گزشتہ سے پیوستہ:حق بات دو ٹوک کہی جائے

ہجرت حبشہ اور تکثیری سماج میں اقلیتوں کا مطلوبہ کردار  

مولانا محمد جرجیس کریمی

کسی بھی حال میں مسلمان اپنے دین و ایمان  اور عقیدے سے سمجھوتہ نہ کرے
یہود کی جانب سے مدینے میں معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد بھی نبی ﷺ نے جزیرے کے شمال میں واقع یہودی بستیوں کو امن وتحفظ کے لیے دستاویزات لکھ کر دیں۔ آپ نے یہودیوں کے قبیلے بنی جنبہ کو جو دستاویز لکھ کردی، اس میں تحریر فرمایا:
’’حمد و صلوٰۃ کے بعد، تمہارے قاصد اپنی بستی کو واپسی پر ہمارے یہاں فروکش ہوئے، جب تم کو میری یہ تحریر مل جائے تو تم مامون ہو، تمہارے لیے اللہ اور اس کے رسول کا عہد ہے، رسول اللہ تمہاری غلطیوں کو معاف کر رہے ہیں، تمہارے اوپر کسی قسم کی ظلم و زیادتی نہیں ہوگی، رسول اللہ جن چیزوں سے اپنا تحفظ کریں گے ان سے تمہارا بھی تحفظ کریں گے، تمہارے ذمے کھجوروں کی پیداوار ہے، اگر تم سمع وطاعت سے کام لوگے تو رسول اللہ تمہارے معزز لوگوں کی عزت کریں گے اور خطاوار کو معاف کردیں گے، تمہارے اوپر امیر تم میں سے مقرر کیا جائے گا یا رسول اللہ کے لوگوں میں سے کوئی ایک مقرر ہوگا۔‘‘
   اسی طرح آپ نے یہودی قبائل بنی غادیا، أہل حرباء اور أذرح کے لیے دستاویزات تحریر فرمائیں، اس طرح آپ نے یہودی جماعتوں کو اسلامی ریاست کا شہری قرار دیا جو اپنے اوپر مقرر ٹیکس ادا کرتے تھے اور اسلامی ریاست کے اقتدار اور امن وامان سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ اسلام کے آغاز میں جب مسلمانوں پر کفار مکہ کے مظالم بڑھنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو عرب کی سرزمین سے نکل جانے اور حبشہ کی سرزمین میں چلے جانے کا مشورہ دیا تاکہ مشرکین مکہ کی ہٹ دھرمی، ضد اور مظالم سے کسی نہ کسی درجہ نجات مل جائے۔ چنانچہ درجنوں مسلمان مکہ چھوڑ کر حبشہ چلے گئے۔ مسلمانوں کے حبشہ کی ہجرت کا واقعہ اسلامی تاریخ میں ایک اہم واقعہ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے اور اس کے کئی گوشے اسوہ اور نمونہ کے ہیں اور آج بھی اس میں غورو فکر کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں جن سے خاص طور سے تکثیری معاشرہ میں مسلمانوں کے مطلوبہ کردار کے حوالے سے کئی دروس اور اسباق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔نفس واقعہ کو دہرانے کی بجائے اس کے بعض پوشیدہ اور روشن پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
1۔ حبشہ ایک غیر اسلامی عیسائی ریاست تھی اور مسلمانوں نے مکہ چھوڑ کر حبشہ کی راہ لی اور وہاں کئی سال ان کا قیام رہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی جگہ مسلمانوں کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اسلامی احکام پر عمل کرنا دشوار ہو جائے تو کسی ایسی جگہ ہجرت کی جا سکتی ہے کہ جہاں نسبتاً دین پر عمل کی آزادیاں حاصل ہوں، گو کہ وہ اسلامی ریاست نہ ہو۔
مہاجرین حبشہ نے جن حالات میں حبشہ کا قصد کیا تھا ان میں پیشگی حبشہ والوں سے کوئی گفتگو یا معاہدہ نہیں ہوا تھا محض وہاں کے بادشاہ کی عدل پروری کی شہرت کی بنیاد پر وہ وہاں چلے گئے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ ان کی توقعات کے مطابق سب کچھ ہوتا مگر اس کے باوجود نہ صرف مردوں نے ہجرت کی بلکہ ان کے ساتھ عورتیں اور نوزائدہ بچے بھی تھے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر غیر اسلامی ریاست میں جہاں ظلم و زیادتی کا خطرہ نہ ہو اور دین پر عمل کرنا ممکن ہو تو بیوی بچوں کے ساتھ رہائش اختیار کی جا سکتی ہے اور خاص طور سے کسی ہنگامی صورتحال میں ایسی ریاست میں پناہ لی جا سکتی ہے جو بالکلیہ دارالاسلام نہ ہو۔
مہاجرین حبشہ اپنے دین و ایمان کے تحفظ کے لیے مکہ چھوڑ کر حبشہ چلے گئے۔ ان کا کوئی دنیوی مقصد نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں پر مکمل طریقے سے دین اور احکام دین پر عمل ممکن نہ ہو تو وہاں سے ہجرت کر جانا زیادہ بہتر ہے گو کہ وہاں بعض دنیوی فائدے موجود ہوں۔ کیونکہ دین چھوڑ کر دنیوی مفادات کا تحفظ کرنا آخرت کو نقصان پہنچانا ہے دنیا کا نقصان اٹھا کر آخرت کی حفاظت کرنا یقیناً فائدے کا سودا ہوگا۔ ایک مومن کو ہر حال میں اپنے دین کے تعلق سے حساس ہونا چاہیے۔
  2۔ مہاجرین حبشہ ایک غیر اسلامی ریاست میں پناہ گزیں ہوئے تھے۔ وہ مکہ والوں کے مظالم سے تنگ آ کر وہاں گئے تھے۔ وقت کی مصلحت اور تقاضا تو یہ تھا کہ مہاجرین اپنے ایمان و عقیدے کا زیادہ اظہار نہیں کرتے کہ اس میں خطرات اور پیچیدگیاں پیدا ہو جانے کا اندیشہ تھا مگر مہاجرین نے اپنے دین و عقیدہ کو نہ صرف یہ کہ پوشیدہ نہیں رکھا بلکہ پر زور انداز میں اس کا اظہار بھی کیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ چاہے مسلمان غیر اسلامی ریاست میں ہوں، اپنے عقائد کو پوشیدہ نہیں رکھیں گے، خاص طور سے صاحب اقتدار افراد کے سامنے اپنا دینی موقف واضح کر دینا زیادہ بہتر ہے، تاکہ لا علمی سے غلط فہمیاں رہ نہ پائیں۔ مہاجرین حبشہ کے سامنے یہ نازک مسئلہ پیدا ہوا تھا کہ اگر وہ اپنے دین و عقیدہ کو ظاہر کر دیں گے تو جن مظالم سے بچنے کے لیے وہ وہاں آئے تھے ان سے شدید تر مظالم میں گرفتار ہو جاتے یا پھر انہی حالات میں واپس چلے جاتے، مگر مہاجرین نے دو ٹوک فیصلہ کیا اور اپنی دینی و مذہبی حیثیت پوری وضاحت کے ساتھ حبشہ کے مذہبی رہنماؤں اور صاحب اقتدار افراد کے سامنے بیان کر دی اور انہوں نے اس بارے میں کسی اندیشے یا خدشے کو جگہ نہیں دی ۔
3۔ ہجرت حبشہ کے تعلق سے تیسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مہاجرین کو نہ صرف وہ اپنے دین و عقیدہ کو خفیہ اور پوشیدہ نہیں رکھنا چاہیے بلکہ دوسرے مذاہب اور عقائد کے بارے میں ان کا جو موقف ہے وہ بھی واضح کر دینا چاہیے جیسا کہ مہاجرین حبشہ نے حضرت عیسی ابن مریم (علیہم السلام) کے بارے میں نجاشی کے سامنے اسلامی عقیدے کو بیان کر دیا تھا۔ حالانکہ مسلمانوں کے لیے اس میں خطرات تھے کیونکہ حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں اسلام کا موقف وہ نہیں ہے جو عیسائی حضرات سمجھتے ہیں۔ وہ ان کو اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں جبکہ اسلام ان کو اللہ تعالی کا بندہ اور اس کا رسول قرار دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اپنے عقیدے اور مذہب کے خلاف کوئی کچھ نہیں سننا چاہتا۔ وہاں مسلمان پناہ گزیں ہوئے تھے اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی تھی ان کے دین و مذہب کے خلاف کوئی بات کہنا مصلحت کے خلاف تھا اور اس کے سنگین نتائج نکل سکتے تھے، مگر پھر بھی مسلمانوں نے کسی مداہنت کا مظاہرہ نہیں کیا اور بالکل واضح طور پر اس بارے میں اسلام کے موقف کو بیان کر دیا۔
  4۔ ہجرت حبشہ کے واقعے کی تفصیلات سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص یا ریاست نے مسلمانوں کو پناہ دی ہو اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو اور ان کے عمومی مفادات کا تحفظ کیا ہو، اگر کسی موقع پر خود اس شخص یا ریاست پر حملہ ہو اور اس کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے تو مسلمانوں کی ہمدردی، حمایت اور وفا داری اسی کے ساتھ ہونی چاہیے جس نے ان کو پناہ دی تھی اور ان کے مفادات کا تحفظ کیا تھا، جیسا کہ حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے خلاف جب ان کا ایک حریف اقتدار کا دعوے دار بن کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے خلاف بغاوت کر دی تو اس وقت مہاجرین حبشہ نے نجاشی کی حمایت کی اور اس کی کامیابی کے لیے دعائیں کیں اور اس کی کامیابی سے خوشی کا اظہار کیا۔ مشہور سیرت نگار ابن ہشام لکھتے ہیں:
حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ نجاشی کی سلطنت میں امن و سکون کے ساتھ رہ رہے تھے کہ اس دوران میں ایک شخص سلطنت کا دعوے دار بن کر اٹھ کھڑا ہوا۔ قسم خدا کی اس وقت جیسا غم و حزن ہم پر طاری ہوا اس طرح کا غم و حزن میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ نجاشی ہمارے حقوق پہچان رہا تھا، ڈر تھا کہ اس کا حریف غالب آ جائے اور جو حقوق ہمیں حاصل ہیں وہ انہیں پامال کر دے۔ وہ فرماتی ہیں کہ ہم لوگ دعا کرتے رہے کہ اللہ تعالی نجاشی کو دشمن پر غلبہ عطا کرے اور ملک پر اس کا اقتدار قائم رکھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم جنگ کے نتائج کا انتظار کر رہے تھے کہ اس دوران میں حضرت زبیر بن عوام جو اطلاعات فراہم کرنے کے لیے گئے تھے، نمودار ہوئے، وہ دوڑتے ہوئے آ رہے تھے اور اپنے کپڑے کو لہرایا اور پکار لگائی کہ خوش ہو جاؤ نجاشی جنگ میں کامیاب ہو گیا ہے اور اللہ تعالی نے اس کے دشمن کو ہلاک کر دیا ہے، اور نجاشی کا اقتدار باقی رکھا ہے۔ حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ اس وقت ہمیں جتنی خوشی ہوئی ایسی خوشی پھر کبھی نہیں ہوئی (سیرت النبی ابن ہشام جلد اول)
جس شخص اور ریاست نے مسلمانوں کو پناہ دی ہو اور ان کے مفادات کا تحفظ کیا ہو اس کے ساتھ اتحاد یگانگی اور خیرسگالی کا معاملہ کسی وقتی جذبے کے تحت نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ مستقل اور پائیدار ہوگا جیسا کہ نجاشی بادشاہ کی وفات کے وقت نبی کریم  ﷺ نے اس کے حق میں دعائے خیر فرمائی اور ان کی نماز جنازہ غائبانہ ادا کی۔
  5۔ ہجرت حبشہ کے واقعے اور مہاجرین کی سیرت و تاریخ سے سب سے اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان چاہے جس سرزمین اور جیسے حالات میں رہ رہے ہوں، چاہے اپنے وطن میں ہوں یا اپنے وطن سے دور اجنبی ملک میں ہوں، انہیں اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھنا چاہیے اور دعوت اسلام کا جو بھی موقع ملے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے، جیسا کہ مہاجرین حبشہ نے نہ صرف اپنے موقف کی ترجمانی بے باک طریقے سے کی بلکہ اسلام کی دعوت انتہائی جرأت کے ساتھ پیش کی۔ یہی وجہ ہے خود بادشاہ وقت یعنی نجاشی نے اسلام قبول کر لیا اور وہ مسلمانوں کا حامی و مددگار بن گیا تھا۔
بعض دوسری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشہ کے اور بھی بعض دوسرے لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں مہاجرین حبشہ کے داعیانہ کردار ہی کا یہ نتیجہ ہوگا۔
نبی کریم  ﷺ جب مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو بہت سے مہاجرینِ حبشہ، حبشہ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے لیکن بہت سے مسلمان کافی عرصے تک وہیں ٹھہرے رہے، جیسا کہ حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کی واپسی فتح خیبر کے دن ہوئی اس دوران جو بھی مسلمان وہاں ٹھہرے رہے، دعوت و تبلیغ کے کام سے کبھی خالی نہیں رہے، انہوں نے اپنا مشن مسلسل جاری رکھا۔بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشہ سے کئی وفود مکہ یا مدینہ آئے اور اسلام کے بارے میں تحقیق حال کر کے مسلمان ہو گئے۔ ان سب واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گو کہ مسلمان کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ گئے تھے مگر انہوں نے دعوت دین کے کام کو موقوف نہیں کر دیا تھا بلکہ اسے جاری رکھے ہوئے تھے اور ایک مسلمان کا اصل کام یہی ہے۔

 

***

 ہجرت حبشہ کے واقعے اور مہاجرین کی سیرت و تاریخ سے سب سے اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان چاہے جس سرزمین اور جیسے حالات میں رہ رہے ہوں، چاہے اپنے وطن میں ہوں یا اپنے وطن سے دور اجنبی ملک میں ہوں، انہیں اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھنا چاہیے اور دعوت اسلام کا جو بھی موقع ملے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے، جیسا کہ مہاجرین حبشہ نے نہ صرف اپنے موقف کی ترجمانی بے باک طریقے سے کی بلکہ اسلام کی دعوت انتہائی جرأت کے ساتھ پیش کی۔ یہی وجہ ہے خود بادشاہ وقت یعنی نجاشی نے اسلام قبول کر لیا اور وہ مسلمانوں کا حامی و مددگار بن گیا تھا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 17 دسمبر تا 23 دسمبر 2023