ہنگامی و جبری نقل مکانی کا عذاب

شہری آبادیوں پر بنکر بسٹر بموں کا استعمال، ننھے لاشے کئی سو فٹ فضا میں اچھل گئے

مسعود ابدالی

وحشیانہ بمباری سے اسرائیلی قیدی ہلاک ہوسکتے ہیں۔ دوتہائی غزہ no goایریا بن گیا
فلاڈیلفی راہداری کے متوازی ایک اور راہداری بناکر اسرائیل نے ر فح کو غزہ سے کاٹ دیا
غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مزاحمت کاروں کی وجہ سے ہو رہا ہے، امریکی ترجمان
غزہ نسل کشی میں سہولت کاری، بنگلہ دیشی طالبہ نے امریکی ایواڑد مسترد کردیا
غزہ پر ڈیڑھ سال کی مسلسل بمباری و گولہ باری کے باوجود دستِ قاتل میں نہ تھکن کے آثار ہیں، نہ رحم کے۔ مظلوم لیکن پُرعزم مزاحمت کاروں کے پائے استقامت میں بھی کوئی لغزش نظر نہیں آتی۔ یوں سمجھئے کہ ایک طرف تیر کی برسات ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہی، تو دوسری طرف سینہ و سر کی فراہمی میں بھی کوئی تعطل دکھائی نہیں دے رہا۔
علامہ کا مومن بے تیغ بھی لڑ سکتا ہے، لیکن پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دینے والے بموں کے مقابلے میں اہلِ غزہ نہ صرف نہتے ہیں بلکہ بھوکے پیاسے بھی۔ جبر اور صبر کا ایسا ٹکراؤ تاریخ نے شاید ہی کبھی پہلے دیکھا ہو۔ زخموں سے چور اہلِ غزہ کی مزاحمت بدستور جاری ہے۔
ہنگری سے امریکہ کی طرف محوِ سفر اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنے خصوصی طیارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ دعویٰ دہرایا کہ ’’دہشت گردوں‘‘ کی کمر توڑ دی گئی ہے، اور یہ لوگ بھیس بدل کر ایمبولینسوں میں اِدھر سے اُدھر بھاگتے پھر رہے ہیں۔ اللہ کی شان کہ 6 اپریل کی صبح جب نیتن یاہو یہ شیخی بگھار رہے تھے، مزاحمت کاروں نے عین اسی وقت دس راکٹ اشدود کے بحری اڈے اور عسقلان کی عسکری کالونی کی طرف داغ دیے۔ پانچ کو امریکی ساختہ آئرن ڈوم نے فضا میں ہی غیر مؤثر کر دیا، لیکن حفاظتی نظام کو چکمہ دے کر ہدف تک پہنچنے والے راکٹوں سے کئی جگہ آگ بھڑک اٹھی۔
حالیہ دنوں میں غزہ پر طاری وحشت بدترین جنون میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بمباری اور قتلِ عام کے ساتھ اہلِ غزہ گزشتہ دس دنوں سے نقل مکانی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ ہر روز انتباہ جاری ہوتا ہے کہ اگلے تین گھنٹوں میں فلاں علاقے پر شدید فوجی کارروائی ہونے والی ہے، وہاں سے نکل جاؤ۔ یہ بے خانماں لوگ میلوں پیدل سفر کرکے دوسرے مقامات پر پہنچتے ہیں، خیمے گاڑھتے ہیں اور اسی اثنا میں نئی نقل مکانی کا حکم آجاتا ہے۔ اہلِ غزہ عید کی شب سے مسلسل سفر میں ہیں۔ اب تھکن کا یہ عالم ہے کہ 6 اپریل کو جب الشجاعیہ محلہ خالی کرانے کا حکم آیا تو نڈھال لوگوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ
’’صاحبو، اب کوئی ہجرت نہیں ہوگی ہم سے‘‘ (افتخار عارف)۔
دوسری طرف مزاحمت کاروں نے عربی، انگریزی اور عبرانی میں پیغام جاری کیا کہ ’’بہت سے اسرائیلی قیدی الشجاعیہ میں رکھے گئے ہیں جنہیں یہاں سے نہیں ہٹایا جائے گا، اور اگر بزورِ قوت قیدی چھڑانے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتیجے میں اسرائیلیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘۔ اسرائیلی عوام کے نام پیغام میں ترجمان نے مزید کہا کہ اگر نیتن یاہو حکومت کو اپنے قیدیوں کی فکر ہوتی تو وہ جنوری میں ہونے والے معاہدے کی پاسداری کرتی اور جنگ دوبارہ نہ چھیڑتی۔ ایسی صورت میں یہ لوگ اس وقت اپنے پیاروں کے درمیان گھروں میں ہوتے۔ اب غزہ میں بمباری سے کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی۔ اگر اسرائیلی قیدی بھی بمباری سے ہلاک ہو جائیں تو ہم سے شکوہ نہ کیجیے۔
مزاحمت کاروں کے اس اعلان کے بعد قیدیوں کے لواحقین نے تل ابیب میں فوجی ہیڈکوارٹر کے باہر زبردست مظاہرہ کیا۔ لوگ نعرے لگا رہے تھے: ’’بی بی! تمہاری جنگ کی قیمت، ہمارے پیاروں کی زندگی‘‘۔ مظاہرین نے فوج کے سربراہ جنرل ایال ضمیر سے ملاقات کی۔ سخت مشتعل عوام نے مطالبہ کیا کہ فوج جنگجو نیتن یاہو کا تختہ الٹ دے۔ جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کے لیے تل ابیب میں مظاہرے روز کا معمول بن چکے ہیں، لیکن مغربی دنیا کی غیر مشروط سرپرستی کے باعث نیتن یاہو کسی کی بات سننے پر آمادہ نہیں۔
تین اپریل کو امریکی سینیٹ نے اسرائیل پر اسلحے کی پابندی کی قرارداد کو جس بے رحمی سے مسترد کیا، اس نے اسرائیلی جنگجو حکمرانوں کو مزید ’’دلیر‘‘ کر دیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ہر دوسرے روز نیتن یاہو کو فون کرکے امریکی حمایت کا اعادہ کرتے رہتے ہیں۔ مزید فوجی امداد کی ضمانت لینے نیتن یاہو 6 اپریل کو بنفسِ نفیس امریکہ پہنچے۔ بظاہر یہ ملاقات محصولات کے تناظر میں ہے، لیکن درحقیقت اس چوٹی ملاقات میں ’’ٹرمپ غزہ‘‘ منصوبے کو آخری شکل دی جائے گی۔
اسی دوران اسرائیلی انتہا پسند وزیر خارجہ گدون سعر نے ابوظہبی میں وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ اماراتی وزارتِ خارجہ کے مطابق دونوں رہنماؤں نے غزہ امن پر بات کی، لیکن آزاد صحافتی ذرائع کے مطابق گفتگو کے بنیادی موضوعات ایران پر حملے کی صورت میں ایرانی ردِ عمل سے امارات کو محفوظ رکھنے کے لیے امریکی و اسرائیلی اقدامات، اور فلسطینیوں کے انخلا کے بعد مجوزہ ’’ٹرمپ غزہ‘‘ کی تعمیر میں امارات کا کردار تھے۔
اسرائیل تو اسرائیل، اس کی حمایت پر کمربستہ ٹرمپ حکومت کی ہٹ دھرمی کا بھی عجب عالم ہے۔ تحقیقات کے بعد اقوام متحدہ نے تصدیق کر دی ہے کہ 23 مارچ کو غزہ میں پانچ ایمبولینسوں، ایک فائر انجن اور اقوام متحدہ کی گاڑی کو اسرائیلی ڈرون نے شناخت کے بعد نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں 15 وردی پوش امدادی کارکن جاں بحق ہوئے۔ نیویارک ٹائمز نے وہ تصویر بھی شائع کی جو خود اسرائیلی ڈرون نے حملے سے قبل لی تھی، جس میں ایمبولینسیں صاف دیکھی جا سکتی ہیں۔
یکم اپریل کو جب ایک صحافی نے پریس کانفرنس کے دوران یہ معاملہ اٹھایا تو وزارتِ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس (Tammy Bruce) نے کہا: ’’غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مزاحمت کاروں کی وجہ سے ہو رہا ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کے ادارے UNRWA کا کہنا ہے کہ غزہ میں بمباری کے باعث ہر روز 100 بچے جاں بحق یا شدید زخمی ہو رہے ہیں، اور اسرائیل نے دو تہائی غزہ کو ’’نو گو ایریا‘‘ قرار دے دیا ہے۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نے فخر کے ساتھ اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج نے فلاڈیلفی راہداری کے متوازی ایک اور راہداری بنا کر رفح کے گرد محاصرہ مکمل کر لیا ہے، اور اب مزاحمت کاروں کے لیے ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں۔ ہتھیار ڈالنے کی یہ اسرائیلی خواہش شاید کبھی پوری نہ ہو، لیکن لگتا ہے کہ خون کی ہولی غزہ کے آخری بچے کے قتل تک جاری رہے گی۔
گزشتہ ہفتے ہلالِ احمر غزہ کے سربراہ نے ایک جذباتی پیغام میں کہا کہ ’’غزہ پر مسلسل آگ برس رہی ہے، پانی کی آخری بوند بھی ختم ہو چکی ہے، ہر طرف موت نظر آ رہی ہے‘‘۔ اسی کے ساتھ غزہ کے ڈائریکٹر صحت، ڈاکٹر منیر البرش کا پیغام بھی نشر ہوا: ’’غزہ آخری سانسیں لے رہا ہے، دنیا کا بہت انتظار کیا… خدا حافظ!‘‘
ان دنوں اسرائیلی فوج بمباری کے لیے ’’بنکر بسٹر بم‘‘ استعمال کر رہی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، یہ بم پہاڑی علاقوں میں چٹانوں سے تراشے گئے مورچوں کو تباہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں، اور شہری علاقوں میں ان کے استعمال پر پابندی ہے۔ لیکن امریکہ اور اسرائیل دنیا کے کسی ضابطے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتے۔ امریکہ نے یہ کنکریٹ چیرنے والے بم افغانستان میں بھی بے دریغ استعمال کیے تھے۔ روایتی بم کسی سخت سطح سے ٹکرا کر پھٹ جاتے ہیں، جبکہ بنکر بسٹر بم عمارت کی چھت چیر کر دس انچ زمین کے اندر گھس کر پھٹتے ہیں، جس کے نتیجے میں عمارت کا ملبہ اور وہاں موجود لوگ فوارے کی طرح فضا میں بلند ہو جاتے ہیں۔
مرکزی غزہ پر بمباری کے جو بصری مناظر اسرائیلی فوج نے جاری کیے ہیں، ان میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح گرد و غبار اور دھویں کے ساتھ بچوں کے لاشے کئی سو فٹ اوپر فضا میں اچھلے اور نیچے گر کر پاش پاش ہو گئے۔
غزہ کے ساتھ ساتھ غربِ اردن میں بھی معاشرتی تطہیر کی مہم زور و شور سے جاری ہے۔ عید کے دن اسرائیلی فوج نے جنین کے مضافاتی علاقے برقین اور وسطی غربِ اردن کے شہر سلفیت پر حملہ کیا۔ اس دوران بمباری، ڈرون حملے اور ٹینکوں کے بھرپور استعمال نے دونوں قصبوں کو کھنڈر بنا دیا۔ فائرنگ اور بمباری سے درجنوں افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ زندہ بچ جانے والوں اور زخمیوں کو اردنی سرحد کی طرف دھکیل دیا گیا۔
غزہ میں نسل کشی کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں بھی شدت اختیار کر گئی ہیں۔ امریکی وزیرِ تعلیم لنڈا مک ماہون (Linda McMahon) نے جامعات کے سربراہوں کو دھمکی دی کہ اگر وفاقی امداد درکار ہے تو غزہ نسل کشی کے خلاف تحریک پر پابندی لگائیں۔ تاہم، ان دھمکیوں اور گرفتاریوں کے باوجود طلبہ کا احتجاج کسی نہ کسی سطح پر جاری ہے۔
چار اپریل کو جامعہ ٹیکساس، آسٹن (UT Austin) میں اسرائیلی طلبہ کی Israel Block Party کے باہر مظاہرہ کیا گیا، جس کے باعث منتظمین کو تقریب منسوخ کرنا پڑی۔ اس جسارت پر ریاست کے گورنر سخت برہم ہیں۔ امریکہ کے بعد جرمنی میں بھی غزہ نسل کشی کی مذمت کرنے والوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی ہے۔ اسرائیل مخالف مظاہروں میں حصہ لینے والے چار غیر ملکی طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا، اور خیال ہے کہ انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
نسل کشی میں معاونت کرنے والے اداروں کے خلاف مزاحمت بھی جاری ہے۔ چار اپریل کو مائیکروسوفٹ نے مصنوعی ذہانت (AI) میں کام کے آغاز کی 50 ویں سالگرہ منائی۔ اس موقع پر ادارے کے صدر دفتر، ریاست واشنگٹن میں منعقدہ تقریب میں بانی بل گیٹس اور سابق سربراہ اسٹیو بالمر بھی شریک تھے۔ جیسے ہی AI کے سربراہ مصطفیٰ سلیمان تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، مائیکروسوفٹ کی ایک خاتون ملازم نے ’’غزہ نسل کشی بند کرو!‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اسٹیج کی طرف بڑھنا چاہا۔ سیکیورٹی عملے نے اُسے دبوچ لیا، مگر وہ چیختی رہی: ’’شرم کرو، سلیمان! تمہاری AI کی مدد سے اسرائیلی فوج بچوں کا خون کر رہی ہے۔ مائیکروسوفٹ اسرائیل کے لیے بمباری، ڈرون حملوں اور اہلِ غزہ میں پھوٹ ڈالنے کی غرض سے AI کی مخصوص ایپلیکیشنز تیار کر رہا ہے۔ تم اندھے ہو، اسی لیے فرزندِ شام ہونے کے باوجود تمہیں اپنے ہاتھوں پر عورتوں اور بچوں سمیت پچاس ہزار فلسطینیوں کا لہو نظر نہیں آ رہا!‘‘
اس ضمن میں برصغیر کی خواتین کا جرأت مندانہ کردار بھی ابلاغِ عامہ پر چھایا رہا۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی معروف ماہرِ تعمیرات، محترمہ یاسمین لاری نے ایک لاکھ ڈالر کا اسرائیلی ایوارڈ یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ ’’اسرائیلی ادارے سے انعام وصول کر کے میں فلسطینیوں کے زخموں پر نمک نہیں چھڑک سکتی!‘‘
یکم اپریل کو بنگلہ دیش کی لڑکی امامہ فاطمہ نے امریکہ کا International Women of Courage (IWOC) ایوارڈ ٹھکرا دیا۔ انہیں ایوارڈ وصول کرنے کے لیے امریکہ آنے کی دعوت خاتونِ اول ملانیا ٹرمپ اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے دی تھی۔ اپنے تحریری جواب میں امامہ نے کہا:
’’خواتین کارکنوں کا اجتماعی اعتراف ہمارے لیے باعثِ افتخار ہے۔ تاہم، یہ ایوارڈ اکتوبر 2023 میں فلسطین پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے کی براہِ راست حمایت کے لیے استعمال ہوا۔ فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کو نظرانداز کرتے ہوئے اسرائیل کے حملے کا جواز پیش کیا گیا، جس سے ایوارڈ کی غیر جانبداری مشکوک ہو گئی۔ فلسطینی عوام طویل عرصے سے اپنے بنیادی انسانی حقوق، بالخصوص زمین کے حق سے محروم ہیں۔ فلسطین کی جدوجہدِ آزادی سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے میں یہ ایوارڈ مسترد کرتی ہوں!‘‘
اور آخر میں سعودی عرب سے اسرائیل تک تیل پائپ لائن کی خبر:
اسرائیلی وزیرِ توانائی ایلی کوہن حال ہی میں امریکہ پہنچے، جہاں ان کی امریکی ہم منصب کرس رائٹ (Chris Wright) سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں پانچ سال قبل طے پانے والے معاہدۂ ابراہیمؑ کے مستقبل پر غور کیا گیا۔ یہ معاہدہ صدر ٹرمپ کی سرپرستی میں بحرین، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان ہوا تھا۔ سعودی عرب اس معاہدے کا حامی تو تھا، مگر اس نے تاحال اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے۔ صحافتی ذرائع کے مطابق، ایلی کوہن اور کرس رائٹ کے درمیان سعودی عرب سے اسرائیل تک تیل پائپ لائن کی تعمیر پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ اس خبر پر ابھی تک نہ تو ریاض اور نہ ہی سعودی ارامکو کا کوئی ردِ عمل سامنے آیا ہے۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 13 اپریل تا 19 اپریل 2025