حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی

مولانا فاروق خاں مرحوم۔ ایک دل پذیر علمی شخصیت

ڈاکٹر عبدالخالق راشد، محبوب نگر

کلام نبوت‘ کی تصنیف اہم کارنامہ۔ مولانا کی کتابیں داعیان دین اور تحریکی کارکنوں کے لیے قیمتی اثاثہ ‘
مولانا محمد فاروق خاںؒ کا تعارف مجھے ان کی کتابوں سے ہوتا رہا۔ ’خدا کی پر اسرار ہستی‘ ، ’قرآن کا صوتی نظام‘ اور ’انسانی جبلتوں کا مطالعہ‘ جیسی مختصر کتابوں نے ان کی شخصیت کے طرف متوجہ کیا۔ مولانا کے موضوعات اور ان کی تحریریں قرآن و حدیث پر ہی مرکوز تھیں۔ میں نے ان کی ہر کتاب کو پڑھنے کے لیے خود کو مجبور پایا ہے۔ مولانا نے بعض دیگر موضوعات جیسے ’اسلام کی اہمیت ہندو دھرم کی پس منظر میں‘ اور ’ہندو دھرم کی جدید شخصیتیں‘ پر بھی قلم اٹھایا ہے۔ ان شخصیتوں کی اندرونی کیفیت و نفسیات پر جس طرح سے انہوں نے روشنی ڈالی ہے اس سے ان کی فکر کی گہرائی وگیرائی کا اندازہ ہوتا ہے اور مولانا کی تحریریں دعوتی کام کرنے والوں کے لیے ایک اچھا مواد فراہم کرتی ہیں۔
’’انسانی جبلتوں کا مطالعہ‘‘ اس کتاب کو پڑھنے کہ بعد احساس ہوا کہ مولانا نے اس چھوٹی سے مختصر کتاب کے لیے نہ جانے کتنی کتابوں کا مطالعہ کیا ہوگا۔ اسی طرح مولانا کی کتاب ’’تزکیہ نفس اور ہم‘‘ تحریک کے تربیتی نظام کے لیے ایک بہترین کتاب ہے۔
مولانا کا اہم کارنامہ احادیث کا مجموعہ ’کلام نبوت‘ کی تصنیف ہے۔ دل کہتا ہے کہ اللہ رب العزت اس کام کی بدولت ضرور ان سے راضی ہوگا۔ کلام نبوت میں مولانا نے احادیث کا بہت ہی جامع انتخاب کیا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ اگر کسی کے پاس صحاح ستہ یعنی احادیث کی سات بڑی کتابیں نہ ہوں اور صرف کتاب کلام نبوت ہی ہو تو بڑی حد تک تشنگی دور ہوجائے گی۔ مولانا کا جمع کردہ احادیث کا یہ مجموعہ مع حواشی خاص طور پر تحریکی کارکنوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ مولانا مرحوم نے جس عرق ریزی کے ساتھ اس مجموعہ کو ترتیب دیا اور پھر ہر موضوع کے آغاز میں جو نوٹ لکھا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ خصوصاً اخلاقیات پر جس طرح سے تعارف دیا ہے وہ ایک محقق کا جامع تحریری نوٹ محسوس ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ مولانا نے احادیث کی حد درجہ بلیغ و عالمانہ تشریح کی ہے جو انہی کا حصہ تھا۔ جب بھی میں مولانا کی کتابوں بالخصوص ’کلام نبوت‘ کا مطالعہ کرتا ہوں تو ایک طرح کا اطمینان اور لطف وانبساط کی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔
ایک عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ میں تمام اکابر تحریک اسلامی سے ملاقات کروں۔ ایس آئی او سے سبکدوش ہونے کے بعد 2002ء میں مجھے تحریک کی رکنیت ملی اور پھر کل ہند اجتماع کی تیاری بھی رہی۔ ابتداء سے ذہن بنالیا تھا کہ میں ہر ایک سے ملنے کی کوشش کروں گا۔ اور پھر اس وقت جتنے بھی اکابر باحیات تھے ان تمام سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور میں نے ہر ایک سے اپنی نوٹ بک میں ان کے زریں مشورے بھی لکھوالیے، مگر دو شخصیتیں ایسی تھیں جن سے میں نہیں مل پایا جن میں سے ایک مولانا یوسف اصلاحیؒ اور دوسرے مولانا محمد فاروق خانؒ تھے۔ جس کا مجھے بے حد افسوس ہوا۔ اجتماع کے اختتام پر میں اور ایک رفیق جماعت، چتلی قبر (پرانا آفس) جانے کی تیار ی کر رہے تھے کہ ایک رفیق نے بتایا کہ اس وقت تو وہاں کوئی نہیں مل سکتا، لہٰذا مولانا سے نہ ملنے کی ایک خلش دل میں رہ گئی تھی۔
اجتماع سے گھر لوٹنے کے بعد حلقہ سے سرکلر آیا کہ اجتماع کے تاثرات روانہ کریں۔ اور میں نے لکھا تھا کہ ہم تمام ارکان دور دراز مقامات سے اس لیے بھی آتے ہیں کہ تمام اکابر جماعت، ارکان مرکزی شوریٰ سے ملاقات ہو اور میری خواہش تھی کہ کلام نبوت کے مصنف سے کلام نبوت سنوں۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میری اس بات کو نوٹ کیا گیا تھا مگر یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس کے بعد دو کل ہند اجتماعات میں مولانا کو خطاب کا موقع دیا گیا۔
اللہ تعالٰی نے سبیل نکالی پھر آٹھ سال کے وقفہ کہ بعد کل ہند اجتماع 2010ء میں منعقد میں ہوا۔ اسی اجتماع میں میری یہ دیرینہ خواہش پوری ہوگئی۔ اس اجتماع میں مولانا کی تقریر کے بعد بہت کوشش کی کہ ان سے ملوں مگر موقع نہ مل سکا۔ اجتماع کہ تیسرے دن میں اور میرے ساتھی رکن جماعت سردارالدین صاحب دونوں جامع مسجد جاکر وہاں چتلی قبر قدیم آفس دیکھنے نکلے، مجھے مولانا سے ملنے کی قطعی امید نہ تھی لیکن پھر بھی ایک تمناو آرزو تھی کہ شاید ملاقات ہوجائے۔ خیر ہم ڈھونڈتے ڈھونڈتے آفس پہنچے، پہلے دفتر کا معائنہ کیا پھر واپسی پر باہر والے روم میں آفس سکریٹری سے بات ہوئی۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں مولانا کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگے مولانا ابھی ابھی آئے ہیں اور ابھی نکلنے والے ہیں۔ یہ گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ انہوں نے کہا وہ دیکھیں مولانا جا رہے ہیں اور میں فوراً پھرتی کے ساتھ باہر نکلا اور بآواز بلند مولانا مولانا کہتا ہوا آگے بڑھا۔ مولانا رک گئے اور پلٹ کر دیکھا۔ سر پر وہی مخصوص ٹوپی جو چوڑی پیشانی پر کسی قدر جھکی ہوئی تھی۔ علم و عمل کے نورسے بھرا ہوا سینہ، چہرے پر ایک معتبر رعب تھا۔ میں مولانا کی سادہ مگر عظیم شخصیت کا اثر محسوس کر رہا تھا۔ قریب جاکر میں نے اپنا تعارف کروایا تو مولانا نے گلے سے لگالیا۔ مصافحہ کے بعد میں نے مولانا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا۔ مولانا نے کہا’’مجھے ایک ہندی سمیلن میں جلدی سے جانا ہے۔ آپ سے تفصیلی ملاقات کل کروں گا‘‘۔ابھی تک میں مولانا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے تھا۔ میں نے کہا مولانا مجھے صرف آپ سے ملنا تھا سو مل چکا۔ پھر میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں مولانا کا ہاتھ لے کر اوپر اٹھایا اور کہا کہ مولانا یہی ہاتھ ہے نا جس نے کلام نبوت تحریر کیا ہے۔
مولانا نے اس سوال پر چند لمحوں تک کچھ نہ کہا۔ پھر بولے ’’ہاں بالکل‘‘۔ پھر میں نے ہاتھ کو اور اوپر اٹھاکر مولانا سے کہا کہ آپ نے جس خلوص نیت کے ساتھ اور جس جذبہ حبِّ رسول کے ساتھ یہ کتاب لکھی ہے میں بھی اسی جذبہ کے ساتھ ان ہاتھوں کو چوم رہا ہوں جنہیں کلام نبوت جیسی شاہکار کتاب لکھنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ پھر میں نے ان کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگاکر چوم لیا۔ پھر کہا کہ مولانا! میں آپ کی کتابیں پڑھتا ہوں۔ یہ سنتے ہی مولانا نے کہا ’’کیا آپ میری کتابیں پڑھتے ہیں‘‘ تب میں نے کہا پڑھتا ہوں بلکہ شوق سے پڑھتا ہوں تو مولانا نے مجھے ایک بار اور گلے سے لگالیا۔ اب تک میں صرف مولانا کی تحریروں سے متاثر تھا لیکن اس مختصر سی ملاقات کے بعد مجھے احساس ہوا مولانا کی شخصیت بھی اتنی ہی دل پذیر ہے جتنی ان کی تحریریں۔ مولانا کی غنائیت اور اپنے کام میں حد درجہ یکسوئی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں تحریک کے لیے وقف کر رکھی تھیں۔
یہ میری مولانا سے پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد مولانا سے خط و کتابت ہوتی رہی۔ ان کے دو خطوط ابھی تک میرے پاس محفوظ ہیں۔ خطوں کا جواب دیکھ کر بہت خوشی ہوتی تھی کہ وہ ایک عام رکن جماعت کے خط کا جواب بھی دیا کرتے تھے ۔ مولانا سے ایک خط میں یہ خواہش کی تھی کہ آپ نے احادیث پر جو کام کیا ہے یعنی ’’کلام نبوت‘‘ اور ’’علم حدیث، ایک تعارف‘‘ تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آپ ’’سیرت طیبہ‘‘ پر بھی ایک فکری و علمی تصنیف رقم فرما دیں۔ پھر یہ بھی کہا تھا کہ احادیث کا ایک ایسا مجموعہ ترتیب دیں جس میں ایک سال کے ہر دن کے لحاظ سے 365 احادیث ہوں اور جس میں یوم جمعہ، عاشورہ، عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت اور اس طرح کے مختلف موقعوں کو ملحوظ رکھیں تاکہ عوام کے لیے احادیث کا یہ مجموعہ بہتر و مفید ثابت ہو۔ مولانا نے جواب میں لکھا ’’میری بھی خواہش ہے کہ سیرت پر لکھوں‘‘ اور آپ 365 دن کے لحاظ سے احادیث کا جو مجموعہ چاہتے ہیں، فرصت ہو تو لکھوں گا۔
2015ء میں کل ہند اجتماع شہر حیدرآباد میں منعقد ہوا۔ جس میں مولانا کی تقریر تھی، تقریر کے اختتام کے بعد مولانا سے ملاقات ہوئی۔ اپنا تعارف کروایا تو سن کر مسکرائے اور پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں مولانا کا بیگ لے کر ساتھ چلتا رہا اور اپنا مدعا بیان کیا کہ سیرت پر ایک کتاب لکھی ہے آپ اس پر نظر ثانی کریں۔ مولانا نے بغیر کچھ کہے ہاں کر دی۔ میں نے ایک بڑا لفافہ مولانا کے حوالے کر دیا۔ مولانا نے کہا کہ مجھے یاد دلاتے رہیں۔ دراصل میں نے ماہ ربیع الاول میں اس کو مسجد میں سنایا تھا۔ مولانا سے دوچار مرتبہ فون پر بھی بات ہوئی۔ ایک اور موقع پر مولانا سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ حیدرآباد میں ’’قرآن کا ادبی اعجاز‘‘ کے موضوع پر ایک سمینار رکھا گیا تھا جس کی صدارت مولانا کے ذمہ تھی۔ میں بھی اس پروگرام میں شریک ہوا اور مولانا کی تقریر فون میں ریکارڈ بھی کرلی۔ پروگرام کے اختتام کے بعد مولانا کا شعری مجموعہ ’’حرف و صدا‘‘ خرید کر مولانا کے پاس گیا، کتاب پر مولانا نے میرا نام لکھ کر اپنی دستخط ثبت کر دی۔
دوپہر کے وقت جماعت کے آفس پر پہنچ کر مولانا سے ملاقات کی بلکہ مولانا نے اپنی پلنگ پر قریب ہی بٹھا لیا اور سیرت کی کاپی واپس کردی اور کہا کہ اچھی کوشش ہے۔ میں نے کہا مولانا اگر شائع کرنا ہو تو آپ ’پیش لفظ‘ لکھ دیں۔ مولانا نے کہا ’پیش لفظ‘ کی فکر نہ کریں بلکہ آپ لکھتے جائیں، رکیں نہیں۔ مولانا کے ان الفاظ نے میرے حوصلوں کو تقویت دی۔ اور اطمینان ہوا کہ مولانا نے میری تحریر پر ایک اچھا تاثر دیا ہے۔
مولانا سے میں ’’ہندو دھرم کی جدید شخصیتیں‘‘ پر گفتگو کرتا رہا۔ مولانا نے کہا کہ میں نے آچاریہ رجنیش سے ملاقات کی بلکہ اُن کے آشرم میں بھی جانا ہوا۔ ان کی لائبریری کا بھی مشاہدہ کیا ہوں۔ تھوڑی دیگر گفتگو کے بعد مولانا سے مصافحہ کیا پھر دعائیں لے کر رخصت ہوا۔ میں نے دیکھا کہ مولانا نے میری کتاب کے مسودے میں غلطیوں کو نشان زد بھی کیا تھا۔
یہی مولانا سے آخری ملاقات ثابت ہوئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو اپنے پاس اس دن بلالیا جب دنیا بھر سے توحید پرست یوم عرفہ پر میدان عرفات میں جمع ہو کر اپنی مغفرت کے لیے دعائیں کر رہے تھے، اور اللہ تعالیٰ پہلے آسمان پر فرشتوں کے سامنے اس بات پر فخر کر رہا تھا کہ میرے بندے فقط میری رضا کے لیے یہاں آتے ہیں، تم گواہ رہو کہ میں نے انہیں بخش دیا ہے۔
ایسے پر فضا و روحانی ماحول میں تحریکِ اسلامی کا ایک مجذوب و صوفی، درویش صفت عالم دین اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اِنَّا لِلٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
***

 

***

 مولانا کا اہم کارنامہ احادیث کا مجموعہ ’کلام نبوت‘ کی تصنیف ہے۔ دل کہتا ہے کہ اللہ رب العزت اس کام کی بدولت ضرور ان سے راضی ہوگا۔ کلام نبوت میں مولانا نے احادیث کا بہت ہی جامع انتخاب کیا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا کہ اگر کسی کے پاس صحاح ستہ یعنی احادیث کی سات بڑی کتابیں نہ ہوں اور صرف کتاب کلام نبوت ہی ہو تو بڑی حد تک تشنگی دور ہوجائے گی۔ مولانا کا جمع کردہ احادیث کا یہ مجموعہ مع حواشی خاص طور پر تحریکی کارکنوں کے لیے نعمت غیر مترقبہ ہے۔ مولانا مرحوم نے جس عرق ریزی کے ساتھ اس مجموعہ کو ترتیب دیا اور پھر ہر موضوع کے آغاز میں جو نوٹ لکھا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اگست تا 19 اگست 2023