گزشتہ سے پیوستہ: کائنات کی سب سے بڑی سچائیاں اور قرآن مجید
دین کی دعوت کے لیے قرآن کا طرزِ استدلال ہی سب سے موثر
ڈاکٹر ساجد عباسی
دعوت کے لیے صرف تقابلِ ادیان کا طریقہ کافی نہیں۔ قرآنی طرز کو اختیار کرنے کی ضرورت
رسالت کے دلائل :
محمدرسول اللہ ﷺ کی رسالت کے سلسلے میں ایک اہم دلیل یہ ہےکہ آپ ﷺ پر قرآن جیسا عظیم الشان کلام نازل ہوا اور یہ انسانی کلام نہیں ہوسکتا ۔وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ تَنزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ۔قسم ہے قرآن حکیم کی کہ تم یقیناً رسُولوں میں سے ہو،سیدھے راستے پر ہو (اور یہ قرآن)غالب اور رحیم ہستی کا نازل کردہ ہے۔سورۃ یٰس آیات ۲ تا ۵۔
ان آیات میں قرآن کی قسم اٹھائی گئی ہے یعنی قرآن کو ثبوت کے طورپر پیش کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہیں اور سیدھے راستے پر ہیں۔آپ ﷺ پر قرآن کا نزول ثابت کررہا ہے کہ آپؐ اللہ کے رسول ہیں ۔
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔اور اگر تمھیں اس امرمیں شک ہےکہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے ،یہ ہماری ہے یا نہیں،تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاوٴ،اپنے سارے ہم نواوٴں کو بُلالو، ایک اللہ کو چھوڑ کر باقی جس جس کی چاہو، مدد لےلو،اگر تم سچے ہو۔سورۃ البقرۃ ۲۳۔
اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ قرآن انسانی کلام نہیں ہوسکتا۔چونکہ محمد رسول اللہ ﷺ انسان ہیں اس لیے یہ آپؐ کا کلام نہیں ہوسکتا ۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حکمت کے تحت ہی آپ ؐکو لکھنے پڑھنے سے دور رکھا تاکہ منکرین کو یہ کہنے کا موقعہ نہ رہے کہ قرآن کو آپ ؐنے خود تصنیف کرلیا ہے۔
وَمَا كُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ ۔
(اے نبیؐ)تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے۔سورۃ العنکبوت ۴۸۔
قرآن کا اسلوب،ادب اور اس کے مضامین گواہی دے رہے ہیں کہ قرآن ایسی ہستی کی طرف سے نازل کردہ ہے جو لامحدود علم رکھتا ہے ۔ ہر انسانی کلام کے اندر یہ خامی رہتی ہے کہ اس کے مضامین شہادت دے رہے ہوتے ہیں کہ مصنف کا علم محدود ہے ۔ہر مصنف اپنی کتا ب شائع کرنے کے بعد اس کو بہتر بنانے کی گنجائش محسوس کرتا ہے۔قدیم سائنسی کتب وقت گزرنے کے ساتھ نئی تحقیقات کی روشنی میں متروک ہوتی گئیں ۔قرآن ۱۴۰۰ سال قدیم ہونے کے باوجود اس کا ہر بیان کسی سائنسی حقیقت سے نہیں ٹکراتا ۔ جو پیشین گوئیاں قرآن میں بیان کی گئیں وہ بھی من و عن پوری ہوئیں ۔قرآن سائنس کی کتاب نہیں ہے لیکن اس کے اندر جو حقائق آفاق و انفس کے متعلق بیان کئے گئے ہیں وہ آج کی سائنس کے مسلمہ حقائق سے عین مطابقت رکھتے ہیں جو پچھلے ۱۰۰ سال کے اندر دریافت کئے گئے ہیں۔قرآن کے منزل من اللہ ہونے کےثبوت میں قرآن کے اندر موجود کئی ایسی آیات پیش کی جاسکتی ہیں جو سائنس کے ایک طالب کو مکمل طورپر مطمئن کرسکتی ہے کہ قرآن انسانی کلام نہیں ہوسکتا ہے۔
آخرت کے دلائل :
قرآن میں آخرت کے متعلق دو طریقوں سے دلائل پیش کئے گئے ہیں ۔ایک طریقہ یہ ہے کہ آخرت ممکن ہے ۔اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آخرت کا ہونا منطقی طورپر ضروری ہے۔آخرت کے بغیریہ موجودہ دنیا بے مقصد بن جاتی ہے۔
أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ۔کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضُول ہی پیدا کیا ہےاور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟“سورۃ المومنون ۱۱۵۔
وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ وَإِذَا الْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ اور جب جانیں (جسموں سے) جوڑ دی جائیں گی، اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قُصور میں مار ی گئی؟سورۃ التکویر ۷ تا ۹۔
أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ۔ کیا ہم فرماں برداروں کا حال مجرموں کا سا کر دیں؟
سورۃ القلم ۳۵۔
ان آیات میں آخرت کی زندگی کی ضرورت پر دلائل دئے گئے ہیں کہ ایک باشعورانسان جیسی مخلوق کو بے شمار صلاحیتوں کے ساتھ پیداکرکے اس کو بے حساب وسائل دیکر عمل کی آزادی دی جائے کہ چاہے تو زمین میں فساد برپا کرے یا اصلاح کرے اور اس کے بعد اس سے باز پرس نہ کی جائے یہ غیر منطقی اور نہایت غیر معقول سوچ ہے۔ایک باپ نہایت سفاکی سے محض اپنی جھوٹی عزتِ نفس کی خاطر اپنی نوزائیدہ بچی کو زندہ درگورکرکے قتل کرتا ہے اور بچی اپنے باپ سے قیامت میں حساب نہ لے ایک غیر منطقی سوچ ہے۔ایک فرد ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کی جان لے لیتا ہے ۔دنیا کی کونسی سزا اس جرم کی تلافی کرسکتی ہے۔اور ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے مجرم اس دنیا میں دندناتے پھرتے ہیں اوربغیر کسی سزا کے اس دنیا سے رخصت ہوجاتےہیں۔یہ دنیا اس طرح بنائی گئی ہے کہ یہاں انصاف کے تقاضے ہرگز پورے نہیں ہوسکتے۔
اس کے بعد آخرت کے امکان کے قرآن میں بے شمار دلائل دئے گئے ہیں۔
أَوَلَمْ يَرَ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن نُّطْفَةٍ فَإِذَا هُوَ خَصِيمٌ مُّبِينٌ وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ الَّذِي جَعَلَ لَكُم مِّنَ الشَّجَرِ الْأَخْضَرِ نَارًا فَإِذَا أَنتُم مِّنْهُ تُوقِدُونَ أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍوَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
کیا انسان دیکھتا نہیں ہے کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا اور پھر وہ صریح جھگڑالُو بن کر کھڑا ہو گیا؟ اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہےاور اپنی پیدائش کو بھُول جاتا ہے۔ کہتا ہے ”کون اِن ہڈیوں کو زندہ کرے گا جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں؟“ اس سے کہو، اِنہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا، اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے وہی جس نے تمہارے لیے ہرے بھرے درخت سے آگ پیدا کر دی اور تم اس سے اپنے چُولہے روشن کرتے ہو۔ کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اِس پر قادر نہیں ہے کہ اِن جیسوں کو پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے۔سورۃ یٰس ۷۷ تا ۸۳۔
تاریخی دلائل :
جب کبھی رسولوں نے ایک اللہ کی بندگی کی طرف دعوت دی اور ان کی قوم کے لوگوں نے اس دعوت کا انکار کیا تو ان کےاندر فساد پیداہوا اور ان کے اخلاق بگڑے اور وہ قومیں تباہ و برباد ہوئیں ۔اللہ کے عذاب نے ان قوموں کو تباہ کیا ۔قومِ نوح،قوم ِ ثمود،قومِ عاد ،قوم ِلوط، قومِ شعیب اور قوم ِفرعون پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا۔ان کے کھنڈرات آج بھی پائے جاتے ہیں ۔دنیا میں وہی قومیں تباہی سے بچی رہیں جنہوں نے ایک اللہ کی بندگی اختیار کی ،رسولوں کی اطاعت کی اور آخرت کی جوابدہی کا احساس رکھتے ہوئے زندگی بسر کی ۔ جوقومیں بھی اللہ کی بندگی سے روگردانی کیں وہ قومیں زوال پذیر ہوتی چلی گئیں ۔اس سے تاریخی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ توحید ہی حق ہے اورکفر شرک باطل ہے۔
أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ۔تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے ربّ نے کیا برتاوٴ کیا۔اُونچے ستونوں والے عادِ اِرَم کے ساتھ،جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی؟اور ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں؟ اور میخوں والے فرعون کے ساتھ؟یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا کے ملکوں میں بڑی سرکشی کی تھی۔اور ان میں بہت فساد پھیلایا تھا۔آخرکار تمہارے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسا دیا۔سورۃ الفجر آیات ۶ تا ۱۳۔
قرآن میں واضح انداز میں اس دنیا کی حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ یہ دارلامتحان ہے اور امتحان کے لیے اس دنیا میں انسان کی زندگی کو مختصر اور عارضی بنایا گیا ہے ۔اور یہاں بقدرِ ضرورت سامانِ زیست فراہم کیا گیا۔قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ:
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ۔جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے،اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی۔سورۃ الملک ۲۔
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَاهُ سَمِيعًا بَصِيرًا إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
ہم نے انسان کو ایک مخلُوط نُطفے سے پیدا کیاتاکہ اس کا امتحان لیں اور اِس غرض کے لیے ہم نے اسے سُننے اور دیکھنے والا بنایا۔ ہم نے اُسے راستہ دکھایا ، خواہ شُکر کرنے والا بنے یا کُفر کرنے والا۔سورۃ لانسان ۲، ۳۔
إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۔واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سر و سامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔سورۃ الکھف ۷۔
اللہ تعالیٰ نے موت کےقبل کی زندگی کو دارالعمل اور بعد کی زندگی کودارالجزا بنایا ہے ۔اس حقیقت کو نہ سمجھنے سے انسانوں کی اکثریت الجھن کا شکار رہتی ہے ۔وہ اسی دنیا میں اپنی جنت کو تلاش کرنا چاہتے ہیں اور جب وہ خیالی جنت نہیں ملتی تو مایوس ہونے لگتے ہیں ۔
(ختم شد)
***
***
فی زمانہ داعیانِ اسلام دعوت الی اللہ کے میدان میں محض تقابلِ ادیان کو پیش کرکے دینِ اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔چونکہ آج کے زمانے میں لوگ مذہب بیزار ہوتے جارہے ہیں اس لیے اس طرزِ دعوت میں ،مدعو افراد کے لیے زیادہ اپیل باقی نہیں رہی۔ یہ طرز استدلال ان لوگوں کے معاملے میں تو مفید ہوسکتا ہے جو اپنے مذہب سے عقیدت رکھتے ہیں۔لیکن ان لوگوں کے معاملے میں مفید نہیں ہوسکتا جوخود اپنے مذہب سے بیزار ہیں۔ لہذا داعیان دین کو قرآنی طرز اسدلال ہی سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے شمارے میں مضمون کے پہلے حصے میں توحید کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے اوراب آخری حصے میں رسالت ، آخرت اور تاریخی دلائل کا احاطہ کیا گیا ہے۔قارئین تسلسل کے لیے سابقہ شمارہ ملاخطہ کریں۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 03 ستمبر تا 09 ستمبر 2023