
سمیہ بنتِ عامر خان
دنیا کیا ہے؟ محض پانی کا ایک بلبلہ جو رب کے حکم پر قائم ہے۔ جس دن رب العالمین کا حکم ہوگا دنیا کا یہ چکر رک جائے گا۔ جو جس حال میں ہے وہیں ٹھیر جائے گا۔ صبح و شام کا چکر ہو یا زندگی اور موت کا سب ایک دن فنا ہو جائیں گے۔ اور وہ دن ہوگا قیامت کا دن، جس دن ایک ایسا صور پھونکا جائے گا کہ دنیا کے سارے رنگ پھیکے پڑ جائیں گے۔ یہ تخت و تاج کی دنیا، جس کے ملنے پر انسان خود کو بہت رئیس و کبیر سمجھتا ہے، جس میں انسان ظاہر کو تو سنوارتا ہے لیکن باطن کو بھول بیٹھا ہے، جب کہ رنگین دنیا کے اختتام پر اس کے باطن پر ہی اس کے اعمال کا حساب ہوگا۔
گرگٹ کو تو آپ سب نے دیکھا ہی ہوگا، پل بھر میں یوں رنگ بدلتا ہے کہ پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ جدید دنیا کے انسان کا بھی یہی حال ہے، پلک جھپکتے دیر نہیں لگتی کہ ایک نیا رنگ سامنے آ جاتا ہے۔
مادہ پرستی کہیے یا مفاد پرستی، مسلمان دنیوی عیش و عشرت میں اس قدر کھو چکا ہے کہ ظاہری طور پر تو بڑا باعزت و باوقار نظر آتا ہے لیکن باطنی طور پر اسلام کے رنگوں سے بالکل عاری ہے۔ یہ رنگ اتنا پرکشش ہے جیسے مقناطیسی کشش۔ یہ رنگ عوام ہی نہیں، خواص پر بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ چاہے وہ عام انسان ہو یا مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر درس دینے والا کوئی خاص شخص۔
دنیا کی لذت انسان میں اس قدر پیوست ہو گئی ہے کہ روحانی قدریں دم توڑ چکی ہیں۔ مفاد پرستی سے بھری اس عارضی دنیا میں ہماری ضروریات اور خواہشات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ آج کا ہر انسان اس عارضی دنیا میں اس قدر محو ہو چکا ہے کہ اپنی خودی کو بھلا بیٹھا ہے، اپنی آخرت کو سستے داموں فروخت کرنے پر تلا ہے۔ تقویٰ کو یکسر فراموش کر چکا ہے۔ ہر شخص دوسروں کو حقیر اور اپنے سے کمتر سمجھنے لگا ہے۔
ہر شخص اپنے قرابت داروں اور دوستوں سے تعلقات محض جاہ و منصب کی پیمائش پر تولنے لگا ہے۔ جھوٹی شان و شوکت اور مفاد پرستی کا سیلاب اس قدر امڈ آیا ہے کہ انسان دینداری اور اسلامی احکامات کو دوسروں کے لیے تو پیش کرتا ہے، لیکن وہی تمام احکامات اور قوانین جب خود پر آتے ہیں تو بھلا دیتا ہے۔ خود پرستی کی شان و شوکت میں ڈوب کر انسان نے ایمان و یقین کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔
بہت ہی مختصر کہانی ہے
یہ دنیا کچھ بھی نہیں، فانی ہے
جب انسان کے پاس ایمان و یقین ختم ہو جائے تو انسانی اخلاقیات ماند پڑ جاتی ہیں، جس کی وجہ سے خود غرضی اور مفاد پرستی نے جنم لیا۔ انسان یہ بھول گیا ہے کہ دنیاوی مال و متاع، جاہ و منصب کی خواہش تسکینِ قلب نہیں ہے، بلکہ یہ مرض اس قدر موذی ہے کہ اس نے ہمیں قرآن و سنت سے دور کر دیا ہے۔
یہ مرض انسانوں کو عدم برداشت، ذہنی بے سکونی، پریشانی اور احساسِ کمتری جیسے بے شمار امراض میں قید کر چکا ہے۔ جب دنیا کی چاہ غلبہ اختیار کر لے تو حلال و حرام کی تمیز ختم ہو جاتی ہے، بے حیائی، بے رحمی اور ناانصافی جیسے اخلاقی رذائل جنم لیتے ہیں۔ ساتھ ہی شیطان کی شاطرانہ چال نے بھی انسان کو گمراہی کے اندھیروں میں ڈال رکھا ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ
’’اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خوبصورت بنا دیا۔‘‘
بقول شاعرِ مشرق:
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار، وہ کردار، تو ثابت، وہ سیارہ
سورہ آل عمران کی آیت 14 میں ارشاد ہوتا ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْأَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ۗ ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ
"لوگوں کے لیے مرغوب چیزوں کی محبت مزین کر دی گئی ہے، جیسے عورتیں، بیٹے، سونے چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے، نشان دار گھوڑے، چوپائے اور کھیتی۔ یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے، اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔”
اسی طرح حدیث نبوی شریف میں فرمایا گیا:
"حبُّ الدُّنيا رأسُ كلِّ خطيئةٍ”
"دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔
ایک اور حدیث میں فرمایا:
"میں تمہارے بارے میں دو چیزوں سے فکر مند ہوں: ایک تو خواہشات کی پیروی اور دوسرا لمبی آرزوئیں کرنا۔ جہاں تک خواہشات کی پیروی کی بات ہے، یہ حق سے روکتی ہے اور جو لمبی آرزو کرتا ہے، وہ آخرت کو بھلا دیتا ہے۔”
دنیا ابدی جگہ نہیں بلکہ یہ تو صرف ایک گزرگاہ ہے، یہ ایک آزمائش ہے۔ سورہ کہف آیت ۷ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا”
"روئے زمین پر جو کچھ موجود ہے، اسے ہم نے زمین کے لیے زینت بنایا تاکہ ہم انہیں آزمائیں کہ ان میں سب سے اچھا عمل کرنے والا کون ہے۔”
اسی طرح، دنیا کی زندگی محض زرد کھیتی ہے جو بعد میں بھس بن جاتی ہے۔ قرآنِ کریم میں سورہ الحدید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ”
"جان رکھو کہ دنیاوی زندگی صرف کھیل، بیہودگی، آرائش، آپس میں فخر کرنا اور اولاد و اموال میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش سے عبارت ہے۔ اس کی مثال اس بارش کی سی ہے جس کی پیداوار (پہلے) کسانوں کو خوش کرتی ہے، پھر وہ خشک ہو جاتی ہے، پھر دیکھتے ہو کہ وہ کھیتی زرد ہو گئی ہے، پھر وہ بھس بن جاتی ہے۔ جبکہ آخرت میں (کفار کے لیے) عذاب شدید اور (مومنین کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی تو محض سامانِ فریب ہے۔” (سورہ الحدید، آیت ۲۰)
لہٰذا متاعِ دنیا کے اندھیرے سے نکل آئیے اور سادگی و اعتدال پسندی کو اپناتے ہوئے ہر حال میں صبر اور شکر کے ساتھ زندگی گزاریے۔ اس کھیل و لہو و لعب سے باہر نکل آئیے، دنیا کی اسیری سے آزاد ہو جائیے اور آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہیے۔ کسی دوسرے انسان کو مفاد پرستی کی خاطر نقصان نہ پہنچائیے۔ دنیا امتحان گاہ ہے، اس لیے دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کیجیے۔
***
متاعِ دنیا کے اندھیرے سے نکل آئیے اور سادگی و اعتدال پسندی کو اپناتے ہوئے ہر حال میں صبر اور شکر کے ساتھ زندگی گزاریے۔ اس کھیل و لہو و لعب سے باہر نکل آئیے، دنیا کی اسیری سے آزاد ہو جائیے اور آپس میں اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہیے۔ کسی دوسرے انسان کو مفاد پرستی کی خاطر نقصان نہ پہنچائیے۔ دنیا امتحان گاہ ہے، اس لیے دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری کیجیے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 مارچ تا 22 مارچ 2025