ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر

مسلم پرسنل لا بورڈ کی نئی قیادت

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

چیلنجس سے نمٹنے اور پیغمبرانہ مشن کو زندہ کرنے کی ضرورت
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اتفاق رائے سے بورڈ کے نئے صدر منتخب ہوگئے ہیں۔ وہ جلیل القدرعالم دین ہیں فقیہ ہیں فقیہ العصر ان کا خطاب ہے، مصنف ہیں مفکر ومدبر ہیں، جہاں دیدہ انسان ہیں نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو۔ کتاب قاموس الفقہ اس جلیل القدر عالم کے قلم سے ہے جو فقہ اسلامی پر عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ انشاء پرداز بھی ہے۔ ان کی تحریریں آراستگی اور مشاطگی کی بہت شعوری کوششوں اور خون جگر کی کشید کے بغیر ادبی اعتبار سے نفیس اور آبدار ہوتی ہیں، ان کی تحریروں کے درمیان ایسے جملے ملتے ہیں جنہیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نسیم سحر کا جھونکا آ گیا، بقول فیض: ’’جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم‘‘ پانچ جلدوں میں علم الفقہ پر یہ اہم کتاب فقہی بصیرت کا نمونہ ہے۔ عام طور پر فقیہ حضرات اپنے چوب قلم کی طرح خشک تحریریں لکھتے ہیں اس میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اور مولانا مجیب اللہ ندوی جیسے لوگوں کا استثناء ہے۔ رسائل ومسائل کے مصنف تو فقہ کے خشک میدان میں بھی انشاء کے پھول کھلانے کا ہنر جانتے تھے۔ جدید فقہی مسائل بھی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی مشہور کتاب ہے۔
عصر حاضر کے نظام تعلیم میں انسان کے خود ساختہ قوانین کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، ماہر قانون وہ ہے جس نے لا کالج سے ڈگری حاصل کی ہو، انصاف کی عدالت میں جج وہ مقرر کیے جاتے ہیں جنہیں ان قوانین میں درک حاصل ہو۔ زمین اللہ کی، قانون غیر اللہ کا، غیر اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کے ماہرین عزت و مرتبت کے حامل اور شریعت اسلامی میں فضل و کمال رکھنے والے نادان اور غافل۔ اس دنیا کا پورا نظام زندگی ایک انقلاب کا منتظر ہے، وہ انقلاب جو معیار علم کو بدل دے، انداز نظر میں تبدیلی پیدا کر دے، زمانہ ایک زلزلہ کا منتظر ہے، وہ زلزلہ جس سے بلندیاں پست ہو جائیں اور پستیاں بلندیوں سے بدل جائیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا کہ اس دور کا مجدد وہ ہو گا جو اسلام کے قوانین کی برتری کو دنیا کے سامنے مبرہن کر دے، یہ زلزلہ بر دوش کام اور نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے، اس دعوت حق اور اتمام حجت کے لیے مغربی قوانین اور اسلامی قوانین دونوں پر گہری نظر ضروری ہے، اس تقابلی مطالعہ کے لیے اسلامی قوانین کی ان کتابوں سے بھی مدد ملے گی جو اُردو زبان میں مرتب کی گئی ہیں، اردو کی ان کتابوں کا فائدہ ان لوگوں کو بھی پہنچے گا جو عربی زبان سے واقف نہیں اور وہ اسلامی نظام قانون اور فقہ اسلامی سے اردو کے ذریعہ واقف ہونا چاہتے ہیں۔ ذہن اگر اسلامی قانون کا احترام کرتا ہے تو اسلامی قوانین کے ماہرین کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی اسلامی قانون کے ماہرین میں سے ایک ہیں۔ ان کا قلم رواں اور علم بے کراں ہے وہ بھارت میں فقہ اکیڈمی کے ذمہ دار ہیں اور سعودی عرب کی فقہ اکیڈمی کے رکن رکین ہیں۔
بھارتی علماء کا اردو زبان میں فقہ اسلامی کی خدمت کا طویل ریکارڈ موجود ہے، گردش روزگار نے تعلیمی نظام کی کایا پلٹ دی ہے، براہ راست عربی زبان کے ذریعہ اسلامی علوم کی تحصیل ہر شخص کے لیے ممکن نہیں، ضرورت اس بات کی تھی کہ بھارت اور پاکستان کے لیے اُردو زبان کے ذریعہ اسلامی علوم کو قابل حصول بنایا جائے۔ تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ ہر موضوع پر برصغیر کے علماء نے تصنیفات کا مستند ذخیرہ تیار کر دیا ہے۔ بھارت میں جب مسلم حکومت ختم ہو چکی تھی اور اسلامی شریعت کا اقتدار باقی نہیں رہا تھا اس وقت کے نامساعد حالات میں انفرادی علمی کوششوں کی قدرو قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، غالباً سب سے پہلے فتاویٰ عالمگیری اور ہدایہ کا اردو ترجمہ سامنے آیا جو امیر علی کا کیا ہوا تھا۔ شرح وقایہ کا اُردو ترجمہ مولوی وحید الزماں لکھنوی نے کیا، درّ مختار کا اردو ترجمہ مولوی خرم علی نے غایۃ الاوطار کے نام سے کیا، عقد الجید کا اُردو ترجمہ مولانا محمد حسن صدیقی نانوتوی نے سلک مروارید کے نام سے شائع کیا، قدوری کا اردو ترجمہ ’’ضروری‘‘ کے عنوان سے مولوی عبدالعزیز نے کیا، منیۃ المصلی کا اردو ترجمہ عبد الرحمن حسام الدین نے صلوۃ الرحمن کے نام سے کیا، آخر میں مشہور کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ کا ترجمہ عاصم الحداد کے قلم سے منظر عام پر آیا۔ الغرض فقہ کی اہم کتابوں کے ترجمے کی کوششیں شروع ہوئیں تاکہ عربی اور فارسی زبان کی حکومتی سر پرستی کے ختم ہونے پر بھارتی مسلمانوں کا رشتہ فقہ کے لٹریچر سے باقی رہے۔ اردو زبان میں فقہ کے لٹریچر کا جائزہ لیتے وقت مولانا تھانوی کی بہشتی زیور کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں، اس کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اب بھی والدین اپنی بیٹیوں کو شادی میں جہیز کے طور پر قرآن مجید کے ساتھ ساتھ یہ کتاب بھی دیتے ہیں۔ مولانا مجیب اللہ ندوی کی کتاب اسلامی فقہ بھی قابل تذکرہ ہے، اس طرح مولانا منہاج الدین مینائی کی کتاب ’’اسلامی فقہ‘‘، مولانا انوار اللہ فاروقی کی کتاب ’’حقیقۃ الفقہ‘‘، مولانا عبدالشکور کی کتاب ’’علم الفقہ‘‘ اور عاصم حداد کی ’’فقہ السنۃ‘‘ بھی تذکرہ کے قابل ہے۔ اردو زبان میں فتاویٰ کے کئی قابل قدر مجموعے منظر عام پر آئے ہیں، مولانا مودودی کی رسائل ومسائل اور اس سے ملتی جلتی دوسری کتابیں شائع ہو چکی ہیں، بچوں کے لٹریچر میں مفتی کفایت اللہ کی کتاب تعلیم الاسلام بھی مقبول کتاب ہے، اس میں بھی فقہ کے ضروری مسائل آگئے ہیں۔ فقہ کی الگ الگ جزئیات اور عنوانات پر بھی بے شمار کتابیں اردو میں آگئی ہیں، جیسے اسلام کا قانون فوجداری اور اسلامی عدالت اور کرایہ کے مکانات کی شرعی حیثیت وغیرہ۔ عربی زبان میں کویت میں مرتب کردہ فقہ کی ضخیم اور متعد د جلدوں میں فقہ کی انسائیکلوپیڈیا تیار ہو گئی ہے، اس کا اردو ترجمہ بھی ہو گیا ہے، اس عظیم کام کی ترتیب، ترجمہ اور نگرانی میں مولانا مجاہد الاسلام رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے دست راست ’’قاموس الفقہ‘‘ کے مؤلف اور مسلم پرسنل لا کے نئے منتخب صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی کوششیں شامل رہی ہیں۔
بھارت میں جدید مسائل کے فقہی حل کی کوششوں میں فقہ اکیڈمی کے سالانہ جلسوں کا ذکر بھی ضروری ہے، جس میں پورے ملک سے اور بیرون ہند سے مشاہیر علماء بلا اختلاف مسلک شریک ہوتے رہے ہیں اور نئے پیدا ہونے والے مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کرتے رہے ہیں، پھر ان مقالات پر مشتمل مجلہ فقہ اسلامی کے ضخیم نمبروں کی اشاعت ہوتی رہی، اجتماعی اجتہاد کی یہ وہ کوشش ہے جس کی نظیر اسلامی دنیامیں مشکل سے ملے گی۔ اور جس ملک میں اس کی نظیر ہے وہاں اس طرح کے کام کو حکومت کی سر پرستی حاصل ہے اور اس کے لیے بڑے بڑے بجٹ مختص ہوتے ہیں، بھارت کی مسلم اقلیت کے مفلوک الحال علماء جب اس طرح کی عظیم الشان علمی اور فقہی تحریکیں برپا کرتے ہیں جن کی قوت و تاثیر اور علمی وقار کا بیرون ہند کے علماء اعتراف کرتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ مسلمانوں کی حکومت واقتدار کا ٹمٹماتا ہوا چراغ گل ہو گیا لیکن علم دین اور فکر اسلامی کا شعلہ ابھی تک شعلہ مستعجل نہیں ثابت ہوا ہے، اس کی آب و تاب اس کی حرارت اور ضو فشانی باقی ہے۔اس طرح کی قابل تعریف کوششیں جماعت اسلامی ہند اور ندوۃ العلماء کے حلقوں میں بھی کی گئی ہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے نئے صدر اور نئی قیادت کے سامنے اب نئے چیلنجز ہیں۔ حالات اتنے سنگین ہیں کہ اسلامی شریعت کی حفاظت اس ملک میں مشکل ہوگئی ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ بورڈ شریعت اور اسلامی قوانین کی حفاظت میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی اسے شکست ہوئی ہے اور پارلیمان میں بھی خلاف شریعت قوانین پاس ہوگئے ہیں۔ حالات کا مسلم عوامی تجزیہ یہ ہے کہ حکومت ظالم ہے اور مسلم مخالف ہے اور وہ دین اسلام کی دشمن ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی بھی کچھ غلطی ہے یا نہیں، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم نے بھی جمود کا، رکود کا، تحزب کا، مسلک پرستی کا راستہ اختیار کرلیا ہو۔ علماء کو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن وحدیث کے واضح حکم کی خلاف ورزی جرم ہے۔ اجتہادی مسائل ہر دور میں حالات کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ تین طلاق کے مسئلہ ہی کو دیکھیے مصر وشام اور ترکی کے علماء بھی دیوبندی اور بریلوی علماء سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں جو ہمیشہ کٹر حنفی مسلک اختیار کرتے ہیں۔ یوسف القرضاوی صاحب کا حنفی ہونے کی باوجود بھی نقطہ نظر وہی ہے جو علامہ ابن تیمیہ اور ابن قیم کا ہے، بھارت کے علماء حالات کی سنگینی مطلقہ عورتوں کی کسمپرسی اور بیچارگی، حکومت اور عدلیہ کی بے مہری کے باوجود ٹس سے مس ہونے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ پرسنل لا بورڈ میں بھی ایسی لوگ تھے جو دوسرا موقف چاہتے تھے۔ اہل حدیث حضرات کا موقف بھی دوسرا تھا لیکن علماء کی اکثریت کی ضد اور اصرار کو دیکھ کر وہ خاموش ہوگئے۔ بورڈ کے ایک معزز رکن اور دیوبندی عالم دین سے بورڈ کے غلط مو قف کے بارے میں میں نے کچھ عرض کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہم نے یہ موقف اختیار کیا تو بریلوی علماء ہم پر چڑھ دوڑیں گے اور بورڈ سے الگ ہوجائیں گے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا بھی اس بارے میں موقف (میرے ذاتی علم کے مطابق) نرم تھا اور خود بورڈ کے سابق صدر بھی نرم اور متحمل مزاج تھے لیکن علماء کا اتحاد انہیں عزیز تھا اور عزیز ہونا چاہیے تھا لیکن کوئی تو ہو ملک میں جو صحیح بات کہہ سکے اور فرض کفایہ ادا کر سکے۔ بابری مسجد کے سلسلہ میں بھی مولانا علی میاں یونس سلیم اور حیدراباد کے گورنر اور شنکر آچاریہ کی کوششوں سے حل نکل آیا تھا جس کی تفصیل مولانا علی میاں کی کتاب کارواں زندگی میں موجود ہے لیکن سخت گیر اور متشدد علماء نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔اب بورڈ کے نئے صدر کو نائب صدور کو اور جنرل سکریٹری کو حالات کی تبدیلی کے لیے اور ملت کو شکست وریخت سے بچانے کے لیے نئی راہ، نئی سوچ، نیا زاویہ نظر اختیار کرنا ہوگا اور نیا زاویہ نظر اور وہ حرف جنوں مختصراً یہ ہے کہ اگر برادران وطن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس نہیں کیا گیا اور پیغمبرانہ مشن کو زندہ نہیں کیا گیا تو ناکامی اور بد انجامی اس ملک میں تمام مسلم تنظیموں کا مقدر ہوگی۔ یہی وہ تیر نیم کش ہے جس کا ابھی تک کوئی ہدف نہیں بن سکا ہے بقول اقبال
میر سپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہوکوئی ہدف
***

 

***

 اب بورڈ کے نئے صدر کو نائب صدور کو اور جنرل سکریٹری کو حالات کی تبدیلی کے لیے اور ملت کو شکست وریخت سے بچانے کے لیے نئی راہ ،نئی سوچ، نیا زاویہ نظر اختیار کرنا ہوگا اور نیا زاویہ نظر اور وہ حرف جنوں مختصراً یہ ہے کہ اگر برادران وطن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے مانوس نہیں کیاگیا اور پیغمبرانہ مشن کو زندہ نہیں کیا گیا تو ناکامی اور بد انجامی اس ملک میں تمام مسلم تنظیموں کا مقدر ہوگی ،یہی وہ تیر نیم کش ہے جس کا ابھی تک کوئی ہدف نہیں بن سکا ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 18 جون تا 24جون 2023