ہریانہ الیکشن :2024دس سالہ حکومت کی ناکامیاں اور تبدیلی کے امکانات

ہریانہ الیکشن :2024دس سالہ حکومت کی ناکامیاں اور تبدیلی کے امکانات

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

موجودہ وقت میں جبکہ ریاست ہریانہ میں اسمبلی انتخابات ہونے جارہے ہیں ایسے میں گزشتہ دس سالہ حکومت، اس کی کارکردگی،ریاست میں اٹھنے والے مسائل اور متعلقہ افراداورگروہوں کی صورت حال کا تجزیہ ضروری ہے۔لیکن پس منظر میں 2014کے پارلیمانی الیکشن پر بھی ایک سرسری نگاہ ڈال لینی چاہیے ۔2014میں UPAاتحاد کی دس سالہ حکومت اورپالیسیی و اقدامات کے خلاف الیکشن لڑا گیا تھا۔7اپریل سے 12مئی تک چلنے والے الیکشن میں 66.40فیصد ووٹروں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا تھا۔ 834ملین افراد نے حصہ لیاجسے دنیاکا سب سے بڑا الیکشن کہا گیا۔ نتیجہ میں مودی حکومت وجود میں آئی اور کانگریس اور اس کے اتحادی ناکامی سے دوچار ہوئے۔یہاں تک کہ حزب اختلاف کا کوئی لیڈر 2014سے2019تک لوک سبھا میں منتخب نہیں ہوسکا۔یعنی ایک مضبوط اور مستحکم حکومت وجود میں آئی تھی جس پر کوئی بھی سوال کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا اور اگر سوالات اٹھائے بھی گئے تو نظر انداز کردیے گئے۔جواب نہیں دیا گیا۔اس دوران میڈیا کو ’گودی میڈیا‘ کے لقب سے پکارا گیا اور من مانی طریقہ سے حکومت چلائی گئی ۔لیکن 2024کے الیکشن اور نتائج کے بعد طے شدہ وقت تقریباً ختم سا ہونے لگا ہے ۔اسی طرح 15اکتوبر2014کو ریاست ہریانہ کا 90اسمبلی نشستوں پرالیکشن ہوا۔19اکتوبر کو نتائج آئے اور 47نشستوں پر کامیابی کے ساتھ منوہر لال کھٹّر کی قیادت میں ہریانہ میں بی جے پی کی حکومت تشکیل دی گئی ۔2014کے ریاستی الیکشن میں بی جے پی کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیوں کو ناکامی سے دوچار ہونا پڑا۔انڈین لوک دل کو 12نشستوں پر،کانگریس کو 25نشستوں پر،ہریانہ جن ہت کانگریس کو 4نشستوں پر،بہوجن سماج پارٹی کو ایک،شرومنی اکالی دل کو ایک اور 4آزاد امیدواروں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔یعنی 2014میں ہریانہ میں بی جے پی واحد سیاسی پارٹی تھی جس کو گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔بعد میں 2019کے ہریانہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو صرف 7اسمبلی نشستوں پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا،کانگریس کو 16اورجن نائک جنتا پارٹی کو 10اسمبلی نشستوں پر اضافہ کے ساتھ کامیابی حاصل ہوئی ا۔اس کے باوجود ریاستی حکومت منوہر لال کھٹّر ہی کی قیادت میں تشکیل دی گئی ۔
اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ منوہر لال کھٹّر وہی ہیں جنہوں نے اپنی گم نامی کی ایک طویل زندگی آر ایس ایس کے نظریہ کے فروغ کے لیے وقف کی تھی۔لیکن وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت نے 2014کے بعد ایسے بے شمار لوگوں کو پہچان دی جنہوں نے اپنی زندگیوں کو آر ایس ایس کے نظریہ کے فروغ کے لیے وقف کیا ہوا تھا۔اگرچہ یہ لوگ گم نامی کے ساتھ اپنے مشن میں بہت ہی منظم انداز میں مصروف عمل تھے۔انہیں میں سے ایک نام منوہر لال کھٹّرکا بھی ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ 2014سے2024کے دس سالہ منوہر لال کھٹّر حکومت نے بے شمار مسائل کو یا تو نظر انداز کیا یا پھر آر ایس ایس کے نظریہ کے فروغ کے لیے عوام سے الجھتے رہے۔ریاست کے انہیں بڑے مسائل میں 2016کا ہریانہ میں جاٹ آندولن ابھی تک بھلایا نہیں گیا۔7فروری 2016میں شروع ہونے والی جاٹ ریزرویشن تحریک 15دنوں تک جاری رہی، اس دوران 8اضلاع بری طرح آتش زنی لوٹ مار توڑ پھوڑ اور تشدد کا نشانہ بنے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق30افراد ہلاک ہوئے اور ہزاروں زخمی تو لاکھوں متاثر ہوئے۔پرکاش کمیٹی کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ فروری 2016 میں پیش آنے والے واقعات کی بنیاد پر پوری ریاست میں تین ہزار سے زیادہ کیسس درج ہوئے جن میں سے ایک ہزار سے زیادہ کیسس صرف ضلع روہتک کے تھے۔دوسرا واقعہ کسانوں کی کم از کم امدادی قیمت تحریک ہے۔2020میں کسانوں کو کم از کم امدادی قیمت(MSP)کا ایشو ابھر کے سامنے آیا۔اس تحریک میں مغربی اترپردیش،ہریانہ اور پنجاب کے کسان پیش پیش رہے۔ایک طرف کسانوں کاحکومت سے تقاضا تھا کہ انہیں ان کی فصلوں پر کم از کم امدادی قیمت ادا کی جائے اس کے لیے قانون بنایا جائے تودوسری طرف حکومت پر یہ الزام لگا کہ کچھ سرمایہ داروں کو فصل کی فروخت کرکے اس کے بعد کولڈ اسٹوریج میں رکھ کے قیمتوں کو متاثر کیا جائے گا،جس میں کسان بھی شامل ہیں تو وہیں عام شہری اور تجارت پیشہ افراد بھی متاثر ہوں گے ۔ ساتھ ہی مودی حکومت کی جانب سے کسانوں اور فصل سے متعلق تین کالے قوانین کی پارلیمنٹ میں منظوری نے مزید آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا نتیجے میں کم از کم امدادی قیمت کا مسئلہ آج تک حل نہیں ہو سکا ہے۔ ان حالات سے ہریانہ کے کسان بھی پریشان ہیں اور ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت دونوں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ abp live کی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ 2020-21سے 2022-23تک فوج میں بھرتی کا عمل نہیں ہوا البتہ 2023-24میں صرف13,000فوجیوں کی بھرتی ہوئی ہے۔یعنی 2020سے2023تک اگنی ویر اسکیم کے تحت نوجوانوں کی وقتی بھرتی نہ صرف ملک کی حفاظت کے پیش نظر ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے بلکہ ہریانہ سے فوج میں جانے والے نوجوانوں کے لیے بھی اہم مسئلہ ہے۔کیونکہ جو نوجوان فوج میں اگنی ویر اسکیم کے تحت بھرتی ہوئےہیں ان کا معاشی مستقبل دوراہے پر ہے ۔اس اسکیم کے تحت فوج میں صرف 4سال کی نوکری ہوگی، اس کے بعد ان کا مستقبل کیا ہوگا؟اس کے جواب میں گھر،خاندان اور خود نوجوان پریشان ہیں۔دوسری طرف بے روزگاری کی بڑھتی شرح نے بھی ریاست میں عوام کو متاثر کیاہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جھاڑو لگانے کی کنٹریکٹ نوکری کے لیے ہریانہ کے 45,000گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ نوجوانوں نے درخواست دی ہے۔ مرکزی حکومت کے اعداد وشمار واضح کرتے ہیں کہ ہریانہ میں اپریل تا جون 2024کہ سہ ماہی میں 15-29سال کے شہری علاقوں کے لوگوں میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کے11.2فیصد ہو گئی ہے، جبکہ خواتین میں بے روزگاری کی شرح17.2فیصد تک بڑھ چکی ہے۔بے روزگاری کی اس بدترین صورتحال میں جند ،ہریانہ کے روہتاش کمار کہتے ہیں کہ ہریانہ میں بے روزگاری کی صورت حال کی وجہ سے اسرائیل میں نوکری کرنا بہتر ہے،بجائے اس کے کہ بے روزگار رہیں۔وہیں چودھری رنبیر سنگھ یونیورسٹی کے ہسٹری میں پوسٹ گریجویٹ نوجوان کا کہنا ہے میں حماس کے ساتھ جنگ کی وجہ سے اسرائیل میں خطرے سے آگاہ ہوں،لیکن ہماری ریاست میں نوکری کے بغیر بھوکے مرنے سے بہتر ہے کہ کام کرتے ہوئے مرجائیں۔بے روزگاری کی یہ بدترین صورت حال آج سے پہلے ہریانہ کے نوجوانوں اور عوام نے نہیں دیکھی تھی۔خواندگی کی شرح کا اگر ہریانہ میں جائزہ لیا جائے تو3کروڑ6لاکھ90ہزار کی آبادی والی ریاست میں 80.4فیصد آبادی خواندہ ہے لیکن ریاست میں اکثریتی ضلع نوح،میوات کا جائزہ لیا جائے تو اس ضلع میں خواندگی کی شرح54.8فیصد یعنی نصف فیصد ہے، گویا اس ایک ضلع میں بسنے والے لوگ آج بھی ناخواندہ ہیں۔ دوسری جانب تقریباً4کروڑ آبادی والی ریاست میں صرف 10یونیورسٹیاں اور 182گورنمنٹ کالجز ہیں ۔ سرکاری اسکول اگر ہیں بھی تو ان میں اساتذہ کی تعداد حد درجہ کم ہے،جس سے واضح ہوتا ہے کہ تعلیم پر جس قدر توجہ دینے کی ضرورت تھی ریاستی حکومت نے اس جانب توجہ نہیں دی ہے۔نتیجہ میں پرائیوٹ کالج اور اسکول قائم ہورہے ہیں جہاں عوام کی گاڑھے خون پسینہ کی کمائی کو چوس لیا جاتا ہے۔بے روزگاری کے پس منظر میں جب تعلیمی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ ریاست میں اچھے اور مہنگے پرائیوٹ اسکولوں اور کالجوں تک کون لوگ پہنچ سکتے ہیں اور کون نہیں۔ اس کے باوجود کہ ہریانہ وہ ریاست ہے جس کے گورنر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے نئی تعلیمی پالیسی (NEP)کو سب سے پہلے ہریانہ میں متعارف اور لاگوکردیا ہے۔
شکراوا ،ضلع نوح کے عبیدالرحمن بتاتے ہیں کہ”ضلع نوح میں ریلوے ٹریک کو جوڑنے کا مسئلہ بہت پرانا ہے،اس تعلق سے کئی دفعہ حکومت کو توجہ دلائی گئی لیکن کارروائی نہیں ہوئی۔وہیں ضلع نوح میں NH248Aنیشل ہائی وے کا مسئلہ بھی ایک اہم مسئلہ بنا ہوا ہے، اسے خونی ہائی وے کہا جاتا ہے۔ NH248Aپر بے شمار گڈھے ہیں،1300لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں اور2600ایکسیڈنٹ ہوچکے ہیں،ضلع کے لوگوں نے کئی مرتبہ مظاہرے کیے اور حکومت کو توجہ دلائی لیکن مسئلہ جوں کا توں برقرار ہے”۔ڈاکٹر اشفاق عالم سوشل ایکٹیوسٹ کہتے ہیں کہ”سبھی CHC/PHC میں 80 فیصد پرpermanent staffاکثر ندارد رہتا ہے اور ہریانہ کوشل وکاس کے تحت% 20 اسٹاف ہی مریضوں کو سنبھالتا ہے، اس سلسلے میں خاص بات یہ ہے کہ بخار کی جانچ کے لیے CBC ٹیسٹ کی سہولت صرفِ تاؤڑو میں ہے،العافیہ اسپتال، مانڈیکھیڑا و SHKM اسپتال نلہڑ بنیادی مراعات، مشین وغیرہ سے محروم ہے، خصوصاً خواتین ڈاکٹروں کی سہولت بہت ہی کم ہے”۔
ہریانہ میں خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم کی بات کی جائے تو اس سلسلے میں بھی ہریانہ کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔2023کی ایک رپورٹ کی روشنی میں خواتین کے خلاف جرائم میں 27فیصد اضافہ سامنے آیا ہے۔گھریلو تشدد کے واقعات، جہیز کے مسائل،اسکولوں، بازاروں اور سفر میں خواتین کے چھیڑ چھاڑ کے واقعات سے خواتین تنگ آچکی ہیں۔وہیں گزشتہ دنوں خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ بدسلوکی،ان کی جانب سے دہلی میں کیا جانے والا احتجاج اور مرکزی حکومت کی جانب سے خاموشی اور ملزم کے خلاف کارروائی نہ کیا جانا،پولیس کی جانب سے کی جانے والی زیادتیاں اور بی جے پی سے وابستہ کیڈر کی جانب سے سوشل میڈیا پر متاثرہ خواتین کھلاڑیوں کی ٹرولنگ اور بدتمیزیاں، یہ سارے مسائل بھی زندہ ہیں، عوام انہیں بھولے نہیں ہیں۔
مذہبی اعتبار سے ہریانہ میں 87.46 ہندو، 7.03فیصد مسلمان،اور4.91 فیصد سکھ رہتے ہیں۔ اور اگر 1941 اور2011 کی مردم شماری کی روشنی میں ہریانہ کی آبادی کو مذہبی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ 1941میں ہریانہ میں ہندو66.52فیصد تھےجو2011میں 20.93فیصد اضافے کے ساتھ 87.46فیصد ہوگئے ۔یعنی
گزشتہ 75سالوں میں ہندوؤں کا اضافہ ہوا ہے۔دوسری جانب 1941میں ہریانہ میں مسلمان27.13فیصد تھے جو 2011میں 7.03 فیصد رہ گئے ہیں۔یعنی مسلمانوں کی تعداد گزشتہ 75سالوں میں 20%فیصد گھٹ گئی ہے۔اس کمی کی ایک وجہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کی ہجرت ہے تو وہیں دیگر بڑی وجوہات بھی رہی ہیں ۔ اس کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ آج بھی ہریانہ اور پنجاب کے بہت سارے اضلاع مسلمانوں کی نہ بھلائی جانے والی پہچان اوریادوں کے ساتھ موجود ہیں۔ برخلاف اس کے آزاد ہندوستان میں ہریانہ میں مسلمانوں کی کم آبادی کی وجہ سے بہت سے نئے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اورگزشتہ دس سالہ بی جے پی کی حکومت کے دوران بھی بہت سے مسائل سامنے آئے ہیں۔اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند، ہریانہ کے ذمہ دار محمد اشتیاق کہتے ہیں کہ ہجوم کے ذریعہ لوگوں کی ہلاکت کا معاملہ 2014کے بعد سے بہت سنگین ہوگیا ہے۔بے شمار لوگ 2014سے اب تک ہجوم کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں، خصوصاً مویشیوں کا کاروبار کرنے والے افراد،دوران سفر ’گائے کی ہتیا‘ کے نام پربے قابو ہجوم کا شکار ہوئےہیں۔وہیں ہریانہ کے گاؤں اور بڑے شہر، فرید آباد ،گڑگاؤں وغیرہ میں ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جاتا رہا ہے۔کئی گاؤں میں مسجدوں اور ائمہ کرام پر حملے ہوئے ہیں تاکہ مسلمان خوف کے ماحول میں زندگی بسر کریں۔اس سلسلے میں 13اکتوبر2022کا واقعہ،بھورا کلاں گاؤں کی مسجداورنمازیوں پر حملہ بطور مثال ہے اس کے علاوہ بے شمار واقعات رونما ہوتے رہےہیں۔مزید یہ کہ مذبح خانوں کو بند کرنے کا مسئلہ جس کا راست تعلق مسلمانوں کےمعاشی نظام سے ہے،اس کو بھی اٹھایا جاتار ہا ہے۔15مئی 2017کے حکومت کے آڈر کی روشنی میں ہدایت کی گئی ہے کہ دکانوں میں گوشت تیار نہیں کیا جائے گا ،صرف فریزر میں رکھا جائے گا۔ مذہبی اور تعلیمی اداروں کے قریب ایسی دکانیں چلانے کی اجازت نہیں ہوگی،ان رہنما خطوط نے گوشت کے کاروبار کرنے والے مسلمانوں کو متاثر کیا ہے۔نیزریاست میں ایک گروہ کسی بھی مسجد کے تعلق سے فیصلہ صادر کردیتا ہے کہ یہ مسجد ایک مسمار شدہ مندر کی جگہ بنائی گئی تھی لہذا اس کو پھر مندر میں تبدیل کیا جائے۔اور عوام بے قابو ہوتے ہوئے اسے مندر میں تبدیل کردیتے ہیں، حکومت دیکھتی رہتی ہے لیکن مسئلہ حل نہیں ہوتا۔اس طرح کی مثالیں حالیہ برسوں میں بے شمار موجود ہیں،جیسے کوتالی،کرنال کی مسجد کو مندر میں تبدیل کیا گیا،کرنال ریلوے اسٹیشن کے قریب کی مسجد میں ہنومان کی مورتیاں رکھ کر مندر میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسولی ،پلول اور دکادلہ ،پانی پت وغیرہ مقامات پر نئی تعمیر شدہ مسجدوں کو توڑ ا گیا۔سونی پت اور فرید آباد میں درگاہیں توڑی گئیں،کئی اضلاع میں قبرستانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا گیا، ساتھ ہی کئی مقامات ایسے بھی ہیں جہاں نئی مسجدوں کی تعمیر میں رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ان حالات اور مسائل کے درمیان نئی اسمبلی اور حکومت کی تشکیل کے لیے الیکشن کی گہماگہمی جاری ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مسائل چاہے وہ اقلیتوں سے متعلق ہوں یا اکثریتی طبقہ سے ،نتائج پر کس حد تک اثر انداز ہوں گے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 29 ستمبر تا 05 اکتوبر 2024