(گزشتہ سے پیوستہ: قرآن پر ایک معترض کے اعتراضات کے جوابات

آیات الٰہی کے درمیان کہیں کوئی تضاد نہیں ہے

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

جس عمل کے پیچھے سچا عقیدہ نہ ہو وہ عمل، عملِ صالح نہیں ہوسکتا
۵۔ کیا شرک قابلِ معافی جرم ہے؟
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا۔ اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اِس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔ اللہ کے ساتھ جس نے کسی اور کو شریک ٹھیرایا اس نے تو بہت ہی بڑا جھوٹ تصنیف کیا اور بڑے سخت گناہ کی بات کی۔ (سورۃ النساء۴۸)
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاء وَمَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيدًا۔ اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہو سکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔ (سورۃ النساء۱۱۶)
مندرجہ بالا دونوں آیات میں شرک کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا ہے، جبکہ ذیل کی دو آیات میں شرک کی معافی کا اعلان ہے۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟
۔۔ ثُمَّ اتَّخَذُواْ الْعِجْلَ مِن بَعْدِ مَا جَاءتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ فَعَفَوْنَا عَن ذَلِكَ وَآتَيْنَا مُوسَى سُلْطَانًا مُّبِينًا۔ پھر انہوں نے بچھڑے کو اپنا معبود بنالیا، حالانکہ یہ کھلی کھلی نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا۔ ہم نے موسیٰؑ کو صریح فرمان عطا کیا۔ (سورۃ النساء ۱۵۳)
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا ۝ يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا۝ إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ۝ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا ۝ ۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پُکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں۔۔۔۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا۔ قیامت کے روز اس کو مکرّرعذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلّت کے ساتھ پڑا رہے گا اِلّا یہ کہ کوئی ان گناہوں کے بعد توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عملِ صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دےگا اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کر کے نیک عملی اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے۔ (سورۃ الفرقان ۶۸ تا ۷۱)
جواب :
سورۃ النساء کی آیات ۴۸ اور ۱۱۶ میں شرک کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اگر ایک آدمی موت سے قبل سچی توبہ کرے تو شرک جیسے گناہ سے بھی معافی مل سکتی ہے۔ اور شرک و کفر کی حالت میں موت اس جرم کو ناقابلِ معافی جرم بنا د یتی ہے۔
سورۃ النساء ۱۵۳ میں اللہ کی رحمت کا بیان ہے کہ شرک جیسے گناہوں کو بھی اللہ معاف کرے گا اگر اس کے بندے سچی توبہ کریں، لیکن اگر بغیر توبہ کیے کفر اور شرک کی حالت میں موت آجائے تو پھر معافی نہیں ہے۔
سورۃ الفرقان آیات ۶۸ اور ۶۹ میں فرمایا گیا ہے کہ شرک بہت بڑا گناہ ہے۔ آیات ۷۰ میں فرمایا گیا ہےکہ اگر ایک انسان سچی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا ہے بلکہ اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ برائیوں کو نیکیوں سے بدل سکتا ہے۔یہ ایک بہت بڑی خوش خبری ہے ان لوگوں کے لیے جو اب تک کافر تھے یا مشرک تھے۔ یہ اس لیے ہے کہ کفر و شرک کی پستی سے نکل کر ایمان کے مقامِ بلند تک پہنچنا بہت ہی بڑے عزم و حوصلہ اور قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اسی کی قدر فرماکر اللہ تعالیٰ نے برائیوں کو نیکیوں میں بدلنے کا خصوصی انعام رکھا ہے۔ اس کے معاً بعد آیت ۷۱ میں ان اہلِ ایمان سے خطاب ہے جو ایمان لانے کے بعد گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھیں۔ ہر ایک کے لیے معافی کا امکان ہے لیکن شرط یہ ہےکہ موت کا فرشتہ حاضر ہونے سے قبل آدمی سچی توبہ کرے۔ موت کو سامنے دیکھ کر توبہ کی جائے تو وہ قابلِ قبول نہیں ہے۔
۶۔ زنا کی سزا کیا ہے؟ سو کوڑے لگائے جائیں، قید کر دیا جائے یہاں تک کہ موت آجائے یا ان کو ایذا دی جائے؟
الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِئَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ زانیہ عورت اور زانی مرد، دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو۔ اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ (سورۃ النور۲)
وَاللاَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُواْ عَلَيْهِنَّ أَرْبَعةً مِّنكُمْ فَإِن شَهِدُواْ فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىَ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللّهُ لَهُنَّ سَبِيلاً ۔تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے۔ (سورۃ النساء۱۵)
وَاللَّذَانَ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُواْ عَنْهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا۔ اور تم میں سے جو اس فعل کا ارتکاب کریں ان دونوں کو تکلیف دو، پھر اگر وہ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (سورۃ النساء۱۶)
ان آیات میں زنا کی سزا کے مختلف احکامات بیان کیے گئے ہیں۔ کیا ان میں تضاد نہیں ہے؟
جواب:
سورۃ النور کی آیت نمبر دو میں زنا کی سزا کا آخری حکم نازل ہوا، جبکہ سورۃ النساء کی آیات ۱۵ اور ۱۶ دونوں زنا کے سلسلے میں ابتدائی احکامات ہیں ۔شریعت میں احکامات تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔ روزے کے احکامات بھی تدریجاً قرآن میں آئے ہیں۔اسی طرح سے پردے کے احکامات مدینے میں نازل ہوئے۔ شراب کے احکامات بھی تدریجاً نازل ہوئے ہیں۔پہلے فرمایا گیا کہ ان کا نقصان نفع سے زیادہ ہے، پھر نشہ کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا، بعد میں مدینے میں قطعی طور پر شراب کو ممنوع قرار دیا گیا۔ سورۃ النورمیں زنا سے متعلق آخری احکام نازل ہوئے جبکہ سورۃ النساء میں ابتدائی احکامات نازل ہوئے۔ زنا کی سزا اس لیے اتنی سخت رکھی گئی ہے کہ زنا اگر اس طرح علانیہ کیا جانے لگے کہ چار لوگ عینی شاہد گواہ کے طور پر ہوں تو ایسی صورت میں معاشرہ میں فحاشی تیزی سے پھیلے گی۔ اسلام میں زنا بالرضا بھی قابلِ سزا جرم اس لیے ہے کہ زنا سے خاندانی نظام باقی نہیں رہتا اور انسانی تمدن کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔
خلوت و تنہائی میں زنا کا ارتکاب کیا جائے تو حکومت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ لوگوں کی جاسوسی کرکے ان کو سزا دے۔ اگر زنا کا الزام لگایا جائے اور چار گواہ فراہم نہ ہوں تو الزام لگانے والوں کو ۸۰ کوڑے لگائے جائیں گے۔ یعنی اگر ایک آدھ شخص زنا کا عینی شاہد ہو بھی تو اس کا کام یہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ لوگوں میں اس کی تشہیر کرتا پھرے۔ زنا کی سزا کے احکامات کے ساتھ پردے کے احکامات نازل ہوئے ہیں جن سے ان تمام محرکات کو روکا گیا ہے جن سے زنا معاشرہ میں رائج ہوتا ہے۔ سورۃ النساء ۱۵ میں سزا صرف عورتوں کے لیے سنائی گئی جبکہ مردوں کا اس میں تذکرہ نہیں ہے۔ یہ اس لیے کہ یہ سزا ان عورتوں کے لیے ہے جو مردوں کو دعوتِ گناہ د ے کر زنا کا کاروبار کرتیں تھیں۔ سورۃ النساء آیت ۱۶ میں دونوں عورتوں اور مردوں کو سزا دینے کی بات کی گئی ہے لیکن حتمی شرعی حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا۔ ان تمام صورتوں میں چار گواہوں کی شرط لازمی ہے۔ ان آیا ت میں تدریج کا پہلو ہے نہ کہ اختلاف کا۔
۷۔کیا حضرت نوحؑ کا بیٹا طوفان میں غرق ہوا تھا؟
وَنُوحًا إِذْ نَادَى مِن قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَنَجَّيْنَاهُ وَأَهْلَهُ مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ ۔اور یہی نعمت ہم نے نُوحؑ کو دی۔ یاد کرو جبکہ اِن سب سے پہلے اس نے ہمیں پکارا تھا۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو کربِ عظیم سے نجات دی
سورۃ الانبیاء ۷۶۔
قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاء قَالَ لاَ عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ إِلاَّ مَن رَّحِمَ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِينَ
اُس نے پلٹ کر جواب دیا "میں ابھی ایک پہاڑ پر چڑھا جاتا ہوں جو مجھے پانی سے بچا لے گا” نوحؑ نے کہا، آج کوئی چیز اللہ کے حکم سے بچانے والی نہیں ہے سوائے اِس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرمائے” اتنے میں ایک موج دونوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ بھی ڈوبنے والوں میں شامل ہو گیا۔ (سورۃ ھود ۴۳)
کیا ان آیات میں تضادنہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا کہ نوحؑ کے گھر والوں کو بچالیا گیا۔دوسرے مقام پر فرمایا گیا کہ نوحؑ کے بیٹے کو غرق کر دیا گیا۔ کیا بیٹا گھر والوں میں شامل نہیں ہے؟
جواب:
سورۃ الانبیاء ۷۶ میں فرمایا گیا ہے کہ نوحؑ کے گھر والوں کو بچالیا گیا ۔لیکن سورۃ ھود آیت ۴۵ میں نوحؑ نے اللہ سے فرمایا کہ میرا بیٹا میرے اہل میں سے ہے۔کیا اس کو بچالیا جائے گا؟ اس کے جواب میں آیت ۴۶ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ صلبی بیٹا ہوسکتا ہے لیکن وہ روحانی اعتبار سے تمہارے اہل میں سے نہیں ہے بلکہ وہ عملِ غیر صالح ہے جس کے حق میں اللہ کا وعدہ پورا نہیں ہو سکتا۔ اللہ کے وعدے ایمان کی شرط کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں چاہے وہ نبی کا بیٹا ہی ہو۔ نوحؑ کے اور بھی بیٹے تھے جو بچالیے گئے اور ان کی بیوی بھی اللہ کے وعدے میں شامل نہیں تھی۔ چنانچہ سورۃ التحریم ۱۰ میں فرمایا گیا کہ وہ دوزخ میں جانے والوں میں شامل ہوگئی ۔اللہ تعالیٰ عادل ہے ۔رسول کا بیٹا اور بیوی ہونا بھی اللہ کی پکڑ سے انسان کو بچا نہیں سکتا جبکہ وہ اللہ کے نافرمان ہوں ۔
۸۔ کیا فرعون سمندرمیں غرق ہوا؟
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ ۔اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تا کہ تُو بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔ (سورۃ یونس ۹۲)
فَأَخَذْنَاهُ وَجُنُودَهُ فَنَبَذْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ فَانظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظَّالِمِينَ ۔آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا۔ اب دیکھ لو کہ ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا۔ (سورۃ القصص ۴۰)
فَأَرَادَ أَن يَسْتَفِزَّهُم مِّنَ الأَرْضِ فَأَغْرَقْنَاهُ وَمَن مَّعَهُ جَمِيعًا ۔آخرکار فرعون نے ارادہ کیا کہ موسیٰؑ اور بنی اسرائیل کو زمین سے اکھاڑ پھینکے مگر ہم نے اس کو اور اس کے ساتھیوں کو اکٹھا غرق کر دیا۔سورۃ بنی اسرائیل ۱۰۳۔
فَلَمَّا آسَفُونَا انتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ أَجْمَعِينَ۔ آخر کار جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کر دیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کر دیا۔ (سورۃ الزخرف ۵۵)
کیا ان آیات میں تضاد نہیں ہے کہ ایک جگہ فرمایا گیا کہ فرعون اور اس کی فوج کو غرق کردیا گیا ہے، دوسری جگہ فرمایا گیا کہ اس کے جسم کو بچالیا گیا ۔
جواب:
ان تمام آیات میں فرمایا گیا کہ فرعون کو غرق کردیا گیا، البتہ سورۃ یونس آیت ۹۲ میں فرمایا گیا کہ : تیری لاش کو بچا کر ہم عبرت کا سامان بنائیں گے۔اس آیت میں فرعون کو بچانے کی بات نہیں بلکہ اس کو لاش کو عبرت کے لیے بچانے کی بات کہی گئی ہے۔
یہ ایک معجزہ ہے کہ آج تک فرعون کی لاش غرقابی کے ڈھائی ہزار سال بعد بھی محفوظ ہے۔فرعون کے جسم کو ۱۸۹۸ ء میں دریافت کیا گیا جس کو قاہرہ کے میوزیم کے Royal Mummies Room میں رکھا گیا ہے۔ یہ آیت قرآن کے کلامِ الہی ہونے کا ایک بین ثبوت ہے کہ قرآن کی پیشین گوئی پوری ہوئی ۔
۹۔ عیسائی جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُواْ وَالَّذِينَ هَادُواْ وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحاً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ۔یقین جانو کہ نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں یا صابی، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ (سورۃ البقرۃ ۶۲)
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اعْبُدُواْ اللّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّهُ عَلَيهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ۔ یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابن مریم ہی ہے حالانکہ مسیح نے کہا تھا کہ "اے بنی اسرائیل! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں۔ (سورۃ المائدہ ۷۲)
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ۔اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا۔ (سورۃ آل عمران ۸۵)
سورۃ البقرۃ آیت ۶۲ میں فرمایا گیا ہے کہ یہودی، نصاریٰ، صابی اور مسلم سب کو نجات ملے گی، جبکہ دوسری آیات میں فرمایا گیا کہ نصاریٰ شرک کی بدولت جہنم میں جائیں گے۔ کیا یہ تضاد نہیں ہے؟
جواب:
ان تین آیات میں کوئی اختلاف اور تناقض نہیں ہے۔ سورۃ البقرۃ ۶۲ میں فرمایا گیا ہے کہ نجات کے لیے ایمان اور عملِ صالح دونوں درکا رہیں۔ ایمانیات میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کو شرطِ نجات کے لیے بیان کیا گیا ہے۔ ایمان باللہ میں یہ بات شامل ہے کہ ایمان شرک کی آمیزش سے پاک ہو۔ عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کہنا یا ان کو اللہ کا بیٹا سمجھنا اللہ تعالیٰ کی ذات میں شرک کرنا ہے جو ایمان باللہ کے بالکل منافی ہے۔اسی طرح جو حضرت عیسیٰؑ سے متعلق عقیدۂ تثلیث کو مان لے اور صلیب پر ان کی موت کو کفارہ اور نجات کا ذریعہ سمجھے تو یہ عقیدہ آخرت میں بہت بڑی تحریف ہے۔ ایمان کے بعد عملِ صالح کو نجات کی دوسری اہم شرط بتلائی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عمل صالح کب عملِ صالح بنتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ جس عمل کے پیچھے سچا عقیدہ نہ ہو وہ عمل،عملِ صالح نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ اللہ کا رسول ہی بتلائے گا کہ کن گناہوں سے بچنا ہے اور کون سے اعمال، اعمالِ صالح ہیں اور ان کو کس طرح انجام دینا ہے ۔رسول اللہ ﷺ کی سندِ جواز کے بعد ہی عمل، عملِ صالح بنتا ہے۔ مسلمان کا عمل بھی ان شرطوں کے ساتھ مشروط نہ ہو تو وہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی،نصاریٰ اور صابئین کو بھی دعوتِ ایمان و عمل دی جا رہی ہے۔ اسلام ایک ہی دین ہے جو خالقِ کائنات نے تمام رسولوں کے ذریعے مختلف زمانوں میں انسانوں کو دیا ہے۔ اس بات کی چانچ کی جاسکتی ہے کہ کیا قرآن اللہ کا کلام ہے یانہیں؟ اور محمدؐ اللہ کے سچے رسول ہیں یا نہیں؟ جب دلائل سے ثابت ہو جائے کہ قرآن اللہ کا آخری اور محفوظ کلام ہے اور محمدؐ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول ہیں تو پھر اسلام کو بحیثیتِ دین قبول کرنے کے سوا نجات کا کونسا راستہ ہوسکتا ہے؟
۱۰۔ کیا اللہ غیر مسلموں کے نیک اعمال کی جزا دیتا ہے؟
مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُواْ مَسَاجِدَ الله شَاهِدِينَ عَلَى أَنفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُوْلَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ ۔ مشرکین کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مسجدوں کے مجاور و خادم بنیں درانحالیکہ اپنے اوپر وہ خود کفر کی شہادت د ے رہے ہیں۔ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے اور جہنّم میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ (سورۃ التوبہ ۱۷)
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ۔ پھر جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اس کو دیکھ لے گا۔ (سورۃ الزلزال ۷)
کیا ان دونوں آیات میں تضاد نہیں ہے؟
جواب:
ان دونوں آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے۔سورۃ التوبہ آیت ۱۷ میں فرمایا گیا ہے کہ شرک کی آمیزش کے ساتھ مساجد کی خدمت بھی ناقابلِ قبول ہے۔ شرک کا عقیدہ نیک عمل کو بھی ضائع کر دیتا ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص نے ملک کے ساتھ غداری کی ہے تو اس صورت میں اس کی کوئی خدمت بھی قابلِ قبول نہیں ٹھیرے گی۔اسی طرح ایک بیوی کی بے وفائی اس کے گھریلو کاموں میں سلیقہ مندی کو بھی ملیا میٹ کردے گی۔سورۃ الزلزال کی آیت میں فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نیکی اور برائی کو دیکھے گا۔ چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا بھی حساب رکھا جائے گا اور چھوٹی سے چھوٹی برائی کا بھی حساب رکھا جائے گا۔ اگر بندہ وفادار ہوتو چھوٹے چھوٹے قصور اللہ معاف فرمائے گا لیکن اگر بندہ اللہ کا انکار کرکے یا اس کی ذات اور صفات میں دوسروں کو شریک بنا کر اس کے ساتھ سرکشی و بے وفائی کا رویہ اختیار کرے گا تو اس کے نیک اعمال کا آخرت میں کوئی اجر نہیں ملے گا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے بظاہر نیک اعمال کی جزا دنیا ہی میں دے دی جائے لیکن آخرت میں ان لوگوں کے لیے کوئی حصہ نہیں ہوگا جو ایمان سے محروم ہوں گے۔
۱۱۔جہنم میں دوزخیوں کا کھانا کیا ہوگا؟
لَّيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِن ضَرِيعٍ ۔خاردار سوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا ان کے لیے نہ ہوگا۔ (سورۃ الغاشیہ ۶)
إِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِي أَصْلِ الْجَحِيمِ ۝ طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُؤُوسُ الشَّيَاطِينِ ۝ فَإِنَّهُمْ لَآكِلُونَ مِنْهَا فَمَالِؤُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ ۝ وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی تہ سے نکلتا ہے اس کے شگوفے ایسے ہیں جیسے شیطانوں کے سر۔ جہنمی اسے کھائیں گے اور اسی سے پیٹ بھریں گے۔ (سورۃ الصافات ۶۴ تا ۶۶)
وَلَا طَعَامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ ۝ لَا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخَاطِؤُونَ ۝ اور نہ زخموں کے دھوون کے سوا اِس کے لیے کوئی کھانا ہے جسے خطا کاروں کے سوا کوئی نہیں کھاتا۔(سورۃ الحاقہ۳۶، ۳۷)
کیا ان آیات میں تضاد نہیں ہے کہ ایک جگہ فرمایا گیا کہ خاردار سوکھی گھاس کے سوا ان کے لیے کوئی کھانا نہ ہوگا اور دوسری جگہ فرمایا گیا کہ زخموں کے دھوون کے سوا ان کے لیے کوئی کھانا نہ ہوگا؟
جواب:
دوزخیوں کا کھانا زقوم کا درخت ہوگا جو خاردار سوکھی گھاس کی طرح ہوگا۔زقوم کا درخت جہنم کی تہ سے نکلتا ہے۔کھانے کو مشروبات سے الگ کرکے دیکھا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ کھانے میں دوزخیوں کو زقوم کا درخت یعنی خاردار گھاس دی جائے گی۔
سورۃ الحاقہ میں فرمایا گیا کہ زخموں کا دھوؤن ان کا کھانا ہوگا۔ سورۃ النبأ آیت ۲۵ میں فرمایا گیا کہ زخموں کا دھوؤن ان کا مشروب ہوگا۔ایک ہی چیز کھانا بھی ہوسکتی ہے اور مشروب بھی اس کے گاڑھے پن کے مطابق۔
دوسرے مقامات پر فرمایا گیا کہ دوزخیوں کو جب پیاس لگے گی تو ان کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ قرآن کی ایک آیت قرآن کی دوسری آیت کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ آیات آپس میں contradictory نہیں ہیں بلکہ یہ آپس میں complimentary ہیں۔
معترضین کے اعتراضات سے معلوم ہوتا ہےکہ انہوں نے اعتراض برائے اعتراض کے لیے قرآن کی ایک ایک آیت کو علیحدہ کر کے isolation میں اس کا مطلب نکالنے کی قصداً کوشش کی ہے، جبکہ قرآن کو سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت اسی مضمون کی دوسری آیت کی تشریح کرتی ہے۔ یہ طریقہ ان لوگوں کا ہوگا جو ہدایت کے طالب ہوتے ہیں۔ جس نیت کے ساتھ قرآن کو پڑھا جائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کو یا تو ہدایت سے نوازے گا یا گمراہ کردے گا۔ يُضِلُّ بِهِ كَثِيراً وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلاَّ الْفَاسِقِينَ۔
***

 

یہ بھی پڑھیں

***

 قرآن کو سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی ایک آیت اسی مضمون کی دوسری آیت کی تشریح کرتی ہے۔ یہ طریقہ ان لوگوں کا ہوگا جو ہدایت کے طالب ہوتے ہیں۔ جس نیت کے ساتھ قرآن کو پڑھا جائے گا اسی طرح اللہ تعالیٰ ان کو یا تو ہدایت سے نوازے گا یا گمراہ کر دے گا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 14 جولائی تا 20 جولائی 2024