ہریانہ اسمبلی انتخابات؛ بھاجپا کی جیت، کئی حقائق واشگاف
مودی میجک کے بجائے زمینی پیمانے کی انتھک کوششیں کامیابی کی ضامن
زعیم الدین احمد حیدرآباد
ہندوتوا اور او بی سی کارڈ کے ذریعے عوام کے جذبات کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کی کامیاب کوشش
بی جے پی کو لوک سبھا انتخابات میں جھٹکا لگنے کے بعد ہریانہ میں جیت نے کچھ راحت اور جلا بخشی ہے۔ دراصل اس جیت کے پیچھے کون ہے یہ ایک دلچسپ سوال ہے۔ منوہر لال کھٹر نے اس جیت کا سہرا وزیر اعظم مودی کو دیا ہے۔ لازمی بات ہے کہ وہ اب مرکزی وزیر ہیں، ان کو ہی چیف منسٹر سے ہٹا کر نائب سنگھ سینی کو چیف منسٹر بنایا گیا، وہ تو کہیں گے ہی، کرسی جو بچانی ہے۔ ایک طرح دیکھا جائے تو مودی ہی الیکشن کا چہرہ رہے ہیں، اس میں میں کوئی مبالغہ بھی نہیں ہے، لیکن جب ہم اس کی ایک اور پرت کھول کر دیکھتے ہیں تو دوسری حقیقتیں بھی سامنے آتی ہیں، جیسا کہ گزشتہ تقریباً سبھی انتخابات میں مودی کا چہرہ ہی چھایا رہا، ہر ہر مودی گھر گھر مودی کا جاپ ہی چلتا رہا، ہریانہ میں بھی 2019 کے انتخابات میں مودی ہی چھائے رہے۔ پچھلی بار بی جے پی نے مودی کے چہرے پر الیکشن لڑا تھا، لیکن کیا اس بار بھی مودی کے چہرے پر ہی الیکشن لڑا گیا؟ انہوں نے 2019 میں ہریانہ میں تقریباً دس بڑی بڑی ریالیاں کیں، لیکن اس بار وہ صرف چار جلسے ہی کر پائے، یہ دعوے کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ان انتخابات میں مودی نے سب سے کم حصہ لیا۔ اگر واقعتاً انہی کا جادو چلتا تو وہ کہاں رکنے والے تھے؟ جہاں الیکشن ہوتے وہاں وہ حاضر رہتے، ریاستی قائدین کو لوگ جانتے بھی نہیں اور بی جے پی کہتی بھی یہی تھی کہ مودی کے نام پر ووٹ دو، مودی کی گارنٹی، مودی ہے تو ممکن ہے۔ مودی کے نام پر ہی الیکشن لڑے جاتے رہے، اسی وجہ سے بی جے پی اکثر ریاستوں میں انتخابات جیت نہیں پائی۔ بہر حال اس طرح کی صورت حال ان الیکشنوں میں نظر نہیں آئی، اس بار مودی نے کم حصہ لیا اور بی جے پی جیت گئی۔
اس بار بی جے پی نے مودی مرکوز مہم نہیں چلائی بلکہ ریاستی لیڈروں کے نام پر انتخابی مہم چلائی ورنہ ہر بار مودی کے نام سے ہی مہم چلتی تھی۔ گلی سے لے کر دلی تک مودی ہی چھائے رہتے تھے، اگر ہریانہ میں اس بار بھی مودی مہم چلتی تو یقینی طور پر بی جے پی کو ہار کا منہ دیکھنا پڑتا، لیکن بی جے پی نے کمال حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے وہاں مودی کے بجائے لوکل لیڈروں سے مہم چلائی جس کے نتیجے میں بی جے پی نے جیت درج کی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2024 میں بھی مودی سب سے بڑے لیڈر کے طور پر برقرار رہے ہیں، لیکن اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ ان کی مقبولیت میں بہت کمی آئی ہے جبکہ ان کے مقابلے میں راہل گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ اتر پردیش جیسی ریاست جہاں بھاچپا نے 62 سیٹیں حاصل کیں اس بار 39 سیٹیوں پر آ گئی، جبکہ یہاں مودی پلس یوگی کا شور بلند تھا۔ خیال ہے کہ یہ 39 سیٹیں بھی یوگی اور چھوٹی پارٹیوں کے نام پر حاصل ہوئی ہوں گی، ورنہ اگر صرف مودی کا چہرہ ہوتا تو شاید اتنی سیٹیں بھی نہیں آتیں، بہر حال یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ مودی کی مقبولیت میں بہت کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کا ایک اور ثبوت 2024 کے پارلیمنٹ الیکشن ہیں، بھاجپا 303 سے گر کر 240 پر آگئی، اسی چیز کو محسوس کرتے ہوئے سنگھ نے نئی اسٹریٹجی بنائی کہ اب مودی کے نام پر الیکشن نہیں لڑے جائیں گے، اگر ہریانہ میں مودی کے چہرے پر الیکشن لڑے جاتے تو ہار جاتے، اب آنے والے امتحانات اور کٹھن ہیں کیونکہ اسی سال کے آخر میں مہاراشٹر اور جھارکھنڈ میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں جو زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ہریانہ انتخابی مہم میں کم حصہ لینے کا ایک اور بھی راز ہے، وہ یہ کہ اگر بھاجپا ہریانہ الیکشن ہار جاتی تو کہا جاتا کہ مودی نے مہم میں حصہ نہیں لیا اسٹیٹ لیڈر صحیح طریقے سے کام نہیں کیے اس لیے ہار گئے، مودی اگر مہم چلاتے تو جیت جاتے وغیرہ۔ قسمت اچھی تھی لیکن جیت گئے اس لیے کہہ رہے ہیں کہ مودی کی وجہ سے جیت ہوئی ہے۔ اسی لیے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ منوہر لال کھٹر نے مہم نہیں چلائی کیوں کہ عوام میں ان کے خلاف شدید غصے تھا، اگر وہی چیف منسٹر رہتے تو معاملے الٹا ہوتا۔
آر ایس ایس کے ذریعہ ایک سروے کرایا گیا تھا جس سے پتہ چلا کہ چیف منسٹر منوہر لال کھٹر کی قیادت میں بی جے پی کو اقتدار برقرار رکھنا مشکل ہے۔ انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق نئی دلی میں آر ایس ایس اور بی جے پی کے سینئر لیڈروں کے ساتھ ایک رازدارنہ میٹنگ ہوئی، جس میں آر ایس ایس کے جوائنٹ جنرل سکریٹری ارون کمار، ہریانہ بی جے پی کے صدر موہن لال بدولی اور مرکزی وزیر دھرمیندر پردھان شامل تھے، اس میٹنگ میں سروے رپورٹ پیش کی گئی کہ اگر منوہر لال کھٹر برقرار رہتے ہیں تو پارٹی یقینی طور پر ہار جائے گی، لہٰذا ان کو بدلا جانا ضروری ہے اور ساتھ ہی رورل ایریا میں بھی کام کرنا ضروری ہے، چنانچہ اسی منصوبے کے تحت منوہر لال کھٹر کو ہٹایا گیا، ان کے بدلے ایک لو پروفائل لیڈر نائب سنگھ سینی کو لایا گیا جس کے خلاف عوام کو غصہ تھا ان کے ہٹنے سے وہ غصہ کم ہوگیا اور ساتھ ہی سینی نے حکومت کے خلاف جو اینٹی انکمبینسی تھی اس کو کم کیا۔ سینی کو لانے میں بھاجپا کی ایک حکمت عملی یہ بھی تھی کہ سینی او بی سی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہریانہ میں جاٹ 22 فیصد، او بی سی 33 فیصد اور ایس سی 20 فیصد ہیں، اس سے یہ ہوا کہ جاٹ اور او بی سی کا راست مقابلہ ہوگیا یعنی ہوڈا بمقابلہ سینی، او بی سی ووٹ یکجا ہوگئے جس کا راست بھاجپا کو فائدہ ہوا۔
اس دوران آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بھی ہریانہ میں پڑاؤ ڈالا، وہ تنظیم کے علاقائی ہیڈکوارٹر میں رہ کر صورتحال کا قریب سے جائزہ لیتے رہے۔ انتخابی مہم کے دوران، بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیڈر دیہی ووٹروں تک پہنچے اور عوام میں نیپوٹزم یعنی اقربا پروری اور علاقائیت کے بارے میں جو غصہ تھا اس کو کم کیا اور ان کے خدشات کو دور کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کی۔
خبر یہ بھی ہے یکم تا نو ستمبر کے درمیان، آر ایس ایس نے ہر اسمبلی حلقہ میں 90 کے قریب میٹنگیں کیں اور پارٹی کارکنوں اور دیہی ووٹروں کے ساتھ تقریباً 200 بیٹھکیں کیں۔ انتخابات کے دوران آر ایس ایس کیڈر زمین پر بہت متحرک رہا جس نے لوگوں سے ہندتوا کے نام پر بی جے پی کا ساتھ دینے کی اپیل کی۔ بی جے پی کے ایک کارکن نے کہا کہ سنگھ نے خاص طور پر دیہی علاقوں میں ہمارے ووٹر بیس کو بہت مضبوط کیا جس کی وجہ سے ہم جیت پائے ورنہ کسانوں کا احتجاج، پہلوانوں کی تحریک اور اگنی ویر اسکیم نے بی جے پی کے لیے بڑے چیلنجز پیدا کر دیے تھے۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ عوامل بی جے پی کو اسمبلی انتخابات میں لے ڈوبیں گے۔ لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ آر ایس ایس نے ایسی مشکل حالت میں بھی جبکہ عوام حکومت کی شدید مخالف تھی اس کے باوجود اپنی گراس روٹ لیول کے وجود کی بنیاد پر بھاجپا کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پھر ایک بار او بی سی اور ہندوتوا کا کارڈ بڑے پیمانے پر کھیلا گیا جس کا راست فائدہ بھاجپا کو ہوا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اکتوبر تا 26 اکتوبر 2024