ہجومی تشدد کے معاملے میں بریلی پولیس کا دوہرا کردار

یو پی کے اقتدار کی رسہ کشی لکھنو سے دلی منتقل۔بی جے پی تنظیم اور حکومت میں تبدیلی کا امکان

محمد ارشد ادیب

پولیس کی دلالوں کے ساتھ مل کر معمول کی وصولی ۔یو پی – بہار کی سرحدی پولیس چوکیوں پر لوٹ کی پول کھل گئی
شمالی ہند میں ساون کا مہینہ پہلے برسات اور ہریالی کے لیے جانا جاتا تھا لیکن پچھلے کچھ برسوں میں اس ماہ کی پہچان کافی بدل چکی ہے۔ وجہ ہے ساون میں نکلنے والا کانوڑیوں کا جلوس۔ چنانچہ ساون کا آغاز ہوتے ہی ماحول کشیدہ ہو جاتا ہے۔ کانوڑیوں کے لیے ہفتے کے تین دن راستے تبدیل کر دیے جاتے ہیں یا عام لوگوں کے لیے شاہ راہیں بند کر دی جاتی ہیں۔ اکثر شہروں میں گوشت اور مچھلی کی خرید و فروخت پر پابندی لگ جاتی ہے۔ مذبح خانے بند ہو جاتے ہیں۔ گوشت خور منہ چھپانے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ جانوروں کی خرید و فروخت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ سڑکوں پر اور کانوڑیوں کے طے شدہ راستوں پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں، اس کے باوجود اگر ذرا سی چوک ہوئی تو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔
شمال کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش، اتراکھنڈ، ہریانہ، راجستھان اور مدھیہ پردیش میں اس طرح کے مناظر ہر روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یو پی میں نام کی تختی لگانے کے تنازع کے بعد اتراکھنڈ کے ہریدوار میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو پردے سے چھپانے کی کوشش کی گئی، بعد میں خبر عام ہونے کے بعد ان کو ہٹا دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے اس طرح کی ترکیبیں کی جاتی ہیں۔ تاہم، تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کانوڑیوں کا جلوس مذہبی جذبے سے نکلنے والی یاترا ہے لیکن اس میں سیاست در آئی ہے جس کے اثرات جا بجا دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پولیس انتظامیہ بھی دباؤ میں کام کر رہی ہے۔ مغربی یو پی میں کانوڑیوں نے پولیس ٹیم پر ہی حملہ کر دیا۔ پولیس بھی اپنی جان بچاتی پھر رہی ہے۔ اس پر کچھ لوگ تبصرہ کر رہے ہیں کہ سیّاں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا؟
یو پی پولیس کی اس لاچاری کے برعکس ضلع بریلی میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے۔ بریلی کے شاہی تھانے کے گاؤں غوث گنج میں محرم کے تعزیہ جلوس میں دو فرقے آمنے سامنے آگئے، مارپیٹ میں ایک نوجوان زخمی ہو گیا جس نے بعد میں ہسپتال میں دم توڑ دیا۔مہلوک کے گھر والوں نے ملزموں کے گھروں پر بلڈوزر کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ مقامی انتظامیہ نے گیارہ گھروں کے نشان دہی کی چنانچہ آناً فاناً کئی گھر منہدم کر دیے گئے۔ مقامی خواتین نے جوابی کارروائی کے دوران مظالم کی جو داستان سنائی ہے وہ پولیس کے دوہرے معیار اور تعصب کی قلعی کھولنے کے لیے کافی ہے۔ مقامی خواتین کے مطابق ان کی کنپٹی پر طفنچے رکھ کر ملزمین کو فون کرائے گئے اور پھر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اب تک تقریباً 35 افراد جیل بھیجے جا چکے ہیں۔ اے پی سی آر یو پی کے ریاستی سکریٹری مشفق رضا خان نے ہفت روزہ دعوت کو فون پر بتایا کہ غوث گنج میں پولیس یک طرفہ کارروائی کر رہی ہے مسلم فریق کے کئی افراد زخمی ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی رپورٹ درج نہیں کی گئی۔ گاؤں میں پولیس کی موجودگی کے باوجود گھروں میں لوٹ مار کا الزام لگ رہا ہے۔ اے پی سی آر اس کیس کے کلیدی ملزم بختاور اور دیگر کو انصاف دلانے کی کوشش کرے گی۔ پولیس نے بختاور کے دو بیٹوں پر پچس ہزار روپے کا انعام بھی رکھ دیا ہے اس کیس میں پہلی بار ہجومی تشدد کی دفعہ بھی بڑھائی گئی ہے۔ بریلی ساؤتھ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ مانوش پاریکھ کے مطابق اس معاملے میں ثبوتوں کی بنیاد پر بی این ایس کی دفعہ 103 دو بڑھائی گئی ہے، اس کے تحت پانچ یا اس سے زیادہ لوگ مذہبی معاملے میں کسی کو قتل کرتے ہیں تو عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس میں ضمانت حاصل کرنا بھی کافی مشکل ہو جاتا ہے۔
یو پی میں حکم راں جماعت کی سیاسی رسہ کشی لکھنؤ سے دلی منتقل ہو گئی ہے۔ وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ ان کے دو نائب وزرائے اعلیٰ دلی میں بی جے پی کی اعلی قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس بار معاملہ پیچیدہ ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کسی قیمت پر پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ کیشو پرساد موریہ نے ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے برجیش پاٹھک سے ہاتھ ملا لیا ہے۔ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں میں بھی دو گروہ بن گئے ہیں۔ اقتدار کی یہ رسہ کشی کس نتیجے پر پہنچے گی فی الحال بتانا مشکل ہے۔ اقتدار کی اس لڑائی سے یو پی کی بیوروکریسی اور پولیس بے لگام ہو چکی ہے۔
نائب صدر جمہوریہ جےدیپ دھنکڑ نے دلی کے ایک نجی پروگرام میں یو پی کے ڈی جی پی پرشانت کمار کی مونچھوں کی تعریف کرتے ہوئے مشہور ڈائیلاگ دہرایا ’مونچھیں ہوں تو نتھولال جیسی‘ لیکن انہی ڈی جی پی کی ماتحت یو پی پولیس اپنے محکمے کا نام خراب کرنے میں ہر روز نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال یو پی اور بہار کے سرحدی ضلع بلیا سے آئی ہے جہاں پولیس کے اعلی افسران نے بلیا کے سرحدی تھانے نرہی کا اچانک جائزہ لیا تو تھانے دار تھانہ چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ دو پولیس اہلکار موقع سے گرفتار ہوئے اور تین ہو گئے۔ دراصل اس سرحدی چوکی پر ایک عرصے سے فی ٹرک پانچ سو روپے کی جبری وصولی چل رہی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس تھانے کی روزانہ کی وصولی پانچ لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ پولیس کے مطابق اس معاملے میں پولیس کے ساتھ دلالی کرنے والے سولہ دلال موقع سے گرفتار ہوئے ہیں باقی فرار ہونے میں کامیاب رہے۔
سنجے ترپاٹھی نام کے ایک صحافی نے ایکس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا” بلیا کانڈ تو ایک جھانکی ہے سید راجہ، سنولی اور صاحب آباد جیسے تمام بارڈر کے تھانوں میں پولیس افسر برسوں سے ایسا ‘بزنس’ چلا رہے ہیں۔ یو پی کے دوسرے سرحدی علاقوں کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ یو پی اور اتراکھنڈ کی سرحدی چوکیوں پر بڑی مقدار میں گٹی اور بالو کی گاڑیاں نکلتی ہیں ان سے جبری وصولی کی خبریں وقتاً فوقتاً منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔
بہار پولیس بھی کسی سے کم نہیں ہے ریاست کے ضلع سیتامڑھی سے ایک روح فرسا خبر وائرل ہوئی ہے جہاں دربھنگا ریلوے لائن کی پپری اسٹیشن پر پولیس اور جی آر پی کا انوکھا کاروبار چل رہا ہے ۔ مسافروں کی حفاظت کے لیے تعینات کیے گئے یہ محافظ کسی بھی ٹرین کی جنرل سیٹ پر قبضہ کر کے اسے ہزار تا پانچ سو روپے میں بیج دیتے ہیں۔ فرقان نام کے ایک مسافر نے اس کی مخالفت کی تو پولیس نے اسے اتنا مارا کہ اس کی آنتیں پیٹ سے باہر نکل پڑیں۔ یہ بدنصیب مسافر جو روزی کمانے کے لیے گھر سے نکلا تھا ہسپتال میں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا ہے۔
تو صاحبو! یہ تھا شمال کا حال۔ آئندہ ہفتہ پھر ملیں گے کچھ تازہ اور دلچسپ احوال کے ساتھ، تب تک کے لیے اللہ اللہ خیر سلا۔
***

 

***


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 اگست تا 10 اگست 2024