
اٹھارویں لوک سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن یعنی حزب اختلاف کے لیڈر کا انتخاب عمل میں آنا اور ایک ایسے شخص کا اپوزیشن کا لیڈر منتخب ہونا جس پر تمام انڈیا اتحاد کی پارٹیوں نے اعتماد ظاہر کیا ہے یہ ہندوستانی جمہوری نظام کے لیے خوش آئند بات ہے۔لوک سبھا میں 1969 تک ایک ڈیفیکٹو اپوزیشن لیڈر ہوتاتھا جس کی کوئی رسمی پہچان، حیثیت یا استحقاق نہیں تھا۔ بعد میں قائد حزب اختلاف کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا اور 1977 کے ایکٹ کے ذریعہ اس کی تنخواہ اور الاؤنسز میں اضافہ کیا گیا۔ تب سے لوک سبھا میں لیڈر آف اپوزیشن بننے کے لیے تین شرائط پوری کرنی ہوتی ہیں۔(i)اسے ایوان کا رکن ہونا چاہیے، (ii)حکومت کی پالیسیز کی مخالفت میں سب سے زیادہ عددی طاقت رکھنے والی جماعت ہونا ضروری ہے اور (iii)لیڈرآف اپوزیشن کو لوک سبھا کے اسپیکر کے ذریعہ تسلیم کیا جائے۔دسمبر 1969 میں کانگریس کو پارلیمنٹ میں اہم اپوزیشن پارٹی کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا جبکہ اس کے لیڈر رام سبھاگ سنگھ نے اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا تھا۔حزب اختلاف کے لیڈر کی حیثیت کابینہ وزیر کے درجہ کے برابرہے۔ساتھ ہی وہ سلیکشن کمیٹیز، مرکزی تفتیشی بیورو، چیف الیکشن کمشنر، الیکشن کمشنرز، انفورسمنٹ ڈائریکٹر، نیشنل ہیومن رائٹس کمشنر، لوک پال چیف اور سرکاری اخراجات کی آڈٹ اور اخراجات کمیٹی کے ممبر کی حیثیت حاصل ہے۔ یعنی وہ ان تمام امور میں حصہ بھی لے گا، اس کی تجاویز پر غور بھی کیا جائے گا اور اس کے مشوروں کو اہمیت بھی دی جائے گی۔بالفاظ دیگر حزب اختلاف کا لیڈر حکومت کے بڑے اور اہم فیصلوں میں شامل ہوگا اور حزب اختلاف کی نمائندگی کرے گا۔یعنی اب گزشتہ دس سال کی طرح حکومت بلا مشورہ اور بلا اپوزیشن کی تجاویز کے بغیر بڑے فیصلے نہیں لے سکے گی بلکہ اپوزیشن کا بنیادی کردار حکومت وقت سے سوال کرنا اور انہیں عوام کے سامنے جواب دہ بنانا ہے۔ اس سے حکم راں جماعت کی غلطیوں کو ٹھیک کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ملک کے عوام کے بہترین مفادات کو برقرار رکھنے میں اپوزیشن برابر کی ذمہ دار بنتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ حکومت کوئی ایسا قدم نہ اٹھائے جس سے ملک پر منفی اثرات مرتب ہوں۔دوسری جانب اپوزیشن کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مقننہ میں بنیادی طور پر حکم راں یا غالب پارٹی کی زیادتیوں کو جانچے۔ نیز، حکم راں جماعت کے ایسے اقدامات جو عوام کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں اُس تعلق سے برسر اقتدار پارٹی،اپوزیشن سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ان اقدامات کی حمایت کرے گی۔اس لحاظ سے مضبوط اپوزیشن اور اس کے لیڈر کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت پر تعمیری تنقیدکرے،حکم راں جماعت کی من مانی پر قدغن لگائے، لوگوں کی آزادی اور حقوق کا تحفظ کرے، حکومت بنانے کی تیاری میں رہے اورعوامی رائے کا اظہارکرے۔
مضبوط اپوزیشن اور پریشرگروپس پالیٹکس:
جس طرح جمہوری اور تکثیری سماج میں ایک مضبوط اور منظم حکومت اور اپوزیشن کی اہمیت ہے ٹھیک اسی طرح ملک کے مسائل کو صرف ممبرآف پارلیمنٹ (برسراقتدار جماعت اور اپوزیشن) کے درمیان رد و قبول اور مطابقت اور مفاہمت پر نہیں چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ اگر عوام چاہتے ہیں کہ ان کے ذریعہ منتخب کیے گئے نمائندے اپنا بھر پور کردار ادا کریں تو اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ عوام بھی متحرک رہیں، ان کے ذریعہ مختلف منظم و مستحکم پریشر گروپس عوامی فلاح و بہبود کے پیش نظر فروغ دیے جائیں۔ان پریشر گروپس کا مقصد حکومت پر دباؤ ڈال کر عوامی پالیسیوں میں تبدیلی لانا ہے۔ وہ حکومت اور ان کے ارکان کے درمیان بہتر رابطے کا کام انجام دیتے ہیں۔پریشر گروپس کو مفاد پرست گروہ بھی کہا جاتا ہے لیکن وہ سیاسی جماعتوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ وہ انتخابات میں حصہ نہیں لیتے اور نہ ہی سیاسی طاقت چاہتے ہیں۔ان کی توجہ مخصوص عوامی پروگراموں اور مسائل پر ہوتی ہے۔ یہ حکومت پر اثر انداز ہو کر اپنے اراکین کے مفادات کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کرتے ہیں۔یہ گروہ قانونی اور جائز طریقوں سے حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جیسے لابنگ، خط و کتابت، پبلسٹی، پٹیشنز، عوامی مباحثے اور قانون سازوں سے رابطہ برقرار رکھنا وغیرہ۔ہندوستانی عوام جو سیاسی چال بازیوں کا فہم رکھتے ہیں انہیں اپنا کردار اداکرنے کے لیے ہمہ وقت متوجہ رہنا ہوگا۔کیونکہ کسی بھی حکومت میں عدل و قسط کا مسئلہ سب سے اہم ہے اور جہاں انصاف باقی نہیں رہتا وہاں تباہیاں نمودار ہوتی ہیں۔اور اِن تباہیوں کا شکار بھی سب سے پہلے عوام ہی ہوتے ہیں۔لہٰذا ہر صاحب عقل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مخصوص دائرہ عمل میں چھوٹے اور بڑے پریشر گروپس تشکیل دے،جس کا بنیادی مقصد انصاف پر مبنی نظام اور عدل و قسط کا قیام ہونا چاہیے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 جولائی تا 13 جولائی 2024