ہمیشہ مسلمانوں کے کاندھے پر ہی بندوق کیوں؟
رام مندر، وزیر اعلیٰ یوگی، امیتابھ یش اور تیواری کو دھمکی کی قلعی کھل گئی
ابو حرم ابن ایاز عمری
برادران وطن کے غریب اورمتوسط طبقے کے نوجوانوں کی تربیت بھی از حد ضروری
’’اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ،ایس ٹی ایف(اسپیشل ٹاسک فورس) کے ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (اے ڈی جی) امیتابھ یَش اور سماجی کارکن دیوندر تیواری کو جان سے ماردیا جائے گا اور رام مندر کو بھی افتتاح سے قبل بم کے ذریعے اڑادیا جائے گا ۔ اس قسم کی دھمکی آمیز ای میل مجھے پچھلے دنوں آئی ایس آئی سے تعلق رکھنے والے زبیر حسین اور عالم انصاری کی جانب سے بھیجا گیا ۔‘‘
مندرجہ بالا الزام دیوندر تیواری نامی اترپردیش کے ایک نام نہاد گاؤ رکھشک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (X) کے ذریعہ دو معصوم مسلمان لڑکوں پر لگایا ۔ اور ساتھ میں تین تصاویر بھی ارسال کیں جن میں وزیر اعلیٰ یوگی ،دیوندر تیواری اور رام مندر کے اوپر ’کراس ‘( X )کا نشان بناہوا ہے ۔
اب چونکہ یہ الزام ایک مخصوص طبقے یعنی مسلمانوں کے حوالے سے تھا اور اس کا موضوع بھی سیکیورٹی سے متعلق ہے جس میں سیاسی شخصیات کے نام درج ہیں تو پھر ایس ٹی ایف کا بھی حرکت میں آجانا فطری بات ہے لہذا تحقیقات شروع ہوتی ہیں ۔ جب ٹیم نے سراغ لگایا تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ جن لڑکوں نے[email protected]’اور ‘[email protected]’ نامی ای میل آئی ڈیز کے ذریعہ دھمکی دی تھی اور اپنا نام زبیر خان او ر عالم انصاری ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی دراصل وہ اترپردیش کے گونڈا ضلع سے تعلق رکھنے والےدو غیر مسلم لڑکے ہیں جن کے نام’ تاہار سنگھ اور اوم پرکاش مشرا ‘ہے ۔جنہوں نے فیک آئی ڈی کے ذریعہ سے یہ دھمکی آمیز ای میل تیواری کو کیا تھا ۔
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے بلکہ جب ان پکڑے گئے لڑکوں سے مزید پوچھ تاچھ کی گئی تو جو حقائق سامنے آئے وہ اس قدر حیران کن ہیں کہ مشکل سے یقین آتا ہے۔ کیونکہ جب تاہار اور مشرا سے اس ڈرامے کے ماسٹر مائینڈ کا نام پوچھا گیا تو انہوں نے آن ریکارڈ اس بات کو قبول کیا کہ خود’ تیواری ‘نے ہی ان کو ایسا کرنے کا حکم دیا تھا اور ہر طرح سے ان کا تعاون کرکے اپنے ہی خلاف ای میل کروایا تھا ۔ بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق خود تیواری نے ہی وہ ای میل آئی ڈیز بنوائے تھے اور ان نوجوانوں کو وہاٹس ایپ کے ذریعہ وہ آئی ڈیز اور ان کے پاسورڈز اور ای میل کرنے کا مواد بھی فراہم کیا تھا ۔جس کا صاف اورواضح مقصد یہ بتایا جارہا ہے کہ اس افواہ کے ذریعہ اترپردیش اور ملک بھر کا ماحول کشیدہ کیا جائے ،اورخصوصی توجہ حاصل کی جائے کیونکہ اگر اس طرح کی افواہ کو سچ مان لیا جاتا تو وزیر اعلیٰ یوگی اور امیتابھ یش کے ساتھ تیواری کو بھی مخصوص سیکورٹی دی جاتی اور اس افواہ کا فائدہ 2024 کے مرکزی انتخابات میں بھی بھرپور اٹھایا جاتا ۔کیونکہ تیواری کے جو تعلقات وزیر اعلیٰ یوگی کے ساتھ ہیں ان کی تصایر سوشل میڈیا پر موجود ہیں ۔
اس موقع پر یہ جاننا بھی اہم ہے کہ یہ تیواری دو مشہور این جی اوز چلاتا ہے جن کے نام ’بھارتیہ کسان منچ ‘اور’ بھارتیہ گاؤ سیو ا پریشد‘ ہے۔ اس پرمزید روشنی ڈالتے ہوئے حقائق کی جانچ کرنے والے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے سوشل میڈیا میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کیا ہے کہ یہ تیواری پہلی مرتبہ اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوا ہے۔بلکہ اس سے قبل بھی یہ اسی قسم کے بیانات کے ذریعہ لائم لائٹ حاصل کرنے کی کوشش کرچکا ہے ۔
جیسا کہ ”دسمبر 2021میں دیویندر تیواری نے دعویٰ کیاتھا کہ تیواری کو محمد اجمل نامی ایک شخص کا خط موصول ہوا ہے جس میں اگر وہ گائے کی حفاظت بند نہیں کرتا ہے تو اس کو اور یوگی آدتیہ ناتھ کو ماردینے کی دھمکی دی گئی ہے“۔تیواری نے چیف منسٹر یوگی کے ساتھ تصویریں بھی شیئر کی وہیں 2022اسمبلی انتخابات کے دوران مکمل تائید کا بھی اعلان کیا۔اسی سال نومبرمیں اس نے دعویٰ کیاتھا کہ ”جہادی دہشت گردوں“ سے اس کو موت کی دھمکی بھی ملی ہے۔یہی طریقہ 2023میں بھی جاری رہا‘ جب تیواری نے دوبارہ دعویٰ کیاتھا کہ ”عالم انصاری خان“ سے اس کو ایک ای میل ملا ہے جس میں چیف منسٹر یوگی اور اس کو دھمکی دی گئی ہے۔وغیرہ
یہ تو صرف اکیلے تیواری کے متعدد واقعات ہیں جبکہ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے افراد ہیں جو اس سے ملتے جلتے جرائم انجام دے چکے ہیں۔
ان تمام حقائق کے نتیجے میں دو پہلو واضح طور پر سامنے آرہے ہیں :
پہلا تو یہ ہے کہ جب کبھی کسی دہشت گرد کو اپنے مفادات حاصل کرنا ہوتا ہے وہ ملک بھر میں آتنک پھیلانے کے لئے اور اپنے ناپاک عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لئے جس کسی کا بھی نام استعمال کرتا ہے ان میں سے اکثر و بیشتر ’’بے گناہ مسلمانوں کے نام ‘‘ ہی ہوا کرتے ہیں ۔یعنی ہر دہشت گرد اسی خوش فہمی میں ہے کہ وہ مسلم طبقے کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر اگر گولی چلائے گا تو اس کی گولی صحیح نشانے پر لگے گی اور مقصد برآری بھی ہوگی ۔ایسے موقع پر مسلم کمیونٹی کی ذمہ داری دوہری ہوجاتی ہے وہ یہ کہ پہلے تو پولیس کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں سے اپنا تحفظ کریں اور دوسرا یہ کہ ان پر لگائے جانے والے جو بھی الزامات ہیں ان کو غلط ثابت کرنے کی جدو جہد میں لگ جائیں جس کے تحت کئی بے قصور لوگوں کی زندگی ،عمر ،وقت اور پیسہ پانی کی طرح بہہ جاتا ہے ۔اس سے بہترکام یہ ہے کہ جس قسم کا ماحول بھارت میں بنایا گیا ہے ہمیں چاہئے کہ مزید کسی اور بڑے نقصان سے قبل ان حالات کو قابو میں کرنے کی کوشش کریں اور ملک بھر کے معصوم برادران وطن کے ذہنوں میں منظم سازش کے تحت جو اسلاموفوبیا کا زہر گھولا گیا ہے ایسے میں ہم دعوت و عزیمت ، اسلام کی تبلیغ اور اپنے حسنِ کردار کے ذریعہ اس زہر کا تریاق کرنے کی کوشش کریں ۔
دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ جب کبھی اس قسم کے معاملات سامنے آتے ہیں ان میں اکثر و بیشتر ہندو سماج کے ایسے نوجوانوں کے نام ہوا کرتے ہیں جو یا تو بالکل غریب طبقے سےتعلق رکھتے ہیں یا کسی ‘نام نہاد نیچی ذات’ کے نوجوان ہوتے ہیں ۔اور انہی لوگوں کو چند معمولی روپیوں ،پیسوں کا جھانسہ دے کر ان کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا جاتا ہے کیونکہ جو بھی لوگ گرفتار ہوتے ہیں اگرچہ ان میں سے اکثر و بیشتر اپنے آقاؤں کی پہنچ اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے جیل سے چھوٹ جاتے ہیں یا ظاہری طور پر مقدمہ ختم ہوجاتا ہے مگر ایسے نوجوانوں کا مستقبل تقریباً تاریک ہوچکا ہوتا ہے کیونکہ ایک مرتبہ جو شخص جرم کی راہ پر نکل پڑتا ہے بہت مشکل ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ اس راہ سے واپس آسکے۔ اور بالخصوص ایسے معاملات میں جب انہیں مذہب کی افیم دے کریہ باور کرادیا جاتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کررہے ہیں اپنے مذہب کی رکھشا ہے اور بھگوان ان سے خوش ہوں گے جسکے نتیجے میں خواہ کتنے ہی معصوموں کا خون بہے اور کتنے ہی بے گناہوں کو تختۂ دار پر کیوں نہ چڑھادیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا تو ایسی صورت میں اس کا اثر ایک الگ ہی مقام تک پہونچ چکا ہوتا ہے ۔
لہذا ایسی صورت میں ملک کا جو دانشور طبقہ ہے اس کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ برادران وطن کے جو غریب اور متوسط گھرانوں کے نوجوان ہیں ان کی مناسب تربیت کرنے کی کوشش کریں،انہیں صحیح راستہ دکھائیں اور ملک کے مستقبل کو روشن و تابناک بنانے کی فکر کریں ۔
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جنوری تا 20 جنوری 2024