حماس کی قید سے رہائی کے بعد، میاشیم کا المیہ

"کیمرے کے سامنے آ کر سچ بیان کرنا آسان نہیں ہوتا لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ خاموشی اسے نہیں، دوسروں کو بچا رہی ہوتی ہے۔"

تل ابیب: (دعوت انٹرنیشنل نیوز ڈیسک)

حماس کی قید سے رہائی پانے والی 22 سالہ میا شیم نے ایک حالیہ انٹرویو میں انکشاف کیا کہ حماس کی قید سے رہائی کے صرف چند دن بعد ہی اسے اپنے ہی گھر میں ایک معروف فٹنس ٹرینر نے نشہ دے کر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ میا شیم نے کہا ’’کیمرے کے سامنے سچ بولنا کبھی آسان نہیں ہوتا، مگر ایک وقت آتا ہے جب آپ کو یہ سمجھنا پڑتا ہے کہ خاموشی آپ کو نہیں دوسروں کو بچارہی ہوتی ہے۔‘‘ میا کی والدہ کرن شیم نے اس تکلیف دہ واقعے کے بعد اپنی بیٹی کی حالت کو حماس کی قید سے بھی بدتر حالت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’میں نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں ایک ایسا درد اور کرب دیکھا جس نے مجھے واقعی خوف زدہ کر دیا۔‘‘ اس دردناک انکشاف نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ صرف جسمانی آزادی کافی نہیں ہوتی بلکہ نفسیاتی اور جذباتی حفاظت بھی ضروری ہے۔
یہ کتنی عجیب بات ہے کہ اسلام پسند مزاحمتی تنظیم حماس کو، جو اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کے حق کے لیے لڑ رہی ہے عالمی میڈیا میں ایک ویلن کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کی حراست میں رہتے ہوئے میا شیم کی عفت پر کوئی آنچ نہیں آتی اور وہاں وہ مکمل طور پر محفوظ تھی لیکن جب وہ رہائی کے بعد اپنے ہی لوگوں کے درمیان واپس آتی ہے تو اسے درندگی کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
حماس کی قید سے رہائی پانے والی 22 سالہ میا شیم نے اسرائیلی چینل -12 کو دیے گئے انٹرویو میں ایک معروف فٹنس ٹرینر پر نشہ آور دوا دے کر زیادتی کا الزام عائد کیا ہے۔اس نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ اس کے اپنے گھر میں پیش آیا، وہ بھی حماس سے رہائی کے کچھ ہی دنوں بعد۔
اسرائیلی دوشیزہ نے کہا ’’یہ میرے لیے ہمیشہ سب سے بڑا خوف رہا قید سے پہلے، قید کے دوران اور اب میرے ساتھ قید کے بعد، میرے سب سے محفوظ مقام پر ہوا۔‘‘
میا نے بتایا کہ اس کی ملاقات اس ٹرینر سے ایک ’’پُوریم پارٹی‘‘ میں ہوئی تھی جو مشہور شخصیات کا ٹرینر ہے۔ بعد ازاں اس نے اس ٹرینر کے ساتھ تین تربیتی سیشن لیے۔ میا کے مطابق اس کے بعد اس شخص نے اسے یہ کہہ کر لبھایا کہ وہ ایک ہالی ووڈ پروڈیوسر سے ملاقات کروا سکتا ہے جو غزہ میں پیش آنے والے ان کے تجربات پر فلم بنانا چاہتا ہے۔ جب پہلی ملاقات نہ ہو سکی تو دوسری ملاقات کے لیے وہ اس بات کے لیے رضامند ہو گئی کہ وہ ٹرینر اس کے گھر آئے۔ میا کے بقول وہ دیر سے آیا اور اس کی دوست کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ یہ ملاقات ’حساس‘ نوعیت کی ہے۔
میا نے مزید کہا کہ اس کے بعد کی باتیں اسے ٹھیک سے یاد نہیں، لیکن اسے یقین ہے کہ اسے نشہ آور دوا دی گئی۔ اس کے الفاظ میں:
’’میرا جسم سب کچھ محسوس کرتا ہے لیکن مجھے اس وقت پتا نہیں چلا کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔‘‘
اس نے کہا کہ جسمانی اور ذہنی صدمے کو سمجھنے اور سنبھالنے میں اسے کئی دن لگے۔ اس کی والدہ، کرن شیم نے کہا کہ اس واقعے کے بعد ان کی بیٹی کی حالت حماس کی قید سے واپسی سے بھی زیادہ پریشان کن تھی۔
’’اب جو اذیت میں دیکھ رہی تھی وہ مجھے بے حد خوفزدہ کر رہی تھی۔‘‘
انٹرویو کے بعد میا نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں لکھا:
’’کیمرے کے سامنے آ کر سچ بیان کرنا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب انسان سمجھتا ہے کہ خاموشی اسے نہیں، دوسروں کو بچا رہی ہوتی ہے۔‘‘
میا شیم کا یہ پیغام صرف اس کی ذاتی تکلیف کا اظہار نہیں، بلکہ ہر اس انسان کے لیے ایک سنجیدہ انتباہ ہے جو سچ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ جب تک ہم خاموش رہتے ہیں، ہماری خاموشی نہ صرف ہمیں بلکہ پورے معاشرے کو اس درندگی سے بچانے کی کوشش کرتی ہے جو اندر ہی اندر پنپ رہی ہوتی ہے۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جن قوموں کو طاقت ور ہونے کا زعم ہے، ان کی اخلاقی حالت اس حد تک گر چکی ہے کہ حیوانات بھی ان کے اس سلوک سے شرما جائیں ۔اس طرح کے واقعات سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان خواہ مادی ترقی یا تکنیکی میدان میں کسی بھی سطح پر ہو، مگر اخلاقی قدروں اور انسانیت کے لحاظ ارزل ترین مقام پر ہے۔

 

***

 میا کی والدہ کرن شیم نے اس تکلیف دہ واقعے کے بعد اپنی بیٹی کی حالت کو حماس کی قید سے بھی بدتر حالت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ’’میں نے اپنی بیٹی کی آنکھوں میں ایک ایسا درد اور کرب دیکھا جس نے مجھے واقعی خوف زدہ کر دیا۔‘‘ اس دردناک انکشاف نے دنیا کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ صرف جسمانی آزادی کافی نہیں ہوتی بلکہ نفسیاتی اور جذباتی حفاظت بھی ضروری ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 مئی تا 24 مئی 2025