نواب ہانی جمالی
نئی نسل کو خرافات سے بچا کر ایمان کے راستے پر قائم رکھیں
آج بچوں میں ہالووین تہوار کی طرف بڑھتا ہوا رجحان دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ حقیقت سے ناآشنا ہمارے بچے اس تہوار کو اپنی عیدوں کی طرح منانے لگے ہیں۔ بچوں کو تو چھوڑیں بچوں کے والدین بھی آج اس تہوار میں بڑی دلچسپی لیتے نظر آ رہے ہیں کیوں کہ انہیں علم ہی نہیں ہے کہ کیا ہے یہ ہالووین؟
ہالووین کی اصل حقیقت یہ ہے کہ تین ہزار سال پہلے اسکاٹ لینڈ، آئرلینڈ، اور مغربی یورپ میں Celtic قوم پائی جاتی تھی، ان کا ایک تہوار تھا سمہین (samhain) اس کے پیچھے کچھ عقائد تھے۔ ان علاقوں میں نومبر کے مہینے میں بہت سردی پڑتی تھی، وہ لوگ اس سردی کو dark Cold winters کہتے تھے کیوں کہ اس میں بہت سے لوگوں کی سردی کی وجہ سے موت ہو جاتی تھی۔ چنانچہ اس قوم نے ایک سدھس sidhs کا عقیدہ بنا لیا تھا۔ سدھس ان کے نزدیک وہ لوگ ہوتے تھے جو مر کر خدا بن جاتے اور خبیث روحیں بن جاتے تھے جو انسانوں کو قتل بھی کرتے تھے۔ اس قوم کا یقین تھا کہ نومبر کے شروع میں ان سدھسوں اور انسانوں کے درمیان کا دروازہ کھل جاتا ہے یعنی دونوں کی دنیا مل جاتی ہے، اور یہ خبیث روحیں ہماری دنیا میں آتی ہیں اور انسانوں کی روحوں کو قبض کرتی ہے۔ لوگوں کو اغوا کرتی ہیں یا مار دیتی ہیں یا جو بھی اُن سدھسوں کو دیکھتا ہے وہ ویسے ہی مر جاتا ہے۔ چنانچہ ان بد روحوں سے بچنے کے لیے یہ قوم عجیب و غریب شکلیں بنائے ہوئے bonfire کرتی یعنی اپنے گھروں کے باہر آگ جلاتی اور اس کے ارد گرد ناچتی اور جانوروں کے اور شیطانوں کے عجیب و غریب ملبوسات پہنتی اور گھروں کے باہر کھڑے ہو جاتی۔ جیسا کہ اس قوم کا یقین تھا کہ نومبر سے سدھس آنا شروع ہو جاتے ہیں اس لیے وہ 31 اکتوبر کی رات کو ایسا عجیب و غریب حلیہ بناتے کہ سدھس انہیں پہچاننے نہ پائیں اور انہیں چھوڑ دیں۔ ان کے خیال میں اگر ہم جانوروں کی یا ڈراؤنی شکلیں اختیار کر لیں گے تو یہ سدھس ہمیں بھی اپنے ہی جیسا سمجھ کر چھوڑ دیں گے اور کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔
یہاں سے شروع ہوا سمہین کا تہوار جسے 31 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ پھر اسے pop Gregory 4 نے 8ویں صدی میں اپنایا کیوں کہ اس تہوار میں بہت کشش تھی اور اُس وقت فصل کی کٹوائی کا تہوار harvest festival بھی ہوتا۔ harvest festival میں وہ ساری فصل کو نکالتے اور اس سے جو جو کھانا پکتا اسے ٹیبل پر سجاتے اور کھڑکیاں کھول دیتے تاکہ سدھس آئیں اور کھانا کھائیں اور کوئی نقصان پہنچائے بغیر واپس ہو جائیں۔ اصل میں یہ ایک طرح کا شکرانہ بھی تھا کہ غریب لوگوں میں کھانا تقسیم کیا جائے لیکن بعد میں اس تصور کو بدل دیا گیا اور غریبوں کے بجائے بد شیطانوں کو کھلانے کا رواج پڑ گیا۔ اس دن بچے بھی ٹافیاں اور کھانے پینے کی چیزیں مانگنے آتے اور لوگ اُنہیں خوشی خوشی دیتے تاکہ وہ بد روحیں ان سے خوش ہو جائیں۔ اب جہاں تک جانوروں، چڑیلوں اور عجیب و غریب چہروں کا روپ دھارنے کا تعلق ہے اسے اہل یوروپ نے ایک بہت بڑا تجارتی موقع بنا لیا اور اسے اس تہوار کا حصہ بنا لیا۔ پوپ گریگری نے اسے 8ویں صدی میں ہالووین تہوار کا نام دیا جو ان لوگوں کی یاد میں منایا جاتا جو مر گئے ہیں۔
اصل میں لفظ ہالووین دو الفاظ کا مجموعہ ہےHallow+evening) Hallow) کا مطلب ہے کسی چیز کو مقدس بنا کے اختیار کرنا اور evening کا مطلب ہے شام یعنی مقدس شام۔ اس طرح جو samhain کا تہوار تھا وہ ہالووین میں تبدیل ہو گیا۔
ہمیں اس سے بچنے کی ضرورت کیوں ہے؟
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے اس کا حشر بھی اسی قوم کے ساتھ ہو گا‘‘
یہ تہوار شیاطین سے خائف ہو کر ان سے بچنے کے لیے منایا جاتا ہے جبکہ ایک مومن اللہ کے سوا کسی نہیں ڈرتا۔ رسول اللہ ﷺ نے سخت وعید سنائی ہے کہ جو جس کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا حشر بھی اس کے ساتھ ہو گا اور شیاطین کی پوجا کرنے والوں کا انجام جہنم ہے۔ لہذا ہالووین تہوار میں اپنا حصہ ڈالنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ جہنم کو اپنا مقدر بنانا چاہتے ہیں؟ اگر نہیں تو انہیں اس سے بچنا چاہیے کیوں کہ یہ ہمارے ایمان پر حملہ ہے۔
بچوں میں کیوں بڑھ رہا ہے ہالووین کا رجحان؟
آج ہمارے بچوں میں کارٹون سیریز اور موویز کی وجہ سے اس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ہر کارٹون اس تہوار کو بہت خوشنما اور دلکش بنا کر پیش کر رہا ہے کہ یہ ایک فن اور مستی کا تہوار ہے۔ اس موقع سے یہ خوب کاروبار کرتے ہیں اور خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے بچوں کے ذہن کو خراب کیا جا رہا ہے ان کے عقیدے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ آج کی ماوں کو بیدار ہونا ہو گا تاکہ وہ اپنے بچوں کو یہودیوں کا آلہ کار بننے سے بچا سکیں۔
آج ہماری نوجوان نسل کو جو اس امت کا مستقبل ہے جنہیں عمرؓ و خالدؓ کی شجاعت کا نمونہ بننا تھا وہ بھی ان شرکیہ رسومات کو بخوشی قبول کر رہی ہے۔
بقول مولانا سلمان حسینی ندوی کے ’’میں نوجوانوں سے طلبہ سے کہہ رہا ہوں کے کب تک خاموش رہو گے، بے غیرتی تمہیں پڑھائی جا رہی ہے، نفاق تمہیں سکھایا جا رہا ہے، تمہارا تشخص چھینا جا رہا ہے اور اس پر تمہاری یہ خاموشی تمہاری بے غیرتی پر دلیل ہے‘‘۔
الغرض امت کے جوانوں کو اپنی اصلاح کرنا چاہیے، آج امت کے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کی ضرورت ہے، انہیں اس دنیا میں کھو جانے کے بجائے شیطان کی چالوں کو سمجھ کر خود بھی اس سے بچنے کی ضرورت ہے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہم امتِ وسط ہیں جسے بھلائی کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے کے لیے نکالا گیا ہے۔
***
***
رسول اللہ ﷺ نے سخت وعید سنائی ہے کہ جو جس کی مشابہت اختیار کرے گا اس کا حشر بھی اس کے ساتھ ہو گا اور شیاطین کی پوجا کرنے والوں کا انجام جہنم ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 نومبر تا 26 نومبر 2022