گزشتہ سے پیوستہ:ہر آسمانی کتاب پر ایمان مسلمان کی پہچان
تورات، زبور، انجیل اور قرآن کے علاوہ بھی کئی کتابیں منزل من اللہ ہیں
محمد جرجیس کریمی
سنیئر رکن ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ
قرآن مجید میں انبیاء کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں، ایک وہ جن کے ناموں کی تصریح موجود ہے اور دوسرے وہ جن کے نام اس میں بیان نہیں کیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں کہ ”صحیح یہ ہے کہ جن انبیاء کے نام مذکور ہیں تمام مسلمانوں کو ان پر نام بہ نام ایمان لانا چاہیے اور جن کے نام مذکور نہیں ہیں ان کی نسبت صرف یہ اجمالی ایمان کافی ہے کہ ان قوموں میں بھی خدا کے فرستادہ اور پیغمبر آئے تھے۔ گویا بہ تخصیص ان کے نام نہیں معلوم ہیں،وہ قومیں جن کا نام لیتی ہیں، اگر ان کی زندگی اور ان کی تعلیم نبوت اور رسالت کی شان کے مطابق ہیں تو ان کی نبوت اور رسالت کی طرف رجحان اور میلان بلکہ قرینہ غالب ہو سکتا ہے لیکن یقین اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے پاس ان باتوں پر یقین کرنے کا ذریعہ صرف وحی ہے اور وہ اس تخصیص و تعیین سے خاموش ہے” (سیرت النبی جلد ۴ص)
علامہ موصوف کی اس تحریر سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کے نزدیک دنیا کے تمام مذہبی رہنما یکساں طور پر قابل احترام ہیں۔گزشتہ کئی سالوں میں دنیا کے مختلف ملکوں میں قرآن مجید، اسلام اور رسالت مآب حضرت محمد ﷺ کے بارے میں توہین آمیز تبصرے کیے گئے، ان کا کارٹون بنایا گیا، ان پر پھبتیاں کسی گئیں، ان کو مختلف نازیبا خطابات اور القاب سے نوازا گیا، مگر پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی، کسی بھی مسلمان نے دنیا کے کسی بھی نبی اور رسول اور مذہبی رہ نما کے سلسلے میں کبھی کوئی توہین آمیز جملہ، اپنی زبان سے نہیں نکالا، ان کی تضحیک وتحقیر کی اور نہ ان کے مقام و مرتبہ کو کم تر جانا، یہ صرف اہل اسلام کا عمل ہے، اس کسوٹی پر دنیا کی کوئی قوم کھری نہیں اتر سکتی۔ اس حوالے سے دنیا کی تمام قوموں کا دامن داغ دار ہے۔ مگر الحمدللہ اہل اسلام نے قرآن مجید اور رسول کریم ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے تمام نبیوں اور رسولوں کے مقام و مرتبہ کو ہمیشہ تسلیم کیا۔
مذہبی شخصیات کی طرح مذہبی کتابوں کے سلسلے میں اسلام کا موقف بالکل واضح ہے اور اس نے جس طرح سابقہ نبیوں اور رسولوں کو بلا تفریق و امتیاز سب کو تسلیم کیا ہے۔ اسی طرح مذہبی کتابوں کی بھی توثیق و تصدیق کی ہے بلکہ قرآن مجید کی جو صفات ہیں، ان میں سے ایک مصدق اور مہمین بھی ہے۔ اس کے معنی سابقہ کتابوں کو تسلیم کرنا ہے۔ اسلام کا یہ دعوی نہیں ہے کہ وہی ایک ہدایت ہے اور اس کے سوا سب گمراہی اور ضلالت ہے۔ بلکہ اسلام صرف یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نے ہدایت کی تکمیل کی ہے اور سابقہ مذاہب کی تعلیمات، چونکہ اصل شکل میں موجود نہیں رہیں اور حالات اور زمانے کی وجہ سے یا خود ان مذاہب کے ماننے والوں کی تحریف و ترمیم کی وجہ سے،ان میں تبدیلیاں ہو چکی ہیں۔ لہذا اسلام نے یا قرآن نے ان تعلیمات کو مکمل شکل میں پیش کیا ہے۔چنانچہ تمام سابقہ نبیوں اور رسولوں نے اور تمام سابقہ آسمانی کتابوں میں نبی آخرالزماں کی پیشن گوئیاں موجود ہیں اور آخری رسول کو مکمل ہدایت نامہ دینے کے سلسلے میں خصوصاً یہود و نصاری کی تعلیمات میں اس کا ذکر موجود ہے۔انبیاء اور رُسل کی تاریخ پر گہری نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک صاحب شریعت نبی و رسول کے بعد دوسرا صاحب شریعت نبی اور رسول کی بعثت اسی وقت ہوئی جب سابقہ نبی و رسول کی تعلیمات کھو گئیں یا انسانی دست برد سے ایسا بدل دیا گیا کہ اس کی اصلیت مشتبہ ہو گئی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیمات گم ہو جانے کے بعد جس کا نہایت ہی مختصر اور ناقص حصہ تورات کے سفر تکوین میں موجود ہے،حضرت موسی علیہ السلام پر تورات کا نزول ہوا۔ تورات کے ضائع ہو جانے یا اس میں تبدیلیاں ہو جانے کے بعد زبور نازل ہوئی، پھر انجیل کو اتارا گیا اور جب اس میں بھی انسانوں نے تصرفات کر دیں اور ترمیمات و تحریفات کی وجہ سے اس کی تعلیمات اصلی شکل میں باقی نہیں رہیں تو اللہ تعالی نے قیامت تک کے لیے قرآن مجید کو نازل فرمایا اور یہ وعدہ کیا کہ اس کی حفاظت قیامت تک کی جائے گی اور اللہ تعالی نے خصوصی انتظام کے ذریعے سے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور ان شاء اللہ تعالی العزیز، قیامت تک یہ اپنی اصلی شکل میں باقی رہے گا۔ قرآن مجید میں مختلف نبیوں اور رسولوں کی کتابوں کا حوالہ تفصیل سے ملتا ہے۔ یہ حوالے مدح و تعریف کے اسلوب میں ملتے ہیں اور اہل ایمان کو مکلف کیا گیا ہے کہ وہ قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ تمام سابقہ آسمانی کتابوں پر بھی ایمان لائیں۔ فی الجملہ بھی اور جن آسمانی کتابوں کے نام وضاحت کے ساتھ موجود ہیں ان پر بھی ایمان لانا واجب ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
االذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالاخرۃہم یوقنون اولئک علی ہدی من ربہم واولئک ہم المفلحون (البقرہ؛۴)
آسمانی کتابوں کا ذکر ہوتا ہے تو عموماٌ تورات انجیل زبور اور قرآن مجید کا حوالہ دیا جاتا ہے دراں حالیکہ خود قرآن مجید میں بعض اور کتابوں،صحف،صحف اولی، زبر الاولین اور الواح کے نزول کا ذکر موجود ہے، خود کتاب کے ضمن میں قرآن مجید کی سورتوں اور آیات کا تتبع کیا جائے تو درجنوں انبیاء کو کتاب عطا کیے جانے کا حوالہ موجود ہے، خصوصاً سورۃ الانعام آیت ۸۲ /۸۹ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم ۱۷ انبیاء کرام کو کتاب عطا کی گئی تھی جن کے نام نامی ان میں مذکور ہیں، ان کے علاوہ دوسرے انبیاء کرام بھی صاحب کتاب تھے، جس کا ثبوت مذکورہ آیات کی آخری حصے میں ملتا ہے جس میں مذکورہ ۱۷ انبیاء کرام کے اسمائے گرامی کے بعد ان کی ذریت آباء اور اخوان کو بھی کتاب، حکمت اور نبوت عطا کیے جانے کا ذکر ہے۔ قرآن مجید میں جن ۲۵ انبیاء کرام کے اسمائے گرامی واضح طور پر مذکور ہیں، وہ سب صاحبان کتاب تھے اور جن کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، ان میں بھی بہت سے انبیاء صاحب کتاب تھے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مجھ تک اللہ تعالی نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث فرمائے ،ان میں سے ۳۱۵ رسول تھے جن کو کتابیں دی گئی۔(مشکاۃ المصابیح کتاب الفتن باب بدء الخلق نمبر ۸۴۵۴)۔
قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں متعدد انبیاء پر اتاری گئی کتابوں کے حوالے موجود ہیں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
قُولُواْ آمَنَّا بِاللّہِ وَمَا أُنزِلَ إِلَیْْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَی إِبْرَاہِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِیَ مُوسَی وَعِیْسَی وَمَا أُوتِیَ النَّبِیُّونَ مِن رَّبِّہِمْ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّنْہُمْ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ (البقرہ ۱۳۶)
مختلف آسمانی کتابوں کے حوالے سے اسلام کے موقف کے ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے علامہ سید سلیمان ندوی رقم طراز ہیں:
’’یہود، تورات کے سوا کچھ نہیں مانتے۔ عیسائی تورات کے احکام نہیں مانتے لیکن اس کی اخلاقی نصیحتوں کو قبول کرتے ہیں، تاہم انجیل سے پہلے کی دوسری زبانوں اور ملکوں کی آسمانی کتابوں کی نسبت مسلمانوں کی طرح ادب اور احتیاط کا پہلو بھی اختیار نہیں کرتے۔ پارسی اوستا کے باہر خدا کے کلام ہونے کا شبہ بھی نہیں کر سکتے اور برہمن ویدوں کے باہر خدا کے فیضان کا تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن قرآن پر ایمان لانے والے مجبور ہیں کہ صحیفہ ابراہیم، تورات، زبور اور انجیل کو خدا کی کتابیں یقین کریں اور دوسری آسمانی کتابوں کی جن میں آسمانی تعلیمات کی خصوصیتیں پائی جاتی ہوں تکذیب نہ کریں کہ ان کا کتب الہی ہونا ممکن ہے۔حقیقت میں اسلام کی یہ تعلیم دنیا کی مہتم بالشان تعلیمات میں سے ہے جس کا وجود کسی دوسرے مذہب میں نہیں تھا ۔یہ رواداری، بے تعصبی اور عام انسانی اخوت کی سب سے بڑی مثال ہے۔ یہودی اپنی کتاب کو چھوڑ کر تمام دوسری آسمانی کتابوں سے انکار کر کے بھی نجات کا منتظر رہ سکتا ہے، عیسائی تورات اور تمام دوسرے صحیفوں کا انکار کر کے بھی آسمانی بادشاہتوں کا متوقع ہو سکتا ہے۔ پارسی اوستا کے سوا دوسری ربانی کتابوں کو باطل مان کر بھی مینو یعنی جنت کا استحقاق پیدا کر سکتا ہے۔ ہندو اپنے ویدوں کے سوا دنیا کی ہر آسمانی کتابوں کو دجل و فریب مان کر بھی آواگمن سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ بدھ مت والے اپنے سوا تمام دنیا کی وحیوں کا انکار کر کے بھی نروان کا درجہ حاصل کر سکتے ہیں مگر مسلمان جب تک قرآن کے ساتھ تمام دنیا کی آسمانی کتابوں کو من جانب اللہ تسلیم نہ کرے وہ جنت کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
(سیرت النبی چہارم صفحہ 443۔)
مذاہب کے تعلق سے اسلام کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اس نے دنیا پر یہ واضح کیا کہ اللہ رب العالمین کا دین ہمیشہ سے ایک ہی تھا ،ایک ہی رہا اور ایک ہی رہے گا۔ نور معرفت ایک ہی ہے، خواہ وہ کتنی ہی مختلف شکل و رنگ کی قندیلوں میں روشن ہو۔ اصل دین میں تمام نبیوں اور رسولوں کی تعلیم یکساں تھی،ایک ہی دین کو لے کر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی محمد ﷺ تک تمام انبیاء اور رسول مبعوث ہوئے، اس میں زمان اور مکان کے تغیر کو کوئی دخل نہ تھا اور نہ ملک و قوم کے اختلاف سے اس میں کوئی اختلاف پیدا ہوا، اور ہر زمانہ اور مقام میں یکساں طور پر پیغمبروں نے ایک ہی دین کی تعلیم دی ۔یہ مذہب کا اصل اصول ہے، یعنی اللہ کی ہستی، اس کی وحدانیت،اس کے صفات کاملہ، رسول و نبیوں کی بعثت،اللہ کی خالص عبادت،حقوق انسانی، اخلاق فاضلہ، آخرت کا عقیدہ اور اعمال پر جزا و سزا کا مرتب ہونا، یہ تمام وہ بنیادی امور ہیں جن پر تمام مذاہب حقہ کا اتفاق ہے ،اگر ان میں سے کسی جہت سے کوئی اختلاف ہے تو طریق تعبیر کا اختلاف ہے یا باہر سے آ کر اس تعلیم میں کوئی کمی بیشی ہو گئی ہے، دوسری چیز جس کو آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنے فرمودات سے واضح فرمایا کہ دین کے بنیادی اصول ایک ہیں ،مگر جزوی احکام اور متفقہ مقصد کے حصول کے طریقے میں معاملہ میں فرق ہر قوم و مذہب کی زمانی و مکانی تغیرات کی وجہ سے پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اللہ رب العزت کی عبادت ہر مذہب کا لازمی حصہ ہے، لیکن طریقے عبادت میں تھوڑا تھوڑا اختلاف موجود ہے، اسی طرح عبادت کے لیے کوئی خاص سمت ہر مذہب نے مقرر کی ہے مگر وہ سمت خاص مصلحتوں کے لحاظ سے مختلف ہے مثلا ًیہود مسجد اقصی کی طرف رخ کر کے اپنی عبادات بجا لاتے ہیں تو نصاریٰ اس رخ سے تھوڑا سا ہٹ کر دوسری سمت میں اپنی عبادات بجا لاتے ہیں۔ اہل اسلام نے ایک عرصہ تک مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کیا مگر پھر اللہ کے حکم سے خانہ کعبہ کو مستقل سمت مقرر کر دیا گیا ۔اسی طرح برے اعمال کے انسداد میں تمام مذاہب کا اتفاق ہے مگر اس کے انسداد کی تدابیر اور طریقے الگ الگ ہیں۔ غرض یہ کہ رسولوں اور پیغمبروں کے زمانے کے لحاظ سے احکام کی جزیات میں معمولی تبدیلیاں رہی ہیں مگر دین کی بنیادی تعلیمات تمام نبیوں اور رسولوں نے ایک ہی دی ہے اور وہ توحید، رسالت، آخرت اور اللہ کی عبادت کے مختلف طریقے وغیرہ ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے؛
(ترجمہ) اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جسے (محمد ﷺ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسی اور عیسی کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے، جس کی طرف اے محمد ﷺ تم انہیں دعوت دے رہے ہو، اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ لوگوں میں جو تفرقہ رونما ہوا اور اس کے بعد ہوا کہ ان کے پاس علم آ چکا تھا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تھا فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگلوں کے بعد جو لوگ کتاب کے وارث بنائے گئے وہ اس کی طرف سے بڑے اضطراب انگیز شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے (اے محمد ﷺ) اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ اور ان لوگوں کی خواہشات کی اتباع نہ کرو اور ان سے کہہ دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں،اللہ ہی ہمارا رب ہے اور تمہارا رب بھی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو جانا ہے۔ (سورہ الشوری ۱۳)
مذکورہ آیات میں نہایت ہی خوبی کے ساتھ اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہی ایک دین ہے جو حضرت نوح،حضرت ابراہیم، حضرت موسی، حضرت عیسی اور دوسرے تمام انبیاء کرام کے ساتھ آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو عطا کیا گیا ہے سابق ادوار میں جس کو کتاب ملی ان کے ماننے والوں نے ان میں تحریفات ترمیمات اور حذف و اضافے کر دیے اور آپس کی عناد و تعصبات سے فرقہ واریت کی الگ الگ راہیں نکال لیں،اس کی وجہ سے ان سب کا قوموں میں مذہب کے تعلق سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی حیثیت ان اختلافات کو ختم کرنا اور مذاہب کے فرقوں کو کالعدم قرار دینا ہے اور بندوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کو کہا گیا کہ مذہبی اختلاف سے تمہیں کوئی لینا دینا نہیں ہے تو اس دین کی دعوت دو جس کا حکم اللہ تعالی نے تمہیں دیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (ترجمہ) ’’بے شک وہ جنہوں نے اپنے دین میں الگ الگ راہیں نکال لیں اور کئی فرقے ہو گئے تجھ کو ان سے کوئی واسطہ نہیں ان کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے وہی ان کو بتا دے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔‘‘(الانعام ۱۶۰)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 31 دسمبر2023 تا 06 جنوری 2024