گزشتہ سے پیوستہ:قائد تحریک محمد یوسف پٹیل صاحب سے ایک ملاقات
سودی نظام سے بچ کر کامیاب کاروبار: صبر، شراکت داری اور منصوبہ بندی کی اہمیت
مشتاق رفیقی
نئے کاروباری مواقع: پیکیجنگ، پلوشن اور آئی ٹی کے شعبے میں مسلمانوں کی شرکت ضروری
اردو زبان کا مستقبل: اس زبان کی قدر دانی اور تحفظ کے لئے ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں
سوال: پہلے مسلمانوں کی اکثریت تجارت کی طرف زیادہ مائل رہتی تھی مگر اب وہ بات نہیں رہی۔ ایک تو وسائل کی کمی، معاشی مجبوریاں اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ تجارتی قوانین سے لاعلمی، تو ایسے میں مسلمانوں میں پھر سے تجارت کو عام کرنے لیے کیا کیا جانا چاہیے؟ ایک کامیاب تاجر کی حیثیت سے آپ کیا مشورہ دیں گے؟
جواب: مسلمانوں کے اندر قدرتی طور پر تاجرانہ ذہنیت موجود ہے، مگر انہیں صحیح رہنمائی نہیں ملتی، آج رہنمائی کی بڑی ضروت ہے۔ کیونکہ حکومت کی طرف سے بھی اتنے زیادہ فنڈس وغیرہ ملتے ہیں، جس میں سودی اور غیر سودی بھی ہیں، غیر سودی میں بھی بہت ساری اسکیمیں چلتی ہیں، پہلی بات یہ کہ سارے معلومات انہیں فراہم کرانے ہیں اور دوسری بات ہمارے لوگوں میں آج کل بہت زیادہ غفلت اور کاہلی آگئی ہے، اس کا حل تلاش کرنا ہے۔ جماعت اسلامی نے اس کے لیے رفاح چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریس کے نام سے ایک ادارہ تشکیل دیا ہے، اس کا کام یہی ہے یعنی اسٹارٹ اپ کرانا، یعنی کوئی بزنس میں نہیں ہے تو اس کے لیے نیا بزنس شروع کرانا اور ایک اسکیل اپ ہے یعنی جو پہلے سے کاروبار میں ہیں ان کو اس میں اور زیادہ توسیع کرانا اور آگے بڑھانا۔ اس میں بڑی کامیابی مل رہی ہے، تقریبا سترہ اسٹیٹس کے اندر وہ پھیل چکی ہے اور ان شاء اللہ اور بھی توسیع ہوگی۔ اس میں ہمارے مسلم تاجروں کے درمیان ہی اگر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق پیدا ہوگیا تو بہت بڑا کام ہوسکتا ہے، مثلاً رفاح والوں نے دہلی کے اندر ایک پروگرام رکھا تھا، فششریس یعنی مچھلی پالن کے تعلق سے، اس میں ایک صاحب جو پہلے سے اس کاروبار میں تھے وہ بتا رہے تھے کہ ان کے پاس بڑے بڑے تالاب ہیں اور وہ ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں مگر تالاب میں جاکر مچھلی پکڑنے اور چارہ ڈالنے کے لیے انہیں چھوٹی چھوٹی کشتیاں چاہئیں، یہ اگر کوئی بناتا ہے تو بتائیں، تو مجلس میں سے تین چار لوگ اٹھ کھڑے ہوئے کہ میں یہ بنا کر دے سکتا ہوں اور آپس میں ان کا تال میل ہوگیا، تو اس طرح سے اگر ہم لوگ جوڑیں گے تو یہ بھی بڑا کام ہوسکتا ہے۔
آج کل بزنس کے نئے نئے میدان آگئے ہیں، مثلاً پولیوشن، ہمارے بچپن میں اس کے بارے میں کہیں سنتے تھا کیا؟ مگر آج یہ ایک بڑا کاروبار بن چکا ہے، اس کے مشینس ہیں اس کے کئی کیمیکلس ہیں اور میکرو آرگنائزم ہیں۔ اسی طرح پیکیجنگ کو لے لیں، پراڈکٹ سے زیادہ اس کی انڈسٹریاں ہیں، یہ سب پہلے نہیں ہوتے تھے۔ یہ جو نئے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں ان کو کھوج کر نکالنا ہے۔ رفاح یہی کام کر رہی ہے۔ ہماری بستی کولے لیں یہاں چمڑے کے علاوہ کوئی دوسری سوچ ہے ہی نہیں، اسی وجہ سے رفاح جتنی کامیاب دوسری بستیوں میں ہے وہ یہاں پر نہیں ہے، اس لیے کہ لوگ دوسرا کچھ سوچتے ہی نہیں، سوچنا چاہیے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی لوگ آئی ٹی میں جاتے ہیں، پروموٹ ہو کر ایک بڑے لیول تک پہنچ جاتے ہیں اور انہیں اچھے پیسے بھی ملتے ہیں، وہ خود کفیل ہو جاتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں بس اب بہت ہوگیا ہے، جو ہے اسی میں سے کھاؤں گا اور سماج کے لیے بھی کچھ کام کروں گا بس۔ مگر امریکہ میں ہندوستان کے جو لوگ گئے ہیں خاص کر تمل ناڈو سے اگر ان کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ وہ وہاں اداروں کے وائس پریسڈنٹ کا جو لیول ہوتا اس تک بڑی آسانی سے پہنچ جاتے ہیں، اس کے بعد سی ای او بننے کا نمبر آتا ہے۔ حال ہی میں ہمارے وزیر اعظم نے وہاں کے دس بڑے کارپوریٹ کمپنیوں سے ملاقات کی اس میں چھ کے سی ای او ہندوستانی تھے، تو کیوں ہمارے لوگ اس طرح نہیں آگے بڑھ سکتے، جب دوسرے لوگ اتنا آگے جا سکتے ہیں تو ہمارے کیوں نہیں۔ یہ بہت بڑا میدان ہمارے سامنے ہے اور پھر روبوٹکس وغیرہ فیلڈ میں بہت کام کرنا باقی ہے اور یہ سب تعلیم یافتہ طبقے کے لیے ہے۔ جو غیر تعلیم یافتہ طبقہ ہے ان کے درمیان بھی بیداری لانے کی ضرورت ہے۔ بنگلورو میں آئی ٹی سیکٹر کی جو تیز رفتار ترقی ہورہی ہے اس کی وجہ سے وہاں ہوٹلوں، گھروں و ٹرانسپورٹ وغیرہ کی مانگ بڑھ گئی ہے، اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، تعلم یافتہ، نیم تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقے کے لیے کیا کرنا ہے اس کی منصوبہ بندی کرنی ہو گی۔ اس کے لیے رفاح کام کررہی ہے اور آگے بھی کرے گی، جماعت اسلامی نے اس کی بنیاد رکھی ہے اور اس کا بھر پور تعاون بھی کررہی ہے۔
سوال: سودی نظام جو آج ہمارے کاروبار کو جکڑے ہوئے ہے اس سے بچ کر کیا ہم ایک کامیاب تاجر بن سکتے ہیں، آج کے حالات میں یہ ایک بہت بڑا سوال ہے؟ اس پر آپ کی رائے۔
جواب: کیوں نہیں بن سکتے، لیکن اس کے لیے ہم میں صبر اور تحمل کی ضرورت ہے۔ ہم لوگوں میں اگر یہ ذہنیت ہو کہ آج میں نے کاروبار شروع کیا ہے اور کل کروڑ پتی بن جاؤں تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ سودی نظام اسی سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ صبر اور تحمل کے ساتھ کوئی یہ طے کر لے کہ میرے پاس جتنا سرمایہ ہے اسی سے میں کام کروں گا یا بلا سودی طریقہ، جیسے شراکت ہے اس کی بنیاد پر کچھ لوگوں کو شریک کر کے کام کروں گا تو ظاہر بات ہے یہ کام بہت آہستہ ہی چلے گا، اس کے لیے ہمارے اندر صبر ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہماری کاروباری سوچ بھی محدود ہے، یہ سوچ ہم میں ہرگز بھی نہیں ہونی چاہیے کہ کاروبار میں شروع کروں اور مجھ پر ہی ختم ہوجائے۔ کتنے بڑے بڑے کاروبار ہیں جیسے ٹاٹا وغیرہ، اس میں چھٹویں ساتویں نسل چل رہی ہیں۔ اس انداز میں ہم کیوں نہیں سوچتے۔ آج کل یہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ جن لوگوں نے چھوٹے چھوٹے چائنیز ریسٹورنٹ شروع کیے ہیں وہ کبھی کسی ریسٹورنٹ میں برتن مانجھتے تھے یا روٹیاں بناتے تھے مگر آج اونچائیوں پر ہیں، تو ہمیں اس انداز سے کام کرنا ہو گا۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کریں، محنت کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں تو سب ممکن ہے۔ سود کے بغیر کام کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ہے، میرا بھی یہی تجربہ ہے۔ اگر آپ کے اندر حرص و ہوس موجود ہو تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
سوال: بین الاقوامی تجارت آج کوئی مشکل بات نہیں رہی، ہمارے اکثر تاجر اس پر اتنی توجہ نہیں دیتے، کاروبار اگر بڑھ بھی جائے تو محدود رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایکسپورٹ امپورٹ کا میدان مسلمانوں کی شرکت سے اکثر خالی کیوں ہے؟
جواب: معاشی طور پر اگر دیکھیں تو مسلمانوں کی بھر پور نمائندگی سے سارے ہی میدان خالی ہیں، جہاں تک ایکسپورٹ کا معاملہ ہے ہندوستانی حکومت بھی اس کو بہت زیادہ انکریج کرتی ہے، اس لیے کہ انہیں فارن ایکسچینج چاہیے ہوتا ہے ورنہ بیلنس آف پیمنٹ کا مسئلہ آجاتا ہے تو اس کے لیے بہت زیادہ سہولتیں بھی دیتی ہے۔ مگر اس کاروبار کے لیے آپ کو سرمایہ بھی زیادہ رکھنا پڑتا ہے، باہر اگر آپ کو کام کرنا ہے تو کوالٹی اور کوانٹٹی دونوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے، اگر آپ کام آہستہ سے شروع کرتے جائیں گے تو ایک نیچرل پراسس کے تحت آپ یہ بھی کرسکتے ہیں۔ ایک اور بات یہاں سوچنے کی یہ ہے کہ آج ہندوستان خود ایک بڑی مارکیٹ بن گیا ہے، مثلاً ہمارے جوتے کے بڑے بڑے ایکسپورٹرس ہیں سب اپنا نمبر ٹو پلان بنا رہے ہیں کہ انڈین مارکیٹ کے اندر ہمارا مال ہو۔ انڈیا میں جوتوں کی بِکری بہت زیادہ ہے اور یہ بات ہر چیز میں آگئی ہے۔ ہندوستان کو ہمیں کم نہیں سمجھنا چاہیے، یہ بھی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ باہر والے یہاں آرہے ہیں،جتنے بڑے بڑے برانڈس ہیں سب ہندوستان میں آرہے ہیں، کیوں؟ اس لیے کہ یہاں بہت بکتا ہے، لہٰذا اس مارکیٹ کو بھی ہمیں چھوڑنا نہیں ہے اور ایکسپورٹ پر بھی توجہ دینی ہے، کیونکہ جس طرح حکومت بیلنس آف پیمنٹ کے بارے میں سوچتی ہے تو ملّی طور پر بھی ہم کو اپنا بیلنس برقرار رکھنا ہے۔
سوال: آج کل یہ جو نئی کمپنیاں آرہی ہیں تو مسلمان ان میں انوسٹمنٹ سے کیوں ہچکچاتے ہیں، اکثر یہ غلط فہمی پھیلی ہوئی ہے کہ یہ سب سود پر چلتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم لوگ خود اس میں پہل کرکے کوئی کمپنی کیوں قائم نہیں کرتے حالانکہ ہمارے درمیان کاروبار میں شراکت، اجتماعیت اور مل جل کر کام کرنے کو شرعاً اور مذہبی حلقوں میں بھی ایک اچھی چیز سمجھا جاتا ہے، پھر بھی کیوں ہمارے درمیان کمپنی کی شکل میں کوئی چیز وجود میں نہیں آتی؟
جواب: مفتی تقی عثمانی صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے کہ حضرت خدیجہؓ جو کاروبار کرتی تھیں آپ اس کو آج کا سب سے بڑا اسٹاک ایکسینج سمجھ سکتے ہیں اس لیول پر ان کا کام ہوتا تھا۔ اسٹاک ایکسینج، شئیرس اور یہ شیئر بازار جو ہے اس کا بنیادی نقطہ نظر اگر دیکھیں تو ہمارے پاس شراکت کا جو نظریہ ہے یہ وہی ہے۔ اس میں کئی چیزیں ہیں، کچھ لوگ سود کی بنیاد پر پیسہ لیتے ہیں جسے ڈبنچرس کہتے ہیں، اس کی ممانعت ہے، یا یہ دیکھنا پڑے گا کہ یہ بڑی کمپنیاں اپنا سرمایہ کس جگہ انویسٹ کرتی ہے، تو اس پر باقاعدہ بڑی تحقیق ہوئی ہے اور ہمارے فقہا کرام وغیرہ سب نے بیٹھ کر اس پر کام کیا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان کے اندر جتنے رجسٹرد اسٹاکس ہیں یعنی بڑی کمپنیاں ہیں اتنی تعداد ہمارے پڑوسی ملکوں میں بھی نہیں ہیں۔ اور کئی بڑے بڑے ملکوں میں بھی نہیں ہیں۔ یعنی ان کے ذریعے سے حلال طریقے سے کمانے کے سب سے بہترین مواقع ہندوستان کے اندر ہیں۔ مگر یہ ہے کہ یہ ذرا پیچیدہ نظام ہے، پیچیدہ مطلب اگر سمجھیں گے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ اس کے لیے الگ سے جو شریعہ ایکسپرٹس ہیں جو اس سلسلے میں سمجھاتے ہیں، مدد کرتے ہیں اور انوسمنٹ کے لیے رہنمائی دے کر کمانے کے مواقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ انہیں آپ کھوج کر نکال سکتے ہیں، تو اس پر بھی بڑے پیمانے پرکام ہو رہا ہے، رفاح اس پر بھی توجہ دی رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حلال کمائی کے بہت سارے ذرائع ہندوستان کے اندر رکھے ہیں بہ نسبت دوسرے ملکوں کے، بس ہمیں انہیں کھوجنا ہے اور معلوم کرنا ہے۔
سوال: معاشی طور پر مسلمانوں کو کمزور سمجھا جاتا ہے تو اس پہلو سے انہیں مضبوط کرنے کے لیے کاروبار سے جوڑنا بہت ضروری ہے۔ جماعت اسلامی اس سلسلے میں جو کررہی ہے کیا وہ کافی ہے یا اس سے بڑھ کر بھی کرسکتی ہے یا اسے کرنا چاہیے؟
جواب: مطمئن تو کبھی نہیں ہونا چاہیے، ہمیں اور بھی زیادہ کام کرنے ہیں اور ہم کرتے رہیں گے،ان شاء اللہ۔
سوال: دوسری ملی تنظیمیں کیوں اس میں آگے نہیں آتیں، حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ تعلیم اور معاش مسلمانوں کے بنیادی مسائل ہیں، اگر یہ حل ہوگئے تو مسلمانوں کے اکثر مسائل خود بخود حل ہوسکتے ہیں۔
جواب: نہیں معلوم کیا وجہ ہے، کیونکہ شروع دن سے ساری دنیا میں معاشی طور پر جو بھی کام ہوا ہے خاص کر تحقیق وغیرہ پر، سب تحریک اسلامی سے جڑے ہوئے لوگوں نے ہی کیا ہے اور آج بھی وہی کررہے ہیں۔ کچھ جگہ باقی لوگوں نے بھی کیا ہے مگر بڑے پیمانے پر یہی کررہے ہیں اور اس کو سسٹمائز کرنے اور انسٹیٹیوشنلائز کرنے کے کام بھی ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کسی بڑی کمپنی میں انوسٹمنٹ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاس کچھ ایکسپرٹ کمیٹیاں ہیں، آپ ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہ حلال ہے کہ نہیں، ان کے پاس بعض پیرامیٹرز ہیں، اس کو رکھ کے وہ جائزہ لے کر بتاتے ہیں کہ یہ جائز ہے یا نہیں۔ ان لوگوں کو جماعت اور جماعتی متعلقین نے ہی تیار کیا ہے۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو دکھاوے میں نہیں آتا، بہت سارے لوگوں کو اس کا علم بھی نہیں ہوتا۔
سوال: یہ سوال ہنوز تشنہ ہے کہ کیوں ہمارے درمیان شرکت کی بنیاد پر کوئی بڑی کمپنی وجود میں نہیں آئی؟ کیا مستقبل قریب میں ایسا ممکن ہے؟ کیا کہیں کوئی منصوبہ بندی ہے؟
جواب: ایک بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اس سلسلے میں معلومات فراہم کرسکتے ہیں اور کاروبار ایک ایسا کام ہے جو خود انہیں کرنا ہے۔ کوئی دوسرا آدمی ان کی جانب سے نہیں کرسکتا۔ چونکہ اس نہج پر کام کرنا ہم نے عرصے سے چھوڑ دیا ہے تو ایولیشن میں تھوڑا وقت لگے گا، ان شاء اللہ اگر یہی جذبہ کار فرما رہا اور اسی انداز سے محنت ہوتی رہی تو وہ موقع بھی آسکتا ہے۔ معاشی میدان ایک ایسا میدان ہے جس کے اندر بڑے سے بڑا دشمن بھی مات کھا جاتا ہے۔ اگر آپ اس میدان میں مضبوط ہوگئے تو وہ آ کر آپ کے آگے ہاتھ باندھے کھڑا ہو جائے گا۔
سوال: آپ کا تعلق اردو زبان و ادب سے بھی کافی گہرا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملک میں اردو کے لیے حالات سازگار ہیں؟ کیا اس کا مستقبل یہاں محفوظ ہے؟
جواب:سچی بات یہ ہے کہ اردو کے تعلق سے یہاں حالات اچھے نہیں ہیں، اور اس کی بنیادی اور بڑی وجہ ہم خود ہیں۔ جب ہم میں سے ہر ایک کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ میں اپنی زبان کو باقی رکھوں گا،اس کی ترقی کے لیے کام کروں گا، تو دنیا کی کونسی طاقت ایسا کرنے سے ہم کو روک سکتی ہے۔ یہودی اس کی ایک زندہ مثال ہیں، ان کی ہیبرو زبان مر کر ختم ہوچکی تھی، مگر پھر بھی انہوں نے اسے کیسے کھڑا کیا۔ دنیا کے اندر کون ہیبرو بولتا ہے خود ان کے اندر بھی ایک بڑا طبقہ ہیبرو نہیں بولتا، اس کے باوجود یہ کیسے اسے باقی رکھے ہوئے ہیں۔ اصل میں ہم لوگوں کے اندر اس کو باقی رکھنے کے جذبے کی کمی ہے کہ یہ اپنی زبان ہے، اس کی ایک تہذیب ہے، اس کا ایک ورثہ ہے۔ جب تک ایسے جذبے اور فکر پیدا نہیں ہوں گے کچھ نہیں ہوگا۔ ظاہری طور حکومت اس معاملے میں آپ کا ساتھ دے، حالانکہ حکومت آپکے خلاف بھی ہو تو آپ کچھ نہیں کرسکتے۔ گزشتہ ستر سالوں میں حالات آج جتنے ہمارے مخالف ہیں اتنے کبھی نہیں تھے، اس کے باوجود بھی ہم کچھ نہیں کرسکے، کیونکہ اندر سے ہم کھوکھلے ہیں، یہ بات ہمارے اندر آنی چاہیے کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے میڈیم بدل جائے میں اپنی زبان سیکھوں گا اور اپنی زبان کو باقی رکھوں گا اور یہ جذبہ اگر پیدا ہو جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کو ختم نہیں کرسکتی۔ ویسے اردو کی قدر دانی تو ساری دنیا کے اندر ہو رہی ہے مگر ہم سے ہی نہیں ہو پا رہی ہے۔ دنیا میں یو این او کی طر ف سے ہو یا جو نئے سافٹ ویئرس آتے ہیں ان میں بھی وہ دیگر زبانوں کی طرح اردو کو بھی برابر کا مقام دیتے ہیں مگر ہمارے بچے اس کو استعمال نہیں کرتے۔ بنیادی غلطی ہماری ہے، ہم لوگ اگر اس کو سمجھ لیں اور اس پر کام کرنے لگیں تو اردو کا مستقبل یہاں بہت شان دار ہے۔
سوال: اب تک جتنی باتیں ہوئیں ان کے پس منظر میں ملت کے لیے آپ کا پیغام؟
جواب: ملت کے لیے پیغام یہی ہے کہ ہم دعوت کو اپنی زندگی کا محور بنائیں۔ ہر پڑھے لکھے اور غیر پڑھے لکھے آدمی کے اندر یہ جذبہ پیدا کریں کہ اس کے بنیادی فرائض میں پانچ فرائض کے بعد چھٹا دعوت ہے۔ قران کی مختلف آیات میں اس کی جانب اشارے ملتے ہیں کہ دعوت آپ کے لیے ڈھال کا کام کرے گی، وَاللہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ،
یعنی آپ کو لوگوں سے جو خطرہ ہے دعوت اس سے محفوظ رکھے گی۔ یہ شعور ہمارے لوگوں کے اندر آنا چاہیے کہ آپ کے سارے کام اس محور کے تحت چلیں، آپ کاروبار کریں، آپ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے اداروں کے اندر جائیں، آئی ٹی کمپنیوں کے اندر جائیں، تو پہلے ہی سے اپنے آپ کو تیار کرلیں، قرآن و سنت کی بنیادی باتوں کا علم رکھیں اور ساتھ ساتھ اس کے ترجمے و تفاسیر بھی پڑھ لیں۔ ہمارے امیرِ جماعت اکثر کہا کرتے ہیں کہ یہ جو اسلام مخالف ماحول پیدا ہوا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ آپ کے لیے دعوت کے بہترین مواقع پیدا کر رہا ہے، لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کے تعلق سے سوالات آرہے ہیں، ورنہ ان تک پہنچنے کے لیے آپ میں ایک جھجک ہو سکتی تھی۔ مثال یوں دیتے ہیں کہ کوئی مہمان گھر میں آجائے تو جس طرح کھانے پینے کے بہترین لوازمات ایک طبق میں سجا کر اس کے آگے پیش کرتے ہیں ایسا اللہ تعالیٰ آپ کے سامنے انہیں پیش کررہا ہے، اس موقع سے فائدہ اٹھانا آپ کی ذمہ داری ہے۔ یہی آج ہمارا مرکزی ہدف ہونا چاہیے اور باقی سب چیزیں اسی کے تحت ہوں۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 نومبر تا 30 نومبر 2024