گزشتہ سے پیوست:قائد تحریک محمد یوسف پٹیل صاحب سے ایک ملاقات

مثالی مسجد کا تصور: سماجی خدمت اور خواتین کی فعال شمولیت ضروری

0

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

مسلمانوں کی تعلیمی خود کفالت، روشن مستقبل کی بنیاد، توانائیوں کا ضیاع نہ ہونے پائے
سوال:یوں تو ہمارے پاس بہت سارے تعلیمی ادارے ہیں مگر پھر بھی ہم تعلیم کا جو مرکزی دھارا ہے اس کے ساتھ مکمل طور پر نہیں جڑ سکے ہیں، جیسے مختلف مقابلہ جاتی امتحانات جن کے ذریعے حکومت کے شعبوں تک ہماری رسائی ہو سکتی ہے، مرکزی حکومت کے یو پی ایس سی ہو یا ریاستی حکومتوں کے مقابلہ جاتی امتحانات یا ریلوے بورڈ وغیرہ کے امتحانات، ان میں جس طرح سے جڑنا چاہیے اس طرح ہم جڑ نہیں پاتے۔ ہم میں وہ بیداری نہیں ہے، ہمارے پاس منصوبہ بندی کی کمی ہے۔ اگر ہے تو ایسا کیوں ہے؟
جواب: ایجوکیشن کے سلسلے میں ہمیں ایک جامع منصوبہ بندی کرنی ہوگی کہ جس سے ہر شعبے میں مسلمان ترقی کریں، ہمارے پاس ایسی سوچ نہیں ہے، جیسے عام دنیا کا طریقہ ہے وہ جدھر چل رہیں ہم بھی ادھر چل رہے ہیں، آج کمپیوٹر اور آئی ٹی کا دور آیا تو ہمارا ہر بچہ چاہتا ہے کہ وہ اسی کے اندر جائے اور باقی میدان سب خالی ہیں۔ یہ اوروں کے لیے پیسے کمانے کا ایک ذریعہ بنے گا، مگر ہمارے لیے پیسہ کمانے کے علاوہ دین و ملت اور اسلام کے کاز کے لیے بہت ساری جگہوں تک پہنچنا ضروری ہے۔ اس میں ایک جگہ یو پی ایس سی کے امتحانات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت کے مختلف عہدوں تک پہنچنا بھی ہے۔
اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ سائنس کے میدان میں مسلمان بہت کم ہیں۔ جسے اسٹم کہتے ہیں، یعنی سائنس، ٹیکنالوجی انجینرنگ اور مینجمنٹ اس میں اب سوشیالوجی کا اضافہ کر کے اسٹمس کر دیا گیا ہے۔ سوشیالوجی ایک ایسا میدان ہے جس میں مسلمان جاتے ہی نہیں، جب کہ دیکھا جائے تو جو سوشیالوجسٹ اور پولیٹیکل ایکسپرٹس ہوتے ہیں وہی دنیا پر حکومت کرتے ہیں، قانون ان کا ہی بنایا ہوا چلتا ہے، کوئی کتنا بھی بڑا سائنسداں بن جائے، یا آئی ٹی ایکسپرٹ بن جائے، اسے ان کے سامنے کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے لوگ وہاں تک پہنچتے ہی نہیں، ہمیں دو طرفہ جانا ہے، ایک جو مقابلہ جاتی امتحانات ہیں ان کو پاس کر کے اعلیٰ عہدوں میں جانا ہے اور دوسرا ’اسٹمس‘ کے تعلیمی میدانوں میں پی ہیچ ڈی کرکے ایکسپرٹ بن کر مقام حاصل کرنا ہے۔ ایسا نہیں کہ یہ کوئی سازش ہے بلکہ خدمت کی نیت سے بلکہ ساری انسانیت کی خدمت کے لیے جانا ہے اور وہاں بھی جو کرپشن، بھید بھاؤ اور تعصب پایا جاتا ہے اسے ختم کرکے ہم کو عدل و قسط پر مبنی ایک سماج بنانے کے لیے جانا بہت ضروری ہے۔
سوال: اس کے لیے ہمیں کیا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے، اس سلسلے میں جماعت اسلامی کیا کردار ادا کر رہی ہے یا کرسکتی ہے؟
جواب:اس سلسلے میں جماعت اسلامی نے ایک الگ ادارہ بنایا ہے، فیڈریشن آف مسلم ایجوکیشنل انسٹیٹیوشنس، اس میں بہت سے ادارے شامل ہوئے ہیں۔ اگر ہماری کوششیں الگ الگ چیدہ چیدہ ہوں تو اس کا فائدہ نہیں، ایک جٹ ہو کر ایک طریقے سے منصوبہ بندی کے ساتھ کام کریں گے تو بڑا فائدہ ہوگا۔ ہمارے بہت سارے ادارے اب خود مختار ہوگئے ہیں اور وہ خود اپنا نصاب تیار کرسکتے ہیں۔ ایسے میں انہیں کیا کرنا چاہیے، ہمارے پاس آج کل جو فرنٹ سبجیکٹس ہیں انہیں کیسے بہتر بناسکتے ہیں، اس کے اندر اسلامی نکات کیسے شامل کرسکتے ہیں، اس پر فکر کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج تعلیم کو کمرشیل بنایا جا رہا ہے یا بنا دیا جا چکا ہے، اب اس کو واپس تعلیم برائے تعلیم اور انسان کی بنیادی ضرورت سمجھ کر کمائی کے ساتھ جوڑے بغیر کیسے کام کرسکتے ہیں اس دائرے میں لانا ہو گا۔اس کے علاوہ انتظامی معاملات ہیں،اکثر ہمارے ادارے قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور کئی کو تو ان کا علم بھی نہیں ہوتا، ایسے اداروں کو تلاش کرکے انہیں قانون کے تحت لانا ہو گا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ایک جگہ آرٹس اینڈ سائنس کالج ہے تو اس سے بیس پچیس کلو میٹر دور ایک اور آرٹس اینڈ سائنس کالج بنا دیا جاتا ہے۔اس سے ہمارے مین پاور اور فنڈز بٹ جاتے ہیں۔ ہم آپس میں طے کرلیں کہ یہ ادارے فلاں کام کریں اور دوسرے فلاں کام اور اس کے لیے انہیں بنیاد فراہم کرنا ہو گا۔ یہ سب سوچ کر اور اس مقصد کو لے کر ہی جماعت نے یہ ادارہ بنایا ہے۔ بہت سارے ادارے اس میں ممبر شپ لے رہے ہیں اور یہ کام ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے، ان شاء اللہ جیسے جیسے یہ آگے بڑھے گا تو اس کا بہت بڑا فائدہ ہوگا۔
سوال: یہ جو تعلیم کا بھگوا کرن شروع ہو چکا ہے جس کے ذریعے وہ لوگ اپنے نظریات کسی نہ کسی شکل میں ٹھونستے جا رہے ہیں، ایسے میں ہمارے اداروں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا کہ قانون کی زد میں آئے بغیر اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے کیسے اس سے بچا جائے؟
جواب: اس سلسلے میں یہ کوشش ہونی چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو ادارے اپنے رہیں اور ہمارے بچے بچیاں اپنے ادارے میں پڑھیں۔ ان میں ان کی پوری حفاظت ہو سکتی ہے۔ ایسے میں ان کا نصاب بھی ہم پڑھائیں تو پڑھانے والا اس نصاب پر اپنی بات رکھ سکتا ہے۔ ہمارے ایک استاد تھے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر مجھے کمیونسٹ لٹریچر بھی دے دیا جائے تو اس کو پڑھاتے وقت میں طلباء کو اسلام سمجھا دوں گا۔ بہر حال ہمارے اساتذہ کو تربیت یافتہ اور معیاری ہونا چاہیے۔ ہمارے اداروں میں یہ ممکن ہے۔ لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اندر محدود ہوکر رہ جاتے ہیں اور ان کا بھی مقصد یہ بھی ہے کہ ہم کو محدود دائرے میں بند کر دیا جائے، کیونکہ ان کو ڈر یہ ہے کہ جتنے زیادہ غیر مسلموں کے ساتھ ہمارے تعلقات استوار ہوں گے، اتنا ان کا نقصان ہوگا۔ چونکہ مسلمانوں کے پاس ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ بہت جلد اثر انداز ہو جاتے ہیں اسی لیے ہمیں الگ کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس منفی پہلو کا علاج یہ ہوسکتا ہے کہ ہم باقاعدہ ان کے اداروں میں جائیں، پڑھیں اور ان سے فیض یاب ہوتے رہیں، مگر ہم متوازی ایک ایسا سسٹم بنائیں، جیسے مکاتب کا نظام ہر جگہ چل رہا ہے، اس کو آگے بڑھا کر ان اداروں میں جو خدشات ہیں اور وہ لوگ ہمارے ذہنوں میں جو زہر بھرنا چاہتے ہیں اس کا تریاق ہم پہلے سے مہیا کر دیں، جیسے ویک اینڈ اسکولس اور ایوننگ اسکولس بنائیں اور وہاں دینی تعلیم مہیا کرائیں۔ دینی تعلیم کے نام پر ہمارے یہاں صرف ناظرہ قرآن یا کچھ فقہی مسائل جیسے طہارت اور پاکیزگی کے بارے میں معلومات فراہم کر لینے کو کافی سمجھا جاتا ہے، ایک اعتبار سے یہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کوئی مسلمان نہیں رہ سکتا مگر اس سے آگے بڑھ کر چونکہ ہمیں وہاں نظریاتی جنگ لڑنی ہے تو ہمیں نظریاتی تعلیم بھی دینی پڑے گی، اس سلسلے میں لڑکوں کے درمیان ایس آئی او اور لڑکیوں میں جی آئی او غیر رسمی طریقے سے تربیت کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ہر کوئی پرکھ سکتا ہے اور محسوس کر سکتا ہے کہ جو بچے ان تنظیموں سے جڑتے ہیں ان کا ذہنی معیار بلند ہوجاتا ہے، ان پر باہر چاہے جتنے بھی حملے ہوں وہ پسپا نہیں ہوتے، اگر کوئی بات ان کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ فوراً اپنے گروپ میں بیٹھ کر بات کرکے اس کا حل نکال لیتے ہیں، تو یہ سب کام ہم کر رہے ہیں۔ ایک تو ہمارے ادارے ہوں، مگر ہماری ذہنیت یہ ہونی چاہیے کہ ہم گھیٹوازائیشن کو پسند نہیں کریں گے، ہم جائیں گے آگے بڑھ کر ان سے ملیں گے اور وہاں سے جو خطرات ہمیں لاحق ہوسکتے ہیں ان کا علاج اسی طرح سے کرنا ہو گا۔
سوال: جدید تعلیمی ادارے قائم کرنے میں جماعت اسلامی کیا کردار ادا کر رہی ہے، جیسے اے آئی ہے اسپیس کے تعلق سے اور سائنس کے نئے نئے میدان جو کھوج میں آرہے ہیں انہیں لے کر ادارے قائم کرنے میں، کیونکہ مستقبل میں ہر میدان میں ان کا ہی راج ہوگا، کیا اس سلسلے میں جماعت کوئی لائحہ عمل رکھتی ہے؟
جواب: اداروں کے تعلق سے جماعت کا باقاعدہ پلان ہے کہ مختلف علاقوں میں جہاں پر ہمارے ادارے نہیں ہیں وہاں پر قائم کیے جائیں۔ ایسا نہیں کہ جہاں پہلے سے ادارے ہیں کالجس ہیں وہیں پر ہم جائیں اور ان سے کامپٹیشن کریں کیونکہ اس سے وسائل اور وقت کا زیاں ہوتا ہے۔ ان اداروں کے لیے باقاعدہ گائیڈ لائن دی گئی ہے کہ بنائیں تو مثالی بنائیں۔ اس کے لیے جماعت جو نقطہ نظر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ دعوتی کام جو ایک فرد کرے گا وہ صرف دوسرے فرد کو متاثر کرے گا مگر ہمارے ادارے ہوں گے یعنی تعلیمی ادارے، معاشی ادارے یا ہسپتال، یہاں اگر کام کریں گے تو ایک بڑے گروہ کو متاثر کر سکتے ہیں۔ تو ہمارے جو ادارے بنے ایسا نہیں کہ چار کے ساتھ وہ پانچویں ہوں، بلکہ ان کی ایک منفرد شناخت ہونی چاہیے۔
گائیڈ لائن اور پلان کے ساتھ ان شاءاللہ یہ ادارے جہاں جہاں بنیں گے ان میں جدید علوم کو بھی شامل کیا جائے گا اور یہ صرف پڑھانے تک نہیں بلکہ جماعت اپنے اڈمنسٹریشن کے اندر بھی ان علوم کو لانا چاہتی ہے اور ممکن حد تک لارہی ہے۔ آرٹیفشیل اینٹلجنس اور آئی ٹی کی جو دوسری چیزیں ہیں ان سب کو اپنے اندر لانے کا کام کر رہی ہے، بہر حال یہ ابتدائی مرحلے میں ہے اس میں اور ترقی کے امکانات باقی ہیں۔
سوال: ابھی مکاتب کی بات آئی تو ہمیں معلوم ہے کہ مکاتب کا نظام مساجد میں چلتا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم مساجد کو نماز اور عبادتوں کے علاوہ بھی بہت سے سماجی اور فلاحی کاموں کے لیے استعمال کرسکتے ہیں، یہ ذہنیت ہندوستانی مسلمانوں میں عمومی طور پر کیوں نہیں ہے، مسجدوں کو کیوں صرف عبادت تک محدود کردیا گیا ہے، اس ذہنیت کو بدلنے کے لیے ہمیں کس طرح کی کوشش کرنی ہوگی؟
جواب: اس کا سب سے بہتر علاج یہ ہو سکتا ہے کہ منبر و محراب سے یہ بات باہر آئے مگر اس کی توقع کم ہے۔ اس کے لیے جماعت اسلامی نے مثالی مسجدوں کا تصور پیش کیا ہے، اس کی پالیسی پروگرام میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے کہ ہر شہر میں ایک مثالی مسجد موجود ہو، مثالی مسجد کی تشریح میں لکھا گیا ہے کہ اس کا جو مؤذن ہوگا وہ خوش الحان ہوگا، اس کے بھی بڑے اثرات ہوتے ہیں، یہاں ہمارے پاس ہماری کمپنی میں جاپان کا ایک نمائندہ رہتا تھا، وہ کہتا تھا کہ صبح میں ایک اذان سنتا ہوں تو کان میں روئی ٹھونس لیتا ہوں اور مجھے اس سے سخت تکلیف ہوتی ہے مگر دوسرے ایک صاحب کبھی کبھار اذان دیتے ہیں تو اس میں مجھے موسیقی اور ایسا غنا لگتا ہے اور میں بہت محظوظ ہوتا ہوں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ دوسرا لکھا گیا ہے امام صاحب کی قرأت بھی بہت اچھی ہو تجوید اچھی ہو، اس کے بعد وہاں جو خطیب حضرات خطبہ دیتے ہوں وہ روایتی نہ ہوں، قصے کہانیوں سے ہٹ کر آج کے جو جدید مسائل ہیں ان کا حل وہ بتائیں اور ملت کی رہنمائی کریں۔ چوتھی بات اس میں یہ بتائی گئی ہے کہ امت کا آدھا حصہ ہم مسجدوں سے کاٹ چکے ہیں، خواتین کو مسجدوں میں لانا چاہیے، یہ اس لیے کہ ہم لاکھ کوشش کر لیں جس طرح مساجد میں ہر سال باون ترپن جمعے کے خطبات ہوتے ہیں وہ نہیں سن سکتی ہیں، ان کے لیے الگ سے پروگرام رکھنا ممکن نہیں۔ آج اگر بڑے شہروں میں الگ پروگرام کرنے کے لیے ہال لینا پڑے تو کتنا خرچ آتا ہے جب کہ اللہ تعالی کی جانب سے پورا انتظام ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے۔ آج اس تعلق سے فقہ کونسل کی جانب سے بھی اجازت مل چکی ہے تو ایسے میں بڑے پیمانے پر خواتین کو مسجدوں سے جوڑنا چاہیے۔ پانچویں بات جو اس میں لکھی گئی وہ پاکی و صفائی کے تعلق سے ہے، جنہیں ہم آدھا ایمان کہتے ہیں اگر وہی مسجدوں کے اندر نہ ہو تو اس کا برا اثر پڑے گا۔
پھر ایک بات یہ بھی لکھی گئی ہے کہ قدرتی وسائل جیسے ہوا پانی وغیرہ ان چیزوں سے جڑے پولیوشن کے مسائل ہیں، اس کو کیسے حل کرنا ہے اس کا بہترین نمونہ ہم پیش کرسکتے ہیں۔ ہمارے یہاں وضو کا بہت سارا پانی ضائع ہوتا ہے، مثالی مسجد کے اندر اس کو پھر سے ری سائیکل کرنے کا انتظام ہوگا اور گراونڈ واٹر ریچارج کا نظام بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ مسجد کا ایک حصہ تعلیم کے لیے مختص ہو جہاں باقاعدہ ٹیوشنس کا انتظام ہو، مقابلہ جاتی امتحانات جیسے یو پی ایس سی وغیرہ کے لیے کوچنگ کا نظم ہو، ان سب کے لیے اگر جگہ لینا پڑے تو کرایہ دینا پڑے گا اور بہت خرچ ہوگا، اللہ تعالیٰ نے جب ہمیں اتنا بہترین نظام دیا ہے تو اس کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آج کل تو دنیا بھر کے جتنے ریسورس پرسنس ہیں ان سے آپ آن لائن کہیں پر سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس کا مساجد میں انتظام کرنا چاہیے اور بڑے پیمانے پر کیا جانا چاہیے ۔ مثالی مسجدیں اگر بننی شروع ہوجائیں گی تو ملت کے بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ایسی مسجدیں جماعت اسلامی نے کچھ مقامات پر تعمیر بھی کی ہیں اور ہر بستی میں ایسی مسجد بنانے کے لیے کوشاں بھی ہے۔ یہاں ہم وانم باڑی میں مسجد یٰسین کو اسی طرح بنانے کی ہم کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ کام اس سلسلے میں ہم کرچکے ہیں اور کچھ ان شاء اللہ آگے کریں گے۔
(جاری)
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 نومبر تا 23 نومبر 2024