حج کی حکمتیں اور فوائد
طواف،سعی، جمرات اور قربانی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قربانیوں والی زندگی کا درس دیتے ہیں
ڈاکٹر ساجد عباسی
حج بیک وقت مالی عبادت بھی ہے اور بدنی عبادت بھی ۔حج ایک ایسا مجاہدہ ہے جس میں حاجی اپنے گھر کی آسائشوں سے دور رہتا ہے اور کیمپ کی زندگی گزارتا ہے۔حج کے ایام کسی حدتک مجاہد کی زندگی سے مماثلت رکھتے ہیں جو میدان جہاد میں اللہ کی راہ میں اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔
حج صاحبِ استطاعت اہلِ ایمان پر فرض ہے اور اسلا م کا اہم رکن ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّـنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ۔بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکّہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہاں والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں، ابراہیم کا مقام عبادت ہے، اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جو کوئی اس حکم کی پیر وی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تما م دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔(سورۃ آل عمران۹۶، ۹۷)
مزید اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ اور لوگوں کو حج کے لیے اِذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دور دراز مقام سے پیدل اور اونٹوں پر سوار ہو کر آئیں،تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں،اور چند مقرر دنوں میں اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں،خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔( سورۃ الحج ۲۷، ۲۸)
الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فِي الْحَجِّ وَمَا تَفْعَلُواْ مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللّهُ وَتَزَوَّدُواْ فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَا أُوْلِي الأَلْبَابِ۔حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی،کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو۔ اور جو نیک کام تم کرو گے ، وہ اللہ کے علم میں ہوگا۔ سفرِحج کے لیے زادِ راہ ساتھ لے جاو۔ اور سب سے بہتر زادِراہ پرہیزگاری ہے۔ پس اے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ (سورۃ البقرۃ ۱۹۷)
حج کی فرضیت اور اس کی حکمتوں کو قرآن میں ان تین مقامات پر بیان کیا گیا ہے۔ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حج سے متعلق یہ چند اہم باتیں بتلائیں ہیں :
۱۔اللہ کا پہلا گھر مکہ میں واقع ہے۔اللہ کا پہلا گھر حضرت آدم (علیہ السلام) نے بنایا تھا۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں اپنے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کو لے کر پرانی بنیادوں پر کعبۃ اللہ کو تعمیر فرمایا تھا ۔
۲۔اس کو دنیا کی ہدایت کا مرکز بنایا گیا اور امن کا مقام بنایا گیا ۔یہ اس وقت بھی پر امن رہا جب مکہ میں قریش نے اس کو توحید کے بجائے شرک کا مرکز بنادیا گیا تھا ۔مکہ میں قریش کو عزت بھی حاصل تھی اور ان کو امن بھی نصیب تھا اس وجہ سے کہ وہ کعبہ کے متولی و مجاور تھے۔
۳۔اللہ تعالیٰ نے ابراھیم (علیہ السلام) کو بڑے امتحانات میں آزمایاجن میں وہ کامیاب اترے اورانہوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ اللہ کے ہر حکم کے آگے سرِ تسلیم خم کرنے والے ہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم کو انسانوں کا امام بنانے والا ہوں (سورۃ البقرۃ ۱۲۴)۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی تھی کہ انسانیت کی امامت کا وعدہ ان کی ذریت کے حق میں بھی پورا کیا جائے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ امامتِ انسانیت ،ظالموں کے حصے میں نہیں آئے گی ۔پھر آپ نے دعا کی کہ اس مکہ شہر کو امن کا گہوارہ بنادے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور آخرت کو مانیں انہیں ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا کا سازوسامان تو ان کو بھی دیا جائے گا جو کفرانِ نعمت کریں گے لیکن آخرت میں وہ نامراد ہوں گے۔یعنی دنیاوی رزق تو سب کو ملے گا چاہے وہ اللہ کے فرماں بردار ہوں یا نافرمان(سورۃالبقرۃ ۱۲۶) لیکن دنیا کی امامت ان ہی کو ملے گی جو ظلم کے نہیں بلکہ عدل و قسط کے پیکر ہوں گے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کو اقتدار جب بھی ملے وہ ظلم کو ختم کرکے عدل و قسط کے نظام کو قائم کرنے کی کوشش کریں ۔ورنہ امامت وقیادت کے منصب سے ان کو ہٹا دیا جائے گا۔مسلمانوں کے ہاتھوں سے قیادت اس وقت چھین لی گئی جب انہوں نے دنیا سے ظلم کو ختم کرنے اور دعوت واصلاح کی اہم ذمہ داری سے روگردانی کی ۔
۴۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مکہ میں ایسی نشانیا ں رکھ دی گئیں کہ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نے کس طرح ایک بے آب و گیا وادی کو اپنی قدرت و رحمت سے امن وامان کا گہوارہ اور ہدایت کا مرکز بنادیا ۔
ان نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) مکہ کی بےآب و گیا وادی میں اسماعیل (علیہ السلام) اور ان کی والدہ کو چھوڑ کر اللہ کے حکم پر جب وہاں سے نکلے تھے تو اس وقت وہاں اللہ تعالیٰ نے آبِ زمزم کو معجزہ سے جاری فرمایا جو آج تک جاری ہے ۔جبکہ اطراف واکناف میں پانی حاصل کرنے کے کوئی ذرائع موجود نہیں ہیں ۔مکہ جو بے آب وگیا وادی تھا وہ ام القری ٰ (شہروں کی ماں ) بن کر سارے عرب کا مذہبی و تجارتی مرکز بن گیا ۔ شہر وہیں آباد ہوتے تھے جہاں پانی دستیاب ہوتا تھا اور اسی پانی کی بدولت نخلستان وجود میں آتے تھے۔
دوسری نشانی یہ ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کی قبولیت کی بناپر ہر دورمیں یہ امن کا شہر رہا ۔تجارتی مرکز بننے کی وجہ سے ہر دورمیں یہاں رزق کی فراوانی رہی ہے۔تجارتی قافلے گرما میں مکے سے شام کی طرف اور جاڑے کے موسم میں یمن کی طرف روانہ ہوتے تھے۔ اس طرح سے مکہ شہر ایک تجارتی مرکز بھی بن گیا تھا۔
تیسری نشانی یہ ہے کہ ابرہہ جب کعبۃ اللہ کو ڈھانے کی بری نیت کے ساتھ ہاتھیوں کی فوج کو لے کر آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ارادوں کو پرندوں کی فوج کو بھیج کر ناکام بنادیا تھا۔ جب مکہ کے سردار عبدالمطلب نے مکہ والوں سے مکہ خالی کرکے کعبۃ اللہ کو اللہ کی حفاظت میں یہ کہ کر دے دیا تھا کعبۃ اللہ کو ربِ کعبہ ہی بچائے گا ۔
چوتھی نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد (ﷺ) کے ذریعے کعبۃ اللہ کی تطہیر فرمائی اور توحید کے مرکز کو بتوں سے پاک کردیا ۔ اسی حقیقت کو رسول اللہ (ﷺ) نے عیدین کے خطبات میں تکبیر کی صورت میں پڑھتے تھے: لا الہ الا اللہ وحدہ و صدق و عدہ و نصر عبدہ و اعزجندہ و ھزم الاحزاب وحدہ۔ ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے۔ اس نے اپنے وعدے کو سچا کر دیا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اس کے لشکر کو غالب کیا اور اس اکیلے نے تمام گروہوں کو شکست دی ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول کے ذریعے کعبۃ اللہ کو اور جزیرہ نمائے عرب کو شرک کے تمام اثرات سےپاک فرمایا ۔یہ اللہ کی قدر ت کی ایک نشانی ہے۔
پانچویں نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حج کے مناسک کو اپنے خلیل ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوتی زندگی سے جوڑ دیا ۔طواف ،سعی ، جمرات اور قربانی حضرت ابراہیم( علیہ السلام) کی قربانیوں والی زندگی سے ماخوذ ہیں جو حج کے ارکان وواجبات ہیں۔ ابراہیم( علیہ السلام) نے اپنے وطن میں دعوتی سرگرمی کا آغاز کیا تو سب سے پہلے اپنے باپ کے سامنے دعوت پیش کی۔جب باپ نے گھر سے نکال دیا تو اپنے ہم وطنوں میں اللہ کی توحید کو پیش کیا اور تمثیل سے سمجھایا کہ ستارے ،چاند اور سورج سب اللہ کے مطیع فرماں بردار بن کر اس کی اطاعت کررہے تو ہم بھی اس رب کی بندگی کریں جس کی اطاعت کائنات کی ہر شے کررہی ہے۔اس کے بعد بادشاہ کے سامنے پیشی ہوئی تو اس کے سامنے بھی جرأت و پامردی سے اللہ کا تعارف پیش کیا اور نمرود کو یہ کہہ کر لاجواب کردیا کہ میرا رب وہ ہے جو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ۔اگر تیرے پاس قدرت ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھادے۔نمرود جب دلیل سے آپ کا مقابلہ نہ کر سکا تو اس نے دھمکی دی کہ وہ انہیں دہکتی آگ میں ڈال دے گا۔ اس دھمکی کے باوجود آپ استقامت کا پہاڑ بنے رہے اور اپنے رب پر توکل کیا ۔جب آپ کو آگ میں ڈالا گیا تو ایک معجزہ رونما ہوا اور وہ آگ ابراھیم (علیہ السلام) کے لیے سلامتی بن گئی: قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ ۔ہم نے کہا ”اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر“ (سورۃ الانبیاء۶۹) یہ پہلا امتحان تھا جس میں ابراہیم (علیہ السلام) نے کامیابی حاصل کی ۔اس کے بعد اپنے وطن کو چھوڑا اور ہجرت اختیارکی ۔دوسرا امتحان یہ تھا کہ بڑھاپے میں پیداہونے والے شیر خوار بیٹے کو اور اپنی بیوی ہاجرہؑ کو اللہ کے حکم سے بے آب وگیا وادی میں اللہ کے توکل پر چھوڑ کر آپ کو نکل جانے کا حکم ہوا ۔مکہ کے ریگستان میں پانی کی تلاش میں بی بی ہاجرہ کا صفااور مروہ کے درمیان چکر لگانا اللہ کو اتنا پسند آگیا کہ اس کو حج کے مناسک میں شامل کردیا۔ اب قیامت تک عمرہ و حج کرنے والے سعی کرتے ہیں جو بی بی ہاجرہ کے توکل و سعی کے عمل کی یادگارہے۔ تیسراامتحان یہ تھا کہ جب اسماعیل (علیہ السلام) لڑکپن کی عمر کو پہنچے تو خواب کے ذریعے حکم ہوا کہ اپنے اس بیٹے کو ذبح کریں جو بڑھاپے کا سہارا تھا ۔اس حکم کی تعمیل میں باپ اور بیٹے دونوں نے سرتسلیم خم کردیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی کہ : قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ۔تو نے خواب سچ کر دکھایا۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ (سورۃ الصافات ۱۰۵) اس امتحان کے دوران شیطان وسوسے پیدا کرتا رہا جس کی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نفی کرتے رہے ۔اس نفی کے عمل کو شیطان پر کنکری مارنے کا عمل بنادیا جو حج کے واجبات میں شامل ہے جس کے بغیر حج مکمل نہیں ہوسکتا ۔جب ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کے گلے پر چھری چلادی تو اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو مینڈھے کی قربانی سے بدل دیا اور اس کو قیامت تک کے لیے حج کرنے والوں اور نہ کرنے والوں دونوں کے لیے واجب بنادیا کہ وہ ۱۰ ذو الحجہ کو قربانی کریں ۔اسی طر ح مقام ابرہیم کے بارے میں فرمایا کہ اس کو مصلّی بنالو ۔ابراھیم (علیہ السلام) کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اس گھر کی تعمیر کرکے اس کو طواف ، اعتکاف ، رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو۔طواف بھی حج کا ایک اہم رکن ہے ۔اس طرح حج کے تمام ارکان و واجبات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اللہ سے والہانہ محبت و وفاداری سے پر زندگی سے جوڑ دیا گیا تاکہ ان کا یہ فرماں بردارانہ نمونہ ایام ِ حج میں مناسک حج انجام دینے والوں کو یاد رہے ۔
چھٹی نشانی یہ ہے کہ عرفات کے میدان میں ساری دنیا سے لوگ ہر ملک و نسل کے جمع ہوتے ہیں ۔سب ایک ہی لباس میں ہیں اور ہر ایک کی زبان پر ایک ہی جملہ جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ : لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ۔ ’’حاضر ہوں اے خدا میں حاضر ہوں! تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے ہی لیے تعریفیں ہیں ،نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں…حاضر ہوں اے خدا میں حاضر ہوں۔یہاں رنگ ونسل کی ساری تفریقیں ختم کردی گئیں۔یہ عالم گیر اجتماع دنیا کو مساوات کا سب سے بڑا سبق دیتا ہے اوریہ دنیا سے نسلی برتری کی نحوست کو ختم کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔ کالے، گورے ،شاہ و فقیر کا ہر فرق میدان عرفات میں ختم کردیا جاتا ہے۔ میلکم یکس (۱۹۲۵-۱۹۶۵) جو امریکہ میں نیشن آف اسلام کے اہم رکن تھے، ان کو ۱۹۶۴ء میں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تو انہوں نے انسانی مساوات کا ایسا سبق سیکھا کہ ان کی سوچ بدل گئی ۔وہ حج سے پہلے گوروں کو مجسم برائی سمجھ رہے تھے ۔حج کرنے کے بعد ان کو حقیقی اسلامی تعلیمات سے آگہی ہوئی ۔حج کے بعد جب انہوں نے نیشن آف اسلام سے کنارہ کشی اختیار کی تو اس کی پاداش میں ان کو قتل کردیا گیا ۔
یہ وہ فوائد ہیں جن کے مشاہدہ (لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ )کے لیے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر صاحبِ استطاعت مسلمان بطورِ فرض، حج کرنے کی سعادت حاصل کرے ۔
۵۔حج کرنے کے دوران شہوانی باتوں، بدعملی اور لڑائی جھگڑے سے دور رہنے کی تاکید کی گئی ہے ۔حج کے دوران مرد و زن کے اختلاط سے بچنا ممکن نہیں ہوتا اور ہر وقت اس بات کو امکان رہتا ہے کہ حالتِ احرام میں غیر محرم پر نظر پڑ جائے ۔حجاج کی کوشش ہوتی ہے کہ حج کے مصارف اور حج کی مشقت،بدنظری کی وجہ سے ضائع نہ ہوجائے۔ بالخصوص دوران حج حالتِ احرام میں خواتین کے لیے لازم ہوتا ہےکہ اپنے چہرے کو کھلا رکھیں۔اس طرح اللہ تعالیٰ چاہتا ہےکہ حاجیوں کی آزمائش ہو۔حج کے دوران اس بات کا بھی امکان رہتا ہےکہ ایک فرد سے دوسرے کو تکلیف پہنچے۔ غصے کی وجہ سے آپے سے باہر ہونے کے بھی کئی مواقع آسکتے ہیں۔اس دوران لڑائی جھگڑے سے دور رہ کر اپنے حج کی حفاظت کی جانی چاہیے۔حج اسی وقت مقبول ہوگا جب بد نظری، برے خیالات، بد عملی اور لڑائی جھگڑے سے حج کی حفاظت کی جائے۔
۶۔حج کا سب سے بڑا رکن وقوفِ عرفات ہے۔ عرفات کا میدان جس میں سارے لوگ سفید احرام میں ملبوس ہوتے ہیں اس بات کو یاد دلاتا ہے کہ میدان حشر میں بھی ہم اللہ کے حضور اسی طرح پیش ہوں گے۔وہاں پر امیر غریب ،کالے اور گورے سب برابر ہوں گے۔ سب ڈر رہے ہوں گے کہ نہ جانے ان کا اعمال نامہ کس ہاتھ میں دیا جائے گا۔
۷۔حج بیک وقت مالی عبادت بھی ہے اور بدنی عبادت بھی ۔حج ایک ایسا مجاہدہ ہے جس میں حاجی اپنے گھر کی آسائشوں سے دور رہتا ہے اور کیمپ کی زندگی گزارتا ہے۔حج کے ایام کسی حدتک مجاہد کی زندگی سے مماثلت رکھتے ہیں جو میدان جہاد میں اللہ کی راہ میں اپنی جان کی بازی لگانے کے لیے تیار رہتا ہے۔
۸۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حج ایک اہم عبادت ہے جو اہل استطاعت پر فرض ہے۔جو استطاعت رکھنے کے باوجود اس اہم عبادت سے غفلت کریں ان کے لیے یہ فرمایا گیا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ ایسے لوگ کفر کے مرتکب ہوں گے۔دنیا میں اللہ تعالیٰ نے جس مقام کو انتہائی بابرکت اور مقدس بنایا ہے اور اس میں کئی نشانیاں رکھی ہیں ان کو دیکھنے کی آرزو کا نہ رکھنا اللہ تعالیٰ سے بے نیازی برتنا ہے۔یہ رویہ اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔
۹۔حج کی عبادت دراصل ہمارے اندر ابرھیم (علیہ السلام) کی یاد تازہ کرتی ہے۔اللہ تعالی چاہتا ہے کہ حج کے ذریعے حضرت ابراہیم، بی بی ہاجرہ اور اسماعیل (علیہم السلام) کی اللہ کے آگے خود سپردگی کی کیفیت کا ہمارے اندر بھی اثر پیدا ہو۔اس نے جب ان سے کہا اسلِم تو انہوں نے کہا : اسلمتُ لِربِّ العالمین ۔
۱۰۔ابراہیم( علیہ السلام) کی قربانیوں کے ساتھ آپ کا دعوتی مشن جاری وساری تھا جو ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔آپ نےاپنا وطنِ عزیز چھوڑا اور ساری زندگی توحید کے پیغام کو بندگان ِ خدا تک پہنچانے کے لیے کبھی اردن تو کبھی فلسطین تو کبھی حجاز میں محوِ سفر رہے ۔مکہ میں اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو متعین فرمایا تو اردن میں اپنے بھتیجے لوطؑ کو ایک بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح کے کام پر لگایا ۔اور فلسطین میں آپ نے حضرت اسحاقؑ کو بسایا جن سے بنی اسرائیل کی نسل نکلی ۔لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے بیٹے یعقوب (علیہ السلام) کی زندگی ہی میں یوسف (علیہ السلام) کی دعوت پر بنی اسرائیل کی قوم مصر منتقل ہوئی ۔ پھر موسی (علیہ السلام) کے بعدبنی اسرائیل فلسطین کی طرف لوٹے لیکن بہت جلد ان کی سرکشی کی وجہ سے وہ دو بار تباہی کا شکار ہوکر فلسطین سے جلا وطن ہوئے۔ اس پر یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ فلسطین ہمیشہ سے ان کی سر زمین رہی ہے۔
۱۱۔جب تک ہم حج کا عملاً تجربہ نہیں کرتے ہم ان فوائد کا مشاہدہ نہیں کر سکتے، بالکل اسی طرح جیسے کسی مقام کی سیرو سیاحت کیے بغیر ہم اس کے بارے میں صرف پڑھ کر یا سن کر حقیقی مشاہدات کا لطف حاصل نہیں کرسکتے ۔
***
عرفات کے میدان میں ساری دنیا سے لوگ ہر ملک و نسل کے جمع ہوتے ہیں ۔سب ایک ہی لباس میں ہیں اور ہر ایک کی زبان پر ایک ہی جملہ جاری ہے اور وہ یہ ہے کہ : لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ۔ ’’حاضر ہوں اے خدا میں حاضر ہوں! تیرا کوئی شریک نہیں،تیرے ہی لیے تعریفیں ہیں،نعمتیں اور بادشاہت تیری ہے، تیرا کوئی شریک نہیں…حاضر ہوں اے خدا! میں حاضر ہوں۔یہاں رنگ ونسل کی ساری تفریقیں ختم کردی گئیں۔یہ عالم گیر اجتماع دنیا کو مساوات کا سب سے بڑا سبق دیتا ہے اوریہ دنیا سے نسلی برتری کی نحوست کو ختم کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔کالے، گورے ،شاہ و فقیر کا ہر فرق میدان عرفات میں ختم کردیا جاتا ہے۔ میلکم یکس (۱۹۲۵-۱۹۶۵) جو امریکہ میں نیشن آف اسلام کے اہم رکن تھے، ان کو ۱۹۶۴ء میں حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی تو انہوں نے انسانی مساوات کا ایسا سبق سیکھا کہ ان کی سوچ بدل گئی ۔وہ حج سے پہلے گوروں کو مجسم برائی سمجھ رہے تھے ۔حج کرنے کے بعد ان کو حقیقی اسلامی تعلیمات سے آگہی ہوئی ۔حج کے بعد جب انہوں نے نیشن آف اسلام سے کنارہ کشی اختیار کی تو اس کی پاداش میں ان کو قتل کر دیا گیا ۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 02 جون تا 08 جون 2024