ہریانہ کے ایک موضع میں کسانوں کا مسلمانوں کی حفاظت کا عہد

اقلیتی طبقات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کھاپ پنچایتوں کے کندھوں پر ہے:کسان لیڈر سریش کوتھ

حصار: (دعوت نیوز نیٹ ورک)

ہریانہ میں جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ کو پوری شدت کے ساتھ بھڑکایا گیا ہے، ایک گاوں سے امید افزا خبر موصول ہوئی ہے۔ حصار کے موضع باس کے لوگوں نے مسلمانوں کی حفاظت کرنے کا عہد کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک کھاپ پنچایت منعقد ہوئی تھی جس میں تقریباً دو ہزار کسان بشمول ہندو، مسلم اور سکھ طبقے کے لوگ شریک تھے۔ اس تبدیلی کو حالیہ تشدد سے بری طرح متاثرہ ضلع نوح میں مسلمانوں کے خلاف کارروائی کے بعد اتحاد کی سمت ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کسان لیڈر سریش کوتھ جنہوں نے تین زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کے احتجاج میں اہم رول ادا کیا تھا، پر زور لفظوں میں کہا کہ مسلم برادری ان کی حفاظت میں ہے۔ انہوں نے اجلاس میں شرکا پر زور دیا کہ وہ مسلمانوں کے تحفظ کی ذمہ داری اٹھائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ مسلم برادری کو کوئی چھو نہ سکے۔ انہوں نے گروگرام اور نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے تناظر میں مسلم سماج کو درپیش خطرے کے تناظر میں یہ بات کہی۔ سریش کوتھ نے اپنی اس اپیل کو بار بار دہرایا کہ اقلیتی طبقات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کھاپ پنچایتوں کے کندھوں پر ہے۔ انہوں نے ان افواہوں کو مسترد کر دیا کہ بعض مواضعات میں مسلمانوں کے داخلہ پر پابندی ہے۔ کسانوں کی پنچایت میں شرکا نے فرقہ وارانہ یا ذات پات پر مبنی تشدد میں حصہ لینے کے خلاف حلف اٹھایا اور عہد کیا کہ وہ کشیدگی سے متاثرہ ضلع نوح میں امن کی بحالی کے لیے سرگرمی سے کام کریں گے۔ اس میٹنگ میں حکام سے اس بات کا مطالبہ کیا گیا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ تشدد پر اکسانے والے عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔ سریش کوتھ کے مطابق قبل ازیں انہوں نے کھیتی باڑی سے متعلق امور پر مشاورت کے لیے 9 اگست کو موضع باس میں ایک کنونشن کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ضلع نوح کے تشدد نے مرکزی حیثیت اختیار کرلی ہے اس لیے اس سے پہلے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
ریاست ہریانہ سے ایک ایسے وقت میں جب فرقہ وارانہ منافرت کی مسلسل خبریں موصول ہو رہی ہیں، کسان قائدین کی جانب سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو یقینی بنانے کی یہ پہل امید افزا ہے لیکن مین اسٹریم میڈیا میں اس طرح کی خبروں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ اخبار انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق کسان قائدین نے یکجہتی کے جذبہ کو فروغ دینے کے لیے ریاست میں سلسلہ وار پروگرام منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس ضمن میں ضلع جند میں ایک جلوس نکالا گیا جس میں مسلمانوں ہندوؤں، سکھوں و عیسائیوں کے مابین یکجہتی کے نعرے لگائے گئے۔ قبل ازیں مقامی کسان قائدین نے جند کے اچنا ٹاون میں ایک ’’سرو دھرم سمیلن‘‘ منعقد کیا اور بین مذہبی اتحاد کے لیے کام کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی۔ اس دوران حکومت ہریانہ نے ان گرام پنچایتوں اور سرپنچوں کو وجہ نمائی نوٹسیں جاری کی ہیں جنہوں نے نوح میں 31 جولائی کو پیش آنے والے فرقہ وارانہ تشدد کے بعد اپنے مواضعات میں مسلمانوں کے داخلے کو ممنوع قرار دیتے ہوئے قراردادیں یا مکتوبات جاری کیے تھے۔ عہدیداروں کے مطابق ہریانہ گرام پنچایتی راج ایکٹ کی دفعہ 51 کے تحت متعلقہ ضلع حکام کی جانب سے کئی گرام پنچایتوں اور سرپنچوں کو شوکاز نوٹسیں جاری کی گئی ہیں۔ مذکورہ دفعہ سرپنچ یا پنچ کی معطلی اور برطرفی سے متعلق ہے۔ اس اطلاع کی تصدیق کرتے ہوئے ریواری کے ڈپٹی کمشنر محمد عمران رضا نے اخبار دی انڈین اکسپریس کو بتایا کہ ہم نے گرام پنچایتوں اور ان کے سرپنچوں کے خلاف انتظامی کارروائی کی ہے اور انہیں نوٹسیں جاری کی ہیں۔ انہیں اپنے جوابات بھیجنا ہوگا جس کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کے بعد ہی مناسب کارروائی کی جائے گی۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اگست تا 26 اگست 2023