حج کا عالمگیر اجتماع، امّت کی مشترکہ میراث

مادہ پرستی نے متوسط طبقہ کے لیے حج کو مشکل بنا دیا

ڈاکٹر ساجد عباسی

مسلمانوں کو ایمان کے تقاضے پورا کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ خطبہ حج کو دنیا کے لیے اسلام کی دعوت پہنچانے کا ذریعہ بنایا جائے
خطبہ حج کے ذریعے امت کو یہ پیغام بھی ملنا چاہیے کہ وہ اپنا کھویا ہوا منصب و مقام حاصل کرے اور دنیا کی روحانی و اخلاقی قیادت کا رول ادا کرے۔
حج سارے عالم کے موحدین کا اجتماع ہے جو لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند کرتے ہوئے ایک ہی لباس میں ملبوس میدانِ عرفات میں صبح سے شام تک وقوف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سارے حجاج کے لیے میدانِ عرفات میں ایک عالمی خطبہ کا انتظام کیا ہے جس میں دور دراز سے آئے ہوئے مسلمانوں کے لیے وحدت کا پیغام ہو۔ مزید یہ کہ حج میں اس مقصد کی یاد دہانی ہو کہ امت اس مقصد کو پورا کرے جو اس کا مقصدِ وجود ہے۔ یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے امتِ مسلمہ کو امتِ وسط بنایا گیا تاکہ وہ شہادت علی الناس کا فریضہ انجام دیں ۔اسی مقصد کے لیے امتِ مسلمہ کو ساری انسانیت کے لیے نکالا گیا ہے اور اس کو خیر امت بنایا گیا۔ آج کے اس دور میں انسان نے ٹیکنالوجی میں تو بہت ترقی کی ہے لیکن اخلاقی طور پر وہ اسفل ترین بن چکا ہے۔ انسانیت ایک تاریکی سے دوسری اور دوسری سے تیسری تاریکی میں داخل ہوکر گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گھر چکی ہے۔انسانیت روحانی اعتبار سے مردہ ہوچکی ہے۔اس وقت امتِ مسلمہ کی ذمہ داری بہت بڑھ چکی ہے۔امتِ مسلمہ ہی روشنی کی حامل ہے لیکن آج وہ نورِ ہدایت کی امین ہو کر کتمانِ حق کی مرتکب ہو رہی ہے۔ حج کے ذریعے امت کو یہ پیغام ملنا چاہیے کہ وہ اپنا کھویا ہوا منصب و مقام حاصل کرے اور دنیا کی روحانی و اخلاقی قیادت کا رول ادا کرے۔ یہ رول اس کو دوسرے میدانوں میں بھی قیادت کے مقام پر بھی فائز کر دے گا جس طرح قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تو معاشی طور پر مسلم ملکوں کو مالامال فرمایا ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مغرب کی بالا دستی سے مغرب ممالک بالخصوص امریکہ کی عسکری و سیاسی قیادت ساری دنیا میں قائم ہوئی ہے۔اس لیے مسلم ممالک بے انتہا مالی وسائل رکھنے کے باوجود سیاسی طور پر آزاد نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ذریعے امت مسلمہ کو اس مقام پر فائز فرمایا ہے تاکہ قرآن کی روشنی سے دنیا کی ساری تیرگی دور کی جا سکے۔ تمام انسانی مسائل قرآن سے حل کیے جا سکیں۔ آج دنیا کی زمامِ کار ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو احمق اور بے رحم ہونے کے ساتھ بے انتہا طاقتور بھی ہیں۔احمق اس لیے ہیں کہ وہ نہ اپنے خالق سے واقف ہیں نہ ہی مقصدِ زندگی سے اور نہ انجام سے۔ فلسطین اور غزّہ میں بربریت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آج دنیا کے مہلک ترین ہتھیار ظالم ترین افراد کے ہاتھوں میں ہیں جن سے معصوم بچے، خواتین انتہائی سفاکی سے شہید کیے جارہے ہیں۔دنیا آج ایک خطرناک مقام بن چکی ہے۔لیکن اس تاریکی، دلدل اور ظلم سے نکلنے کا نسخہ مسلمانوں کے پاس ہے۔ حج یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ حج کا خطبہ امتِ مسلمہ کے ساتھ ساری انسانیت کے نام ہر سال ایک پیغام جاری کرے جس طرح رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر عرفات کے میدان میں اپنے خطبۂ حج کے ذریعے ساری انسانیت کے نام حقوقِ انسانی کا منشور دیا تھا جب حقوقِ انسانی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ سارے انسان آدم کی اولاد ہیں عرب کو عجمی پر اور عجمی کو عرب پر فضیلت نہیں ہے، کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر فضیلت ہے سوائے تقویٰ اور اعمالِ صالح کی بنیاد پر۔ عورتوں کے حقوق پر زور دے کر آپ نے فرمایا کہ اللہ کے اذن سے وہ تم پر حلال ہوئیں ہیں لہٰذا تم ان کے حقوق ادا کرو اور نرمی سے پیش آؤ اور وہ تمہارے حقوق ادا کریں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔ اللہ کی بندگی اختیار کریں، نماز قائم کریں،رمضان میں روزے رکھیں، استطاعت ہو تو حج کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔آپ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی رسول یا نبی نہیں آئے گا۔ میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جنہیں تھامے رہو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہو گے اور وہ ہیں اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ سود کو حرام کر دیا گیا ہے۔ ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کیا گیا۔رسول اللہ ﷺ نے حج میں جب کہ ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام موجود تھے، اس وقت اللہ کو گواہ بناکر ان سے شہادت لی کہ کیا میں نے امانت تم تک پہنچا دی ہے؟ سب نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہاں! آپ نے امانت پہنچا دی بلکہ حق ادا کر دیا ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جو بھی حاضر ہے وہ غائب تک حق کو پہنچادے۔ اس بات کو صحابہ کرام نے بہت ہی سنجیدگی سے لیا اور انہوں نے دور دراز ملکوں میں جاکر دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دیا۔ اس طرح ساری دنیا میں اسلام کے پھیلنے کے آغاز ہوا۔
حج اس بات کا بھی موقع فراہم کرتا ہے کہ مسلم دنیا کے مذہبی اور سیاسی قائدین حج کے بعد جمع ہوں اور عالمی سطح پر ایسی قرارداد پر متفق ہوں جس سے امتِ مسلمہ کے مسائل حل ہوں اور اس لائحہ عمل پر متفق ہوسکیں جس سے معاشی تعاون و اشتراک پیدا ہو اور سیاسی یکجہتی پیدا ہو۔ یہ ان فائدوں میں سے ایک بہت بڑا فائدہ ہے جس کے مشاہدہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس بے نظیر اجتماع کا انتظام فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ۝ لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ ۝ اور لوگوں کو حج کے لیے اِذنِ عام دے دو کہ وہ تمہارے پاس ہر دُور دراز مقام سے پیدل اور اُونٹوں پر سوار آئیں تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں اور چند مقرر دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں بخشے ہیں۔ خود بھی کھائیں اور تنگ دست محتاج کو بھی دیں۔ (سورۃ الحج ۲۷، ۲۸)
حج کے انفرادی فائدوں میں وہ روحانی فوائد ہیں جن کی بدولت حجاج کرام کے پچھلے گناہ معاف ہوسکتے ہیں سوائے ان کے جو حقوق العباد سے متعلق ہوں ۔حج سے نفوس کا تزکیہ ہوتا ہے۔حالتِ احرام میں ایک بندہ ہر چیز سے کٹ کر اللہ کا ہو جاتا ہے اور اپنی تمام دلچسپیوں سے دستبردار ہوجاتا ہے اور اپنی پسند کے کپڑے چھوڑ کر صبغۃ اللہ (اللہ کے رنگ ) کو اختیار کرتا ہے۔ ایامِ حج میں ساری توجہ اللہ کی طرف مرکوز ہوجاتی ہے ۔تعلق باللہ پیدا کرنے کا حج ایک حتمی موقع فراہم کرتا ہے۔وہ اللہ تعالیٰ سے ایک نیا عہد باندھ کر اپنے وطن لوٹتا ہے اور وہ عہد یہ ہے کہ بقیہ زندگی خالصتاً اللہ کی سپردگی میں گزارے گا۔ مناسکِ حج کے ذریعے حاجیوں کی عملاً تربیت کی جاتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا اسوۂ حسنۃ اختیار کیا جائے ۔قرآن میں جہاں بھی ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے دو باتیں فرمائی گئیں کہ وہ توحید کے لیے یکسو اور حنیف تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے۔ ابراہیم علیہ السلام نہ صرف موحد تھے بلکہ توحید کے علم بردار بھی تھے۔انہوں نے اپنے گھر سے توحید کی تبلیغ کی بلکہ اسی دعوتِ توحید کی راہ میں شدت سے آزمائے بھی گئے۔گھر سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے اپنے ملک و قوم میں توحید کو پیش کیا ۔عملاً اس بات کا مظاہرہ کیا کہ بتوں کی پرستش کیوں کر کی جاسکتی ہے جو نہ ہی بات کرسکتے ہیں اور نہ خود اپنی ہی حفاظت کرسکتے ہیں۔ بادشاہ کے دربار میں جب پیشی ہوتی ہے تو وہاں پر ابراہیم علیہ السلام جرأت مندی سے متکبر بادشاہ نمرود کے سامنے اللہ کا تعارف پیش کرتے ہیں کہ میرا خدا وہ ہے جو زندگی و موت دیتا ہے۔ جب اس نے کہا کہ میں بھی زندگی و موت کے فیصلے کرتا ہوں اس پر ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہہ کر اس طاغوت کا منہ بند کردیا کہ میرا رب مشرق سے سورج کو نکالتا ہے تو مغرب سے نکال کر دکھا دے۔ ابراہیم علیہ السلام توحید کے داعیٔ اعظم تھے ۔ہر حاجی کے لیے ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں یہ پیغام ہے کہ وہ حج کے بعد شرک سے بیزار ہوکر توحید کا داعی بن کر زندگی گزارے۔ اپنے قول و عمل سے توحید کی شہادت پیش کرے۔
حج کے انتظامات مملکتِ سعودی عرب کے بادشاہ مثالی انداز میں بحسن و خوبی کرتے رہے ہیں۔ اسی لیے انہوں نے خادم الحرمین شریفین کی حیثیت سے اپنے آپ کو عالمِ اسلام کے سامنے پیش کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے تیل کی جس دولت سے مالا مال کیا اس کا ایک حصہ انہوں نے حرمین شریفین کی توسیع میں اور جدید سہولتوں سے آراستہ کرنے میں خرچ کیا۔اس کے ساتھ انہوں نے حج کے مصارف کو بہت ہی کم رکھا تھا جس سے ایک متوسط خاندان کے افراد بھی آسانی سے حج ادا کرسکتے تھے لیکن افسوس کہ موجودہ دور میں حج کے مصارف بے انتہا بڑھا دیے گئے ہیں۔ کورونا سے قبل ۲۰۱۹ء میں حج و عمرہ سے ۳۰ بلین ڈالر کمائے گئے تھے جب ۲۵ لاکھ لوگوں نے حج کیا تھا۔ پچھلے سال ۱۸ لاکھ حاجیوں نے حج کیا تھا جس سے سعودی حکومت نے ۲۰ بلین ڈالر کمائے اور عمرہ سے ۵ بلین ڈالر۔ پچھلے بادشاہوں کے دور میں حج وعمرہ کی آمدنی کو سعودی معیشت کی منفعت میں اضافہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اسے خصوصی انتظامات اور حرمین کی توسیع وترمیم کے لیے وقف کیا جاتا تھا ۔چونکہ حرمین شریفین کی خدمت ایک سعادت ہے اور یہ سارے مسلمانوں کی مشترکہ دینی میراث ہے اس لیے حج سے ہونے والی آمدنی کو سعودی مملکت کی معیشت کا حصہ بنانے کے بجائے حج کے مصارف ہی میں استعمال کرنا چاہیے تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو حج اتنا مہنگا نہ ہوتا۔ اب حکومت ہند کے کوٹہ سسٹم سے جو لوگ حج پر جانے والے ہیں ان کو فی کس تقریباً چار لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے جبکہ پرائیویٹ ٹراویل ایجنٹس کی وساطت کے جانے والوں کے لیے حج کے اخرجات ۱۵ سے ۲۰ لاکھ روپے ہوچکے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حج و عمرہ کے ذریعے اس قدر زرِ مبادلہ پیدا ہونے کے باوجود سعودی عرب میں ٹورازم کو رواج دینے کے لیے ملک کے مذہبی تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔کوشش کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب ایک ایسا ملک بن جائے جہاں مغرب کے لوگ تفریح اور سیرو سیاحت کے لیے آئیں۔ مغرب کے معیار کے مطابق اگر سعودی عرب مذہبی روایات سے دستبردار ہو کر شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے تو کیا وہ ٹورازم سے اتنا کچھ کما سکے گا جتنا اس کو حج و عمرے کے ذریعہ سے زر مبادلہ حاصل ہو رہا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قریش کے مشرکین کو خطاب کرکے اپنے احسانات یاد دلائے کہ: لِإِيلَافِ قُرَيْشٍ ۝ إِيلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاء وَالصَّيْفِ ۝ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ ۝ الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ ۝ چونکہ قریش مانوس ہوئے، یعنی جاڑے اور گرمی کے سفروں سے مانوس، لہٰذا ان کو چاہیے کہ اِس گھر کے ربّ کی عبادت کریں جس نے انہیں بھوک سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔ (القریش) اس چھوٹی سی سورت میں اللہ تعالیٰ قریش کو وہ احسانات یاد دلا رہا ہے جو اس نے قریش پر کیے تھے کہ اللہ کے گھر کے متولی ومجاور ہونے کی وجہ سے انہیں انتہائی بدامنی کے ماحول میں ہر موسم میں تجارتی سفروں میں امن حاصل تھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ قریش کے تجارتی قافلہ پر ہاتھ ڈالتے۔اس کے بدلے میں قریش نے انتہائی ناشکری کا رویہ اختیار کیا ہوا تھا۔ جس رب نے ان کو خوف کے بجائے امن عطا کیا اور مکہ کو تجارتی مرکز بنایا اور اس کے ذریعے بھوک سے نجات دلا کر آسودہ حال کر دیا، اسی رب کی عبادت کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش میں لگے ہوئے ہیں۔توحید ہی کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے مکہ کو ام القریٰ بنایا۔ ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہی کی بدولت مکہ کو امن کا گہوارہ بنایا اور یہاں پر رزق کی فراوانی فرمائی۔توحید کی بنیاد پر جس شہر کو اللہ تعالیٰ نے نعمتوں سے مالامال کیا تھا اسی شہر کو قریش نے شرک کا اڈہ بنا دیا تھا اور کعبۃ اللہ میں ۳۶۰ بت رکھ دیے تھے۔اس سورت کی روشنی میں جب ہم حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے۔ حرمین شریفین کی برکت کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو تیل کی دولت سے مالا مال فرما دیا لیکن انہوں نے اللہ کی شکر گزاری کے بجائے امریکہ کی غلامی کا طوق پہننا پسند کیا۔ شاہ فیصل مرحوم نے فلسطین کی آزادی کو تیل کی سپلائی سے مشروط کرنا چاہا تو ان کو شہید کر دیا گیا۔ یہ چیز پھر بھی گوارا کرلی گئی تھی۔ سعودی عرب میں مذہبی قیادت کو سیاسی قیادت کی طرف سے آزادی و خود مختاری حاصل تھی جس کی وجہ سے یہاں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا نظام قائم تھا اور علماء آزاد تھے کہ وہ مسجدوں کا نظام خود چلائیں، ان میں حفظِ قرآن کے مکاتب چلائیں اور جمعہ کے خطبوں کے ذریعے معاشرہ کی اصلاح کریں۔ لیکن اب وہاں سے بڑی دلخراش خبریں آرہی ہیں کہ جمعہ کے خطبے اور اصلاح و تذکیر کا کام کافی تحدید و پابندی کا شکار ہے۔وہاں ہائی اسکول تک اسلامی نصاب پڑھایا جاتا تھا جس کو منسوخ کر کے بہت حد تک مختصر کر دیا گیا ہے۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ حج و عمرہ کے زر مبادلہ کو آئندہ برسوں میں بڑھایا جاتا رہے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ حج کے اخرجات ہر سال بڑھتے جائیں گے۔ کیا مستقبل میں حج صرف کروڑ پتی ہی کر سکیں گے؟

 

***

 حرمین شریفین کی خدمت ایک سعادت ہے اور یہ سارے مسلمانوں کی مشترکہ دینی میراث ہے اس لیے حج سے ہونے والی آمدنی کو سعودی مملکت کی معیشت کا حصہ بنانے کے بجائے حج کے مصارف ہی میں استعمال کرنا چاہیے تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو حج اتنا مہنگا نہ ہوتا۔ اب حکومت ہند کے کوٹہ سسٹم سے جو لوگ حج پر جانے والے ہیں ان کو فی کس تقریباً چار لاکھ روپے کا خرچ آتا ہے جبکہ پرائیویٹ ٹراویل ایجنٹس کی وساطت کے جانے والوں کے لیے حج کے اخرجات ۱۵ سے ۲۰ لاکھ روپے ہوچکے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حج و عمرہ کے ذریعے اس قدر زرِ مبادلہ پیدا ہونے کے باوجود سعودی عرب میں ٹورازم کو رواج دینے کے لیے ملک کے مذہبی تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے۔کوشش کی جا رہی ہے کہ سعودی عرب ایک ایسا ملک بن جائے جہاں مغرب کے لوگ تفریح اور سیرو سیاحت کے لیے آئیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 09 جون تا 15 جون 2024