
ڈاکٹر ساجد عباسی، حیدرآباد
اسلام کے پانچ ارکان میں سے حج ایک اہم رکن ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ حج عبادت کا ایک عظیم الشان مظہر ہے جس میں روحانی، اخلاقی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی پہلو بھی شامل ہیں۔ ہر سال لاکھوں مسلمان دنیا کے مختلف گوشوں سے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں اور سب یکساں طریقے سے ایک ہی طرح کا لباس پہن کر حج کے مناسک ادا کرتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَِلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ فِيهِ آيَاتٌ بَيِّـنَاتٌ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَمَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (سورۃ آل عمران ۹۶، ۹۷) ’بے شک سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر ہوئی وہ وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے۔ اس کو خیر و برکت دی گئی تھی اور تمام جہان والوں کے لیے مرکزِ ہدایت بنایا گیا تھا۔ اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں۔ ابراہیم ؑ کا مقام عبادت ہے اور اس کا حال یہ ہے کہ جو اس میں داخل ہوا مامون ہوگیا۔ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے‘‘
اس آیت میں یہ بتایا گیا کہ سب سے پہلی عبادت گاہ جو انسانوں کے لیے تعمیر کی گئی ہے وہ وہی ہے جو آج مکہ میں کعبۃ اللہ کی شکل میں واقع ہے جس کو ابراہیم علیہ السلام نے ایک اللہ کی بندگی کے لیے تعمیر کروایا تھا۔ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ آدم علیہ السلام کے زمانے ہی میں اس گھر کی تعمیر کی گئی تھی۔ حوادثِ زمانہ سے یہ منہدم ہوتا رہا۔ ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ اس کی تعمیرِ نو قدیم بنیادوں پر کریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی سب سے اول اور قدیم عبادت گاہ مکہ میں کعبۃ اللہ ہے اور دینِ اسلام آغازِ انسانیت سے اللہ کی طرف سے انسانوں کے لیے بھیجا ہوا قدیم دین ہے جس کی بنیاد توحید پر ہے۔ مکہ کا ایک اور نام بکہ ہے جس کا ذکر قدیم صحیفوں میں آیا ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ انسانوں کے لیے اللہ کا بنایا ہوا عبادت کا مرکز ہے۔ ایک نشانی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کو پرامن شہر بنایا جبکہ اس کے اطراف واکناف میں بدامنی پائی جاتی تھی (اور آج بھی پائی جاتی ہے)۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے توحید کا مرکز بنایا تھا لیکن ابراہیم علیہ السلام کے بعد بنی اسماعیلؑ میں بگاڑ پیدا ہوا۔ چنانچہ اس میں بتوں کو رکھ کر اس کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کو بھیجنے کا ایک مقصد یہ تھا کہ دوبارہ کعبۃ اللہ توحید کا مرکز بن جائے اور دینِ اسلام فکری لحاظ سے دنیا میں غالب دین بن جائے (سورۃ التوبہ ۳۳، الصف ۹)۔ سیاسی لحاظ سے بھی دینِ اسلام رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جزیرۃ العرب میں غالب دین بن گیا تھا اور اس کے بعد دینِ اسلام ایشیا، افریقہ اور یورپ تک پھیل چکا تھا۔ سیاسی و فوجی لحاظ سے مسلم مملکتوں کو عروج و زوال نصیب ہوتا رہا لیکن اسلام ہمیشہ پھیلتا ہی رہا ہے جس کا مرکز آج بھی مکہ مکرمہ ہے۔
انسانوں کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ سب سے پہلی چیز جو انسان سے مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو پہچانے۔ وہ اگر اپنے خالق کو نہ پہچانے تو وہ اپنے مقصدِ زندگی میں ناکام ہوجاتا ہے۔ خالق کو پہچاننے کے بعد جو چیز انسان پر لازم آتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کی عبادت کرے۔ عبادت کے مفہوم میں مراسمِ عبودیت کے ساتھ اللہ کی اطاعت، اس کے احسانات پر شکر اور اس سے محبت، ہر حال میں اللہ پر توکل اور اس کے راستے میں صبر شامل ہے۔ مراسمِ عبودیت میں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ حج ایسی جامع عبادت ہے جس میں روحانی، جسمانی اور مالی عبادات شامل ہیں۔ جب کعبۃ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے سارے مسلمانوں کے لیے قبلہ یعنی مرکز بنایا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ امتِ مسلمہ کے اتحاد کی علامت ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی کاوشیں متضاد سمتوں میں نہ ہوں۔ طبعی قانون کے مطابق مختلف قوتیں جب ایک سمت میں کام کرتی ہوں تو بہت بڑی قوت بن جاتی ہیں۔ لیکن جب یہی قوتیں مختلف سمتوں میں کام کرنے لگتی ہیں تو مجموعی قوت صفر کے برابر ہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ کعبۃ اللہ عالمِ اسلام کا ایسا مرکز بن جائے جو سارے مسلمانوں کے لیے اتحادِ عمل کا ذریعہ بھی بنے۔ باطل طاقتوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی قوتیں ایک ہی مقصد کے لیے مجتمع ہوں۔ اسی صورت میں حق کا غلبہ ہوسکتا ہے۔
سورۃ آل عمران کی ان آیات کے بعد اگلی آیات ۱۰۴، ۱۱۰ میں اللہ تعالیٰ نے براہِ راست مسلمانوں کو مخاطب کرکے ان کے مقصدِ وجود کو واضح انداز میں پیش فرمایا تاکہ یہ ہر مسلمان کے شعور میں زندہ رہے۔ جس طرح مسلمانوں کا ایک قبلہ ہے اسی طرح ان کا مقصدِ وجود بھی ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی ہدایت کی روشنی میں امتِ مسلمہ دنیا کی رہنمائی کرے، نیکیوں کو پھیلائے اور برائیوں کو دور کرے۔ جہاں باطل طاقتیں دنیا میں فتنہ و فساد کو برپا کرتی ہیں وہاں اہلِ ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ نیکیوں کو فروغ دیں، برائیوں کو روکیں اور زمین میں اصلاح کرتے ہوئے عدل و انصاف قائم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے حج کو ان مسلمانوں پر فرض فرمایا ہے جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔ جو حج کی استطاعت رکھتے ہوئے حج نہ کریں تو ان کی اس غفلت کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
شرعی اصطلاح میں حج، ذوالحجہ کے مہینے کی ۸ سے ۱۳ تاریخوں میں مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف میں اللہ کے لیے خاص مناسک ادا کرنے کا نام ہے، جیسے طواف، سعی، عرفات میں وقوف، رمی جمرات، قربانی وغیرہ۔ حج کے مناسک ابراہیم علیہ السلام کی سیرت کو یاد دلاتے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چند باتوں میں آزمایا جن میں آپ پورے اترے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانیت کا امام بنایا (سورۃ البقرۃ ۱۲۴)۔ آج یہودی، عیسائی اور مسلم ملا کر جو تقریباً دنیا کی آدھی آبادی (4.3 بلین) سے بھی کچھ زیادہ ہیں، ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پیشوا مانتے ہیں۔ چونکہ آپ توحید کے علم بردار تھے اور یکسو ہو کر اپنی زندگی کو اللہ کے سپرد کر دیا تھا اس لیے دینِ حنیف کو عملاً آپ کی سیرت سے جوڑا گیا ہے۔ یعنی ابراہیم علیہ السلام دینِ حنیف کی عملی تفسیر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ابو الانبیا بنایا۔ بنی اسرائیل کے سارے انبیاء و رسل اور بنی اسماعیل میں سے خاتم الانبیاء سیدنا محمد ﷺ آپ ہی کی نسل سے ہیں۔ حج کے تمام ارکان ابراہیم علیہ السلام کی سیرت سے وابستہ ہیں۔ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ وہ لوگوں کو حج کی طرف بلائیں (سورۃ الحج، آیت: ۲۷)۔ حج میں طوافِ زیارت ایک اہم رکن ہے جس کو طوافِ افاضہ کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کو خانہ کعبہ کی تعمیر کا حکم دیا اور ان سے کہا کہ اسے طواف، اعتکاف اور رکوع و سجود کے لیے پاک رکھیں (سورۃ البقرہ: ۱۲۵)۔
صفا اور مروہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان سات چکر لگانا جس کو حج کا رکن بنایا گیا، یہ حضرت ہاجرہؑ کی سنت ہے جنہوں نے اپنے شیرخوار بچے (اسماعیل) کے لیے پانی کی تلاش میں یہ چکر لگائے تھے۔ انہوں نے بے آب و گیاہ وادی میں اللہ کے توکل پر ریگستان میں نوزائیدہ بچے کے ساتھ ٹہرنا گوارا کیا تھا۔ اللہ نے اس عمل کو قیامت تک کے لیے عبادت کا درجہ دے دیا۔
رمی جمار (کنکریاں مارنا): منیٰ میں تین شیطانوں کو کنکریاں مارنا، جو ۱۰ سے ۱۳ ذوالحجہ تک کیا جاتا ہے۔ یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت کی یادگار ہے جب انہوں نے شیطان کو کنکریاں مار کر اس کے وسوسوں کو رد کیا جب وہ حضرت اسماعیل کو قربان کرنے جا رہے تھے۔
قربانی: ابراہیم علیہ السلام کے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے کے ذبح کرنے کے عمل کی یاد میں جانور کی قربانی حج کے مناسک کا حصہ بنادیا گیا جو ۱۰ ذوالحجہ کو کی جاتی ہے۔ جانور کی قربانی سارے عالم میں عید الاضحیٰ کے موقع پر مسلمان انجام دیتے ہیں۔ یہ سارے مناسکِ حج حضرت ابراہیمؑ کی زندگی سے لیے گئے جو ایثار، قربانی، ایفائے عہد اور تسلیم و رضا سے عبارت ہیں۔ حج کی عبادت ایک مسلمان کو حضرت ابراہیمؑ کی سیرت سے جوڑتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو قرآن میں حنیف، قانت اور خلیل اللہ کے القاب سے یاد کیا ہے یہاں تک کہ ایک مقام پر فرمایا کہ وہ اپنی ذات میں ایک امت تھے:
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (سورۃ النحل ۱۲۰)
’’واقعہ یہ ہے کہ ابراہیم اپنی ذات سے ایک پوری اُمت تھے، اللہ کے مطیعِ فرمان اور یکسو۔ وہ کبھی مشرک نہ تھے۔‘‘
ایک فرد واحد کو امت کہنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دعوتی کام کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔ جو کام ایک امت کے کرنے کا تھا انہوں نے تنہا انجام دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وصف جو بار بار قرآن میں دہرایا گیا وہ یہ ہے کہ وہ مشرک نہ تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آج بعض بزرگوں کی قبروں کو شرک کے اڈوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے، مسلمان قرآن جیسی کتاب رکھ کر اور ابراہیم علیہ السلام کے اسوہ کو سامنے رکھ کر بھی شرک کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اللہ کو ناراض کرکے اس کے غضب کو دعوت دے رہے ہیں!
حج کے مقاصد کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ (سورۃ الحج: ۲۸)
’’تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں ان کے لیے رکھے گئے ہیں۔‘‘
اس آیت میں حج کے فوائد کا مشاہدہ کرنے کو حج کا مقصد بیان کیا جا رہا ہے۔ حج میں وہ کون سے فائدے ہیں جن کا حج کرنے والے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ حج کے فوائد کے کئی پہلو ہیں:
1۔ سماجی پہلو:
ایک اہم منظر جو اللہ تعالیٰ ہم کو حج میں دکھانا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک اللہ کی محبت میں، اللہ کی پکار پر لبیک کہہ کر دنیا کے کونے کونے سے مسلمان جمع ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ جمع ہوتے ہیں، ان کے درمیان نسلی، علاقائی اور لسانی فرق مٹ جاتا ہے اور سب ایک طرح کے درویشانہ لباس میں ملبوس ہو کر ایک ہی طرح کے اعمال (مناسک) انجام دیتے ہوئے وحدتِ انسانیت کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔ اس دوران حجاج کرام کے قلوب میں اللہ کی محبت اور توحید موجزن ہوتی ہے۔ حج میں حاجیوں کے باطن میں توحید ہے تو ظاہر میں وحدتِ انسانیت کا عظیم الشان نظارہ ہے۔ آج دنیا میں فساد، جنگ و جدل اور خون خرابے کی اہم وجہ یہ ہے کہ بعض انسانوں کے دلوں میں اپنے رنگ و نسل کی جھوٹی برتری کے احساسِ تفاخر نے دوسرے انسانوں سے نفرت پیدا کر دی ہے۔ اس نفرت کے جذبات نے انسانوں کے درمیان دیواریں حائل کر دیں، ملک تقسیم کیے اور ان سے ملکوں کے درمیان خونریز جنگیں ہوئیں۔ آج بھی نفرت کے ان جذبات نے جنگ کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔
حج ایک ایسی عبادت ہے جو نسلی تفاخر کو جڑ سے ختم کر دیتی ہے۔ گورے اور کالے، امیر اور غریب کا ظاہری فرق ختم کر دیتی ہے۔ حجاج کرام ایک عارضی بستی میں جمع ہو کر جذبۂ توحید سے سرشار ہو کر اللہ کی کبریائی کو بیان کرتے ہیں۔ سب درویشانہ لباس پہن کر ایک ہی وقت میں ایک طرح کے مناسک ادا کرتے ہیں۔ نسلی برتری کے خطرناک احساسات کو ختم کرنے کا حج سے بہتر نسخہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (سورۃ الحجرات: ۱۳)
’’لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزّت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقیناً اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘
دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے سب سے پہلے ان قلوب کی اصلاح ضروری ہے جن میں نسلی برتری کے خطرناک جراثیم پائے جاتے ہیں۔ نسل و رنگ کی بنیاد پر انسانوں کو تقسیم کیا جاتا ہے، پھر اعلیٰ نسل کے لوگ ادنیٰ نسل کو استحصال کرتے ہیں، ان کو غلام بناتے ہیں اور ان پر ظلم کرتے ہیں۔ سب سے بدترین غلامی یہ ہے کہ انسانوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالی جائے کہ وہ پیدائشی طور پر اعلیٰ اور ادنیٰ پیدا ہوتے ہیں۔ تاریخ بھری پڑی ہے رنگ و نسل کی بنیاد پر جنگ و جدل اور قتلِ عام کے واقعات سے۔ بوسنیا اور روانڈا کی نسل کشی سب کے سامنے ہے۔
یہ وہ عظیم فائدہ ہے جس کا مشاہدہ اللہ تعالیٰ حجاج کرام کو کرواتے ہیں اور یہ منظر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا کے ہر ملک سے مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ کائنات کی سب سے بڑی سچائی پر جمع ہوتے ہیں اور یہ سچائی یہ ہے کہ اس کائنات کا صرف ایک خالق ہے۔ وحدتِ انسانیت کا اس سے بہتر مظاہرہ نہیں ہو سکتا۔
انسانوں نے خود ساختہ عقائد کی بنیاد پر نسلی تفوق کے جو تصورات بنا لیے ہیں حج ان کی نفی کرتا ہے اور عملاً ہر نسل، رنگ و زبان کے لوگوں کو اپنے خالق کی بندگی کے نکتہ پر جمع کرتا ہے۔ حج کا یہ اجتماع یہ اعلان کرتا ہے کہ پیدائشی طور پر انسان اور انسان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کوئی انسان گناہ کو لے کر پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہر انسان احسنِ تقویم پر پیدا ہوتا ہے۔ انسانوں کے اندر امتیاز اگر ہے تو انسان کے علم و عمل اور تقویٰ کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔
2۔ اعتقادی پہلو:
انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ جب بھی وہ اپنے آپ کو بے بس اور عاجز محسوس کرتا ہے تو وہ ایسی طاقت کی طرف پلٹنا چاہتا ہے جو اس کی مصیبت کو دور کرے۔ لیکن انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ اپنے خالق کو پانے کے بجائے مخلوق ہی میں سے کسی کو خالق کا درجہ دے کر اس سے استعانت طلب کرتے ہیں۔ وہ ان کا قرب حاصل کرنے کے لیے ان مقامات کی یاترا کرتے ہیں جہاں ان کے خودساختہ معبودوں کے مراکز بنائے گئے ہیں۔ خودساختہ مراسمِ عبودیت بجالاتے ہیں اور اپنی قربانیاں پیش کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے عقیدے کی اصلاح کرتے ہوئے عبادت میں خالص اپنی بندگی کا مطالبہ کیا اور پاکیزہ مراسمِ عبودیت کو مقرر کیا اور اسی کے نام پر قربانی کے طریقے کو رائج فرمایا۔ حج ایسی عبادت ہے جس میں خانہ کعبہ کی طرف ساری دنیا کے کونے کونے سے سفر کیا جاتا ہے، اللہ کے مقرر کردہ مراسمِ عبودیت بجا لائے جاتے ہیں اور اللہ کا نام لے کر جانور ذبح کرکے اپنی قربانیاں پیش کی جاتی ہیں۔ قربانی کا گوشت خود بھی کھاتے ہیں اور فقراء کو بھی کھلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو نہ گوشت پہنچتا ہے اور نہ خون بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے (سورۃ الحج: ۳۷)۔
اللہ کی عبادت اور قربانی کو سورۃ الکوثر میں اس طرح پیش کیا گیا:
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (سورۃ الکوثر: ۲)
’’پس تم اپنے ربّ ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘
اس طرح دنیا میں جب لوگ غیر اللہ کے آستانوں پر جاکر ان کی پرستش کرتے ہیں اور وہاں پر غیر اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی پیش کرتے ہیں، وہیں اسلام نے حج کی عبادت کو فرض کرکے مراسمِ عبودیت کو اللہ کے لیے خالص کرکے اسی کے نام پر قربانیاں پیش کرنے کا طریقہ سکھایا ہے۔
3۔ اتحادِ امت:
حج میں جہاں وحدتِ انسانیت کا مشاہدہ کروایا جاتا ہے وہیں حج سارے عالم کے مسلمانوں کے اتحاد کا بھی ایک نایاب موقع فراہم کرتا ہے۔ ایک اللہ کی بندگی، ایک رسول کا نمونہ، ایک مقصدِ زندگی، ایک دستورِ حیات (قرآن) اور ایک قبلہ — کیا یہ سب اتحادِ امتِ مسلمہ کے لیے مضبوط بنیادیں نہیں ہیں؟ ایک امت ہونے کا زندہ احساس اگر حج کے عالمگیر اجتماع سے بھی پیدا نہ ہو تو پھر امت کن چیزوں پر متحد ہوگی؟ اتحاد کی اتنی مضبوط بنیادوں کی موجودگی کے باوجود جزیات اور فقہی اختلافات کی بنیاد پر امت کیسے افتراق کا شکار ہو سکتی ہے؟ جب امتِ مسلمہ اپنا مقصدِ وجود بھلا دیتی ہے تو اسی وقت میں جزیات و فروعات اہمیت کے حامل بن جاتے ہیں اور امت میں افتراق کا باعث بنتے ہیں۔
حج کے دوران ہونے والے روابط عالمِ اسلام کے قائدین کے مابین سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور سماجی میدانوں میں تعاون کا سبب بن سکتے ہیں۔ حج کے بعد کے چند ایام میں عالمِ اسلام کی مرکزی قیادت مسلم ممالک کے آپسی اختلافات کو دور کر سکتی ہے اور تعاون و اشتراک کے کئی امور طے کیے جا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حج کی عبادت کو عالمِ اسلام کے مرکز میں جمع ہو کر آپسی اتحاد پیدا کرنے کا ذریعہ موقع فراہم کیا ہے۔
4۔ آخرت کی یاد دہانی اور تزکیہ نفس:
احرام کے لباس میں دنیاوی زیب و زینت اور دنیاوی کاروبار سے کنارہ کش ہونے کے بعد انسان کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی اصل حقیقت کو پہچانے۔ جس طرح امیر و غریب احرام کے لباس میں یکساں حالت میں ہوتے ہیں اسی طرح ایک دن جب موت آئے گی تو اس وقت بھی ان کو بلا لحاظِ منصب و مرتبہ احرام ہی کی طرح کے بغیر سلے ہوئے کپڑوں میں دفنایا جاتا ہے۔ اس طرح حالتِ احرام میں اپنی موت کو یاد کیا جاتا ہے اور دنیا کی فانی چیزوں سے دل کا تعلق کم کرکے آخرت کی تیاری کی جاتی ہے۔ حج تزکیہ نفس کا عظیم ذریعہ ہے جہاں انسان اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہے اور نیک اعمال کے ذریعے اپنی روح کو پاکیزہ بناتا ہے۔
***
احرام کے لباس میں دنیاوی زیب و زینت اور دنیاوی کاروبار سے کنارہ کش ہونے کے بعد انسان کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی اصل حقیقت کو پہچانے۔ جس طرح امیر و غریب احرام کے لباس میں یکساں حالت میں ہوتے ہیں اسی طرح ایک دن جب موت آئے گی تو اس وقت بھی ان کو بلا لحاظِ منصب و مرتبہ احرام ہی کی طرح کے بغیر سلے ہوئے کپڑوں میں دفنایا جاتا ہے۔ اس طرح حالتِ احرام میں اپنی موت کو یاد کیاجاتا ہے اور دنیا کی فانی چیزوں سے دل کا تعلق کم کرکے آخرت کی تیاری کی جاتی ہے۔ حج تزکیہ نفس کا عظیم ذریعہ ہے جہاں انسان اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتا ہے اور نیک اعمال کے ذریعے اپنی روح کو پاکیزہ بناتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 مئی تا 31 مئی 2025