ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ

دوسروں کو متاثر کرنے کا جنون، احساسِ کمتری کی پہچان

ڈاکٹر شکیل احمد خان، جالنہ
8308219804

امیر نظر آنے کی نہیں بلکہ مالدار بننے کی کوشش کریں۔ اسٹیٹس کے دکھاوے سے گریز کریں
ایک سوال کا جواب دیجیے! دنیا میں زیادہ مہنگی، قیمتی ،برانڈیڈ اور لگژری چیزیں کون خریدتا ہے ؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا بچکانہ سوال ہے ۔ ظاہرسی بات ہے زیادہ قیمتی چیزیں زیادہ پیسے والے امیر افراد خریدتے ہوں گے۔نہیں جناب، سوال بچکانہ نہیں ہے بلکہ جواب بچکانہ ہے۔کیونکہ 75 فیصد برانڈیڈ لگژری اشیاء کی خریداری مڈل اور لور کلاس کے لوگ کرتے ہیں! یہ بیان ہماری ذہنی اختراع نہیں ہے بلکہ یہ کہنا ہے جرنل آف کنزیومر ریسرچ، آکسفورڈ میں شائع پرنسٹن یونیورسٹی اور C E H پیرس کی ایک تحقیق کا۔ یہ ایک عجیب رویہ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے زیادہ فیصد افراد میں یہ رجحان کیوں پایا جا رہا ہے؟ اس کی وجہ دراصل ایک بیماری ہے۔ کوئی جسمانی نہیں بلکہ نفسیاتی اور معاشرتی بیماری ہے۔ ہیپاٹائٹس نامی بیماری کی طرز پر ہم اُسے ’’اسٹیٹس ٹائٹس ‘‘ کہہ سکتے ہیں یا معیادی بخار کی طرز پر ’’معیاری بخار ‘‘ بھی کہا جاسکتا ہے۔ یعنی اعلی معیار اورہائی اسٹیٹس دکھانے کے لیے اپنی معاشی و سماجی حیثیت سے زیادہ قیمتی اور برانڈیڈ اشیاء خریدنے کی بیماری۔ نہ صرف مندرجہ بالا تحقیق بلکہ دیگر کئی ذرائع اور رپورٹس جیسے انڈیا ٹوڈے ، دی اکنامکس ٹائمس وغیرہ بھی اس وباکی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی رجحان ہے ۔ ملک عزیز میں ملت اس کا بڑی حدتک شکار ہو رہی ہے۔یونیورسٹی آف واروک کے ماہر نفسیات Walasek and Gordon Brown نے’’ سائیکولوجیکل سائنس ‘‘نامی جریدے میں ا انکشاف کیا ہے کہ ان ریاستوں میں جہاں آمدنی (امیری، غریبی) میں بہت تفاوت ہے ، گوگل انجن پر سرچ کرنے والے ۷۰ فیصد گاہکوں نے مہنگے برانڈیڈ لگژری کپڑے، زیورات اور جوتوں وغیرہ کے بارے میں سرچ کیا۔ لیکن جن ریاستوں میں آمدنی میں زیادہ فرق نہیں وہاں یہ چیزیں نہیں کے برابر سرچ کی گئیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ کم آمدنی والے زیادہ آمدنی والوں کی طرح نظر آنے کے لیے استطاعت نہ ہونے کے باوجود لگژری چیزوں کو اسٹیٹس سمبل کے طور پر خریدتے ہیں اور مقروض ہو کر خود کے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہیں۔مشی گن جنرل آف اکنامکس میں نوح کانٹر بتاتے ہیں کہ ڈھائی سو ڈالر کی لاگت سے بننے والے پرس کو ڈھائی ہزار ڈالر میں بیچنا دراصل ڈیزائنر کمپنیوں کی ایک حکمت عملی ہوتی ہے۔وہ پرس نہیں بلکہ احساسِ اہمیت بیچتے ہیں۔اس طرح اہمیت اور امیری کے تصور کی مارکیٹنگ کر کے وہ مڈل کلاس کو مزید غریب بناتے رہتے ہیں۔اس کام کے لیے وہ فلمی ستاروں، کھلاڑیوں اور سلیبریٹیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے ذریعے وہ برانڈیڈ چیز کی ایسی امیج بناتے ہیں کہ وہ بہترین ہے، اہم ہے، ہر کس و ناکس کے بس کی نہیں ہے بلکہ بہت خاص ہے ۔اور اسی لیے صرف خاص لوگوں کے پاس ہی نظر آتی ہیں۔ مشہور لگژری فیشن کمپنی ’ گولڈن کنسیپٹس‘ کے سی ای او، پوئیا شمسوسودتی بتاتے ہیں کہ جب سلیبرٹیز جیسے رونالڈو وغیرہ کوئی چیز استعمال کرتے ہیں تو وہ بہت اہم visible) بن جاتی ہے اور ان کے چاہنے والوں میں کشش پیدا کرتی ہے۔ اب بے چارہ مڈل یا لور کلاس کا فرد امیر یا سلیبریٹی تو نہیں بن سکتا، لہذا مشہور یا امیروں والی چیزیں خرید کر ان کی طرح ہونے کا احساس اور طمانیت خود بھی محسوس کرتا ہے اور دنیا کو بھی باور کروانا چاہتا ہے کہ وہ بھی امیر اور خاص ہے۔ لیکن یہ طمانیت شترمرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا کر خود کو محفوظ سمجھنے کی طمانیت کی طرح ہوتی ہے۔ مشہور برانڈ کی کمپنیاں سامان بک جانے پر اسے تلف کر دیتی ہیں لیکن کبھی سیل یا ڈسکاونٹ پر نہیں بکاتیں کیونکہ اس طرح وہ زیادہ لوگوں کے پاس نظر آئے گی اور برانڈ کی اہمیت اور امیج ختم ہو جائے گی۔مارکیٹ ایکسپرٹ ابھیجیت چوکسی ’انڈیا ٹوڈے‘میں لکھتے ہیں کہ یہ دراصل برانڈیڈ کمپنیوں کا ایک پھندہ ہے جس میں اسٹیٹس یا معیار کے مارے ہوئے لوگ پھنستے جاتے ہیں اور حیثیت سے زیادہ قیمتی برانڈیڈ چیزیں خریدتے رہتے ہیں۔برانڈ تجارتی کمپنیاں تو منافع کے لیے اپنی چال چلتی ہیں لیکن مڈل و لور کلاس پر اس مصنوعی احساسِ امیری کے مضر معاشی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لگژری اشیاء خوب فروخت ہو رہی ہیں۔ زیادہ فروخت کی وجہ یہ نہیں ہے کہ لگژری اشیاء سستی ہو رہی ہیں بلکہ یہ ہے کہ مڈل کلاس میں امیر اور خاص نظر آنے کی خواہش (Addiction to look rich) بڑھتی جا رہی ہے۔پامیلا ڈینزیگر بھی فوربس میگزین میں بتاتی ہیں کہ ۸۰ اور ۹۰ کی دہائیوں کے بعدپیدا ہونے والی نسلوں میں اسٹیٹس یا پرِسٹیج کی خواہش (ہوس) دیگر بالغ نسلوں کے گاہکوں کے مقابلے میں ۴۰ فیصد زیادہ ہے۔ مارکیٹنگ کے پروفیسر ڈیوڈ ڈِبواس اپنے مضمون The Psychology of Luxury Consumption میں لکھتے ہیں کہ اسٹیٹس کی خواہش ہی وہ بنیادی یا کلیدی وجہ ہے جو اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ لوگ لگژری اشیاء کیوں خریدتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے کہ کوئی یہ بات ماننا نہیں چاہتا۔ اسے ماننے میں سبکی محسوس کرتا ہے۔ اس لیے دیگر وجوہات بیان کرنے لگتا ہے جیسے برانڈیڈ چیز بہت مضبوط ہے، بہت بہتر کوالیٹی کی ہے وغیرہ وغیرہ۔جب کہ کسی لگژری برانڈیڈ گھڑی ، چشمے و لباس میں اور اُسی طرح کے عام لباس، چشمے و گھڑی میں صرف ایک فرق ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لگژری برانڈس بلا کسی وجہ کہ دس گنا زیادہ قیمت کی ہوتی ہیں۔ اگر مضبوطی و کوالیٹی کی بات مان بھی لی جائے تو بھی یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کیا آپ کو واقعی اس کی ضرورت ہے اور کیا آپ کی اتنی معاشی و سماجی حیثیت ہے ؟ ان باتوں کے بغیرصرف اسٹیٹس و دکھاوے کی خاطرمہنگی لگژری چیزیں خریدنا اور شاہانہ خرچ کرناکمزور شخصیت کی نشانی ہے نہ کہ اہم اور خاص ہونے کی؟ دراصل یہ خیال ہی مضحکہ خیز ہے کہ جو چیز کوئی اداکار یا کھلاڑی استعمال کرتا ہوا دکھایا جا رہا ہے وہی چیز استعمال کرنے سے آپ بھی اسی کیٹیگری میں آجائیں گے یا مہنگی و برانڈیڈ چیزیں خریدنے سے اور جھوٹی شان و شوکت کے اظہار کے لیے بے دریغ خرچ کرنے سے آپ کا اسٹیٹس اور وقار بڑھ جائے گا۔کوئی کلرک اگر اسکوٹی کے بجائے بلٹ موٹر سائیکل خرید لے تو کیا اس کا اسٹیٹس بڑھ جائے گا؟ بالکل نہیں! بلکہ اس کے جاننے والے پیٹھ پیچھے اس کا مذاق اُڑائیں گے ۔ اس کے بارے میں منفی رائے بھی قائم کی جا سکتی ہے کہ اس کے پاس غیر قانونی ذرائع آمدنی ہیں یا وہ رشوت خور ہے۔ یاد رکھیے، آپ کی صلاحیت و معاشی حالت کا اندازہ آپ سے بھی زیادہ آپ کے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کو ہوتا ہے۔مہنگی چیزیں یا بار بار نئی چیزیں خرید کر آپ انہیں دھوکا نہیں دے سکتے۔ہاں، خود کو دھوکا دینا ہو تو اور بات ہے ۔ لوور مڈل کلاس کے افرادمہنگے برانڈ نہ بھی خریدیں تو اوسط درجے کا دکھاوے کا نیا سامان بار بار خریدتے ہیں۔ کیونکہ غیر ضروری اور مہنگی خریداری کے پیچھے بھی خود کو دوسروں سے ممتاز اور منفرد ظاہر کرنے کی خواہش ہی ہوتی ہے۔کپڑوں کی خریداری کرتے ہوئے خواتین گاہک دکاندار سے ہمیشہ یہ مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں کہ ’’ کچھ ہٹ کے ‘‘ دکھائیے، ایسا لباس جو سب سے الگ معلوم ہو، کسی دوسرے کے پاس نظر نہ آئے۔یعنی وہی دوسروں سے اوپر، برتراور اونچے اسٹیٹس والانظر آنے کی خواہش۔تجارتی کمپنیاں برانڈ کے نام پر اِسی نفسیات کو کیش کرتی ہیں۔ڈیزائنر اور برانڈیڈ چیزوں کو بہت مہنگا کر دیا جاتا ہے۔اس لیے وہ اکثر لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہوتی ہیں۔ (حال ہی میں لگژری برانڈ لوئی ویتون نے ہندوستان میں آٹو رکشاکی طرح نظر آنے والا ایک پرس لانچ کیا ہے جس کی قیمت۳۵ لاکھ روپے ہے)۔ لیکن اسٹیٹس کے مارے اور ’ ہٹ کر‘ دکھنے کی خواہش میں مڈل کلاس کے لوگ قرض لے کر اور اقساط پر بھی انہیں خریدتے ہیں اور اپنی معاشی آزادی و ترقی کی راہ میں خود ہی روڑا بن جاتے ہیں۔ بقول پروفیسر ڈبواس اسٹیٹس کی خواہش لگژری برانڈس کی تجارت کے لیے آکسیجن کے مترادف ہے۔ اسی لیے سلیبریٹیز کے ذریعے اس آگ کو خوب بھڑکایا جاتا ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا اور کریڈٹ کارڈس کی سہولت اس آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتی ہے۔لیکن یہ سمجھنا چاہیے کہ دوسروں کو امپریس کرنے کی خاطر مہنگی برانڈیڈچیزیں خریدنا یا بار بار نئی چیزیں خریدنا دراصل احساسِ کمتری کی علامت ہے۔کیونکہ جسے خود پر اعتماد ہوتا ہے، جو قابل ہوتا ہے وہ دوسروں کو متاثر کرنے کی جدوجہد میں وقت اور پیسہ برباد نہیں کرتا۔کسی نے درست کہا ہے کہ "امیر لوگ امیر بننا چاہتے ہیں جبکہ غریب لوگ امیر دکھنا چاہتے ہیں” ماہرین کے مطابق یہ جاننا ہو کہ کون اصلی صاحبِ حیثیت ہے اور کون بناوٹی تو یہ غور کیجیے کہ زیادہ شو شاہ کون کر رہا ہے۔جو امیر ہوتا ہے اسے پتہ ہوتا ہے کہ وہ امیر ہے، اسے بتانے یا کسی سے کہنے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ عام آدمی مہنگی اور نئی نئی چیزوں کے ذ ریعے یہ اعلان کرتا پھرتا ہے کہ وہ ذی حیثیت اور اسٹیٹس والا ہے۔ ملت میں یہ رجحان شادیوں کے موقع پر واضح دکھائی دیتا ہے۔ دور پار کے رشتہ داروں کے وہاں بھی تقریب ہو تو لڑکیاں ( الماری بھری ہونے کے باوجود) نئے کپڑوں کی دوڑ دھوپ میں لگ جاتی ہیں: یہ ڈریس برانڈیڈ اور اچھا تو ہے پر پچھلی بار بھی یہی پہنا تھا ، سب کا دیکھا ہوا ہے۔ اب کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ بہن پچھلی بار تم منہ بھی تو یہی لے کر گئی تھیں۔وہ بھی سب کا دیکھا ہوا ہے۔اس بار بھی وہی منہ اور شخصیت لے کر جا رہی ہو! کبھی خود بھی تو بدلو۔ ہر بار وہی پرانا لباس پہن کر جانے میں شرم محسوس ہوتی ہے لیکن ہر بار وہی پرانا علم، مہارت، معلومات، الفاظ و زبان اور مطالعہ لے کر جانے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی؟ بعض نا عاقبت اندیش والدین بھی اس رویہ کو بڑھانے میں مددگار بنتے ہیں۔اپنے بچوں کو قابلیت اور محنت سے اسٹیٹس حاصل کرنے پر راغب کریں نہ کہ اسٹیٹس دکھانے پر۔شادی میں مڈل کلاس کی دلہن بھی پچاس ہزار یا ایک لاکھ کا لاچا پہنے بیٹھی ہے، معمولی آمدنی والے نوشہ بھی کئی ہزار کا سوٹ بوٹ پہنے تشریف لا رہے ہیں۔اس دن کے بعد دلہا دلہن شاید ہی کبھی وہ لباس پہن سکیں۔ کیونکہ اتنا اسٹینڈرڈ نہ تو ان کا خاندان ہے اور نہ ہی سوشل سرکل۔ صرف ایک دن اسٹیٹس اور شان دکھانے کے لیے لاکھوں روپوں کا زیاں کیا جاتا ہے۔ والدین اپنی سیونگ خرچ کر کے اور سونا بیچ کر یا قرض لے کر بیس بیس، پچاس پچاس لاکھ ایسے کھانوں پر خرچ کر رہے ہیں جو ان کے اکثر مہمان صرف دعوت میں ہی چکھ سکھتے ہیں۔اپنی اور اپنے رشتہ داروں کی سماجی حیثیت کے مطابق انتظامات کرنے میں کیا حرج ہے؟ چار لوگوں کے طعنے سن لینا زیادہ بہتر ہے یا آئندہ کئی سال سکون سے زندگی گزارنا؟
اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنا اہم ہے کہ ان باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لوگ بالکل پھٹیچر بن کر گھومتے پھریں ، کنجوس مکھی چوس کی مثال بن جائیں۔ شادی بیاہ اور تقاریب میں تھوڑا بہت آگے پیچھے ہو جائے تو حرج نہیں۔ لیکن یہ بھی آپ کی موجودہ حیثیت اور طاقت سے بہت زیادہ باہر قطعی نہ ہو۔ اسٹیٹس اور پِرسٹیج کی خواہش فی نفسہ خراب چیز نہیں ہے، بلکہ فطری ہے۔ لیکن یہ قابلیت اور کارکردگی کی بنیاد پر ہو، چیزوں کی بنیاد پر نہیں، خود کی ہی معاشی بربادی کی بنیاد پر نہیں۔ منصوبہ بندی، کمائی، بچت، سرمایہ کاری سے پہلے امیر بنیے، اسٹیٹس حاصل کیجیے، پھر اسٹیٹس دکھایے۔ یاد رکھیے، حیثیت نہ ہونے پر بھی نئی نئی مہنگی چیزوں کی نمائش سے خو کو ذی حیثیت ظاہر کرنا، انجان لوگوں کو اسٹیٹس کا جھوٹا تاثر دینا، دھوکا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر لوگوں کو آپ کی اصلی حالت کا پتہ چل جاتا ہے اور آپ کو دیکھ کر وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں:
ہیں کواکب کچھ نظر آتے کچھ
دھوکا دیتے ہیں یہ بازیگر کھلا

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 جولائی تا 27 جولائی 2025