!ہریانہ اور جموں و کشمیر؛ بھاجپا کی ہار اور مسلمانوں کی جیت

جمہوریت کی مجبوری : جس کی تعداد زیادہ، اسی کی نازبرداری

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

مسلمانوں کی سیاسی بصیرت سے نفرتی اور متعصبانہ ایجنڈوں کی سر عام ناکامی
ہریانہ اور جموں و کشمیر کے مسلمان رائے دہندگان نے جس مہارت سے اپنے ووٹوں کا استعمال کیا اس نے نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ ماہرین انتخابات کے ہوش اڑا دیے۔ اس کے کھلے عام اعتراف سے گریز کیا گیا مگر اسی تناظر میں یوگی نے نعرہ لگایا ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ اور موہن بھاگوت نے ہندو اتحاد پر زور دیا۔ جموں و کشمیر اسمبلی کی 90 سیٹوں میں سے این سی-کانگریس اتحاد نے 48 سیٹیں حاصل کرکے حکومت قائم کرنے کی راہ ہموار کرلی۔ نیشنل کانفرنس نے اکیلے 42 نشستیں حاصل کیں۔ان میں وادی کشمیر سے 35 جبکہ جموں کی سات سیٹیں شامل ہیں۔ این سی کے نشان پر مسلمانوں کے علاوہ دو ہندو امیدوار بھی کامیاب ہوئے۔ اس کے برعکس بی جے پی نہ تو وادی میں کوئی سیٹ جیت سکی اور نہ اس کے ٹکٹ پر کوئی مسلمان امیدوار کامیاب ہوسکا۔ جموں و کشمیر کے کامیاب ہونے والے کل نو آزاد امیدواروں میں سے چار ایسے بھی ہیں جو ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے نیشنل کانفرنس چھوڑ گئے تھے۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد ان کی دوبارہ گھر واپسی ہوچکی ہے۔ اس طرح اب نیشنل کانفرنس خود اپنے بل بوتے پر اکثریت میں آچکی ہے۔ نیشنل کانفرنس کی اس شاندار کامیابی میں کانگریس کے لیے عبرت کا سامان ہے۔
راجوری کے تھانا منڈی اسمبلی حلقہ سے سابق جج مظفر اقبال خان نے بی جے پی امیدوار محمد اقبال ملک کو 6179 ووٹوں سے شکست دی جبکہ انڈیا اتحاد کے امیدوار محمد شبیر خان (کانگریس) این سی کے ساتھ اتحاد کے باوجود صرف 7508 ووٹ حاصل کرکے چوتھے نمبر پر رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ این سی کا سارا ووٹ ظفر اقبال خان کی جھولی میں چلا گیا۔ اندروال سیٹ پر آزاد امیدوار پیارے لال شرما نے آزاد امیدوار غلام محمد سروری کو 643 ووٹوں کے معمولی فرق سے شکست دی جبکہ این سی کے ساتھ اتحاد کے باوجود انڈیا اتحاد کے کانگریسی امیدوار محمد ظفر اللہ تیسرے نمبر پر رہے۔ اپنی جیت درج کرنے کے بعد پیارے لال شرما نے اعلان کیا کہ وہ نیشنل کانفرنس سے وابستہ ہیں اور رہیں گے۔ نتائج کے اگلے دن پیارے لال شرما نیشنل کانفرنس کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کے لیے کشتواڑ سے سری نگر کے لیے روانہ ہوگئے۔ اس لیے کہ اب ان کا وزیر بننا طے ہے۔ سورنکوٹ سے چودھری محمد اکرم نے اتحاد کےکانگریسی امیدوار محمد شاہنواز چودھری کو 8,851 ووٹوں کے فرق سے شکست دے دی۔
جموں و کشمیر کے ضلع بارہمولہ کی گریز اسمبلی سیٹ میں اپنی جیت درج کرانے کی خاطر بی جے پی نے کمال ہوشیاری سے 1996 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہونے والے فقیر محمد خان کو میدان میں اتارا۔ 2014 میں صرف سو ووٹوں سے کامیاب ہونے والے نیشنل کانفرنس کے امیدوار نذیر احمد خان سے ان کا مقابلہ تھا۔ بی جے پی کو امید تھی کہ 2002 اور 2008 سے نذیر احمد جیت تو رہے ہیں مگر ان کی مقبولیت میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اس لیے اب کی بار فقیر محمد خان کی قسمت پھر سے کھلے گی اور وادی میں کنول کھلے گا مگر وہ بھگوا امیدوار بھی 1100 ووٹوں سے ہار گیا۔ یہاں ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی کے نثار احمد لون 1966 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ جموں و کشمیر میں کانگریس صرف کچھ سیٹوں پر کامیابی حاصل کرسکی کیونکہ سارے مسلمان این سی کے ساتھ ہوگئے تھے اور ہندو اس کے خلاف بی جے پی کے پرچم تلے متحد ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے وادی سے تو تین نشستیں مل گئیں مگر جموں میں صرف دو نشستوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ کانگریس چونکہ این سی کے ساتھ تھی اس لیے ہندوؤں نے اس سے پوری طرح منہ موڑ لیا تھا اور پچھلی بار کے مقابلے میں وہ نصف پر پہنچ گئی۔
آئین دفعہ 370 کو برخواست کر کے ملک بھر میں اپنی پیٹھ تھپتھپانے والی بی جے پی کا جموں و کشمیر میں 29 سیٹوں پر سمٹ جانا نہایت شرمناک ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں میں پی ڈی پی کو تین، پیپلز کانفرنس، عام آدمی پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کو ایک ایک سیٹ پر جیت ملی۔ جموں کے ہندوؤں کی شکایات کو سن کر ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستان کا مسلمان بول رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آبادی زیادہ ہونے کے باوجود ان کے حصے میں کم نشستیں ہیں۔ وہ لوگ زیادہ ٹیکس دیتے ہیں مگر سرکاری خزانے کا بڑا حصہ وادی پر خرچ ہوجاتا ہے۔ سڑکیں، پل اور صنعتی زونس جموں کے بجائے وادی میں بنائے جاتے ہیں۔ جی-20 کا اجلاس ہو یا کورونا کے دوران آکسیجن سلنڈروں کی فراہمی، ان سب میں کشمیریوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بی جے پی کو ووٹ دینا چونکہ ان کی مجبوری ہے اس کا فائدہ اٹھا کر انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ہندوستان کا مسلمان کانگریس سے ایسی ہی شکایت کرتا ہے۔ یہ جمہوری نظام کا عیب ہے کہ اس میں اکثریت کی ناز برداری کی جاتی ہے چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔
بی جے پی خود اپنی پارٹی کے لوگوں سے کیسی بدسلوکی کرتی ہے اس کا ایک مظاہرہ نوشیرہ میں ہوا جہاں بی جے پی کے ریاستی صدر اور وزارت اعلیٰ کا دعویدار رویندر رائنا خود شکست فاش سے دوچار ہوگئے۔ ان کو پتہ تھا کہ وہاں دال نہیں گلے گی اس لیے انہوں نے پوری ریاست میں انتخابی مہم چلانے کا بہانہ بنا کر محفوظ نشست کا مطالبہ کیا۔ پارٹی صدر کی اس التجا پر ہمدردانہ توجہ دینے تو اعلیٰ کمان نے مہم کی ذمہ داری کسی شرما جی کو سونپ کر رائنا کو اسی حلقہ انتخاب پر لڑنے کے لیے مجبور کیا۔ اس زیادتی کا نتیجہ یہ نکلا کو انہیں این سی کے سریندر چودھری نے تقریباً سات ہزار ووٹوں کے فرق سے ہرا دیا۔ جموں کے لوگوں میں اب کشمیر سے الگ ہونے کی شدید خواہش پیدا ہوگئی ہے۔ وہ کشمیریوں سے الگ ہونا چاہتے ہیں۔ ان کے سامنے سوال یہ ہے کہ اگر لداخ کو الگ کیا جا سکتا ہے تو جموں کو کیوں نہیں؟ ایسا کرنے سے کم از کم جموں کو ہندو وزیر اعلیٰ مل جائے گا لیکن کشمیر میں کنول کھلانے کا خواب ہمیشہ کے لیے خاک میں مل جائے گا۔ ایسے میں کانگریس کے لیے موقع ہے کہ وہ این سی سے ناطہ توڑ کر ایک ہندو کو پارٹی کا سربراہ بنائے اور جموں کو الگ ریاست بنانے کی تحریک چلائے۔ اس سے جموں میں بھی بی جے پی کا سپڑا صاف ہو جائے گا۔
کشمیر میں بی جے پی نے جملہ 62 مقامات پر انتخاب لڑا یعنی 28 نشستیں اپنے غیر اعلانیہ حامیوں کے لیے چھوڑ دیں۔ ان 62 میں سے 25 امیدوار مسلمان تھے۔ ان میں سے 19 وادی میں اور چھ جموں میں تھے مگر سب کے سب ہار گئے حالانکہ مسلمانوں کی ناز برداری کے لیے امیت شاہ نے وہاں جاکر نہ صرف مسلمانوں والی ٹوپی پہنی بلکہ میلاد النبی اور محرم کے موقع پر مفت گیس سلنڈر کا وعدہ تک کر دیا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا اور مسلمان رائے دہندگان کو ریوڑی بانٹ کر لبھانے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ بیشتر زعفرانی مسلمان پانچویں نمبر یا اس سے بھی نیچے رہے اور ایک تو بے چارہ تیرہویں نمبر پر چلا گیا۔ مسلمانوں نے بی جے پی امیدواروں کے علاوہ اس کی حمایت کرنے والوں کو بھی نہیں بخشا۔ الطاف بخاری نے دو جگہوں سے الیکشن لڑا ایک جگہ شکست کھا گئے اور دوسرے مقام پر ہارتے ہارتے بچے۔ فی الحال بی جے پی کی مخالفت کرنے والی مگر ماضی میں اس کے ساتھ جانے والی پی ڈی پی جو پچھلے انتخاب کی سب سے بڑی پارٹی تھی اس بار تین پر پہنچا دی گئی۔ التجا مفتی کو پہلے انتخاب میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
کشمیر میں اگست 2019 میں آرٹیکل 370 ختم کرنے کے بعد بی جے پی نے صرف انتخابی ناکامی نہیں بلکہ اپنا دہائیوں پرانا بیانیہ ہار گئی۔ نریندر مودی اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں نے ریاست میں پہلی مرتبہ ہندو وزیر اعلیٰ مسلط کر کے اقتدار پر فائز ہونے کا جو خواب دیکھا تھا وہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ جموں و کشمیر میں وزیر اعلیٰ بننے کا خواب دیکھنے والے بی جے پی کے سربراہ رویندر رائنا کی شکست نے ان کے ہوش ٹھکانے لگا دیے۔ نریندر مودی کا دعویٰ کہ جموں و کشمیر میں ’باپ بیٹے‘ اور ’باپ بیٹی‘ کی سرکار نہیں بنے گی خاک میں مل گیا۔ وہ جس کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے اتحاد پر ’پاکستان کے ایجنڈے پر کام کرنے‘ کا الزام لگا رہے تھے وہ کامیاب ہوگیا یعنی بقول ان کے پاکستانی ایجنڈا فاتح رہا اور اس پر انہوں نے نیشنل کانفرنس کو جیت کی مبارکباد بھی دے ڈالی۔ مودی نے کہا تھا کہ دفعہ 370 کے خاتمے سے لوگ خوش ہیں اور وہ اس بار ’خاندانی پارٹیوں کو شکست دے کر‘ اس فیصلے کی توثیق کریں گے۔ مودی نے انتخاب کو استصواب بنایا اور اس میں بری طرح ہار گئے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق ہریانہ میں 7.1 فیصد مسلمان ہیں مگر سیاسی جماعتوں نے 2019 میں جو سروے کیا تھا اس کے مطابق مسلم ووٹرس صرف 3.4 فیصد ہیں۔ سی ایس ڈی ایس کا جائزہ کہتا ہے کہ ان میں سے 59 فیصد نے کانگریس کو ووٹ دیا اور 34 فیصد نے دیگر پارٹیوں یعنی لوک دل و آزاد امیدواروں پر اعتماد ظاہر کیا۔ اس سروے میں 7.03 فیصد مسلمانوں کے بی جے پی کو ووٹ دینے کا انکشاف کیا گیا ہے جس پر گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر اعتماد کرنا مشکل ہے۔ ہریانہ کے فساد سے متاثرہ علاقہ نوح میں بی جے پی کا مسلم امیدوار اس کی ساری تگڑم بازی کے باوجود تیسرے نمبر پر رہا۔ کانگریس کے امیدوار آفتاب احمد کو91 ہزار 833 ووٹ ملے جبکہ انڈین نیشنل لوک دل کے امیدوار طاہر حسین 44 ہزار 870 ووٹ پا کر دوسرے نمبر پر رہے۔
نوح میں بی جے پی کے امیدوار کو محض 15 ہزار ووٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ عام آدمی پارٹی کی امیدوار رابعہ قدوائی اور ’بھارت جوڑو پارٹی‘ کے امیدوار محمد انور کو بالترتیب 222 اور 190 ووٹ ملے جو نوٹا کے 369 ووٹوں سے بھی کم تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نہ صرف بھگوائیوں اور اس کی بی اور سی ٹیموں کو کیسے پہچانتے ہیں اور ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ آفتاب احمد 1985 میں پہلی بار کامیاب ہوئے تھے اس کے بعد یہ ان کی چوتھی کامیابی ہے۔ گزشتہ سال فرقہ وارانہ فساد کے بعد ’فیروز پور جھرکا‘ اسمبلی حلقے سے کانگریس کے امیدوار مامن خان کو بی جے پی نے سب سے زیادہ نشانہ بنایا تھا۔ اس کے جواب میں مسلمانوں نے اس مرتبہ ان کے سر پر پوری ریاست میں سب سے زیادہ یعنی 98,444 ووٹ کے فرق سے کامیاب ہونے کا سہرا باندھ دیا۔ دلیر رہنما کی اس طرح قدر دانی کی جاتی ہے۔
مامن خان نے نوح فساد کے وقت ایوانِ اسمبلی میں بابو بجرنگی کو چیلنج کیا تھا کہ اگر وہ یاترا لے کر ان کے علاقے میں آئے گا تو اسے ’چھل دیں گے‘۔ ان کے ڈر سے بابو بجرنگی آنے کی ہمت نہیں کرسکا اور جو فسادی آئے ان کو مسلمانوں نے مار بھگایا۔ مامن خان کو کل ایک لاکھ 30 ہزار 497 ووٹ ملے جبکہ ان کے قریب ترین حریف بی جے پی کے امیدوار نسیم احمد محض 32 ہزار 56 ووٹ پر سمٹ گئے۔ نسیم احمد سابق رکن اسمبلی ہے اور مختلف جماعتوں سے قسمت آزمائی کرتا رہا ہے۔ بی جے پی نے سوچا کہ اس کی ذاتی مقبولیت اور اپنی حمایت سے بیڑہ پار ہوجائے گا مگر ایسا نہیں ہوسکا۔ فیروزپور میں لوک دل کے امیدوار محمد حبیب کو 15 ہزار638 اور آزاد امیدوار ممتاز احمد کو 1142 ووٹ ملے۔ ان کے علاوہ عام آدمی پارٹی اور جے جے پی جیسی پارٹیوں کے امیدوار تو ہزار کے عدد کو بھی نہیں چھو سکے۔
پنہانا اسمبلی حلقے سے کانگریس کے امیدوار محمد الیاس نے 31 ہزار 916 ووٹ کے فرق دوبارہ جیت درج کرائی ہے۔ انہیں 85 ہزار300 جبکہ ان کے حریف آزاد امیدوار رئیس خان کو 53 ہزار384 ووٹ ملے۔ بی جے پی نے ان کے سامنے محمد اعجاز خان کو میدان میں اتارا تھا لیکن اس بے چارے کو محض پانچ ہزار ووٹ ملے۔ اس کے علاوہ کوئی بھی امیدوار ہزار ووٹ تک نہیں پہنچ سکا۔ محمد الیاس کی یہ پانچویں اور پنہانا اسمبلی حلقے سے تیسری کامیابی ہے۔ وہ پہلی بار نوح سے اور دوسری بار فیروز پور جھرکا سے کامیاب ہوئے تھے۔ ہاتھن اسمبلی حلقے میں بی جے پی نے مسلمان امیدوار کے بجائے منوج کمار کو میدان میں اتار امگر وہ 47 ہزار 511 ووٹ ہی حاصل کرسکا جبکہ کانگریس کے امیدوار محمد اسرائیل نے 79 ہزار 907 ووٹ پاکر 32 ہزار 396 ووٹوں کے فرق سے کامیابی درج کرائی۔ بی ایس پی کی اتحادی انڈین نیشنل لوک دل کے مسلم امیدوار طیب حسین عرف نذیر احمد کو 37 ہزار843 ووٹ ملے۔ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں محمد اسرائیل دوسری پوزیشن پر تھے۔ 1991ء کے بعد پہلی بار اس حلقے میں کانگریس کامیاب ہوئی ہے۔
جگدھاری اسمبلی حلقے سے عام آدمی پارٹی کے سبب کانگریس کے امیدوار اکرم خان کو سات ہزار سے کم ووٹوں سے کامیابی ملی۔ انہیں مجموعی طور پر67 ہزار 403 ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف بی جے پی امیدوار کنور پال نے 60 ہزار 535 ووٹ حاصل کرلیے۔ 2009 میں بی ایس پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے اکرم خان ہریانہ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر اور وزیر مملکت برائے داخلہ بھی رہ چکے ہیں۔ ہریانہ کے انتخاب میں مسلمانوں کو ہی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ ان کے سارے کانگریسی امیدوار کامیاب ہوگئے اور اسٹرائیک ریٹ سو فیصد رہا۔ اس بارکانگریس نے پانچ امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا جو آبادی کے تناسب میں تھا۔ مسلمانوں کے سیاسی حاشیے پر چلے جانے کا ماتم کرنے والوں کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ پچھلے اسمبلی انتخابات میں جب بی جے پی نے اکثریت گنوادی تھی تو ہریانہ اسمبلی میں جملہ تین یعنی مامن خان کے علاوہ آفتاب احمد اور محمد الیاس ارکان تھے، لیکن اس بار محمد اسرائیل اور اکرم خان کا اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح مسلم نمائندگی چالیس فیصد بڑھ گئی ہے۔
ہریانہ کی مانند جموں و کشمیر میں معلق اسمبلی کی پیشن گوئی کرنے والے سبھی ایگزِٹ پولز منہ کے بل گر گئے اور یہ کارنامہ باذن اللہ مسلم رائے دہندگان کے ہاتھوں ہوا۔ عام آدمی پارٹی کو ہریانہ کے لوگوں نے اس کی اوقات دکھا دی مگر بی جے پی نے جن دو مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا وہاں کے مسلمانوں نے انہیں بھی آئینہ دکھا دیا۔ اس لیے اگر وہ مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ وہ پھر ایک بار سمجھ گئی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے جھانسے میں لینا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ بی جے پی مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دیتی کیونکہ وہ مسلم دشمن ہے۔ نیز، وہ اس کی مجبوری بھی ہے۔
اس ملک میں مسلمان ہی ایسی باشعور امت ہے جو من حیث القوم اس کے سحر میں گرفتار نہیں ہوگی۔ اس لیے بی جے پی کو چاہیے کہ وہ کم ازکم مسلمانوں کے ساتھ منافقت کا کھیل نہ کھیلے۔ اس کو اگر مسلم دشمنی کی بنیاد پر سیاست کرنی ہے، اسی راہ پر گامزن رہے۔ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دے کر ان کی اور خود اپنی رسوائی کا سامان نہ کرے۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024