ہریدوار نفرت انگیز تقاریر: سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کیا، دس دن میں جواب مانگا

نئی دہلی، جنوری 12: سپریم کورٹ نے آج اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کیا جس میں گزشتہ ماہ اتراکھنڈ کے ہریدوار شہر میں منعقدہ ایک کانفرنس میں نفرت انگیز تقاریر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والی درخواست پر جواب طلب کیا گیا ہے۔

بار اینڈ بنچ کی خبر کے مطابق چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا کی سربراہی میں بنچ نے ریاستی حکومت سے 10 دن کے اندر جواب دینے کو کہا۔

17 دسمبر اور 19 دسمبر کے درمیان ہریدوار میں منعقد ہونے والے ’’دھرم سنسد‘‘ میں ہندوتوا شدت پسندوں نے ہندوؤں سے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے لیے ہتھیار خریدنے کی اپیل کی تھی۔

لائیو لاء کے مطابق درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے کپل سبل نے بدھ کے روز مطالبہ کیا کہ کیس کی اگلی سماعت 17 جنوری کو کی جائے۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اس طرح کی تقریبات ملک کے دیگر حصوں میں بھی منعقد کی جا رہی ہیں، جن میں ایک 23 جنوری کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں بھی ہونی ہے۔

سبل نے کہا ’’وہ [دھرم سنسد] ان ریاستوں میں ہونے والے ہیں جہاں انتخابات کا عمل جاری ہے۔ کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ہے، ملک کا ماحول خراب ہو جائے گا۔۔۔یہ تشدد کو واضح طور پر اکسانا ہے۔‘‘

عدالت نے کہا کہ وہ 17 جنوری کو اس کیس کی سماعت نہیں کرے گی، لیکن درخواست گزاروں کو ان جگہوں پر پولیس تک جانے کی اجازت دی جہاں اس طرح کے پروگرام منعقد ہو رہے ہیں۔

عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ کیا جسٹس اے ایم کھانولکر کی سربراہی میں ایک الگ بنچ اسی طرح کے معاملات کی سماعت کر رہی ہے۔ جواب میں درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ جسٹس کھانولکر کی سربراہی والی بنچ نے مقدمات کو چیف جسٹس کی سربراہی میں منتقل کر دیا ہے۔

دی ہندو کے مطابق پٹنہ ہائی کورٹ کی سابق جج انجنا پرکاش اور صحافی قربان علی نے یہ درخواست دائر کی ہے۔

پیر کو سپریم کورٹ نے درخواست کی سماعت کے لیے رضامندی ظاہر کی تھی۔ سبل نے تب کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ ملک کا نعرہ ’’ستیہ میو جیتے‘‘ سے بدل کر ’’شسترا میو جیتے‘‘ ہو گیا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہریدوار میں تقریب کے دوران کی گئی تقاریر انتہائی نفرت انگیز تقاریر ہیں اور مسلمانوں کی ٹارگٹ کلنگ ہر اکساتی ہیں۔

درخواست گزاروں نے اس معاملے میں ایک پولیس افسر اور ہندوتوا لیڈروں کے ایک ویڈیو کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں پولیس افسر کے ساتھ ملزمان کو ’’غیرجانبدارانہ‘‘ ہونے پر ہنستے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ویڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس حکام ’’فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔‘‘

درخواست گزاروں نے نفرت انگیز تقاریر کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

معلوم ہو کہ اس معاملے میں اب تک دو ابتدائی اطلاعات درج کی گئی ہیں۔

پہلی ایف آئی آر 23 دسمبر کو درج کی گئی تھی اور اس میں صرف سابق شیعہ وقف بورڈ کے سربراہ وسیم رضوی کا نام لیا گیا تھا، جنھوں نے حال ہی میں ہندو مذہب اختیار کیا تھا اور اپنا نام جتیندر نارائن تیاگی رکھا تھا۔

26 دسمبر کو اتراکھنڈ پولیس نے اناپورنا، جسے پوجا شکون پانڈے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور پجاری دھرم داس مہاراج کا نام ایف آئی آر میں شامل کیا۔ اناپورنا ہندوتوا تنظیم ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری ہے۔ یکم جنوری کو نرسنگھا نند سرسوتی اور ساگر سندھو مہاراج کے نام بھی ایف آئی آر میں شامل کیے گئے تھے۔

2 جنوری کو گری اور مہاراج سمیت 10 افراد کے خلاف دوسری پہلی اطلاعاتی رپورٹ درج کی گئی۔ ایف آئی آر میں نامزد دیگر ملزمان میں ایونٹ کے منتظمین دھرم داس، پرمانند، اناپورنا، آنند سوروپ، اشونی اپادھیائے، سریش چوہان اور پربودھانند گری اور تیاگی شامل ہیں۔