حقیقی آزادی کو اللہ کے قوانین کی پیروی میں سمجھیں

بہتر سماج کی تشکیل کے لیے مذہبی رہنما اخلاقیات کی تلقین کریں: شائستہ رفعت

نئی دلی: (دعوت نیوز ڈیسک)

مختلف مذاہب میں اخلاقیات کا تصورکے زیرعنوان مکالمہ میں بین المذاہب شخصیتوں کا اظہار خیال
شعبہ خواتین جماعت اسلامی ہند نے ’’مختلف مذاہب میں اخلاقیات کا تصور‘‘ کے زیر عنوان ایک ورچوئل بین المذاہب مکالمہ کا انعقاد عمل میں لایا۔ اس تقریب میں مختلف مذہبی پس منظروں سے تعلق رکھنے والی نامورشخصیتوں نے شرکت کی اور آج کی دنیا میں اخلاقیات کی اہمیت پر اپنے خیالات پیش کیے۔اجلاس کا آغاز محترمہ عارفہ پروین، قومی اسسٹنٹ سیکرٹری شعبہ خواتین نے کیا۔ انہوں نے حقیقی آزادی کے اہم تصور پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بہت سے لوگوں کے لیے غلط فہمی کا باعث بنتی ہے، خاص طور پر ’’میرا جسم، میری مرضی‘‘ جیسے جملوں کی صورت میں۔ عارفہ پروین نے دور حاضر کے اخلاقی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک رپورٹ کا حوالہ دیا کہ 50 فیصد بھارتیوں نے شادی کے بندھن سے آزاد تعلقات ( لیواِن ریلیشن شپ) کو قبول کیا ہے۔ انہوں نے عریانی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو بھی اجاگر کیا جو معاشرتی اقدار کو متاثر کرتے ہیں۔ انہوں نے پیغام واضح دیا کہ ہمیں ان مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے اخلاقی رہنمائی کی طرف لوٹنا ہوگا۔
محترمہ شائستہ رفعت، قومی سکریٹری جماعت اسلامی ہند، شعبہ خواتین نے اپنے صدارتی خطاب میں اخلاقیات کی بے انتہا اہمیت کو دہرایا۔ انہوں نے بتایا کہ اخلاقیات ابتداء سے ہی سماجی فلاح کے لیے رہنما رہے ہیں۔ محترمہ شائستہ رفعت نے کہا کہ تمام مذاہب میں ایسے اصول موجود ہیں جو اخلاقی برائیوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں سے درخواست کی کہ وہ اپنی برادریوں کی رہنمائی کے لیے اپنی ذاتی ذمہ داری کو قبول کریں۔
مکالمے کے دوران مختلف مذاہب کی نمائندگی کی گئی۔ مانڈیپ کور بخشی نے جو کہ شرومنی اکالی دل خواتین ونگ کی سابق صدر ہیں، سکھ مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے بتایا کہ اخلاقیات کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ انہوں نے سکھ تعلیمات اور ’مائی بھاگو‘ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی ذمہ داری اور اخلاقی رویے کا اثر پوری کمیونٹی پر ہوتا ہے۔ مانڈیپ کور بخشی نے بچوں میں ان اقدار کو مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ وہ عصر حاضر کی تیز رفتار دنیا میں بہتر طریقے سے سفر کرسکیں۔
ہندو نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے، ماں بھاگوتی المعروف ریما یادو نے کہا کہ دھرم کی پیروی کرنا اخلاقی زندگی گزارنے کے لیے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے خود احتسابی اور روحانی ترقی کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ اعلیٰ اصولوں کے ساتھ اپنے اعمال کو ہم آہنگ کرنا معاشرے کی بہتری میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
عیسائی نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے اناستاسیا گل نے، جو دہلی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں ایک وکیل ہیں، بتایا کہ عیسائی اخلاقیات محبت، ہمدردی اور کمیونٹی کی خدمت پر مبنی ہے۔ انہوں نے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ اخلاقی اعمال کا مقصد دوسروں کی بھلائی ہونی چاہیے، خاص طور پر کمزور طبقات کے حقوق کا تحفظ ہو ۔انہوں نے محبت اور معافی کو ایک زیادہ منصفانہ معاشرے کی تعمیر کے لیے لازم قرار دیا۔
بدھ مت کی نمائندگی کرنے والی پھوربو ڈولما نے، جو دارامشالا میں تبتی خواتین کی تنظیم کی رکن عاملہ ہیں، خواتین کی خود مختاری اور روزمرہ کی زندگی میں اخلاقی ذمہ داری کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بتایا کہ بدھ مت تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے، جو اخلاقی اقدار کے لیے ایک عالمی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔
میناس بانو، سکریٹری بی آئی ای، گوا نے اسلامی نقطہ نظر سے خاص طور پر شادی اور عفت کے حوالے سےاخلاقیات پر گفتگو کی اور وضاحت کی کہ حقیقی آزادی کو اکثر ’’میری زندگی، میری پسند‘‘ کے طور پر غلط سمجھا جاتا ہے، جبکہ اسلام حقیقتاً اللہ کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگی میں آزادی کی تعلیم دیتا ہے۔ انہوں نے قرآنی آیات کے حوالے سے ان خطرات کا ذکر کیا جو شراب نوشی اور اس کے اثرات کے نتیجے میں خاندان اور سماج پر پڑتے ہیں۔
بی کے پونم نے جو براہما کماریز کی ایک راج یوگا مراقبہ کی استاد ہیں، اخلاقیات کی تعمیر میں مراقبہ کے کردار پر بات کی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ صحیح خیالات صحیح اعمال کی جانب لے جاتے ہیں انہوں نے ذہن کو کنٹرول کرنے میں درپیش موجودہ چیلنجوں کی نشاندہی کی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اکتوبر تا 12 اکتوبر 2024