’ ہماری جدو جہد ’میڈیا کی آزادی‘ کو تقویت بخشےگی‘

میڈیا ون کے بزنس ہیڈ اور ڈپٹی سی ای او ایم ساجد سے ہفت روزہ دعوت کی خاص بات چیت

(ایکسکلوزیوانٹرویو)

یہ بھی پڑھیں

چینل ون کے لیے ہم نے جس طرح سے اپنی پوری طاقت جھونک کر جدو جہد کی ہے وہ ہمارے لیے اطمینان بخش ہے کہ ملک میں آزاد میڈیا کے تحفظ کے لیے ہم نے اپنے حصے کا کام کیا ہے۔ ہمارے لیے یہ امر دہری خوشی کا باعث ہے کہ ہمیں عدالت نہ صرف عدالت میں کامیابی نصیب ہوئی ہے بلکہ ہم نے اپنے حصے کا جو چراغ روشن کیا تھا وہ منور ہے۔ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ نہ صرف پریس کی آزادی کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے بلکہ قومی سلامتی اور مہر بند لفافہ کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ تاریخی ہے۔ مستقبل میں مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ بمقابلہ حکومت ہند کیس کو نظیر بنا کر پیش کیا جائے گا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم نے جدو جہد کرنے اور قانونی چارہ جوئی کا جو فیصلہ کیا تھا وہ ملک کی جمہوری تحریک کے لیے مددگار ثابت ہوگا۔
جماعت اسلامی ہند سے متعلق ایشو ہمارے سامنے فیصلہ میں آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت اسلامی والا ایشو مہربند لفافے میں اٹھایا گیا تھا۔ جسٹس چندر چوڑ نے اس معاملے میں کہا کہ آپ نے شیئر ہولڈرز کی جو فہرست فراہم کی ہے وہ پہلے سے ہی پبلک ڈومین میں موجود ہے کیونکہ کمپنی ایکٹ کے تحت ایک رجسٹرڈ کمپنی ہے۔ اس کی ساری معلومات پبلک میں ہیں۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ مہر بند لفافے میں صرف دعوے کیے گئے ہیں اس میں کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے کہ شیئر ہولڈرس کے تعلقات جماعت اسلامی سے ہیں اور اگر جماعت اسلامی سے تعلق ہیں بھی تو اس میں حرج کیا ہے؟ جماعت اسلامی ہند کوئی ممنوعہ تنظیم تو نہیں ہے۔ گزشتہ 75 سالوں کے درمیان اس کے خلاف دو مرتبہ پابندی عائد کی گئی ہے مگر اسی عدالت نے اس پابندی کو ختم کیا ہے۔
جہاں تک سوال جماعت اسلامی سے تعلقات ہونے کے حقائق کا سوال ہے تو اس میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ چینل ون، مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کے تحت چلتا ہے اور مادھیمم براڈکاسٹنگ لمیٹڈ کمپنی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ مادھیمم براڈکاسٹنگ اور جماعت اسلامی ہند کے درمیان کوئی تعلق نہیں ہے۔ شیئر ہولڈرز میں کئی غیر مسلم بھی شامل ہیں اور مسلمانوں کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اس کے شیئر ہولڈرس ہیں جن میں سے بعض کا تعلق جماعت اسلامی ہند سے بھی ہے مگر بحیثیت جماعت براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد لائسنس کے اجرا کی راہ ہموار ہوگئی ہے اور حکومت کو چار ہفتوں میں لائسنس کے اجرا کی ہدایت دی گئی ہے مگر کیا اس سے مشکلات کا خاتمہ ہو گیا ہے اور مستقبل میں حکومت کی طرف سے کوئی الگ قسم کی کارروائی کا اندیشہ نہیں ہے؟ اگر ہے تو اس کے تدارک کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں ایم ساجد کہتے ہیں ’ایسا کوئی اندیشہ ہمارے سامنے نہیں ہے۔ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہم نے جو تجربات کیے ہیں اب تک کسی بھی چینل اور میڈیا کو ان کا سامنا کرنا نہیں پڑا ہے۔ لائسنس کا مسئلہ ہوا ہوگا مگر قومی سلامتی کے نام پر اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے چینل کے لائسنس کی تجدید کرنے سے انکار کرنے کا یہ پہلا موقع ہے۔ اس لڑائی کو ہم نے جس طریقے سے لڑ کر کامیابی حاصل کی ہے اس کے بعد ہمیں کوئی اندیشہ لاحق نہیں ہے۔ آئندہ اگر ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں تو ہم انشاءاللہ مقابلہ کریں گے۔ اس کیس میں جتنی کوشش ہوسکتی تھی وہ ہم نے کی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ فیصلہ سے قبل ہم مطمئن تھے کہ اگر فیصلہ ہمارے خلاف بھی آئے گا تو ہمیں کوئی غم نہیں ہوگا کہ ہم نے لڑائی لڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی تھی۔ ہم نے جو کرنا تھا وہ کیا۔آزادی میڈیا کے قیام کے لیے ہم نے چینل کی شروعات کی تھیں۔ایک طرف ہم نے قانونی جدو جہد کی دوسری طرف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ تمام سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی اور میڈیا کے اداروں کو ہمنوا بنایا۔ چنانچہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تمام میڈیا ہاوسیس اور سیاسی جماعتوں نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا۔ ہم نے پی آر کا جو کام کیا ہے یہ سب دراصل اسی کا نتیجہ ہے۔ یہ ہماری دہری جیت ہے۔