
ڈاکٹر ظہیر دانش عمری
شہر کڑپہ نے اردو ادب کے میدان میں بہت سے سپوت پیدا کیے ہیں، لیکن ایک بہت ہی افسوسناک بات اس حوالے سے یہ ہے کہ شاعر و ادیب تو اپنا کام کرکے چلاجاتا ہے لیکن اپنے ادبی وارث نہیں چھوڑتا ،اس لیے اس کا سرمایہ اس کی حیات کے ساتھ ہی مفقود ہوجاتا ہے ، حضرت سید درویش قادری ذکی،عقیل جامد، جعفر امیر،نازش کڑپوی، ہلال کڑپوی وغیرہ انتقال کرگئے لیکن انہوں نے اپنا ادبی وارث نہیں چھوڑا جس کی وجہ سے ان کا نام لیوا کوئی نہیں اور ان کا کلام محفوظ کرنے والا بھی کوئی نہیں ہے، لیکن یوسف صفی اور داؤد نشاط یہ دونوں ایسے خوش نصیب مرحومین ہیں جن کے ادبی وارثوں نے نہ صر ف ان کی میراث سنبھالی بلکہ خود بھی تخلیق ادب میں مصروف کا ر نظر آتے ہیں۔
شہر کڑپہ کے ادبی گھرانوں میں ممتاز ادبی گھرانہ داؤد نشاط مرحوم کاہے جن کی دوسری نسل شعرو ادب کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ اس گھرانے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں محمود شاہد جیسا صاحب طرز افسانہ نگار ونثر نگار موجود ہے جس کے چرچے ادبی دنیا میں وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں،عمرآباد سے آنے کے بعد میں اپنا زیادہ تر وقت محمود شاہد کے پاس ادبی نوادرات سمیٹنے میں گزارتاتھا۔ اسی درمیان میری ملاقات ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری سے ہوئی جنہوں نے مجھے سعید نظر اور ان کی شاعری پر مضمون لکھنے کے لیے دیا ، یہ میرا سعید نظر سے پہلا ادبی معانقہ تھا، بعد میں پتہ چلا کہ ان کا تعلق اسی سلسلۃ الذہب سے ہے جس کی پہلی کڑی حضرت سید درویش قادری ذکی طاہری ہیں۔ میں نے سعید نظر کی غزلوں اور نظموں پر گفتگو کی ہے مگر بھرپور گفتگو نہیں اسی احساس کے تحت ناچیز نے آپ کی تصنیف غم کی دھرتی پر کچھ اظہار خیال کرنے کی کوشش کی ہے ۔
سعید نظر نے سب سے پہلے غم کے سورج سے روشنی کشید کی ،شاعری کے میدان میں اپنے سفر کا آغاز کیا، جب رات ہوئی تو چاندنی کی ٹھنڈی چھاؤں میں اپنی شاعری سے نغمگی بکھیرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے ،جب صبح ہوئی تو غم کی دھرتی پر آبلہ پائی کرنے لگے۔اسی آبلہ پائی کا نتیجہ ’’غم کی دھرتی‘‘کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے ۔
آخر سعید نظر کو غم کیوں اتنا راس آتا ہے ، کیوں وہ خوشی کو نظر انداز کرتے ہیں اور غم ہی کی بات کرتے ہیں، غم چونکہ دیر پا ہوتا ہے،غم با وفا ہوتا ہے ،غم پائیدار ہوتا ہے ،غم مستقل ٹھکانہ بنالیتا ہے اس لیے وہ غم کی مالاجپتے رہتے ہیں،استاد محترم کے بقول ؎
غم بھی گزشتنی ہے خوشی بھی گزشتنی
کر غم کو اختیار کہ گزرے تو غم نہ ہو
غم کے سورج سے اگر ملنا ہے تو آپ کو سعید نظر کی شاعری کا مطالعہ کرنا چاہیے:
غم کے سورج سے بھی ملادے گا
اے نظر اک مرے سخن کا درد
سعید نظر کی شاعری میں ہر طرح کے موضوعات ملتے ہیں، خاص کر نئے موضوعات ان کے یہاں الگ انداز سے پیش ہوتے ہیں،کوئی بھی شاعر عصر حاضر سے آنکھیں چرا نہیں سکتا وہ جو دیکھتا ہے وہی بیان کرتا ہے ،جو اس کے تجربات و احساسات ہوتے ہیں انہیں کوبیان کرتا ہے ، فرماتے ہیں کہ:
ہمارے شعر بھی اک آسمان رکھتے ہیں باطن میں
حسیں ان میں بھی پیغامات ہیں ان پر نظر ڈالیں
کتاب کے عرض خاص میں شعر گوئی کے بارے میں اپنے احساسات یوں بیان کرتے ہیں:
’’اس بار میں نے مجموعے کو غزلوں ہی سے سنوارا ہے ،شعر گوئی ایک فطری عمل ہے جس میں فنی نکات کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ شعر میں احساسات و جذبات کی حقیقی عکاسی ہوتی ہے۔ کسی پیکر کو زبردستی شعر میں نہیں ڈھالا جا سکتا۔ شعر کہنے کے دوران طبیعت جس طرف مائل ہوتی ہے شعر میں بھی وہی کیفیت در آتی ہے ‘‘
تیسرے مجموعے میں انہوں نے کسی کا پیش لفظ یا مقدمہ شامل نہیں کیا ہے ،جس سے ان کی اپنے کلام پر خود اعتمادی ظاہرہوتی ہے۔ انہوں نے ان کے کلام کے بارے میں قاری کو فیصلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا ہے، یقیناً یہ ایک جرأت مندانہ اقدا م ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے اگر آپ کے شعر میں دم ہوگا تو وہ زندہ جاوید ہوجائے گا خواہ کوئی نقاد اس کی تعریف کرے یا نہ کرے، شعر اس لیے لوگوں کے دلوں پر راج نہیں کرتا کہ فلاں نقاد نے اس کی تعریف و توصیف کی بلکہ بذات خود اس میں جان ،سلیقہ اور معیار ہونا چاہیے جو قاری کے دل کو چھولے اور اس کے ذہن میں بیٹھ جائے ۔
ان کی رنگار رنگ شاعری میں سب سے پہلے وہ شعرا کے لیے پیغام چھوڑتے ہیں کہ اچھی شاعری کونسی ہوتی ہے اور شاعری کیسی ہونی چاہیے،ایک شاعر کو کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے،شعر کہنے کو وہ وقت گزاری کا مشغلہ نہیں سمجھتے بلکہ اسے ایک اہم کام کے طور پر یاد کرتے ہیں،کہتے ہیں کہ
شعر کہناہی کام میرا ہے
یہ سبب ہے تری عنایت کا
غزل اس سے دلکش نظر ہوگی بالکل
روانی ہو شعروں میں اور ہو سلاست
ان کی شاعری میں محبت کے ساتھ نفرت کا بیان ہے ،غم کے ساتھ خوشی کا بیان ہے ، امت کو وہ بہت سے مقامات پر پیغام دیتے اور مصلح امت کا فریضہ انجام دیتے نظر آتے ہیں اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ
مری یہ شاعری تم کو
بہت بے چین کردے گی
سعید نظر کو اس بات کا یقین بھی ہے کہ ا ن کا قاری ان کے اشعارگنگنا کر لطف اندوز ہوتا ہے ؎
یہ سناہے انہیں مزہ آیا
مرے اشعار گنگنانے میں
سعید نظر کی غزلوں کی دوسری خصوصیت جس سے میں متاثرہوا وہ ہے تکرارلفظی ۔کیونکہ وہ تکرار سے شعری لطف کو دوبالا کردیتے ہیں،معنویت میں کئی گنا اضافہ کردیتے ہیں،شعر کہیں سے کہیں پہنچادیتے ہیں، ان کے ہم عصروں میں ایسا کہنے والے کم ہی ملتے ہیں، اس حوالے سے میر کا شعر مشہور ہے جو یوں ہے؎
پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
سعید نظر کے اشعار اس ذیل میں پیش کروں گا ؎
لائے لائے کی تکرار
کوئی لائے تو لائے اب مگر اے یار
نہ ہو ہرگز ترے ہاتھوں میں یہ خنجر
ہمیں چاہیے کیا کی تکرار
ہمیں چاہیے کیا ہمیں چاہیے کیا
اہم شئی یہی ہے دلوں کا بہلنا
نہیں پر کی تکرار
منانے بجھانے کے حربے ہوئے ختم
وہ اٹکا ہوا ہے نہیں پر نہیں پر
ترسے کی تکرار
گویا کہ مشغلہ ہے یہی ان کا رات دن
ترسے ہوؤں کو اور بھی ترسانے آگئے
الغرض سعید نظر کی شاعری میں کئی ساری اصناف سخن ،متنوع خیالات اور نت نئے موضوعات کی جانب لپکنے کی صلاحیت بخوبی نظر آتی ہے جو قابل مطالعہ بھی ہے ۔اب میں اپنے اس مختصر سے مضمون کو یہیں ختم کرتے ہوئے سعید نظر اور محمود شاہد کا شکریہ اداکرتا ہوں۔
(مضمون نگار ، سہ ماہی ارتعاش،کڑپہ کے مدیر ہیں ۔ان سے اس نمبر پررابطہ کیا جا سکتا ہے : 9701065617)
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 20 اپریل تا 26 اپریل 2025