ہلدوانی کے مکینوں کو عدالت عظمیٰ سے عارضی راحت مگر اضطراب برقرار

جماعت اسلامی ہند کے وفد کا دورہ۔ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سے ابھرے کئی اہم سوالات

عرفان الٰہی

ہلدوانی کے بن پھول پورہ اور غفور بستی کے مکینوں کو سپریم کورٹ سے ایک ماہ کی عارضی راحت تو مل گئی ہے لیکن یہ معاملہ اتنی آسانی سے سلجھتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد نے گزشتہ پیر کو ہلدوانی کا دورہ کیا تھا۔ اس وفد میں APCR کے جنرل سکریٹری ندیم خاں کے علاوہ کئی صحافی بھی شامل تھے۔ان کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کئی سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات ملنے میں وقت لگ سکتا ہے۔ سب سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب ریلوے کا دعویٰ صرف انتیس ایکڑ تک تھا تو پھر ہائی کورٹ کے آرڈر میں یہ اٹھتر ایکڑ تک کیسے پہنچ گیا؟ دوسرااہم سوال یہ ہے کہ جب ذیلی عدالتوں میں سترہ سو کے قریب معاملے زیر سماعت تھے تو نینی تال ہائی کورٹ نے متنازعہ اراضی کو ایک ہفتے کہ اندر خالی کرانے کا فرمان کیسے جاری کر دیا جس کے بعد اتنی بڑی آبادی اپنے بال بچوں کے ساتھ سڑکوں پر اتر آئی؟ APCR کے جنرل سکریٹری ندیم خان نے ہفت روزہ دعوت سے فون پر بات چیت میں بتایا کہ وفد نے جماعت اسلامی ہند کے مرکزی سکریٹری ملک معتصم خان کی قیادت میں ہلدوانی جا کر صورت حال کا جائزہ لیا اس معاملے کے کئی قانونی پہلووں کو سمجھنے کی کوشش کی اور متاثرین سے ملاقات کر کے ہمدردی کا اظہار کیا۔سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد جماعت اسلامی ہند نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر پیغام جاری کرکے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوا ہے اور چار ہزار سے زائد خاندانوں کو بڑی راحت ملی ہے۔
ہلدوانی پریس کلب کا رد عمل
ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے اس معاملے میں ہلدوانی پریس کلب فار پیوپلس ویلفئر کے صدر سنجے راوت سے خصوصی بات چیت کی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ معاملہ شروع سے ہی سیاسی دکھائی دے رہا ہے۔ جس ریلوے کی زمین کو بنیاد بنا کر اتنا بڑا معاملہ کھڑا کیا گیا وہ اپنی زمین کے لیے کبھی براہ راست کورٹ گئی ہی نہیں۔ یہ سارا مسئلہ آر ٹی آئی کارکن روی شنکر جوشی کی مفاد عامہ کی عرضی سے کھڑا ہوا۔ عرضی گزار نے ندی سے غیر قانونی طور پر کانکنی کی شکایت کی جو بڑھتے بڑھتے ریلوے کی اراضی خالی کرانے تک پہنچ گئی اور آخر کار ہائی کورٹ نے ایک ہفتے کے اندر بغیر کسی بازآبادکاری کے منصوبے کے ریلوے کی متنازعہ اراضی خالی کرانے کا فرمان جا ری کر دیا جس کے نتیجے میں چار ہزار خاندانوں کے تقریباً پچاس ہزار افراد کڑاکے کی سردی میں مع اہل وعیال انصاف کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ سنجے راوت نے اس معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمی نے اس معاملے میں بروقت سماعت کرتے ہوئے انصاف کا تقاضا پورا کیا ہے۔کورٹ نے ریاستی حکومت کے ساتھ ریلوے بورڈ کو بھی نوٹس جاری کیے ہیں اور کہا کہ اتنی بڑی آبادی کو اجاڑنے سے پہلے یہ تو طے ہوجائے کہ یہ اراضی کس کی ہے؟ عدالت عظمی نے اس اراضی پر آباد مکینوں کو برباد کے لیے اتنی بڑی فورس تعینات کرنے پر بھی حیرت ظاہر کی ہے۔ سنجے راوت کے مطابق ہلدوانی کی آبادیاتی ہیئت اس طرح کی ہے کہ اسے سب سے پہلے مسلمانوں نے ہی آباد کیا۔ ہلدوانی میونسپلٹی میں تین بار مسلمان چئرمین منتخب ہوئے۔ رفتہ رفتہ دیگر قوموں کی آبادی بڑھتی گئی اور مسلمان اقلیت میں آگئے لیکن کچھ سیاسی جماعتوں کو ان کی اتنی آبادی بھی برداشت نہیں ہورہی ہے۔ریلوے کی جس زمین کو بنیاد بنا کر برسوں پرانی بستیوں کو اجاڑنے کی بات ہو رہی ہے اس بنیاد پر تو کئی اکثریتی علاقے میں بھی زد میں آسکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس شہر کی تقریبا ستر فیصد آبادی نزول کی زمین پر آباد ہے۔ اگر سب کو اجاڑ دیں گے تو بسائیں گے کہاں؟
ان کے مطابق دراصل ریلوے کی نجکاری کے سبب کئی سرمایہ داروں کی نظریں ان زمینوں پر لگی ہوئی ہیں۔ نینی تال سے قریب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ ٹورزم زون میں ہے اور یہاں ہوٹل انڈسٹری کے علاوہ شاپنگ مال و دیگر تجارتی مراکز بنانے کے بڑے امکانات ہیں۔ عدالت عظمیٰ کو ان تمام پہلووں سے بھی اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔
***

 

***

 ’’یہ معاملہ شروع سے ہی سیاسی دکھائی دے رہا ہے۔ جس ریلوے کی زمین کو بنیاد بنا کر اتنا بڑا معاملہ کھڑا کیا گیا وہ اپنی زمین کے لیے کبھی براہ راست کورٹ گئی ہی نہیں۔ یہ سارا مسئلہ آر ٹی آئی کارکن روی شنکر جوشی کی مفاد عامہ کی عرضی سے کھڑا ہوا۔ عرضی گزار نے ندی سے غیر قانونی طور پر کانکنی کی شکایت کی جو بڑھتے بڑھتے ریلوے کی اراضی خالی کرانے تک پہنچ گئی اور آخر کار ہائی کورٹ نے ایک ہفتے کے اندر بغیر کسی بازآبادکاری کے منصوبے کے ریلوے کی متنازعہ اراضی خالی کرانے کا فرمان جا ری کر دیا جس کے نتیجے میں چار ہزار خاندانوں کے تقریباً پچاس ہزار افراد کڑاکے کی سردی میں مع اہل وعیال انصاف کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔‘‘(سنجے راوت،صدر ہلدوانی پریس کلب فار پیوپلس ویلفئر)


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 15 جنوری تا 21 جنوری 2023