ہڈیاں بولنے لگیں اور میڈیا خاموش رہا؟

دھرمستھلا کی کھوج: مذہب کے تقدس میں چھپی انسانیت کی بے حرمتی!

0

زعیم الدین احمد ،حیدرآباد

اتنے بھیانک جرائم اتنے سالوں تک کیوں اور کیسے چھپے رہے؟
ریاست کرناٹک کے مذہبی مقام "دھرمستھلا” کا نام سنتے ہی ذہن میں خدمت خلق، بین المذاہب رواداری اور قدیم تہذیب کا ایک تصور ابھرتا ہے۔ لیکن گزشتہ دنوں اس خطے سے متعلق جو خبریں منظر عام پر آئی ہیں، انہوں نے اس مذہبیت کے پردے کو چاک کر کے ایک گہری اور جسم و روح کو بے کل کرنے والی ہولناکی کو جنم دیا ہے۔ دنیا کا ہر شخص یہ جان کر سکتے میں ہے کہ ایسے مشہور مذہبی مقام کے نیچے بھی انسانی مظالم کی ایسی ہولناک داستانیں دبی ہو سکتی ہیں جنہیں برسوں تک خاموشی سے مٹی تلے دبا دیا گیا تھا؟
یہ سوال صرف ایک سانحے کی رپورٹنگ ہی نہیں ہے بلکہ ایک اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑ دینے والا المیہ بھی ہے جو ہمیں ریاستی غفلت، عدالتی کمزوری اور مذہبی تقدس کے نام پر خاموشی اختیار کر لینے والے معاشرے کی گواہی دیتا ہے۔
آئیے جانتے ہیں کہ اس کا پس منظر کیا ہے۔
جون 2025 کے آخری ہفتے میں دھرمستھلا کے ایک سابق صفائی کرنے والے ملازم کی جانب سے ایسا دل دہلا دینے والا انکشاف سامنے آیا جس نے ہر شخص کو پریشان کر کے رکھ دیا۔ اس نے اپنے حلفیہ بیان میں الزام عائد کیا کہ 1995 سے 2014 کے درمیان اسے کئی سو انسانی لاشوں کو یا تو جلانے یا دفن کرنے پر مجبور کیا گیا، جن میں عورتیں، نوجوان لڑکیاں اور وہ لوگ شامل تھے جو یا تو لاپتہ ہوئے تھے یا جن پر جنسی زیادتی کے آثار تھے۔
یہ دعویٰ محض کوئی فرد واحد کا تخیل نہیں تھا کیونکہ اس کے بعد ریاستی پولیس نے ایف آئی آر درج کی اور خصوصی تحقیقاتی ٹیم یعنی ایس آئی ٹی کی تشکیل کی۔ عوامی دباؤ، مقامی میڈیا کی توجہ اور عدالت عالیہ کے بڑھتے ہوئے سوالات کے سبب ایک مذہبی مقام کے گرد غیر معمولی چوکسی دیکھی گئی۔
کھدائی اور ابتدائی شواہد
تحقیقاتی ٹیم نے مجموعی طور پر تیرہ مشتبہ مقامات کی نشاندہی کی۔ ان میں سے ابتدائی پانچ جگہوں پر کھدائی کی گئی لیکن کوئی قابل ذکر شواہد نہ مل سکے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ’سائنس پر مبنی تفتیش‘ پر کئی حلقوں نے سوالات اٹھائے۔ تاہم 31 جولائی کو چھٹویں مقام پر جزوی انسانی ڈھانچے دستیاب ہونے کے بعد تفتیش نے ایک نیا موڑ اختیار کرلیا۔ پولیس حکام کے مطابق جب چار فٹ گہرائی میں کھودا گیا تو تقریباً پندرہ ہڈیوں کے ٹکڑے، ٹوٹی ہوئی کھوپڑی کے آثار اور کچھ جلے ہوئے کپڑوں کے باقیات ملے۔ اس کے ساتھ ہی PAN کارڈ اور ATM کارڈ جیسی اشیاء بھی برآمد ہوئیں، جن کے ذریعے متاثرین کی شناخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ دریافت صرف ایک جرم کی تفتیش ہی نہیں ہیں بلکہ پورے ریاستی نظام کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ کیوں اتنے برسوں تک اور اتنی بڑی تعداد میں افراد کی گمشدگی، جنسی جرائم اور انہیں قتل کرنے اور دفن کرنے جیسے جرائم کی کسی کو ہوا تک نہیں لگی؟ یا سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس پر خاموشی کی چادر اوڑھ لی گئی تھی؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر یہ جرم ایک مذہبی ٹرسٹ یا کسی با اثر خاندان کے گرد گھومتا ہے تو کیا قانون کے ہاتھ اتنے لمبے نہیں ہیں کہ وہاں تک پہنچ سکیں؟
دھرمستھلا وہ مقام ہے جہاں ہندو، جین اور دیگر مذاہب کے پیروکار یکساں عقیدت سے آتے ہیں۔ لیکن کیا یہی تقدس اس جرم کو چھپانے کا ذریعہ بنا؟
ماضی میں مختلف خواتین کے لاپتہ ہونے، یا جنسی استحصال کی کہانیاں خاموشی سے دبا دی گئیں اور جب کوئی آواز اٹھی بھی تو یا تو اسے پاگل قرار دے دیا گیا یا اسے جھوٹا کہہ کر خاموش کر دیا گیا۔ یہ ایک ایسا پہلو ہے جو ہمیں اس حقیقت کی طرف لے جاتا ہے کہ مذہب کی آڑ میں اکثر انسانیت کو دفن کر دیا جاتا ہے۔
ریاستی وزیر اعلیٰ سدا رامیا نے اگرچہ SIT کے قیام کی منظوری دے دی ہے لیکن عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ اس پورے کیس کو CBI یا کسی آزاد عدالتی کمیشن کے حوالے کیا جائے۔ کیونکہ معاملہ صرف دفن شدہ لاشوں کا نہیں ہے بلکہ انصاف کے دفن کیے جانے کا ہے۔ عدالت عالیہ میں کئی رٹ پٹیشن داخل ہو چکی ہیں اور سپریم کورٹ سے بھی مداخلت کی امید کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی حقوق انسانی کی تنظیمیں اس کیس کو ’جنوبی ہند کی جمہوری تہذیب کے دامن پر بدنما داغ‘ قرار دے رہی ہیں۔
یہ کیس ہمیں صرف سیاسی، عدالتی یا مذہبی سطح پر نہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی جھنجھوڑتا ہے کہ کیا ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں مذہبی مقامات کے سائے میں جنسی تشدد، استحصال اور قتل جیسے سنگین جرائم کو چھپانا ممکن ہو چکا ہے؟ کیا ہم صرف اس لیے خاموش رہیں کہ مقام کا تعلق کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں سے تھا یا اس لیے کہ مقتولین میں سے کوئی بھی ہمارا اپنا نہیں تھا؟ یہ بہت اہم سوالات ہیں جن کے جوابات ہمیں تلاش کرنا ہوگا۔
یاد رہے کہ یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ انسان اور اس کے حقوق کسی بھی تقدس سے بالاتر ہیں۔ مذہب، ادارے، روحانی پیشوا، سب کو قانون اور اخلاق کی پابندی کرنی چاہیے۔ اگر واقعی دھرمستھلا میں بچیوں و عورتوں کے ساتھ ایسا شرم ناک سلوک ہوا ہے تو خاموشی، پردہ پوشی یا مذہبی ہچکچاہٹ جرم میں شرکت کے مترادف ہوگی۔ یہ وقت ہے کہ ہم ہر قسم کے سیاسی، مذہبی یا ادارہ جاتی دباؤ سے بالاتر ہو کر سچائی، انصاف اور انسانی وقار کی آواز بلند کریں۔ دھرمستھلا کے نیچے چھپی یہ قبریں محض چند ہڈیوں کا ڈھیر نہیں بلکہ یہ ہماری اجتماعی ناکامی کا ثبوت اور بے حسی اور منافقت کا نوحہ ہے۔
اس سارے واقعے کا ایک نہایت تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ جب ایک مذہبی مرکز میں اجتماعی قبریں دریافت ہونے کے آثار سامنے آئے تو ملک کا مین اسٹریم میڈیا منہ میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھا رہا۔ یہ وہی میڈیا ہے جو کسی مسجد کے لاؤڈ اسپیکر، کسی یونیورسٹی کے نعرے یا کسی مسلمان کے لباس کو بریکنگ نیوز بنانے میں لمحہ بھر کی دیر نہیں لگاتا، مگر جب دھرمستھلا جیسے مذہبی مقام سے انسانی ہڈیاں برآمد ہوتی ہیں تو وہ یا تو اسے مقامی خبر کہہ کر دفن کر دیتا ہے، یا سرے سے نظر انداز کر دیتا ہے۔
اس کیس پر جو محدود رپورٹنگ ہوئی وہ انگریزی میڈیا یا بعض مقامی کنڑا اخبارات تک محدود رہی، جب کہ ہندی اور دیگر قومی نیوز چینلوں نے مکمل طور سے چشم پوشی برتی۔ نہ کوئی ڈیبیٹ شو ہوا، نہ ہی کسی اینکر نے "قوم کو خطرہ” کی دہائی دے کر چیخنا چلانا شروع کیا اور نہ ہی کوئی ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنایا گیا۔ یہ خاموشی دراصل مجرمانہ چشم پوشی ہے۔ یہ رویہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا میڈیا کا کام صرف اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے تک محدود ہو چکا ہے؟ کیا صرف وہی جرائم قابلِ رپورٹ ہیں جو کسی کمزور طبقے یا مسلمانوں کے مذہب سے جوڑے جا سکیں؟ اور کیا وہ مذہبی ادارے جو اکثریتی بیانیے کے مطابق "مقدس” سمجھے جاتے ہیں، ان پر انگلی اٹھانا اب ممنوع ہو چکا ہے؟ یاد رہے کہ خاموشی دراصل اکثر ظالم کے ساتھ کھڑے ہونے کا دوسرا نام ہے۔ دھرمستھلا جیسے معاملے پر میڈیا کی خاموشی خود ایک ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اگر ملک کا ضمیر بیدار نہیں ہو رہا ہے تو ہمیں اس ضمیر کو بیدار کرنا ہوگا، قلم سے، زبان سے اور سچائی کی روشنی سے۔ یہ میڈیا کی وہ آزمائش ہے جہاں وہ بری طرح ناکام ثابت ہوا ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 جولائی تا 23 اگست 2025

HacklinkHair Transplant istanbul
hacklink
istanbul evden eve nakliyat
hair transplant
istanbul anl?k haberler
extrabet
cratosroyalbet
casibom
romabet
romabet
romabet
casibom
holiganbet
casibom
marsbahis
casibom
deneme bonusu veren siteler
Betpas
Adana Escort
?sparta escort?sparta escort?sparta escort?sparta escortantalya escort