ہریانہ کا رَن ،ذات پات پر مبنی سیاست اور خواتین

اسمبلی انتخابات؛ ’36 برادر‘ اور نوجوانوں میں ’ڈنکی‘ جیسے مسائل زیر بحث

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

بیٹی پڑھاؤ اور بیٹی بچاؤ کے نعروں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو پیدا بھی ہونے دیا جائے
بھارت کے صوبہ ہریانہ میں اسمبلی الیکشن جاری ہیں۔یہ وہ ریاست ہے جس کا وجود یکم نومبر 1966 کو عمل میں آیا تھا۔ سابق ریاست پنجاب کو دو الگ ریاستوں میں زبان کے لحاظ سے، پنجابی بولنے والے پنجاب میں اور ہندی بولنے والے ہریانہ میں تقسیم ہوگئے۔ ریاست ہریانہ کا نام ، ’ہری’ (ہندو دیوتا وشنو) اور ’آیانا‘ (گھر) سے لیا گیا ہے۔ معنی کے لحاظ سے ہریانہ، ہری کا گھر،یعنی ’’بھگوان کا گھر‘‘ ہے۔ ملک کے دارالحکومت دہلی کے تینوں جانب ہریانہ موجود ہے۔ وہیں ہریانہ کی حدود ہماچل پردیش، پنجاب، راجستھان اور اترپردیش کو بھی چھوتی ہیں۔ جاٹ (کسان ذات کے لوگ) ہریانہ کی زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، نیز وہ بھارتی فوج میں بھی نمایاں ہیں۔ ہریانہ کی زرعی پیداواری صلاحیت بڑی حد تک ’سبز انقلاب‘ سے منسوب ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی تحریک ہے جو 1960کی دہائی میں عالمی بھوک کو کم کرنے کےلیے شروع کی گئی تھی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں آبپاشی، کھادوں اور اعلیٰ معیار کے بیجوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی۔ وید اور ویدک مذہب کے سب سے قدیم نسخے اسی علاقے سے دستیاب ہوئے ہیں۔ یہ سنسکرت میں لکھی ہوئی دستاویزات ہیں جنہیں آریا لائے تھے۔ بھارت میں آریا1500 اور 2000قبل مسیح کے درمیان شمال سے اِس علاقے میں آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہریانہ کو ہندو مت کی جائے پیدائش بھی سمجھا جاتا ہے جس نے دوسری صدی قبل مسیح تک واضح شکل اختیار کرنا شروع کردی تھی۔ پرانوں کے مطابق کروکشیتر ایک ایسا خطہ ہے جس کا نام بادشاہ کورو کے نام پر رکھا گیا، یہ کورووں اور پانڈوؤں کے آباؤ اجداد تھے۔ ویدوں میں، کروکشیتر کو ایک شہر کے طور پر نہیں بلکہ ایک علاقے کے طور پر بیان کیا گیا ہے ’’کشیتر‘‘ کا مطلب سنسکرت میں ’’خطہ‘‘ ہے۔ Vamana پران کے مطابق بادشاہ ’کرو‘ نے روحانیت کے حصول کے لیے دریائے سرسوتی کے کنارے اس زمین کا انتخاب کیا تھا۔ ہندو عقائد کے مطابق بھگوان وشنو، بادشاہ کورو کے کاموں سے متاثر ہوئے اور اسے دو نعمتوں سے نوازا۔ پہلا یہ سرزمین ہمیشہ کے لیے اس کے مقدس نام سے جانی جائے گی، کروکشیترا (کورو کی سرزمین) اوردوسرا یہ کہ جو بھی اس زمین پر مرے گا وہ جنت میں جائے گا۔
ہندوستانی تصورات کی روشنی میں Kuru Kingdom جس کی بنیاد بادشاہ ’پرو‘ نے رکھی تھی وہ لوہے کے زمانے میں کوروؤں اور پانڈوؤں کے ویدک ہند آریائی قبائلی اتحاد کے آباؤ اجداد تھے۔ 900سے 1200قبل مسیح میں کوروؤں اور پانڈوؤں کے ویدک آریائی اتحاد نے برصغیر پاک و ہند میں پہلا ریکارڈ شدہ ریاستی سطح کا معاشرہ ’جن پد‘ کے نام سےتشکیل دیا۔ چوتھی صدی قبل مسیح کے آخر میں کروکشیتر کو موری سلطنت نے فتح کیا اور اس کے بعد بدھ مت اور ہندو مت کا مرکز بن گیا۔ موریوں کے خاتمے اور اس علاقے کو فتح کرنے والے کشانوں کے عروج کے درمیان کروکشیتر کی تاریخ بہت کم معلوم ہے۔ خطے میں کشان کی طاقت کے زوال کے بعد کروکشیتر صرف چوتھی صدی عیسوی کے اوائل میں گپتا سلطنت کے ذریعے فتح کرنے کے لیے آزاد ہوا۔ گپتا کے دور حکومت میں کروکشیتر نے ایک ثقافتی اور مذہبی بحالی کا تجربہ کیا اور ہندو مذہب کا مرکز بن گیا۔ گپتا کے زوال کے بعد، پشیابھوتی خاندان نے کروکشیتر پر حکومت کی۔ کنگ ہرشا (590-647 عیسوی کے دور حکومت میں کروکشیتر اپنی ترقی کے عروج پر پہنچا، اسی دوران چینی اسکالر ژوانزانگ نے تھانیسر کا دورہ کیا۔ خانہ جنگی اس وقت شروع ہوئی جب ہرشا (پشیابھوتی خاندان کا) 647 میں بغیر کسی جانشین کے انتقال کر گیا۔ ایک کشمیری فوج نے 733میں کروکشیتر کو مختصر طور پر فتح کیا لیکن وہ علاقے میں تسلط قائم کرنے میں ناکام رہے۔ 736میں تومارا خاندان کی بنیاد رکھی گئی اور انہوں نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا۔ 1526میں بابر کی مقامی بغاوت کو ختم کرنے کے بعد کروکشیتر مغل سلطنت کا حصہ بن گیا ۔ 17ویں صدی کے اواخر اور 18ویں صدی کے اوائل کے درمیان، کروکشیتر پر مراٹھا سلطنت کی افواج کا کنٹرول رہا یہاں تک کہ انگریزوں نے 1803 میں دہلی پر قبضہ کرلیا۔ 1805 میں انگریزوں نے دوسری اینگلو-مراٹھا جنگ میں مراٹھا افواج کو شکست دینے کے بعد کروکشیتر پر مکمل قبضہ کرلیا ۔
ہریانہ میں فی الوقت جاری اسمبلی الیکشن میں ایک لفظ ’36برادر‘ کی گونج ہے۔اس سلسلے میں پروفیسر ایس کے چہل کے مطابق، 36برادریوں کا تصور پنجاب (ہندوستان اور پاکستان دونوں میں) ہریانہ اور راجستھان کی ثقافتوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں لفظ ’36برادری‘ سماجی طور پر ازدواجی تعلقات بنانے، دو ذاتوں کے تنازعات حل کرنے اور دیگر سماجی مسائل کے حل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ لوگوں کو سماجی تحفظ ،شناخت اور وقار کا احساس فراہم کرتا ہے۔ لہٰذا لوگوں کو اپنی برادریوں کے ساتھ تعلق اور اپنے پن کا گہرا احساس ہوتا ہے۔وہیں انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ’36برادری‘ کےزمرے میں آنے والی ذاتوں اور برادریوں میں جاٹ، کھتری / اروڑہ، برہمن، بنیا (اگروال)، گرجر، راجپوت، پنجابی (ہندو)، سنار، سینی، آہیر، رور اور کمہار شامل ہیں۔ نیز درج فہرست ذاتوں (SC) میں تقریباً نصف چمڑے کاکام کرنے والی ذاتیں منسلک ہیں۔ عام آدمی پارٹی کے لیڈر اروند کیجریوال بنیا ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جن کی آبادی 7فیصد ہے اور دیگر ذاتوں میں عام آدمی پارٹی کی کوئی خاص پکڑ نہ ہونے کی وجہ سے کانگریس کے ساتھ ریاستی سطح پر ہریانہ اسمبلی الیکشن 2024 میں اتحاد نہیں ہوسکا۔ البتہ عام آدمی پارٹی نے کل 90اسمبلی سیٹوں پر اپنی پارٹی کے لیڈروں کو الیکشن میں اتارا ہے۔ اس کے برخلاف گزشتہ دس سال میں بی جے پی غیر جاٹ ووٹوں کو متحد کرنے اور ان کے ووٹ کو حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ دوسری جانب ’جتنی آبادی، اُتنا حق‘ (آبادی کے تناسب سے حقوق)کے نعرے نے کانگریس کی ذات پات کے کوٹے کو بڑھانے اور دولت کی دوبارہ تقسیم سے متعلق سروے کے لیے ’سماجی انصاف کی سیاست‘ نےجاری سیاست میں ایک نیا ہنگامہ برپاکیا ہوا، اور یہ حقیقت بھی ہے کہ ہندوستان میں معاشی اعتبار سے کمزور اور پچھڑی آبادی کے تناسب سے حقوق دستیاب نہیں ہیں۔وہیں کانگریس کا منشور ’سماجی انصاف اور مساوات‘ کے موضوعات پر نمایاں ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے وقت بھی اور اب جبکہ اسمبلی الیکشن جاری ہیں کانگریس کے سماجی منشور میں پارٹی نے ذاتوں اور ذیلی ذاتوں اور ان کے سماجی و اقتصادی حالات کی گنتی کے لیے سماجی، اقتصادی اور ذات پات کی مردم شماری کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ پارٹی نے سپریم کورٹ کی طرف سے ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے تحفظات پر 50فیصد کی حد کو ہٹانے کے لیے آئینی ترمیم پاس کرنے کا بھی وعدہ کیا۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ ہم پہلے ملک گیر ذات پات کی مردم شماری کریں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دیگر پسماندہ طبقات، درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور اقلیتوں سے کتنے لوگ تعلق رکھتے ہیں۔اس کے بعد ہم دولت کی تقسیم کا پتہ لگانے کے لیے ایک تاریخی قدم میں مالیاتی اور ادارہ جاتی سروے کریں گے اور مسائل کا حل تلاش کریں گے۔
ہریانہ کے اسمبلی الیکشن2024 میں مزید دو اوراہم ایشوز کا چرچا ہے۔ان میں ایک بے روزگاری ہے اس کے نتیجہ میں ریاست سے ان مقامات پر منتقلی ہورہی ہے جہاں حالات اچھے نہیں بلکہ جنگ جاری ہے ۔اس کے باوجود ہریانہ کے نوجوان گھر پر رہ کر بےروزگاری کے نتیجہ میں بھوکے مرنے سے بہتر سمجھتے ہیں کہ دوران جنگ روزی کماتے ہوئے اگر موت آنا ہی ہے تو آجائے۔
وہیں دوسری جانب ’ہریانہ کے نوجوان کیوں ڈنکی ہوئے؟‘ اس سوال کا بھی خوب چرچا ہے۔ راہل گاندھی نے ہریانہ میں بے روزگاری پر بی جے پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی تقاریر میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ نوجوان بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ملک جا رہے ہیں،لیکن کانگریس کا وعدہ ہے کہ سب کو روزگار دیاجائے گا اور ریاست میں کانگریس کی حکومت آنے کے بعد انہیں اپنے گھر،خاندان،گاؤں اور ریاست کو چھوڑنا نہیں پڑے گا۔ راہل گاندھی نے حال ہی میں امریکہ کا دورہ مکمل کر کے ضلع کرنال کے گھوگھڑی پور گاؤں کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے امریکہ میں ایک سڑک حادثے میں زخمی ہونے والے امت کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے دوران راہل گاندھی نے بی جے پی حکومت کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی اور ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ بڑی تعداد میں نوجوان بہتر روزگار اور مواقع کی تلاش میں مجبوراً بیرون ملک جا رہے ہیں جس کی وجہ سے اپنے گھر، اہل خانہ، بچوں اور ماں باپ سے دس دس سال کے لیے انہیں بچھڑنا پڑرہا ہے۔ بے روزگاری کی یہ صورتحال بدترین ہے۔اس کا حل ضرور نکلنا چاہیے۔راہل گاندھی نے اس حوالہ سے ایکس پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں وہ امریکہ میں کام کرنے والے بھارتی نوجوانوں اور ان کے کے اہل خانہ سے بات کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ راہل گاندھی نے یہ ملاقات اپنے دورہ امریکہ کے دوران کی تھی، جبکہ وہاں سے آنے کے بعد وہ ہریانہ کے گاؤں میں گئے اور اپنی تقریر کے دوران پورا واقعہ بیان کیا۔ راہل گاندھی نے اپنی پوسٹ میں لفظ ‘ڈنکی’ کا استعمال کرتے ہوئے اس اصطلاح کا اشارہ نوجوانوں کی ان مشکلات کی طرف کیا ہے جو بہتر روزگار کے حصول کے لیے غیر قانونی طریقوں سے ملک چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ راہل گاندھی نے لکھا، ’کیوں ڈنکی ہوئے ہریانہ کے نوجوان؟‘ ’ڈنکی‘ عام طور پر ایسے لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو اسمگلنگ یا غیر قانونی راستوں سے باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں، خاص طور پر جب وہ خطرناک سفر کرتے ہیں۔
دوسری جانب ہریانہ میں خواتین کے ساتھ بدسلوکیاں اوران کے مسائل میں اضافہ،رحم مادر میں بچیوں کی اموات کے واقعات،پیدائش کے بعد لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کو کم اہمیت دینا، مردوں اور خواتین کے تناسب میں گراوٹ اور خواتین کی حفاظت و لاپتہ خواتین کے ایشو زبھی بہت اہم ہیں۔ بی جے پی نے نعرہ تو دیا تھا کہ بیٹی بچاؤ- بیٹی پڑھاؤ لیکن بیٹی کو پیدا ہونے دو کی کوئی عملی مہم نہیں چلائی گئی ہاں رسماً کام ہوتے رہے جس کی وجہ سے مسائل نہ صرف جوں کے توں برقرار ہیں بلکہ خواتین کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
ڈی ڈبلیو ویب سائٹ پر روہنی سنگھ بتاتی ہیں کہ ابھی چند ماہ قبل خبر آئی تھی کہ ہریانہ کے کئی علاقوں میں شادی کے لیے شمال مشرق کے صوبوں سے دلہنیں لائی جاتی ہیں۔ ایک واقعہ جو میڈیا میں آیا، اس کے مطابق باہر سے لائی گئی ایک لڑکی کی پہلے بڑے بھائی کے ساتھ شادی کی گئی۔ بعد جب حمل ٹھیرگیا اور بچہ پیدا ہوا تو پھر دوسرے بھائی کے ساتھ شادی کرادی گئی۔ جب اس سے بچہ پیدا ہوا تو اسے تیسرے بھائی کی بیوی بنادیا گیا۔ گویا عورت نہ ہوئی، بلکہ بچے پیدا کرنے کی مشین ہوئی، جس کو آپریٹ کرنے والے میکنک بدلتے گئے۔ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ اس دوران ایک بار اس کا اسقاط حمل بھی کرادیا گیا کیونکہ ڈاکٹر نے لڑکی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جب حکومت نے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم شروع کی تھی تو ہریانہ میں صنفی تناسب قدرے بہتر ہواتھا۔ ہریانہ میں صنفی تناسب جو 2015ء میں 876 تھا وہ 2016ء میں بڑھ کے 900 تک پہنچا تھا۔ یہ رجحان 2019ء تک جاری رہا اور صنفی تناسب 923 تک پہنچ گیا۔ تاہم اس کے بعد سے یہ مسلسل گرتا رہا اور اب 902 پر آ گیا ہے۔ دہلی سے متصل ضلع گروگرام میں تو یہ تناسب 854 ہے۔اس صنفی عدم توازن کی وجہ سے مردوں کے لیے دلہنیں تلاش کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ خوشحال گھرانے دوسرے صوبوں سے دلہنیں خرید لاتے ہیں۔ لیکن یہ انسانی اسمگلنگ کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔نہ صرف ان خواتین کی صحت اور تندرستی سے سمجھوتہ کیا جاتا ہے بلکہ یہ خواتین معاشرے اور خاندان میں بھی سماجی حیثیت اور حقوق سے محروم رہتی ہیں۔ سماجی امور کے ماہر یوگیش پوار کہتے ہیں کہ ان خواتین کے ساتھ سوتیلا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ان حالات میں ہریانہ میں فی الوقت2024 کی نئی اسمبلی کے لیے الیکشن جاری ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہریانہ کے لوگ کیا آج بھی جدید ہندوستان میں دروپدی کے کردار کو عام ہریانہ کی خواتین میں جاری رکھنا چاہتے ہیں یا خواتین کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کی جانب پیش قدمی کریں گے!!
***

 

***

 ڈی ڈبلیو ویب سائٹ پر روہنی سنگھ بتاتی ہیں کہ ابھی چند ماہ قبل خبر آئی تھی کہ ہریانہ کے کئی علاقوں میں شادی کے لیے شمال مشرق کے صوبوں سے دلہنیں لائی جاتی ہیں۔ ایک واقعہ جو میڈیا میں آیا، اس کے مطابق باہر سے لائی گئی ایک لڑکی کی پہلے بڑے بھائی کے ساتھ شادی کی گئی۔ بعد جب حمل ٹھیرگیا اور بچہ پیدا ہوا تو پھر دوسرے بھائی کے ساتھ شادی کرادی گئی۔ جب اس سے بچہ پیدا ہوا تو اسے تیسرے بھائی کی بیوی بنادیا گیا۔ گویا عورت نہ ہوئی، بلکہ بچے پیدا کرنے کی مشین ہوئی، جس کو آپریٹ کرنے والے میکنک بدلتے گئے۔ اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ اس دوران ایک بار اس کا اسقاط حمل بھی کرادیا گیا کیونکہ ڈاکٹر نے لڑکی پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کردیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ جب حکومت نے بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم شروع کی تھی تو ہریانہ میں صنفی تناسب قدرے بہتر ہواتھا۔ ہریانہ میں صنفی تناسب جو 2015ء میں 876 تھا وہ 2016ء میں بڑھ کے 900 تک پہنچا تھا۔ یہ رجحان 2019ء تک جاری رہا اور صنفی تناسب 923 تک پہنچ گیا۔ تاہم اس کے بعد سے یہ مسلسل گرتا رہا اور اب 902 پر آ گیا ہے۔ دہلی سے متصل ضلع گروگرام میں تو یہ تناسب 854 ہے۔اس صنفی عدم توازن کی وجہ سے مردوں کے لیے دلہنیں تلاش کرنا ایک مشکل کام بن گیا ہے۔ خوشحال گھرانے دوسرے صوبوں سے دلہنیں خرید لاتے ہیں۔ لیکن یہ انسانی اسمگلنگ کا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024