مصنف : ایس امین الحسن صاحب
تحسین عامر، ناندیڑ
36صفحات پر مشتمل اس کتابچہ کا مطالعہ ایک نشست میں مکمل کیا جا سکتا ہے لیکن میرا یہ احساس ہے کہ اسے ایک مرتبہ کے مطالعہ کے بعد چھوڑ نہیں دینا چاہیے ، بلکہ اپنی ذاتی ملکیت میں رکھ کر وقتاً فوقتاً پڑھتے رہنا چاہیے۔
کتاب کا عنوان ” نفس کی خود غرضی ” پڑھ کر تزکیہ نفس ذہن میں آتا ہے۔ تزکیہ سے پھر خانقاہ اور مراقبہ کا تصور ابھرتا ہے جو دنیا سے بچ بچا کر رشتوں کو تیاگ کر گوشہ نشینی اختیار کرواتا ہے اور معاش کی فکر و تگ ودو سے بندے کو آزاد کرواتا ہے ۔ وہ یہ باور کراتا ہے کہ اللہ کو راضی کرنا ہے تو ان سب کو قربان کرنا ہوگا۔لیکن یقین مانیے اس کتابچے کو پڑھ کر یہ حقیقت سمجھ آئی کہ گپھاؤں والے تزکیہ سے زیادہ سخت یہ دنیاوی تعلقات اور معاملات ہیں۔ان کو اللہ رب العالمین کے بتائے ہوئے احکام کے مطابق چلانا ہی جہاد اکبر ہے۔
میرا دوسرا فوری احساس ہے کہ اسے ہر باشعور مرد و عورت کو پڑھنا چاہیے چاہے وہ عمر و رشتہ میں کچھ بھی ہو۔
اب آپ سوال کریں گے ایسا کیوں؟
اس کا جواب مصنف کتاب کے پیش لفظ میں تحریر کرتے ہیں ’’ نفسانی خواہشات کس طرح سے ابتدائی عمر سے ہی انسانوں کے ساتھ پروان چڑھتی ہیں۔گھروں میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ بچے اپنے حصے کی مٹھائی یا پھل گوشت لینے کے لیے جھگڑا کرتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں سب سے بڑا حصہ ملے۔ اور جب گھر کی کام کاج کی بات اتی ہے جیسے کہ بستر لگانا یا ماں کے کام میں ہاتھ بٹانا، تو بچے حساب کتاب لگاتے ہیں اور ایک دوسرے سے موازنہ کرتے ہیں کہ کون زیادہ کام کر رہا ہے اور کون نہیں ۔اس طرح پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کے دوران کھڑکی والی سیٹ پر بیٹھنے کی خاطر جو دھکم پیلی ہوتی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ لوگ اپنے نفس کی تنگی میں مبتلا ہیں اور ان کی زندگی اپنی ذات کے گرتی گھومتی ہے وہ چاہتے ہیں کہ ہر اچھی چیز ان کے حصے میں آئے اور جو بچ جائے وہ دوسروں کو ملے‘‘
مصنف آگے لکھتے ہیں ’’یہ رویہ صرف بچوں تک محدود نہیں رہتا بلکہ بڑا ہو کر بھی انسان انہی عادات کا شکار رہتا ہے۔ وہ دوسروں سے خدمت لینے کو پسند کرتا ہے لیکن خود دوسروں کی مدد کرنے سے حتی الامکان گریز کرتا ہے۔ یہی کم ظرفی ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر نظر آتی ہے اور یہ رویہ معاشرتی رشتوں میں تلخیوں کا باعث بنتا ہے‘‘
قرآنی آیات و احادیث کی روشنی میں مصنف نے سخی و بخیل کے رویوں کو واضح کیا ہے۔ مصنف چونکہ ایک ماہر نفسیات ہیں اور فیملی کونسلنگ کا بھی کامیاب تجربہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کئی کیسیس میں نفس کی خود غرضی کا تجزیہ پیش کیا ہے۔
قرآنی آیات و احادیث کی روشنی میں مصنف نے سخی و بخیل دو کردار وں کی وضاحت کی ہے۔
لکھتے ہیں” جو انسان تنگ دل نہیں ہوتا ہے وہ خود پسند نہیں ہوتا ہے بلکہ بے نفس ہوتا ہے۔”
شح نفس یا نفس کی تنگی سے بچنے کے لیے انہوں نے ایمان کی پختگی کو ترجیح دی ۔دوسرا مال کے صحیح اسلامی تصور کو سمجھنے کی تعلیم دی۔
تیسری اور اہم بات زندگی کے اعلیٰ مقصد کی جانب توجہ دلائی ہے کہ اعلیٰ مقصدِ زندگی رکھنے والا شخص کبھی بخیل نہیں ہوسکتا۔
دل کی تنگی سے بچنے کے لیے چوتھی تدبیر مصنف انسانوں سے محبت کو قرار دیتے ہیں۔لکھتے ہیں "انسانوں سے محبت فطری جذبہ ہے اسے اجاگر کرنا تنگ دلی سے بچنے کے لیے بہت مفید ہوتا ہے۔”
ایثار کے متعلق وضاحت کرتے ہیں کہ فیاضی اور معاشی خوشحالی کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ فیاض بندے جو بھی حقیر رقم ان کی مٹھی میں ہوتی ہے اسے خرچ کرکے اس سے وہ محبت دعاؤں اور برکتوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔
’’یہ بھی شح نفس ہے‘‘ کے زیر عنوان مصنف نے اخلاقیات کے ان پہلوؤں کو پیش کیا ہے جنہیں عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے "ویل للمطففین ”
کی بہت خوب تعریف کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ ڈنڈی مارنا صرف خرید و فروخت ہی میں نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی معاملے اور کام کو اس کے حقیقی مقام سے گرادینے کے بھی ہیں۔
فیاض انسان مال کا سخی ہوتا ہے ۔ لیکن فیاضی کی وسعت محض مالیات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کی سخاوت کا دائرہ زندگی کے ہر پہلو کو محیط کرتا ہے۔مثلا: سفر میں اپنی نشست دوسروں کو پیش کرنا، جاہل افراد سے کنارہ کشی اختیار کرنا، جہاں کہیں بھی خیر یا خوبی دیکھے بلا جھجک اس کی تعریف کرنا، چاہے وہ اپنے سے چھوٹے لوگوں میں ہی کیوں نہ ہو۔ جیسے کہ نبی کریمؐ کی زندگی تھی۔آپ چھوٹوں کی ہمت افزائی فرماتے تھے دل کھول کر تعریف کرتے تھے۔آپ نے انسانیت کو محبت اخلاص اور تعلقات کی مضبوطی کا درس دیا۔
آپ کے اخلاقی رویوں نے لوگوں کو خیر اور بھلائی کی طرف مائل کیا۔
اس کتاب کے مطالعے کے بعد میرا یہ احساس ہے کہ اس پر عمل کرکے بندہ نہ صرف مال کا سخی ہوسکتا ہے بلکہ تعلقات کا بھی دھنی ہو سکتا ہے۔
یقیناً انسانی رشتے خوش گوار ہوسکتے ہیں چاہے وہ آفیسر و ماتحت کے ہوں،شوہر بیوی کے ہوں یا خسر و داماد یا ساس و بہو کے ہوں ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 05 جنوری تا 11 جنوری 2024