کے کے سہیل
اسرائیل، فلسطین اور اردن کے کچھ حصے بنام ’ارضِ موعود‘ فقط ’قومِ یہود‘ کے لیے نہیں
7؍ اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل کے کچھ شہریوں کو یرغمال بنا لیا۔ اسرائیل کے لیے یہ ایک بڑا جھٹکا تھا۔ چنانچہ انتقامی کارروائی کرتے ہوئے اس نے 30 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید اور لاکھ کے قریب افراد کو معذور بنا دیا۔ اس کی بربریت ہنوز جاری ہے اور نہ جانے ابھی کتنے بے گناہ شہریوں کواس کا لقمہ بننا پڑے گا۔ یوروپین ممالک سمیت دنیا کے بیشتر اخبارات اور چینلوں پر حماس کے عمل کو اقدامی جنگ اور اسرائیلی بربریت کو دفاعی کہا جا رہا ہے جبکہ سچائی یہ نہیں ہے۔ حقائق کو سمجھنے کے لئے 7؍ اکتوبر سے پہلے کے ڈیٹا پر اجمالی نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اسرائیلوں کے جور و ستم کی ایک طویل داستان ہے جس کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے حماس نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ حالیہ تنازع کا آغاز ہونے سے پہلے تک اسرائیل کی الگ الگ پُرتشدد کارروائیوں میں تقریبا پانچ لاکھ فلسطینی مارے گئے اور یونائٹیڈ نیشن رپورٹ کے مطابق سات ملین افراد رفیوجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کی بکھری ہوئی زندگی کی منظر کشی ایک مشہور امریکی مؤرخ پروفیسر نوام چومسکی نے بڑے واضح انداز میں کی ہے۔ ایک بار انہوں نے غزہ میں ایک ضعیف آدمی کو اپنے ہاتھ میں پلے کارڈ لیے ہوئے دیکھا جس پر لکھا تھا ’’ ہمارے پانی کے ذرائع بند کردیے گئے، جائیدادیں ضبط کرلی گئیں، مکانات تباہ کردیے گئے، کاروبار ختم اور روزگار کے مواقع معدوم ہو گئے، میرے ماں باپ کو شہید کردیا گیا، پورے ملک کو بمباری کرکے تہس نہس اور سکھ و چین تباہ و برباد کر دیا گیا، ہمارا سب کچھ چھین لیا گیا۔ کیا اس کے بعد بھی ہمیں اپنے دفاع کا تھوڑا بھی حق حاصل نہیں ہے؟‘‘ پلے کارڈ کے ان جملوں میں غزہ کا پورا درد سمٹا ہوا ہے ۔
فلسطینیوں کی مظلومیت کی کہانی خود غزہ کا شہر بیان کرتا ہے۔ یہ ایک کثیر آبادی والا علاقہ ہےجو اپنے اندر تاریخ کی کئی انمول نشانیاں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ان نشانیوں کو دیکھنے کے لیے دور دراز کے ممالک سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ مگر اب اسرائیل نے اس شہر کو ملٹری ژون بنا کر اس کی ثقافتی شناخت کو ختم کردیا ہے۔ 7؍ اکتوبر کے بعد تو رہی سہی کسر بھی پوری کر دی گئی ۔اب وہاں ملبوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
غزہ کے طرز پر فلسطین کا دوسرا بڑا شہر حبرون ہے جسے الخلیل بھی کہا جاتا ہے۔ اسی شہر میں مسجد ابراہیمی ہے، اسے صلاح الدین ایوبی نے بنایا تھا۔ یونیسکو نے اسے دنیا کے آثار قدیمہ کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ وہیں پر حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاقؑ اور ان کی بیویوں کی قبریں ہیں۔ یہ فلسطینیوں کا عظیم وراثتی سرمایہ ہے۔ اولڈ سٹی کی راہداری سے گزر کر یہاں پہنچا جاسکتا ہے ۔ اس کے درو دیوار پر جا بجا قرآنی آیات ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ جیسے مبارک الفاظ پتھر پر کندہ کیے ہوئے ملتے ہیں جو یہاں کی قدیم اسلامی ثقافت کی گواہی دیتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اس علاقے کے مکین مسجد جانے والوں کا والہانہ استقبال کیا کرتے تھے۔ اب اسرائیلیوں نے ان مکانات پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ اسرائیلی مسجد جانے والوں کے ساتھ غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتے ہیں بلکہ کئی دفعہ وہاں سے گزرنے والے فلسطینی مسلمانوں پر کوڑا کرکٹ بھی پھینک دیتے ہیں اور طنزیہ جملے کستے ہیں۔ 1994 میں اسی مسجد میں ایک یہودی آباد کار نے داخل ہوکر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید ہوگئے تھے ۔ اس بربریت کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا تھا۔احتجاج کرنے والوں پر اسرائیلیوں( آئی ڈی ایف ) نے گولیاں چلائیں جس سے مزید 26 لوگ شہید اور 120 زخمی ہوئے تھے۔ اس کے بعد قابض صیہونی انتظامیہ نے مسجد کو دو حصوں میں تقسیم کرکے 45 فیصد حصہ مسلمان نمازیوں کے لیے اور 55 فیصد یہودیوں کے لیے مختص کردیا اوردونوں کے بیچ ایک آہنی دیوار کھڑی کردی ۔ تقسیم کا طریقہ بھی انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ مسجد کا محراب اور مؤذنہ یہودی حصے میں رکھا گیا ۔ مسلمانوں کے حصہ میں اذان دینے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔انہیں اذان دینے کے لیے اسرائیلی اتھارٹی سے اجازت لینی پڑتی ہے۔کئی دفعہ وہ بہانہ بازی کرکے اجازت نہیں دیتے ۔ایسی حالت میں قبلہ اول اذان کی صدا سے محروم رہتا ہے۔ مسلم حصے میں کار پارکنگ کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ کافی دوری پر ایک جگہ ہے جہاں انہیں پارکنگ کے لیے جانا پڑتا ہے۔ جب وہ نماز پڑھ کر واپس آتے ہیں تو ان کی کار کو اسکریچ یا کوئی بڑا نقصان پہنچ چکا ہوتا ہے۔ یہ تمام ناانصافیاں فلسطینیوں کے ساتھ مسلسل جاری ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ حبرون میں کچھ ایسی سڑکیں ہیں جن پر مسلمانوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے جبکہ یہودی جاسکتے ہیں اور کچھ ایسی سڑکیں ہیں جن پر مسلمانوں کو پیدل چلنے کی اجازت ہے ، وہ وہاں گاڑی پر سوار ہوکر نہیں جاسکتے۔ یہسب کچھ انہیں ذہنی و نفسیاتی اذیت پہنچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
یہ سب کچھ محض اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ فلسطینیوں کو حق دفاع سے محروم رکھا جائے۔ جبکہ یو این رییزولیشن 37/43 کے عالمی قانون کے مطابق مسلح دفاع کرنا سب کا حق ہے۔لیکن فلسطین کے نہتے باشندے وسائل معدوم ہونے کے سبب صحیح طور پر اپنا دفاع بھی نہیں کر پاتے ہیں،جب ان پر گولیاں برسائی جاتی ہیں تو اس کا جواب وہ غلیل اور پتھروں سے دیتے ہیں۔ نہتے مسلمانوں پر گولیاں برسانے کی صورت حال نے اسرائیل میں انتہا پسند جماعت کے اقتدار میں آجانے کے بعد زیادہ شدت اختیار کرلی ہے ۔ ورنہ 1947 میں جب یہودیوں کو وہاں آباد کیا گیا تھا تو اس وقت وہاں کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن انتہا پسند اسرائیلیوں کے توسیع پسندانہ رویے نے مسائل کو جنم دیا اور فلسطین میں آگ و خون کی ہولی کھیلی جانے لگی ۔ یہ انتہا پسند جماعت کہتی ہے کہ’’ اسرائیل، فلسطین اور اردن کے کچھ حصے ’ ارض موعود ‘ ہیں اور اس کے اصل مالک یہود ہیں۔ بائبل کے مطابق اللہ نے یہ علاقہ آل ابراہیم کی اولاد کو سونپ دیا ہے‘‘۔ یہ ایک ناقابل فہم دعویٰ ہے ۔ بائبل میں کہاں پر لکھا ہے؟ اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ ہاں یہ سچ ہے کہ اسرائیل مملکت کے قیام سے پہلے بھی اس خطے میں عرب اور یہود آباد تھے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عرب وہاں ڈھائی ہزار سال سے رہتے چلے آرہے ہیں۔ البتہ کسی مذہبی کتاب میں کسی ایک مذہب کے لیے اس سرزمین کو مختص کرنے کا تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ جب حضرت ابراہیمؑ ، نمرود کی سرکشی کے بعد عراق سے ہجرت کرکے یروشلم آئے، اس وقت وہاں پہلے سے ہی لوگ آباد تھے جن میں آپ دعوت و تبلیغ کا کام کیا کرتے تھے۔ پھر وہاں سے مصر گئے اور یہیں حضرت ہاجرہؑ سے نکاح ہوا اور پھر واپس یروشلم آگئے، اس کے بعد مکہ مکرمہ گئے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس وقت حضرت ابراہیمؑ یروشلم پہنچے تھے ، وہاں پر لوگوں کی بڑی تعداد آباد تھی۔
اب سمجھنے والی بات یہ ہے کہ یہودی جسے ’ارض موعود‘ کہتے ہیں،کیا وہ صرف یہودیوں کے لیے مختص ہے؟ جب ہم بک آف جیانس ( The Book of Giants ) کے چیپٹر 13 ورژن 15 کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’ ارض موعود‘ کا وعدہ ’ آل ابراہیم ‘‘ کے لیے ہے ۔ مگر آل ابراہیم میں صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ عرب بھی شامل ہیں۔ ابراہیمؑ کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسحاقؑ سے اسرائیل کا تعلق ہے جبکہ عرب ان کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے ہیں۔ چونکہ اسحاقؑ اور اسماعیلؑ دونوں بھائی تھے، لہٰذا دونوں کی اولاد اس سرزمین پر آباد ہوئی ۔ اس طرح ’ارض موعود‘ کے حق دار نہ صرف اسرائیل بلکہ عرب بھی ہیں ۔ دراصل اسرائیلی چاہتے ہیں کہ ان کا اپنا ایک ’ ہوم لینڈ‘ ہو۔ اسی لیے سارا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ لیکن ان کی یہ چاہت غیر منطقی ہے۔ کیونکہ دنیا میں اس وقت تقریباٌپانچ ہزار عقائد و مذاہب کے پیروکار ہیں۔ اور 195 یا 197 ممالک ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ ہر مذہب کا پیروکار اپنی علیحدہ مملکت کا مطالبہ کرنے لگے تو یہ صورت حال کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ کیا اتنے ممالک کا وجود اس دنیا میں ممکن ہے؟ پھر یہ کہ اگر اس کی اجازت دے بھی دی جائے تو دنیا کا کوئی قانون یہ نہیں کہتا کہ کسی اور کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے اپنی مملکت قائم کی جائے۔ یہ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے۔ لہٰذا فلسطینیوں کو شہر بدر کرنے کا نظریہ ظلم پر مبنی ہے جس پر کسی بھی حال میں عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ 1947 میں اسرائیلی مملکت کے لیے نشان زد اراضی پر اسرائیلی رہیں اور بقیہ اراضی معاہدے کے مطابق فلسطینوں کو تفویض کردی جائے تو پھر دونوں قومیں پُرامن طریقے سے خطے میں آباد رہ سکتی ہیں۔
ویسے بھی مسلمانوں کی یہودیوں کے ساتھ سماجی زندگی گزارنے کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ خود اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں تین یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ کے ساتھ پُر امن بقائے باہمی کا ایک معاہدہ کیا تھا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے، البتہ یہودیوں کی جانب سے نقض عہد کی وجہ سے یہ معاہدہ دیرپا نہیں رہ سکا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہودیوں کے ساتھ رہنے میں کبھی کوئی اضطراب رہا ہی نہیں۔ ہمیشہ نصرانیوں نے ہی انہیں زک پہنچایا ، یہاں تک کہ ہولوکاسٹ بھی نصرانیوں کی ہی دین ہے۔ اس مشکل دور میں مسلم ممالک مراقش، عراق اور شمالی افریقہ کے مسلم ملکوں نے ہی انہیں پناہ دی تھی ۔ جبکہ نصرانیوں نے جب اسپین سے مسلمانوں کو شہر بدر کیا تو ساتھ ہی یہودیوں کو بھی وہاں سے نکالا۔ اس طرح ان کے اصل دشمن تو نصرانی ہیں مگر امریکہ، فرانس اور کچھ یوروپین ممالک کی سازشوں سے مسلمانوں کو اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن بنا کر پیش کیا گیا جس میں پھنس کر مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان خلیج بڑھتی گئی جو اب شدید دشمنی کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس دشمنی میں اسرائیل تمام انسانی و جنگی حقوق کو بھلا چکا ہے۔ اس بات کی تصدیق یو این کا جوڈیشیل آرم ( آئی سی جے) 2003 میںکرچکا ہے کہ اسرائیل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کی پٹی کے لیے مقررکردہ حدود سے آگے بڑھ رہا ہے۔ خود اسرائیل کی عدالت اپنے ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ اسرائیل کو چاہیے کہ وہ قبضہ ہٹا کر مقبوضہ زمین عربوں کو واپس کردے۔ خود ہندوستان بھی اس سلسلے میں اسرائیل کے خلاف ہے اور وہ فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے ۔ اسرائیلی بربریت کی روک تھام کے لیے ہمیں اسرائیلی پروپیگنڈے کی حقیقت دنیا کے سامنے لانی چاہیے۔
***
***
یہودی جسے ‘ارض موعود’ کہتے ہیں،کیا وہ صرف یہودیوں کے لیے مختص ہے؟ جب ہم بک آف جیانس ( The Book of Giants ) کے چیپٹر 13 ورژن 15 کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ’ ارض موعود‘ کا وعدہ ’ آل ابراہیم ‘‘ کے لیے ہے ۔ مگر آل ابراہیم میں صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ عرب بھی شامل ہیں۔ ابراہیمؑ کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے حضرت اسحاقؑ سے اسرائیل کا تعلق ہے جبکہ عرب ان کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی نسل سے ہیں۔ چونکہ اسحاقؑ اور اسماعیلؑ دونوں بھائی تھے، لہٰذا دونوں کی اولاد اس سرزمین پر آباد ہوئی ۔ اس طرح ‘ارض موعود’ کے حق دار نہ صرف اسرائیل بلکہ عرب بھی ہیں
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 19 مئی تا 25 مئی 2024