گزشتہ سال کی کمزور طبقات کے خلاف نفرت بھری منظم مہمات۔ ایک جائزہ
سال 2024 میں مذہبی اقلیتوںکے خلاف 135حملے اور 68نفرت انگیز تقاریر، لمحۂ فکریہ
اسد مرزا
دائیں بازو کے متشدد عناصر کی بڑھتی ہوئی طاقت پر لگام کسنا بے حد ضروری
قبل از وقت اقدامات سے ہی بہتر مستقبل کی توقع کی جا سکتی ہے
پچھلے کئی سالوں کی طرح 2024 بھی ملک کی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے کچھ مختلف نہیں تھا۔ چونکہ 2024 ایک انتخابی سال تھا، اس لیے ملک کے باشعور طبقے کو یہ امید تھی کہ شاید اس سال اقلیتوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و تشدد سے راحت ملے گی لیکن یہ امید غلط ثابت ہوئی۔
عام انتخابات سے پہلے کے مہینوں میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف مکمل طور پر یک طرفہ مہم کو دائیں بازو کے عناصر نے مقامی بیوروکریسی اور پولیس کی کھلی حمایت سے ترتیب دیا تھا۔ 2024 میں، خاص طور پر پانچ ریاستوں: آسام، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، جھارکھنڈ اور اترپردیش کو مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے کے لیے عملی طور پر سرکاری لیبارٹریوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا اسکرپٹ اعلیٰ ہستیوں نے لکھا تھا اور اسے انجام دینے کا کام دائیں بازو کی غیر معروف تنظیموں کو سونپا گیا تھا تاکہ ان کا حکم راں جماعت سے تعلق زیادہ عام نہ ہوسکے۔
پچھلے سال ہماچل پردیش کے دارالحکومت شملہ میں مقامی مسجد کے خلاف ایک طوفان برپا کر دیا گیا کہ اسے غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا، حالانکہ مسجد کمیٹی کے پاس ملکیت ثابت کرنے کے لیے تمام متعلقہ دستاویزات موجود تھے۔ ریاست میں مسلمانوں کے خلاف یہ ٹھوس کارروائی ان کی بے دخلی کا باعث بھی بنی، جب مسلمانوں کو ریاست کے کئی قصبوں اور شہروں میں مختلف علاقوں کو چھوڑنے کے لیے کہا گیا۔ اسی خطوط پر مراد آباد میں، دائیں بازو کے عناصر نے ایک مسلم ڈاکٹر جوڑے کو اپنا گھر فروخت کے معاہدے کو منسوخ کرنے پر زور دیا، کیونکہ مقامی لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اس فروخت سے کالونی کا ماحول خراب ہو جائے گا۔ اس سوچ کا ایک متوازی اثر ہندوستان کے دیگر میٹرو شہروں میں بھی دیکھا گیا ہے جہاں چھوٹے اور بڑے بلڈروں نے ایک خاص مذہبی برادری کے لیے مندر سے آراستہ گیٹڈ کمیونٹیز بنانا شروع کر دیا ہے جہاں دیگر مذہبی برادریوں کو مکانات فروخت نہیں کیے جا سکتے۔
نئی دہلی میں ایک بار پھر وہی پرانا منصوبہ دہرایا گیا، جب کئی پرانی مسجدوں اور قبرستانوں پر تجاوزات کا الزام لگاتے ہوئے نوٹس بھیجے گئے اور واضح عدالتی امتناعی احکام کے باوجود مقامی حکام نے بلڈوزر کا استعمال کیا۔اسی طرح مرکزی حکومت نے مسلمانوں کی وقف املاک کے انتظام کے لیے آئینی ترمیمی بل پیش کیا حالانکہ یہ جائیدادیں خود مسلمانوں نے کمیونٹی کی فلاح و بہبود کے لیے عطیہ کی تھیں اور ماضی میں کسی بھی حکومت نے ان کے روزمرہ کے انتظام میں مداخلت نہیں کی تھی۔ لیکن بل مخالف بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک غلط بیانیہ تیار کیا گیا جس میں واٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں اور ان کی وقف املاک کے خلاف افواہیں پھیلائی گئیں۔
ملک کے سیاسی منظر نامے میں مضبوط جڑیں پکڑنے والی دائیں بازو کی مسلم مخالف سیاست کا ایک اور چہرہ اس وقت ظاہر ہوا جب مختلف سیاسی جماعتوں نے لوک سبھا انتخابات کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا۔ حالانکہ مسلم امیدواروں سے بی جے پی کی الرجی صاف ظاہر ہے لیکن نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلم امیدواروں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ٹکٹ دینے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ نتیجہ اس وقت واضح ہوا جب 18ویں لوک سبھا کی تشکیل گزشتہ چھ دہائیوں میں سب سے کم مسلم ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ عمل میں آئی۔ اس میں مسلم ممبروں کی تعداد 5 فیصد سے بھی کم ہے حالانکہ وہ آبادی کا 15 فیصد سے زیادہ ہیں۔ لوک سبھا میں اس وقت کل 24 مسلم ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ 2024 میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتنے والی پارٹی بی جے پی کا کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ مسلمان نہیں ہے۔ درحقیقت 1990 کی دہائی میں لوک سبھا میں مسلم ممبران پارلیمنٹ کی تعداد میں کمی بی جے پی کے عروج کے ساتھ ہوئی، جس میں کل اراکین پارلیمنٹ کی تعداد 10ویں لوک سبھا (1991-96) میں پہلی بار سو کا ہندسہ عبور کر گئی تھی۔
مزید برآں، انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نے اپنے نام نہاد ترقیاتی پروگراموں پر بات کرنے کے بجائے ملک کے مسلمانوں اور اپوزیشن کے خلاف مکمل طور پر من گھڑت الزامات کا سلسلہ شروع کیا، مثلاً اگر کانگریس پارٹی برسراقتدار آئی تو وہ ملک کی دولت مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی، کانگریس ان کا منگل سوتر ہندو خواتین سے چھین کر اپنے "ووٹ بینک” یعنی مسلمانوں کو دے گی، اور مزید کہا کہ کانگریس پارٹی درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) سے ملازمتوں کے تحفظات چھین کر مسلمانوں کو دینے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن اتحاد مسلمانوں کو ’ووٹ جہاد‘ کرنے کے لیے کہہ رہا ہے وغیرہ۔
پارلیمانی انتخابات کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ بی جے پی کی اقتدار میں واپسی کے بعد نفرت انگیز تقاریر اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز مہم کو دائیں بازو کے عناصر ترک کر دیں گے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ چنانچہ صرف دو ماہ بعد یعنی اگست اور ستمبر 2024 میں مذہبی اقلیتوں پر 135 پرتشدد حملے ہوئے اور ان کے خلاف تقریباً 68 نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔
سال کے دوسرے نصف میں، دائیں بازو کے عناصر نے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لیے ایک اور مہم شروع کی جس میں الزام لگایا گیا کہ ملک بھر میں سیکڑوں مساجد بشمول وارانسی، متھرا اور یہاں تک کہ دہلی کی جامع مسجد کو مندروں کو منہدم کر کے تعمیر کیا گیا اور عدالتوں سے ان مساجد کی کھدائی کا حکم دینے پر زور دیا گیا۔ اس بدتمیزی کا سب سے برا نتیجہ سنبھل یو پی میں سامنے آیا، جہاں مقامی جامع مسجد کی کھدائی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مقامی مسلمانوں کے خلاف پولیس کی کارروائی کے نتیجے میں چار مسلم نوجوانوں جاں بحق ہو گئے۔ اس پاگل مہم کا خاتمہ اس وقت ہوا جب سپریم کورٹ نے 12 دسمبر کے اپنے حکم نامے میں ملک کی تمام عدالتوں کو ہدایت جاری کی کہ وہ مساجد کے سروے سے متعلق کسی بھی نئی درخواست کو قبول نہ کریں۔ عدالت نے نچلی عدالتوں کو بھی اس طرح کے زیر دوراں مقدموں میں سروے کی اجازت دینے پر روک لگا دی۔ اب دیکھنا ہے کہ یہ روک کب تک جاری رہتی ہے، کیونکہ سپریم کورٹ نے خود اپریل 2023 اور اس سے پہلے اکتوبر 2022 میں متعلقہ حکام اور پولیس پر زور دیا تھا کہ وہ نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف سوموٹو (خود اپنے آپ) کارروائی کریں اور ایف آئی آر درج کریں۔ لیکن اس کے باوجود انتخابی مہم پر نفرت انگیز تقاریر کا غلبہ جاری رہا اور ایک محتاط اندازے کے مطابق صرف 2024 میں دائیں بازو کے رہنماؤں کی طرف سے تقریباً 200 نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔ اور یہ صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں تھا بلکہ یونائیٹڈ کرسچن فورم کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں دائیں بازو کے ہندو کارکنوں کی جانب سے عیسائیوں کے خلاف بھی نفرت اور تشدد کے 745 واقعات پیش آئے چنانچہ کرسمس کے موقع پر ملک کی کئی ریاستوں سے دائیں بازو کے عناصر کی طرف سے سانتا کلاز کو نشانہ بنانے کے کئی واقعات رپورٹ ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی سنٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم (CSSS) کی ایک رپورٹ کے مطابق جس میں انڈین ایکسپریس، ٹائمز آف انڈیا، دی ہندو، روزنامہ صحافت اور روزنامہ انقلاب سے شائع ہونے والی مختلف رپورٹوں کی بنیاد پر یہ پایا گیا کہ 2024 میں 2023 کی بہ نسبت 84 فیصد زیادہ یعنی 59 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔
مجموعی طور پر ایسا لگتا ہے کہ نفرت ہندوستانی سیاسی نظام میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے اور جب تک حکومت کی جانب سے ایک مربوط ایکشن پلان کو حرکت میں نہیں لایا جاتا اور دائیں بازو کے عناصر کو روکنے کے لیے تدابیر کو نہیں اپنایا جاتا تب تک نفرت بھارتی سیاست پر اپنا غلبہ برقرار رکھے گی۔
***
سال 2024 کے اجمالی جائزے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ملک میں مذہبی اقلیتوں کو ذہنی اور جسمانی دونوں سطحوں پر اذیت پہنچانا حکم راں جماعت کی مہم کا ایک لازمی جزو بن گیا ہے۔ اور وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے جھوٹا اور نفرت انگیز بیانیہ بنانے اور متعصبانہ ذہنیت پھیلانے پر معذرت خواہ بھی نہیں ہے
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 12 جنوری تا 18 جنوری 2024