حزبِ اختلاف کا بہترین اتحا د

1975کے بعد سے اپوزیشن اس قدر متحد کبھی نہیں رہا جتنا آج ہے

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

سیفو لیجسٹوں کے شماریاتی تجزیے بھی مختلف بیانیے پیش کر رہے ہیں
ہندوستان کی سیاست سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ 1975 کے بعد اپوزیشن اگر متحد ہوئی ہے تو آج 2024 کی اپوزیشن پارٹیاں ہیں۔ کیوں کہ 1975 اور 2024 سے پہلے تک اپوزیشن اس قدر منظم انداز میں کبھی متحد نہیں ہوئی اور اس بات سے شاید آپ بھی بخوبی واقف ہوں گے کہ 1975میں جب اندرا گاندھی کے انتخابات میں بدعنوانی کے الزامات عدالت میں درست ثابت ہوئے تو جے پرکاش نارائن عرف جے پی نے اندرا گاندھی سے استعفیٰ دینے کے لیے کہا تھا، ساتھ ہی انہوں نے اندرا گاندھی کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کی تھی جسے انہوں نے مکمل انقلاب کا نام دیا تھا۔ اس پر اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا اعلان کیا اور جے پی کے علاوہ دیگر اپوزیشن لیڈروں کو گرفتار کر لیا۔ جے پی کی گرفتاری کے خلاف دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں نے احتجاج کیا۔ اس وقت رام دھاری سنگھ دنکر نے کہا تھا ’سنہاسن خالی کرو کہ جنتا آتی ہے‘۔ جنوری 1977 میں ایمرجنسی اٹھا لی گئی۔ لوک نائک کے ’مکمل انقلاب‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی بار غیر کانگریسی حکومت قائم ہوئی۔جے پی کو 1999 میں حکومت ہند نے بھارت رتن اور 1965 میں سماجی خدمات پر میگسیسے ایوارڈ سے نوازا تھا۔ دوسری جانب آج 2024 ہے جب اپوزیشن جماعتیں نظریاتی اختلافات کے باوجود، پالیسی پروگرام اور طریقہ سیاست سے حد درجہ مختلف ہونے کے باوجود کچھ سافٹ ہندتو کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہیں تو کچھ ہارڈ ہندتو کے ایجنڈے پر۔ یہاں تک کہ سیکولر، سوشلسٹ اور کمیونسٹ و دیگر جماعتیں سب ایک جگہ نہ صرف متحد ہوگئے ہیں بلکہ اپنے اپنے دائرے میں حد درجہ سرگرم عمل بھی ہیں۔جس کو جس قدر وقت مل رہا ہے اس کا وہ بھر پور استعمال کر رہا ہے۔ کسی کو جیل سے چند دن کے لیے ضمانت ملی ہے تو وہ دن رات مصروف عمل ہے۔ کسی کے پیر میں بے انتہا درد ہے، چلنا دو بھر ہے، اس کے باوجود وہ ریلیوں پر ریلیاں کر رہا ہے یہاں تک کہ اس نے خود اپنے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالے۔ کوئی بیمار ہے، کوئی عمر کے تقاضے کی بنا پر کمزروی میں مبتلا ہے، کسی کا شوہر جیل میں ہے تو وہ بذات خود سر دھڑ کی بازی لگا کر میدان سیاست میں مصروف ہے، کسی کو اندرون تو کسی کو بیرونی طور پر متعلقہ اپوزیشن سیاسی پارٹی سے الگ ہوجانے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ عورت، مرد، جوان، بوڑھے سب وقت کا ہر ممکن استعمال کرنے اور برسر اقتدار حکومت کو ہٹانے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ اس کے باوجود کچھ لا علم حضرات اس بات پر گفتگو کرتے نظر آتے ہیں کہ اپوزیشن کمزور ہے، وہ اس قدر سرگرم نہیں جتنی کہ ہونی چاہیے، سول سوسائٹی ہی سارا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کی کوشش بھی ایک حد تک ہی ہے، ایسے میں حکومت تبدیل ہوجائے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ یہ اور اس سے ملتی جلتی باتیں بھی سننے میں آرہی ہیں۔تو اب توجہ فرمائیے کہ وہ اپوزیشن پارٹیاں جو 1975 کے بعد سے آج تک متحد ہوتی نظر نہیں آئیں، وہ عوام کو سرگرم نظر نہیں آرہی ہیں تو آخر ایسا کیوں ہے؟
ہندوستانی سیاست کے چند توجہ طلب پہلو:
دوسری جانب اسی ہندوستانی سیاست کے گلیاروں میں یہ خبر بھی عام ہے کہ حال ہی میں ہندوستان میں برسراقتدار ہندو قوم پرست بی جے پی کے قومی ترجمان سدھانشو ترویدی دور کی کوڑی لاکر باضابطہ 5؍ دسمبر 2023 کے پارلیمنٹ کے ونٹر سیشن اجلاس میں بتا رہے تھے کہ بابری مسجد کی شہادت، رام مندر کی تعمیر اور ہندوستان کی اقتصادی ترقی کے درمیان براہ راست رشتہ ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب 1992 میں مسجد کو مسمار کیا گیا تو ہندوستان میں غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کا حجم ایک بلین ڈالر تھا۔ جب 2003 میں محکمہ آثار قدیمہ نے مسجد کے ملبہ تلے کھدائی کرکے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آیا اس کی تعمیر کسی مندر کے اوپر کی گئی تھی، تو غیر ملکی زر مبادلہ کا حجم 100 بلین ڈالر پہنچ گیا۔ جس وقت سپریم کورٹ نے مسمار شدہ مسجد کی اراضی ہندوؤں کے حوالے کرکے رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کردیا تو غیر ملکی کرنسی کا حجم 500 بلین ڈالر ہوگیا اور جب اس سال کے اوائل میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایودھیا میں اس مسجد کی جگہ عالیشان رام مندر کا افتتاح کیا تو غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 600 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔ یعنی وہ غالباً یہ کہنا چاہتے کہ اگر وشو ہندو پریشد کی لسٹ جس میں وہ تقریباً 25 ہزار مساجد کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کو مسمار کرکے مندروں میں تبدیل کیا جاتا ہے، تو ہندوستان کے پاس دولت کے اتنے ذخائر ہوں گے کہ ان کو رکھنے کے لیے جگہ بھی کم پڑے گی۔یہ بیان اور بیانیہ باضابطہ اشتعال دلانے والا اور دیگر عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کی سمت ایک طرح کا ڈائریکشن تھا۔ وہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مئی 1950 کو ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے خبردار کیا تھا کہ فرقہ واریت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ملک کو چیلنج پاکستان کی طرف سے اتنا زیادہ نہیں جتنا اپنے ان لوگوں کی طرف سے ہے جو فرقہ وارانہ خطوط پر سوچتے ہیں۔ 1958 میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اکثریتی طبقہ کی فرقہ پرستی کو ملک کے لیے سب سے خطرناک بتایا تھا، مگر بعد میں اندرا گاندھی کے دور میں اس جانب کچھ جھکاؤ دیکھا گیا کیوں کہ اندرا گاندھی اس وقت کئی وجوہات کے سبب سیکولرازم اور نہرو کے اصولوں سے دور ہٹ گئی تھیں۔
ووٹر ٹرن آؤٹ ڈیٹا،الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ آف انڈیا:
کہا جاتا ہے کہ 2014 اور 2019 کے بعد اگرچہ اندرا گاندھی کی طرح موجودہ حکومت نے ایمرجنسی کا باضابطہ اعلان نہیں کیا ہے لیکن اس نے غیر اعلان شدہ ایمرجنسی نے لگائی ہوئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں سیاسی جماعتیں، حکومتی ادارے اور عوام بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اور اب جبکہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات جاری ہیں، اس درمیان ووٹر ٹرن آؤٹ ڈیٹا کا مسئلہ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے ایک اہم مسئلہ بنا کر اٹھایا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو پہلے مرحلے کی حتمی ووٹنگ فیصد جاری کرنے میں گیارہ دنوں کی تاخیر کے بعد تین مراحل کے حتمی اعداد و شمار جاری کرنے میں اس نے مزید چار دنوں کا وقت لیا تھا اور ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار کو شائع کرنے میں تاخیر اور حتمی اعداد و شمار اور ووٹنگ کے دن ابتدائی طور پر جاری کیے گئے اعداد و شمار کے درمیان پاے جانے والے فرق پر کمیشن کو بڑے پیمانے پر مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔یہاں تک کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا، لیکن سپریم کورٹ نے 24 مئی کو اپنی ویب سائٹ پر پولنگ بوتھ کے حساب سے ووٹر ٹرن آؤٹ ڈیٹا اپ لوڈ کرنے کے لیے ایک این جی او کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو کوئی عبوری ہدایت جاری کرنے سے انکار کر دیا اور لوک سبھا انتخابات کے درمیان ہاتھ باندھ دینے کا رویہ “hands-off attitude” کی حمایت کی۔ تاہم، عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کو جولائی میں مزید سماعت کے لیے درج کیا اور واضح کیا کہ وہ 2019 میں دائر کی گئی اصل درخواست میں ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس (ADR) کی طرف سے اٹھائے گئے مسئلے کی خوبیوں پر کوئی مشاہدہ نہیں کر رہی ہے۔ "ہم عمل میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتے۔ ہم بھی ذمہ دار شہری ہیں۔ آئیے کسی اتھارٹی پر بھروسا کریں۔ ہم اس درخواست کو زیر التوا رکھیں گے اور الیکشن ختم ہونے کے بعد اس کی سماعت رٹ پٹیشن کے ساتھ کی جائے گی۔
الیکشن کمیشن نے 22مئی 2024کو سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس کے پاس فارم 17-سی کی بنیاد پر ووٹنگ فیصد سے متعلق ڈیٹا یا ہر پولنگ اسٹیشن پر ڈالے گئے ووٹوں کو ظاہر کرنے کا کوئی لیگل مینڈیٹ نہیں ہے اور اس طرح کے انکشافات کا غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔کمیشن نے یہ حلف نامہ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) اور کامن کاز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کے جواب میں داخل کیا، جس میں موجودہ لوک سبھا انتخابات میں ووٹنگ فیصد کے اعداد و شمار کو فوری طور پر شائع کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ فارم 17-سی کی بنیاد پر تصدیق شدہ ووٹنگ فیصد ڈیٹا شیئر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن پابند نہیں ہے، کمیشن نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ یہ واضح کیا جاتا ہے کہ امیدوار یا اس کے ایجنٹ کے علاوہ کسی اور شخص کو فارم 17-سی فراہم کرنے کا کوئی قانونی حکم نہیں ہے۔ درخواست گزار الیکشن کے درمیان ایک درخواست دائر کر کے اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ قانون میں ایسا کوئی حق نہیں ہے۔ ساتھ ہی اپنے جواب میں، کمیشن نے فارم 17-سی کے ذریعے ووٹروں کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کی اپنی قانونی ذمہ داری اور اپنے ایپ، ویب سائٹ اور پریس کانفرنسوں کے ذریعے ووٹنگ ڈیٹا کے غیر قانونی، ‘رضاکارانہ انکشاف’ کے درمیان فرق کو واضح کیا۔
2024 کے ایگزٹ پولس اور سیفولوجسٹ:
سیفولوجی پولیٹیکل سائنس کا ایک شعبہ ہے جو امتحانات کے علاوہ انتخابات اور پولز کے شماریاتی تجزیہ سے متعلق ہے۔ جو لوگ سیفولوجی پر عمل کرتے ہیں انہیں ماہر سیفولوجسٹ کہا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں بے شمار نیوز چینلس ہیں جن پر ماہرین ہر انتخابی مرحلے کے بعد اندازے لگانے شروع کر دیتے ہیں کہ کس مرحلے میں کون سی سیاسی پارٹی کو نتائج کے اعتبار سے کتنا فائدہ اور نقصان ہوسکتا ہے۔ وہیں چند معروف سیفولوجسٹ کے انٹرویوز بھی آج کل گفتگو کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک معروف سیفولوجسٹ وہ بھی ہیں جنہوں نے کبھی بی جے پی کو اقتدار تک پہنچانے کے لیے اپنی پروفیشنل خدمات دی تھیں۔بعد میں دلبرداشتہ ہونے کے بعد ایک بڑی ہندی ریاستی پارٹی کو انہوں نے خدمات دیں اور اس میں شمولیت بھی اختیار کرلی۔ کچھ عرصہ بعد وہ وہاں سے بھی دلبرداشتہ ہوئے اور پھر ہندی بیلٹ سے بنگالی بیلٹ میں جاکر مشہور ہوگئے۔مزید یہ کہ انہوں نے کانگریس پارٹی کو بھی میدان سیاست میں کھڑا کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا او رتقریباً 600 صفحات کی پرزنٹیشن پیش کی تھی اور بعض ذرائع کے مطابق وہ پارٹی میں شمولیت بھی اختیار کرنا چاہتے تھے لیکن ڈیلنگ ٹھیک طرح نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہاں سے بھی دلبرداشتہ ہوکر خود بہار کی سیاسی بساط پر اپنی زمین ہموار کرنے میں مصروف ہو گئے۔ انہیں کے چرچے ایک انٹریو کے بعد آج کل خوب ہو رہے ہیں اور ایک بار پھر محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہاں سے چلے تھے وہیں پہنچ گئے ہیں۔ اگرچہ وہ بی جے پی حکومت کو اپنی پروفیشنل خدمات نہیں دے رہے ہیں اس کے باوجود وہ تیسری مرتبہ این ڈی اے کی حکومت بننے کے دعوے کررہے ہیں۔ توجہ فرمائیے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اسی لیے ہمارا ماننا ہے کہ اگرچہ ملکی سطح پر سیاسی پارٹیاں اور عوام کے درمیان حکومت کے تعلق سے رجحانات بہت واضح فرق کے ساتھ سامنے آرہے ہیں اس کے باوجود یہ میدان سیاست ہے یہاں کوئی ٹھیراؤ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہوش مندی اور دانش مندی کے ساتھ وقت کے تقاضے کو پیش نظر رکھتے ہوئے شہریوں کو ووٹ کے حق کا استعمال کرنا چاہیے اور یہ بات بھی ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ انتخابی سیاست میں سرگرم ہونا کوئی حتمی نتیجہ نہیں ہے۔ بے شمار عوامی فلاح و بہود اور ملک و ملت کی فکری، نظریاتی اور شعوری ارتقا کے ایسے ہزارہا کام ہیں جنہیں جاری رہنا چاہیے خواہ حکومت کسی کی بھی بنے۔
***

 

***

 اگرچہ ملکی سطح پر سیاسی پارٹیاں اور عوام کے درمیان حکومت کے تعلق سے رجحانات بہت واضح فرق کے ساتھ سامنے آرہے ہیں اس کے باوجود یہ میدان سیاست ہے یہاں کوئی ٹھیراؤ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ ہوش مندی اور دانش مندی کے ساتھ وقت کے تقاضے کو پیش نظر رکھتے ہوئے شہریوں کو ووٹ کے حق کا صحیح استعمال کرنا چاہیے اور یہ بات بھی ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہیے کہ انتخابی سیاست میں سرگرم ہونا کوئی حتمی نتیجہ نہیں ہے۔ بے شمار عوامی فلاح و بہود اور ملک و ملت کی فکری، نظریاتی اور شعوری ارتقا کے ایسے ہزارہا کام ہیں جنہیں جاری رکھنا چاہیے خواہ حکومت کسی کی بھی بنے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024