
ڈاکٹر ایس۔ایم۔ فصیح اللہ
کیا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں طنز و مزاح بھی جرم ہے؟
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے۔۔۔! صدیوں قدیم روایت ابھی بھی جاری
کچھ دن پہلے ممبئی کے مضافات میں واقع "ہیبی ٹیٹ”(HABITAT) کامیڈی کلب میں کنال کامرا کے طنز نے صرف ہنسی ہی نہیں اُڑائی بلکہ حکومتی وفاداریوں کے گن گانے والے حلقوں کو بھی تلملا دیا۔ ہوا یوں کہ کامرا نے ایک طنزیہ گیت پیش کیا جس میں مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کو ’غدار‘ کے لقب سے نوازا۔ یہ ایک واضح اشارہ تھا شندے کے 2022 کے سیاسی ’پلٹ‘ کی طرف، جب انہوں نے شیوسینا کے اصل دھارے سے الگ ہو کر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ اس گیت کی ویڈیو جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، شندے گروپ کے حامی مشتعل ہو گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے کامیڈی کلب پر حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی۔ اس ضمن میں کچھ افراد کی گرفتاری ہوئی جن میں شیو سینا کے یوتھ ونگ کے لیڈر راہل کنال بھی شامل تھے۔
یہ ایک معمولی واقعہ نہ تھا بلکہ یہ اس بڑی تصویر کا ایک فریم تھا جس میں ہندوستان میں آزادیِ اظہار، بالخصوص طنزیہ فن کے تحت بولے گئے سچ کو کس طرح کچلا جا رہا ہے۔ اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ کنال کامرا پر پہلے بھی عدلیہ کے خلاف طنز کرنے پر توہینِ عدالت کا مقدمہ دائر کیا جا چکا ہے۔ انہیں کئی ایئرلائنز نے ہوائی سفر سے بھی روک دیا تھا۔ وہ محض ایک کامیڈین نہیں بلکہ موجودہ نظام کے خلاف بولنے والی ایک بلند اور معروف آواز ہے جو آئین کے دیے گئے "Right to Freedom of Speech” کا استعمال کرتی ہے لیکن ہر بار جبر کی دیوار سے ٹکرا جاتی ہے۔
غالباً آپ کو منور فاروقی کا قصہ بھی یاد ہوگا۔ مدھیہ پردیش میں اندور کے ایک شو میں انہیں اس الزام پر گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے "ممکنہ طور پر” ایک مذاق کہا۔ دراصل انہوں نے ایسا لطیفہ کہا ہی نہیں تھا جس کے ارتکاب جرم میں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان کی ضمانت مشکل سے ہوئی اور ان کے شوز ایک ایک کرکے منسوخ کیے جانے لگے۔ وہ نوجوان جو ہنسی بکھیرنے آیا تھا جیل میں بیٹھ کر انصاف کی منتظر آنکھوں کے ساتھ سوال بن گیا۔
یہ سب کچھ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ لیکن معاملہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہے۔ امریکہ میں بھی جب کامیڈینز Saturday Night Live یا The Daily Show جیسے پلیٹ فارموں سے صدور اور پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو انہیں بھی دھمکیوں اور سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسٹیفن کولبرٹ (Stephen Colbert) کو بارہا امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف تضحیکی تبصروں پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ترکی میں طنز نگار جم ییلماز (Cem Yılmaz) پر صدر اردگان کی توہین کے الزامات لگے۔ مصر میں مشہور طنزیہ صحافی باسم یوسف (Bassem Youssef) جب مرسی حکومت کے خلاف بولے تو ان کے پروگرام پر پابندی لگا دی گئی نتیجے میں وہ جلا وطنی پر مجبور ہو گئے۔
درحقیقت طنز و مزاح کی ایک طویل اور شاندار روایت دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں ملتی ہے۔ برطانیہ کے جوناتھن سوئفٹ نے 18ویں صدی میں Gulliver’s Travels لکھ کر انگلستان کی مذہبی، عدالتی اور سائنسی دنیا پر طنز کیا۔ جارج آرویل کا Animal Farm دراصل اسٹالن کی آمریت پر طنز ہے، جہاں”All animals are equal, but some animals are more equal than others” یعنی تمام جانور برابر ہیں، لیکن بعض جانور دوسروں کی بہ نسبت زیادہ برابر ہیں۔” جیسا جملہ آمریت کے جھوٹ کو پوری دنیا کے لیے بے نقاب کرتا ہے۔ برنارڈ شا نے معاشرتی منافقت کو بے نقاب کیا تھا۔
رباعیات میں عمر خیام نے مذہبی پیشواؤں اور معاشرتی دکھاوے پر فلسفیانہ اور طنزیہ تبصرے کیے۔ خیام شراب، وقت اور موت کے بہانے مذہبی منافقت پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ نصرالدین ہوجا (جُحا) کا کردار مزاحیہ کہانیوں میں حکم رانوں کی حماقتوں، قاضیوں کی رشوت خوری اور معاشرتی تضادات پر طنز کرتا ہے۔ اس کی حکایات عوامی دانشمندی و بصیرت سے لبریز ہوتی تھیں، جو ہنسا کر سمجھانے کا ہنر رکھتی تھیں۔
فیودر دوستووسکی کا لہجہ فلسفیانہ تھا مگر ان کے ناول Notes from Underground میں جدید تہذیب، عقل پرستی اور سوشلسٹ یوٹوپیا پر گہرا طنز موجود ہے۔ والٹئیر (Voltaire) کا شہرۂ آفاق طنزیہ ناول Candide مذہب، فلسفہ اور یورپ کی منافق تہذیب پر بے رحمانہ طنز ہے۔ ان کی تحریروں نے کلیسا کے جبر اور حکومت کے ظلم کو چیلنج کیا۔ نوبل انعام یافتہ ادیب وول سوئینکا (Wole Soyinka) نے اپنے ڈراموں اور نظموں میں نو آبادیاتی نظام، کرپٹ لیڈروں اور مذہبی استحصال پر طنز کیا، جیسا کہ ان کے ڈرامے The Lion and the Jewel میں۔ مارک ٹوین(Mark Twain) نے Huckleberry Finn اور The Prince and the Pauper میں امریکی معاشرتی نفاق، غلامی اور اخلاقی تضادات کو طنز کا نشانہ بنایا گیا۔ مارک ٹوین نے کہا تھا : "Against the assault of laughter, nothing can stand”۔یعنی "ہنسی کے حملے کے آگے کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔”
اسی طرح بھارتی ادب میں بھی طنزو مزاح کی شاندار روایت رہی ہے۔ انیسویں صدی کے اختتام پر ہریش چندر نے ہندی اور اردو کے طنزیہ ادب میں نئی روح پھونکی۔ ان کا رسالہ “کوی وچن سدھا” انگریزی راج کے خلاف طنزیہ اور مزاحیہ نظموں سے لبریز تھا۔ وہ ہنسی میں لپٹے سچ کے ذریعے قوم کو جگانے کی کوشش کرتے تھے۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنی شاعری میں انگریزی تہذیب، مغربی تعلیم، طبقاتی منافقت اور حکومتِ وقت کے خوشامدی طبقے کو شدید طنز کا نشانہ بنایا۔ مجتبیٰ حسین ہنسا کر سوچنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ وہ طنز کے میدان کے بینا آنکھ والے فقیر تھے جنہوں نے سماج کی منافقت، سیاست کی بزدلی اور انسان کی خود غرضی کو اپنی "تبسم میں چھپی تنقید” سے بے نقاب کیا۔
یہ سب وہ لوگ تھے جو ہنسی کے ہتھیار سے ظلم پر وار کرتے تھے۔ آج کے ہندوستان میں جہاں میڈیا کے بڑے حصے کو حکومت کی طفیلی حیثیت حاصل ہو چکی ہے، وہیں طنزیہ کامیڈینز وہ گمنام سپاہی ہیں جو آزادیِ اظہار کے محاذ پر سینہ سپر ہوکر کھڑے ہیں اور ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘ کا شاندار مظاہرہ کر رہے ہیں۔ لیکن ان پر ایف آئی آر، دھمکیاں، اور ٹرول آرمی و سیاسی کارکنوں کے حملوں سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ: کیا یہ وہی جمہوری معاشرہ ہے جس کی بنیاد گاندھی، نہرو اور امبیڈکر جیسی شخصیات نے رکھی تھی؟
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ طنز و مزاح کوئی تفریحی مشغلہ نہیں بلکہ یہ ایک فکری تحریک ہے۔ یہ گلیوں میں بجتا ہوا وہ ڈھول ہے جو بادشاہ کے ننگے ہونے کی خبر دیتا ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو سچ کو چھپنے نہیں دیتی۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم نے طنز کی اس آواز کو دبا دیا تو صرف ایک فنکار نہیں بلکہ پوری قوم گونگی ہو جائے گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025