محمد جاوید اقبال،نئی دہلی
فون:8860429904
مولانا فاروق خاں صاحب مرحوم قرآن پاک کے شیدائی، علم و ادب کے روشن ستارے اور خلوص و محبت کے پیکر تھے۔
علم کی مجالس ان کے دم سے آباد تھیں۔ وہ ہندی اور اردو دونوں زبانوں کے ماہر، سادگی و شرافت، بے لوثی اور بے تکلفی ان کی پہچان تھی۔ جو حضرات ان سے زیادہ سوالات پوچھتے وہ ان سے زیادہ قریب ہو جاتے تھے۔ جب وہ ہندی بولتے تو فضا میں شیرینی اور مٹھاس گھول دیتے تھے۔ جب ہندی کویتا (نظم) ترنم سے سناتے تو ماحول سحر زدہ ہو جاتا۔ تقریباً پینسٹھ سال تک انہوں نے قرآن کی خدمت کی۔
۲۸؍جون ۲۰۲۳ء کو مولانا فاروق خاںؒ اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ قرآن پاک کے زبردست عالم تھے۔ مولانا فاروق خاں اپنے آپ کو ہمیشہ قرآن کا طالب علم کہتے تھے۔ ان کی میز پر کئی کئی مصحف رکھے رہتے تھے۔ ان کی نجی لائبریری میں تقریباً ہر مشہور تفسیر اور تراجم موجود ہیں۔ ہر وقت قرآن پر غور و فکر کرتے اور آنے والوں سے اسی موضوع پر گفتگو کرتے تھے۔ مولانا مرحوم شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ قرآن کے بڑے رسیا تھے۔ انہوں نے شاہ عبدالقادرؒ کی قرآن فہمی پر ایک کتاب لکھی جو بہت مشہور ہوئی۔ مرحوم نے قرآن پاک کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ ۱۹۹۰ء میں ان کے پاس دلی کے ایک بزرگ حکیم جمیل الرحمن آیا کرتے تھے اور قرآن کے کچھ مشکل مقامات کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔ مولانا انہیں جوابات دیتے تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ دلی کے علماء میں ان کا اٹھنا بیٹھنا ہے چنانچہ میں نے ان بزرگ سے پوچھا کہ دلی میں کون ایسا عالم دین ہے جس کو قرآن پاک سے اتنا شغف ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاروق خاں صاحب کے علاوہ میں کسی کو نہیں جانتا جسے قرآن سے اتنا عشق ہو۔ جب میں ۱۹۷۷ء کے آخر میں مرکز جماعت میں طلب کیا گیا تو مجھے مولانا محمد فاروق خاں صاحب کے کمرے میں ٹھہرایا گیا، جہاں میں تقریباً ایک سال ان کے ساتھ رہا۔ ان کی روز و شب کی تمام مصروفیات کا مجھے علم رہتا۔ مولانا وحید الدین صاحب مرحوم گاہے بگاہے میرے سامنے ان سے ملنے آتے تھے۔ مرحوم سے وہ قرآن اور دیگر موضوعات پر گفتگو کرتے۔ وہ ہمیشہ اپنی ڈائری میں نوٹس لکھتے۔ ایک روز میں نے ان سے پوچھا کہ آپ مستقل کچھ نہ کچھ نوٹ کرتے رہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں فاروق خاں صاحب کی باتوں پر بعد میں غور کرتا ہوں اور ماہنامہ الرسالہ میں حاصل گفتگو کو مضامین کی شکل دے دیتا ہوں۔
مولانا محمد فاروق خاں نے سب سے پہلے قرآن کے ہندی ترجمے کا کام کیا۔ میں نے مرحوم سے اس کی تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ وہ قصبہ کہنڈہ ضلع سلطان پور میں استاد تھے، جماعت اسلامی کے اجتماعات میں بھی شریک ہونے لگے۔ مطالعہ کا شوق تھا وہ خود کہتے ہیں کہ میرے کئی مضامین ماہنامہ زندگی میں شائع ہوئے تھے۔ کوثر یزدانی صاحب رامپور میں کانتی کے ایڈیٹر تھے۔ مولانا عبدالحئی صاحب مرحوم نے قرآن کے ہندی ترجمے کا پروجیکٹ بنایا۔ کوثر یزدانی صاحب نے عبدالحئی صاحب سے میرا غائبانہ تعارف کرایا۔ موصوف نے مجھے ہندی ترجمہ کے لیے پیش کش کی اور لکھا کہ ایک ماہ کی چھٹی لے کر آجائیں۔ اگر ہم دونوں کام سے مطمئن ہوجائیں تو پھر کام کو آگے بڑھایا جائے گا۔
فاروق خاں صاحب نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ میرے رشتہ داروں اور احباب نے منع کیا کہ یہ کام بہت عظیم ہے اس کو میں نہ کرسکوں گا۔ بہرحال میں اللہ کا نام لے کر رامپور پہنچ گیا اور کام شروع کر دیا۔ پہلے میں نے سورہ آل عمران کا ہندی میں ترجمہ کیا۔ عبدالحئی صاحب مجھے رامپور کے ادیب اور شاعر دیواکر جی کے پاس لے گئے۔ ان کو میں نے ہندی ترجمہ پڑھ کر سنایا تو انہوں نے کہا کہ یہ ترجمہ بہت اچھا ہے ایسا ترجمہ تو میں بھی نہیں کرسکتا۔ الحمدللہ یہ کام جاری رہا۔ اس کام میں بہت سی مشکلات آئیں۔ اس سلسلے میں مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب اور مولانا امانت اللہ صاحب میری رہ نمائی فرماتے تھے۔الحمدللہ یہ کام مکمل ہوا۔ اس عظیم کام کے مکمل ہونے کے بعد مولانا فاروق خاں صاحب کی خدمات کو جماعت اسلامی نے حاصل کر لیا۔ یہاں بھی موصوف نے مولانا مودودی کے اردو ترجمہ قرآن کو ہندی میں منتقل کیا اور بھی بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ جماعت کے اردو لٹریچر کی بیشتر کتابیں ہندی میں ترجمہ کیں۔ حدیث کے موضوع پر زبردست کام کیا جو کلام نبوت کے نام سے شائع ہوا۔ کل ملا کر ان کی چھوٹی بڑی سو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔
مرحوم نے قرآن پاک کا آسان زبان میں ترجمہ کیا، اس پر متعدد بار نظرثانی کی اور اس کے بھی کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ غیر مسلموں کے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے مرحوم نے قرآن کی مختصر تفسیر بھی ہندی زبان میں لکھی، جو ان شاء اللہ جلد شائع ہوگی۔ اسی طرح قرآن کے مشکل مقامات پر انہوں نے کام کیا۔ جو شخص بھی ان سے ملاقات کے لیے آتا وہ اس سے قرآن پاک کا کوئی نہ کوئی نکتہ بیان کرتے کیونکہ قرآن پاک اور نماز سے انہیں بہت حد تک محبت تھی۔ قرآن پاک کا ذکر تو اوپر ہوچکا، جہاں تک نماز کا تعلق ہے وہ تکبیر اولیٰ سے نماز میں شامل ہونے کی بھرپور کوشش کرتے۔ رمضان المبارک میں اچھے قاری کا پتہ لگاتے چاہے وہ دور ہی ہو، وہاں جاکر نماز تراویح ادا کرتے۔ وہ اکثر کہتے کہ انہیں دو مقامات بہت محبوب ہیں۔ پہلا مسجد دوسرا مدرسہ یا تعلیم گاہ۔
قرآن سے محبت کا بدلہ انہیں تھوڑا سا دنیا میں ہی مل گیا۔ پچھلے تیس سال پہلے ایک نوجوان ان کا شیدائی ہوگیا۔ وہ روزانہ ان کی ذوق و شوق سے خدمت کرتا۔ ان کا بستر ٹھیک کرتا ان کے کپڑے دھوتا، پریس کرتا، ان کا بدن دباتا، ان کے لیے بہترین کھانا تیار کرتا، ان کو کھلاتا، وقتا فوقتا ان کا جسمانی چیک اپ کراتا اور ان پر اپنی جیب خاص سے بہت کچھ خرچ کرتا۔ جب مرکز اوکھلا منتقل ہوگیا تو وہ صالح نوجوان روزانہ کبھی تیسرے دن پرانی دلی سے آٹو رکشا سے اوکھلا آتا، تین چار گھنٹے یہاں گزارتا، ان کا ہر کام کرتا۔ تمام مصارف اپنی جیب خاص سے برداشت کرتا۔ یہ سب اللہ کی طرف سے انتظام تھا۔ اللہ تعالیٰ اُس نیک بندے کو بھی دنیا و آخرت کے اجر سے نوازے۔
مرحوم بہت آسان اور شیریں ہندی بولتے، غیر مسلم ان کی تقریر سے بہت متاثر ہوتے۔ میں نے ایک مرتبہ ان کے ساتھ مہاراشٹر کے مختلف مقامات کا سفر کیا۔ جہاں انہوں نے ہندی میں تقاریر کیں۔ دوران تقریر وہ ہندی نظم اور دوہے بھی سناتے۔ سامعین لوٹ پوٹ ہوجاتے اور تقریر کے بعد ان کے پیر چھونے لگتے۔ وہ بہت روکتے لیکن لوگ کہاں ماننے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی خدمات قبول فرمائے۔ آمین۔
انہوں نے اپنے بچپن کے بہت سے واقعات سنائے ان میں سے صرف دو کا یہاں ذکر کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ وہ جب ساتویں درجہ میں تھے تو بیمار ہوگئے۔ جب ٹھیک ہوئے تو اسکول نہیں گئے، گھر والوں کو بھی کوئی تردد نہ ہوا۔ اس لیے کہ کھیتی کی زمین کافی تھی اور مویشی بھی بہت تھے۔ کچھ دنوں کے بعد ان کے ایک غیر مسلم استاد نے ان کو دوبارہ اسکول لے جا کر نام لکھوایا اور محبت سے چھوٹے ہوئے اسباق پڑھائے۔ مرحوم ’اس‘ استاد کو بہت یاد کرتے اور کہتے کہ اگر وہ استاد میرے اوپر رحم نہ کرتے تو میں آج ڈنگروں کے پیچھے پھرتا ہوتا۔ استاد کے مقام اور استاد کی اہمیت کا وہ اکثر ذکر کرتے تھے۔
دوسرا واقعہ مدرسۃ الاصلاح کا بیان کرتے ہوئے کہا کہ دسویں درجہ پاس کرنے کے بعد ان کے ایک کرم فرما مجھے مدرسۃ الاصلاح داخلے کے لیے لے گئے باتوں باتوں میں انہوں نے وہاں کے استاد سے کہا یہ نوجوان کبھی کبھی بہکی بہکی باتیں بھی کرتا ہے۔ چنانچہ ان کے اس بیان سے ان کا داخلہ مدرسۃ الاصلاح میں نہ ہوسکا۔
ہندی زبان سے انہیں کافی لگاؤ تھا۔ دوست احباب سے کچھ ہندی الفاظ بھی بولتے غیر مسلم بھائیوں سے ان کے کافی اچھے تعلقات تھے۔ ایک غیر مسلم کے یہاں ہر ہفتہ تقریر ہوتی جس میں زیادہ تر غیر مسلم ہی شریک ہوتے۔ سوال جواب بھی خوب ہوتے۔ ایک شخص کا نام کپلا جی تھا جس شخص نے اسلام قبول کرلیا تھا لیکن اپنے ماحول سے باہر نہ آسکا۔ بہت سے تعلیم یافتہ غیر مسلم ان کے دوست تھے کچھ لوگ ان کا ہندی ترجمہ اور دیگر کتب پڑھ کر ان کے پاس ملاقات کے لیے آیا کرتے تھے۔
ان کا ذہن مختلف معلومات کا خزانہ تھا۔ جب کوئی نیا نکتہ سوچتے تو اپنے احباب سے باربار اس کا تذکرہ کرتے۔ جب وہ تقریر کرتے تو ہمیشہ وقت کی تنگی کی شکایت کرتے اس لیے کبھی کبھی ناگواری بھی ہوتی۔
مضامین کو سمجھانے میں مثالوں کا استعمال کرتے۔ ایک دفعہ غصہ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ آدمی کو اپنا سوئچ اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہیے۔ لیکن خود کبھی کبھی اپنا سوئچ دوسروں کو پکڑا دیتے۔ اہل علم کی قدر کرتے، خود ان سے ملنے جاتے۔
اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔
یہ حالت ہوگئی ہے ایک ساقی کے نہ ہونے سے
کہ خُم کے خُم بھرے ہیں مے سے اور مے خانہ خالی ہے
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 16 جولائی تا 22 جولائی 2023